ہفتہ، 29 مارچ، 2014

کہاں ہیں ثنا خوان تقدیس مغرب !

کہاں ہیں ثنا خوان تقدیس مغرب !



اقبال کی روح سے معذرت کے ساتھ ،

کھول آنکھ فلک دیکھ زمین دیکھ فضا دیکھ
"مغرب" سے ابھرتے ہوے سورج کو ذرا دیکھ

میرا مشاہدہ یہ ہے کہ سب سے بدترین جدت پسند مسلمانوں کے ہیں ہندو سکھ یا بودھ بھی جدت پسند ہو سکتا ہے لیکن اسکے افکار کی عمارت اپنی تہذیب کی قبر پر نہیں ہوتی فکر اس چیز کی ہے کہ ایسے اہل علم اس فطری امیون سسٹم کے خلاف ہی کام کر رہے ہیں جو تہذیبوں کا محافظ ہوتا ہے انکو مغربی ثقافت کی یلغار دکھائی نہیں دیتی بس مشورے خودسپردگی کے ہیں تمام سوالات و اشکالات ان اذہان میں پیدہ ہوتے ہیں جنھیں عقل کل ہونے کا زعم ہوتا ہے جنکی جڑیں اپنی مٹی میں مضبوط نہیں ہوتیں اور جنکا کا مقصود ہر چڑھتے سورج کی پوجا ہے اسکے غروب تک! تہذیبوں کا یکسر تبدیل ہو جانا زندگی کے رنگ ڈھنگ بدل جانا صدیوں پر محیط فطری عمل ہے لیکن جسطرح گزشتہ صدی میں برانڈنگ نے اور ہر شے کو کمو ڈٹی سمجھ کر قابل فروخت سمجھنے والوں نے لوگوں کی زندگیوں میں دخیل ہوکر معاشروں کو تبدیل کرنے کی مہم چلا رکھی ہے اور اپنی تہذیب و ثقافت پر شرمندہ طبقہ جیسے خود سپردگی کا شکار ہے اسے حیرت ہوتی ہے کہ ریزسٹ کرنے والے کیوں سر با سجود نہیں ہیں !


شاید تاریخ کے شبستانوں میں سفر کرتے کرتے جنسی بھوک جنون میں بدل چکی ہے قصاب کی دکان پر لٹکا ننگا گوشت یہ موسیقی پر تھرکتی ننگی عورت اور ساتھ میں انگور کا رس لیکن میرے خالق نے اور بہت کچھ بھی تو بنایا ہے کس طرح طبیعتیں احسن تقسیم سے اسفلا سافلین کی طرف سفر کرتی ہیں یہ بھی عجیب ہے !


کلچر کہیں رکا ہے کیا! لیکن احباب اسکا رخ غیر فطری انداز میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اپنی شرمندگی اور پسماندگی چھپانے کے لیے


آج ہندو سکھ عیسائی یا مختلف اقوام جو اس خطے میں موجود ہیں اپنی ثقافت کو محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہیں آخر کیوں ایسا پہلے کیوں نہ تھا مغربی تہذیب اور اسکے گماشتے وہ کلچر رائج کرنے کے خواہش مند ہیں جو یہاں کا تھا ہی نہیں ! لبرل اپنی سی کوشش ضرور کر رہے ہیں لیکن بیچارے مغرب میں تیسرے درجے کے شہری اور مشرق میں اچھوت ہی بن سکے ہیں مسلہ یہ ہے کہ دین کو قبول نہ کر سکے اور اپنی تہذیب پر شرمندہ مغرب کی چکا چوند کے اندھے وہ کہتے ہیں نا ساون کے اندھے کو سب ہرا دکھائی دیتا ہےانکا لباس ،انکے کھانے انکا رہن سہن کا انداز انکے تیوہار کس کس کے لیے راستے ہموار کرینگے !اصل میں ہمار ایک مخصوص طبقہ جو ہماری ثقافت کا حصہ ہی نہیں ہے جسکی پیدائش ہی مغرب کی کوکھ سے ہوئی ہے ہمیں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ہماری بقا انکی ثقافت کو اپنا لینے میں ہی ہے ! شدید احساس کمتری کا شکار ہے یہ طبقہ اپنے آپ پر شرمندہ اور اپنے لوگوں پر غصّہ اور مغربی ثقافت سے ذہنی طور پر مغلوب


