پیر، 30 دسمبر، 2013

شاعر مسکان جناب عنایت علی خان ٹونکی سے ملاقات !

شاعر مسکان جناب عنایت علی خان ٹونکی سے ملاقات 

یہ خوبی قسمت ہے یا احسان ہے حضرت 
جو آپنے بخشا ہے ہمیں شرف ملاقات

دل پر ہیں رقم آپ کی شفقت کے مظاہر 
وہ لطف و کرم جود سخا اور عنایات

حسیب احمد حسیب


باقی ہے کلیسا کا بھرم شیخ کے دم سے!

غزل 

ہاتھوں میں بغاوت کی ہے تلوار سلامت 
اب کیسے رہے گا  کوئی سرکار سلامت

میخانےسےمقتل سے کلیسا سےحرم سے 
ہم  بچ  کے  نکل  آے  ہیں  ہر بار سلامت

ایمان کی طاقت سے بچا  پاۓ ہیں اب تک 
رندوں کی محافل میں بھی کر دار سلامت 

یہ عشق کا سرطان ہے پھیلے گا بدن میں 
مشکل ہے کہ رہ پاۓ  گا  بیمار  سلامت

چھوٹی سی غلط فہمی پے دیوار  اٹھا  کر 
رکھا ہے میرے دوست نے پندار سلامت

روشن ہیں ستاروںکی طرح اب بھی فلک پر
ہر  صاحب  وجدان  کے   افکار    سلامت

ٹوٹا  ہے  میری  قوم کا  مسجد  سے تعلق
سجدوں سےچڑھاووں سےہیں دربارسلامت

بزدل ہے میری قوم  اسی جرم کے صدقے
سردار  کی   سالار  کی   دستار  سلامت    
   
باقی  ہے کلیسا کا بھرم شیخ کے دم  سے
میخانہ  یورپ  کا  ہے   بازار    سلامت

حسیب احمد حسیب   

پیر، 23 دسمبر، 2013

محمدِؐ عربی سے ہے عالمِ عربی​ ! حسیب احمد حسیب

محمدِؐ عربی سے ہے عالمِ عربی​

فیس بک کی دنیا میں عجیب و غریب نابغوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے 
ایک جگہ خوب محاورہ پڑھا "صرف ایک آنچ کم رہ جائے تو نابغہ اور زیادہ تاؤ کھا جائے تو پاگل۔" ایسے تاؤ کھاۓ ہوے نابغے اس دنیا کا خاصہ ہیں 
کسی نے کیا خوب کہا ہے 
 نابغہ شخصیات وہ ہوتی ہیں جن میں قوت عقل و فکر اور حساب کرنے کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے یعنی وہ اپنے حواس کے ذریعے اشیاء سے رابطہ پیدا کرتے ہیں‘ اپنی تیز عقل کی بناء پر اپنی ذہنی معلومات پر کام کرتے ہیں اور نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں مگر اتفاق سے کبھی غلطی بھی کر جاتے ہیں

لیکن انبیاء کی تعلیمات کا محور و مصدر ہے وحی الہی یعنی قرآن ہے انبیاء سیرت قرآنی کے حامل ہوتے ہیں

 آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ  فرماتی ہے کہ ”کان خلقہ القرآن،، ”آپ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے،، 

اور آپ کی بعثت کا مقصود اخلاق قرآنی کی تکمیل ہے 

”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق،، (مسند احمد ج:۴،ص:۱۲۲)
ترجمہ:۔” میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیاہوں ۔ 

اور وہ امت جس سے ہمیں دین لینا ہے جسے خیر امت کہا گیا جسپر الله کا ہاتھ ہے وہ کامل اخلاق والی امت ہے 

وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
  اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو (وہی اﷲ کی جماعت ہے اور) اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں

ایسا ہی ایک نابغہ دور فاروقی میں بھی تھا

دارمی سنن اور نصر مقدسی وابوالقاسم اصبہانی دونوں کتاب الحجہ ابن الابناری کتاب المصارف اور لالکائی کتاب السنۃ اور ابن عساکر تاریخ دمشق میں سلیمان بن یسار سے راوی :

رجل من بنی تمیم یقال لہ صبیغ بن عسل قدم المدینۃ وکان عندہ کتب فکان یسأل عن متشابہ القراٰن فبلغ ذٰلک عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ فبعث الیہ وقد اعدلہ عراجین النحل فلما دخل علیہ قال من انت قال انا عبداﷲ صبیغ قال عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ وانا عبداﷲ عمر واوما الیہ فجعل یضربہ بتلک العراجین فما زال بضربہ حتی فما زال یضربہ حتی شجہ وجعل الدم یسیل علی وجہہ فقال حسبک یا امیر المومنین واﷲ فقد ذھب الذی اجد فی رأسی ۱؎۔ ولنصر وابن عساکر عن ابی عثمان النہدی عن صبیغ کتب یعنی امیرالمومنین الی اھل البصرۃ ان لاتجالسوا صبیغا قال ابوعثمٰن فلوجاء ونحن مائۃ لتفرقناعنہ ۱؎۔

قبیلہ بنی تمیم کا ایک شخص جس کو ''صبیغ بن عسل'' کہا جاتاتھا مدینہ منورہ آیا اس کے پاس کچھ کتابیں تھیں اور قرآن مجید کے متشابہات کے بارے میں پوچھتا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے ایک آدمی بھیج کر اسے اپنے ہاں بلالیا اور اس کے لئے کھجوروں کی چند بڑی ٹہنیاں تیار رکھیں جب وہ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا، میں عبداللہ صبیغ ہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: میں اللہ تعالٰی کا بندہ عمر ہوں، پھر اس کی طرف بڑھے اور ان ٹہنیوں سے اسے مارنے لگے اسے مسلسل مارتے رہے یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا اور اس کے چہرے پر خون بہنے لگا، اس نے کہا بس بھی کریں کافی ہوگیا ہے امیر المومنین ! خد ا کی قسم میں اپنے دماغ میں جو کچھ پاتا تھا وہ نکل گیا ہے یعنی ختم ہوگیا ہے نصر مقدسی اور ابن عساکر نے ابوعثمان نہدی کے حوالے سے صبیغ سے روایت کی، امیر المومنین نے اہل بصرہ کو لکھا کہ وہ صبیغ کے پاس نہ بیٹھاکریں، چنانچہ ابو عثمان نے بیان کیا (کہ اس حکم کے بعد لوگوں کی یہ حالت ہوگئی کہ) اگر وہ شخص آتا او رہم ایک سو کی تعداد میں موجود ہوتے تو ہم ادھر ادھر بکھر جاتے،

اور ایسے ہی ایک نابغے  کے   اشکالات سے ایک فورم میں سابقہ پڑا حتی المقدور جواب دینے کی کوشش کی پہلے اشکالات ملاحظہ ہوں 

پاکستان کے عوام کی شناخت اسلام ہے مگر اب گذشتہ سالوں سے جس قسم کے اسلام کی شکل سامنے لائی جارہی ہے وہ ایک متشدد اور تنگ نظر اسلام کی شکل ہے۔ عربی اقدار کو اسلامی اقدار کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور قرون وسطی کے ایک مخصوص نقطہ نظر کو اسلام کا ابدی اور حتمی نقطہ نظر کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر بہت ضروری ہے کہ برصغیر میں اسلام کی اصل شکل سے واقف کروایا جائے۔ پاکستان میں اسلام صوفی دانشوروں کی وجہ سے آیا۔ جو کہ روشن خیال اور وسیع النظر تھے۔ جنہوں نے برداشت اور روداری کا سبق دیا۔ محبت اور پیار کی بولی سکھائی۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور پختون خواہ، یا کشمیر، گلگت اور بلتستان، پاکستان کے کسی بھی علاقے میں جائیں کہیں بھی اسلام تشدد اور طاقت سے نہیں پھیلا۔ ہم لوگ مہاتما بدھ اور بدھ مت کی تعلیمات والے پر امن لوگ تھے۔ جب ہم کو بتایا گیا کہ مہاتما بدھ کے بعد عرب کے مہاتما محمدصلی اللہ علیہ و سلم نے ان تعلیمات کو مزید اعلی شکل میں نکھار دیا ہے تو ہم نے ایک تسلسل کے طور پر اسلام کو قبول کر لیا۔ کہ جیسے عرب میں موسی اور مسیح کو بلند مقام اسلام نے عطا کیا تھا اسی طرح اسلام ہمارے رام، کرشن اور مہاتما کی فضلیت کا بھی انکاری نہیں۔ صرف ان کے نام پر جو انسان دشمن تعبیر کی گئی اور اس میں سرقہ کیا گیا اس کو مسترد کرتا ہے۔ یا ان کی لافانی تعلیمات کو مزید بہتر رنگ و روپ میں پیش کرتا ہے۔ ہمیں تو صوفیا نے یہی بتایا تھا۔ اب ایسے متشدد علما آگئے ہیں جو موسیقی اور ڈانس کی ہر صورت کو ناجائز اور حرام کہتے ہیں اور جنہوں نے ہمارے ماضی کو مسترد کر دیا ہے۔ کہ ہم صرف عرب کی اقدار اپنائیں اس کے علاوہ کوئی گنجائش نہیں۔ جو اسلام سے مراد ایک لافانی، ابدی اور عالمگیر مذہب کی بجائے ایک عرب قبائلی اور روائیتی مذہب کا لیتے ہیں جس میں اجتہاد اور تشریح کے تمام دروازے ختم ہو چکے ہیں۔ کیا وقت نہیں آیا کہ ہم روشن خیالی، برداشت اور روداری کے ان دشمنوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں، جو اسلام کو ایک غیر جمالیاتی مذہب بنانے پر تلے ہیں۔ جن کے نزدیک اسلام میں علمی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں " 

اب  فما زال بضربہ حتی فما زال یضربہ  کا مظاہرہ دیکھئے 

 یہاں عرب کلچر کی بات ہوئی اور بیان یہ فرمایا گیا کہ آج اسلام کے نام پر عرب کلچر نافذ کیا جا رہا ہے یا کرنے کی بات ہو رہی ہے ......
سوال یہ ہے عرب کلچر میں وہ کون سی سادہ خصوصیات تھیں جسکی بنیاد پر اسے چنا گیا آسان جواب ہے سادگی وہ بنیادی جوہر جو کسی بھی قوم کو کسی خاص رنگ میں رنگ دے اور بیشک اس خاص رنگ میں عرب رنگے گۓ جو الله کا رنگ ہے 

صِبْغَةَ اللّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ 
(کہہ دو: ہم) اللہ کے رنگ (میں رنگے گئے ہیں) اور کس کا رنگ اللہ کے رنگ سے بہتر ہے اور ہم تو اسی کے عبادت گزار ہیں

اور یہ رنگ صدیوں تک چڑھا رہا یہاں تک کہ  عرب قومیت کا جاہلی نعرہ بلند ہوا اور سقوط خلافت عثمانیہ کی راہ ہموار کی گئی ...
کسی بھی کلچر کا بنیادی اظہار تکلم یا اسکی زبان سے ہوتا ہے اور کسی ایسی زبان کا چنا جانا جسمیں کلام الہی نازل کیا جاۓ اصل میں اس کلچر کے اس وصف کو قبول کرنا ہے کہ اسکے حامل لوگ کسی بھی اعلی اخلاقی نظام کو قبول کرنے اسکو چلانے اور اسکو دنیا میں غالب کرنے کے لیے مناسب ترین ہیں 

وَاِنَّہ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ العالمین o نَزَلَ بِہ الرُّوْحُ الأمِیْنُ o عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ o بِلِسَانٍ عربیٍ مبین o“ ( اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ (قرآن ) پروردگار عالم کا نازل فرمایا ہوا ہے، اسے امانت دار فرشتے نے (اے محمد ) تمہارے دل پر اتارا ہے تاکہ (تم لوگوں کو عذابِ آخرت) سے خبردار کرنے والے بنو، صاف ستھری عربی زبان میں) ۔(۲)

آخر عربی مبین میں ہی کیوں اور وہ بھی ایسی کتاب جسے آخری کتاب ہونا ہے اور قیامت تک کے انسانوں کیلئے ہدایت بننا اور کیا عربی اور عرب کو الگ کیا جا سکتا ہے 
بنیادی چیز عرب کا مجذوب ہونا جو کسی بھی برتر اخلاقی کلچر کو اپنے اندر کلی طور پر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں 
حقیقت یہ ہے کہ آپ علیہ سلام کے بعد اور پھر خلفاء راشدین کے ادوار میں عرب کلچر معدوم ہوکر اسلامی کلچر میں ٹرانس فارم ہو چکا تھا اقبال نے کیا خوب کہا ہے 

کرے یہ کافر ہندی بھی جُرأت گفتار
اگر نہ ہو اُمرائے عرب کی بے ادبی
یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس اُمت کو؟
وصال مُصطفویؐ، افتراق بُولہبی
نہیں وجود حدود و ثُغُور سے اس کا
محمدِؐ عربی سے ہے عالمِ عربی

 بے شک محمد عربی کی تعلیمات نے عالم عربی کو محمد عربی کے رنگ میں رنگ دیا جو قرآن کا مطلوب اصلی بھی تھا اور ہے

لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ …. الخ ” البتہ تحقیق رسول کریم کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے 

''اسوہ حسنہ سے مراد کسی شخص میں ایسی حالت یا صفت کا پایا جانا ہے کہ جس کی اقتداء دوسرے لوگ کریں۔ اسوہ حسنہ کا استعمال انسانوں کیلئے نمونہ عمل اور آئیڈیل کے طور پر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی کسی اچھے اور اعلٰی نمونے (آئیڈیل) کو اَپناتے ہوئے اس کی پیروی کرے تو اس کے اعمال اور کردار بھی نیک و صالح ہو جاتے ہیں۔ (تفسیر التبیان ؛جلد٨،ص٣٢٨) 

آیہ شریفہ کا آغاز لفظ ِ''لقد'' سے ہوا ہے، جس میں حرفِ ''لام'' اور حرفِ ''قد'' دونوں حتمی اور یقینی ہونے کے معنی میں ہیں۔ یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے لیے یقینی طور پر اسوہ حسنہ ہیں، جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ 
لفظِ ''کان'' کسی چیز کے ثابت اور دائمی ہونے کے معنی میں ہے۔ یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام زمانوں میں اقوامِ عالم کیلئے اسوہ حسنہ ہیں۔ 
آیہ کریمہ میں خطاب ''لکم'' لفظ سے ہوا ہے۔ یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مخاطبین کیلئے یکساں طور پر اسوہ حسنہ ہونے کو ثابت کیا گیا ہے۔ لیکن تعبیر ''لمن کان'' اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس اسوہ حسنہ سے صرف ان خاص شرائط کے حامل افراد ہی استفادہ کرسکتے ہیں۔ 

خداوند متعال نے یہ نہیں کہا کہ ''لکم رسول اللہ اسوۃ حسنۃ؛ تمہارے لیے رسول اللہ اسوہ حسنہ ہیں'' بلکہ ارشاد فرمایا (لکم فی رسول اﷲ اُسوۃ حسنۃ؛ مسلمانو! تمہارے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے) تاکہ اس بات کی بخوبی وضاحت ہو جائے کہ تم لوگ رسول اللہ کی مانند تو نہیں ہوسکتے، لیکن آنحضرت (ص) کی سیرت و کردار اور اخلاقِ حسنہ سے اپنے لیے اعلٰی نمونے حاصل کرسکتے ہو

اب ملاحظہ کیجئے قرآن نے عرب کو کیا لقب دیا 

كُنتُمْ خَيرَْ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ لَوْ ءَامَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكاَنَ خَيرًْا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَ أَكْثرَُهُمُ الْفَاسِقُون *سوره آل عمران آيت 110
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکہتے ہو اگر اہل کتاب بہی ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا لیکن ان میں صرف چند مومنین ہیں اور اکثريت فاسق ہے۔

وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبۃ: ۱۰۰)
’’اور جو مہاجرین اور انصار (ایمان لانے میں سب سے) سابق اور مقدم ہیں اور (بقیہ امت میں) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ اُن سب سے راضی ہوا اور وہ سب اُس (اللہ) سے راضی ہوئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُن کیلئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور) یہ بڑی کامیابی ہے۔ (ترجمہ: اشرف علی تھانوی)

اسی طرح الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے کن ادوار کی تعریف فرمائی 

خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونهم، ثم الذین یلونهم‘ * (میرا زمانہ بہترین زمانہ ہے ،پھر اس کے بعد، پھر اس کے بعد )۔ اس زمانے میں دین کی خالص دعوت برپا ہوئی۔ دین کا پیغام لوگوں تک پہنچا اور جس طرح رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی حجت تمام کر دی تھی، انھوں نے بھی اسی طریقے سے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کا عمل شروع کیا۔
خوارج کا ایک ٹولہ صحابی رسولؐ جندب بن عبد اللہؓ کے ہاں وارد ہوا اور ان سے کہنے لگا: ’’ہم تمہیں کتاب اللہ کی طرف بلاتے ہیں‘‘ ۔
جندب بن عبد اللہؓ بولے: تم؟؟؟
خوارج کہنے لگے: ہاں ہم!
جندبؓ پھر بولے: تم؟؟؟
خوارج کہنے لگے: ہاں ہم!
جندبؓ فرمانے لگے۔۔۔: اے خدا کی خبیث ترین مخلوقات! کیا ہماری اتباع میں تمہیں گمراہی نظر آنے لگی ہے اور ہمارے طریقے کو چھوڑ کر کہیں تمہیں ہدایت دکھائی دینے لگی ہے؟ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔

اب اس عجیب ترین دعویٰ کو دیکھئے خیر امت اور خیر قرن کو چھوڑ کر وہ عجمی اسلام دین کی حقیقی شکل ہے جسمیں اور دور نبوی میں صدیوں کا بعد ہے اور جسپر زمانوں کی گرد پڑ چکی ہے شاید اسکیلئے کوئی علمی و عقلی دلیل فراہم نہ کی جا سکے......

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو

ناخن نہ دے خدا تجھے اے پنجۂ جنوں
دے گا تمام عقل کے بخیے ادھیڑ تُو

حسیب احمد حسیب