جب انسے کہو کہ مغرب کی تہذیب کا ازدہا مشرق کو نگلنے ہی والا ہے تو کہتے ہیں یہ تو ملا کا مغالطہ ہے ،کیا انکی آنکھیں اندھی اور انکے دل بے بصیرت ہو چکے ہیں ،آپ کوئی بھی اشتہاری مہم اٹھا لیجئے کہیں ری شیپنگ لائف کی بات ہوتا ہے کہیں کھل کے جینے کا درس دیا جا رہا ہوتا ہے کہیں حدود کو توڑنے کی بات ہوتی ہے کہیں محبّت کی پینگیں بڑھانے کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ، کیا با قاعدہ اشتہاری مہم کتابی اور میڈیائی یلغار اور کراۓ کے گماشتوں کے ذریعے اپنی تہذیب کو غالب جانتے ہوے دوسری تہذیبوں کو معدوم کرنے کی کوشش فطری طریقہ ہے ،،،،،،،، مسلہ یہ ہے کہ اپنی تہذیب سے بانڈ نہیں رہا یہ اس سے واسطہ نہیں پڑا اسی لیے فرق دکھائی نہیں دے رہا اگر توجہ دلائی جاۓ او اپنی تہذیب و ثقافت کی بقا کی جانب اشارہ کیا جاۓ تو پھبتیاں کسی جاتی ہیں ،،،،،،


" ہم دھوتی کے ساتھ میدان جنگ جا تو سکتے ہیں لیکن آنے کی کوئ گارنٹی نہیں جتنی ملٹی پرپز دھوتی استعمال ہوتی اوپر اوڑھ لو لنگوٹ کی شکل دے دو چھوٹی موٹی بلندی سے پیرا شوٹ بنا کر کود بھی سکتے پانی میں سے اس کو حسب زائقہ اٹھاتے ہوئے گیلا کئے بغیر گزر بھی سکتے لیکن دفاتر میں لڑائ میں کارخانوں میں اس کے کام کرتے مشکل ہو گی "


کس نے کہا کہ لنگوٹ باندھ کر جہاز اڑانے چل پڑیں دھوتی باندھ کر موٹر سائکل کی سواری فرمائیں سر پر پگھ باندھ کر سوئمنگ کے لیے تشریف لے جائیں شیروانی میں ملبوس ہوکر فٹبال کھیلنے جا پھنچھیں اور زرہ بکتر باندھ کر حجلہ عروسی میں داخل ہو جائیں !


تشکیک پیدہ کرنا اور معاشرے کا گند چن کر اسے ہی ثقافت قرار دینا اور پھر اس سے بھی غلیظ تر شے کو اپنا لینے کی دعوت کہاں کا انصاف ہے ،اپنی ثقافت و تہذیب کی ڈوبتی ہی ناؤ کو پڑ لگانے کی کوشش کی جاۓ تو وہ لگ جو نوح کے بیٹے کی طرح پہاڑ پڑ چڑھ کے جان بچا لینے کے کے زعم میں تھے کشتی میں سوراخ کر رہے ہیں بدقسمتی یہی ہے کہ جو ہماری آل ہی نہ تھے انھیں بھی اس کشتی کا سوار جان لیا گیا ہے ،مغرب کی برانڈڈ یہ کاپی کیٹس بھی بہت بری وجہ ہیں یہ ایک ایسے دیمک ہیں جو کسی بھی تہذیب کی کھوکھلا کرنے میں اپنی بھرپور کردار ادا کرتے ہیں ،،،،،،


حسیب احمد حسیب 

کوئی تبصرے نہیں: