اتوار، 25 نومبر، 2012

شہادت عثمان اور سبائی فتنہ !


!شہادت عثمان اور سبائی فتنہ 
حضرت عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ کے اخیر دور خلافت میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے جن کی وجہ سے اسلام کے خلاف ک عجیب وغریب تحریک شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا بانی عبدالله بن سبا یہودی تھا، جو اپنے مسلمان ہونے کا اظہار بھی کر تا تھا ، اس کا خاص نصب العین یہ تھا کہ لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم میں سے نہ تو کوئی اپنے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا سچا دوست تھا اور نہ ہی ( معاذ الله) آپ صلی الله علیہ وسلم سے انہیں کوئی عقیدت تھی ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ جماعت صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم سے اگر اعتماد اٹھ جائے تو سارا دین ہی مسمار ہو کر رہ جائے گا، اس فتنے نے زور پکڑا،بالآخر اسی کے نتیجہ میں حضرت عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ شہید ہوئے ، حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں مسلمان خانہ جنگیوں میں مبتلا ہو گئے۔ موقع پاکریہ سبائی جماعت حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کی فوج میں گھل مل گئی۔

مؤرخین کا اتفاق ہے کہ جنگ ”جمل“ کا واقعہ بالکل پیش نہ آتا… اگر یہ سبائی جماعت صلح کو جنگ سے بدلنے میں کامیاب نہ ہوئی ہوتی، جنگ ”جمل“ کے بعد صفین وغیرہ کی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر یہ سبائی جماعت اپنے خیالات اور بے سروپا روایات پھیلاتی رہی۔

اسی بات کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں ”اول من کذب عبدالله بن سبا“ (روایات کے سلسلہ میں جس شخص نے سب سے پہلے جھوٹ چلایا، وہ عبدالله بن سبا تھا) یعنی اس نے سب سے پہلے جھوٹی حدیثوں کو پھیلانے کی کوشش کی ، بالآخر حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ اس سازش سے جب واقف ہوئے تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا:” ومالی ولھذا الخبیث الاسود“

کہ اس سیاہ کالے خبیث سے مجھے کیا علاقہ؟

او راعلان عام کر دیا کہ جو اس طرح کی باتیں کرے گا اس کو سخت سزا دی جائے گی ، بالآخر حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اس جماعت سے داروگیر میں سختی سے کام لیا۔

اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:” قد احرقھم علی رضی الله تعالیٰ عنہ فی خلافتہ“․

کہ ان لوگوں کو حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں آگ میں ڈلوادیا۔

فی الواقع یہ لوگ حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کے خدا ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے۔

مگر اس جماعت کے نمائندے کوفہ، بصرہ، شام، مصر وحجاز ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے، اس لیے حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے پوری قوت سے اس فتنے کو دبایا اور لوگوں کو اس جماعت کی سازش سے آگاہ کیا۔ حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اس کے بارے میں فرمایا:” قاتلھم الله ای عصابة بیضاء سودوا، وای حدیث من حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم افسدو!!․“

کہ خدا انہیں ہلاک کرے ، کتنی روشن جماعت کو انہوں نے سیاہ کیااور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کتنی حدیثوں کو انہوں نے بگاڑا۔

حافظ ابن تیمیہ رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:

”دورصحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم میں بعد کے ادوار کے مقابلے میں بہت کم فتنے تھے ، لیکن جتنا زمانہ عہد نبوت سے دور ہوتا گیا ، اختلاف وگروہ بندی کی کثرت ہوتی چلی گئی، حضرت عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں کوئی بدعت کھل کر سامنے نہیں آئی، مگر ان کی شہادت کے بعد لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے اور دو مقابل کی بدعتوں کا ظہور ہوا، ایک خوارج کی بدعت، جو (معاذ الله) حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کی تکفیر کرتے تھے اور دوسری روافض کی بدعت، جو حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کی امامت اور عصمت کے مدعی تھے، بلکہ روافض میں سے بعض ان کی نبوت کے اور بعض الوہیت تک کے قائل تھے۔
عبداللہ بن سبا دراصل، ایک یہودی تھاجو اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلمان ہوا تھا۔ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں سبائی فتنے کا آغاز کیا۔ ابن سبا کو خلیفۂ وقت سے ذاتی دشمنی تھی۔ اس نے خلافت عثمانی کو درہم برہم کرنے کے لیے حب علی اور حب 'اہل بیت' (فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم) کا نعرہ لگایا اور اس مقصد کے لیے اس نے اور اس کے ہم نواؤں نے طرح طرح کی احادیث وضع کیں۔ انھی سبائیوں کے ہاں علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا عقیدہ پایا جاتا تھا۔''لسان المیزان'' میں ابن حجر نے یہ بیان کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور اقتدار میں انھیں آگ میں جلا دیا تھا۔
ایک شیعہ عالم علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحارالانوارمیں ایک واقعہ لکھاہے کہ ایک شخص حضرت علی رض کے پاس آیااورکہنے لگاکہ مسجدسے باہرایسے لوگ ہیں جوعقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ رض انکے خداہیں۔آپ رض نے انہیں بلایااورفرمایاکہ تم خداکی تباہی کے حقدارہو میں خدانہیں بلکہ انکاایک ادنی بندہ ہوں۔اللہ سے ڈرواورمجھ سے غلط عقیدہ رکھنے سے بچو۔
وہی لوگ پھردوسرے اورتیسرے روزآئے اوراپنے عقیدے کودہرایااس پرآپ رض نے ان کوسخت الفاظ میں کہاکہ یااپنے عقیدے سے رجوع کروورنہ میں تمہیں آگ میں جلادوں گاجب وہ نہ مانے توانہین خندقیں کھدواکراسمیں آگ جلاکرسب کوجلادیا۔بعض کاخیال ہے کہ جلایانہیں تھاصرف دھواں دیاگیاتھا۔(بحارالانوار414/34)۔۔۔۔۔(واضح رہے آج بھی شیعہ حضرات اپنے علم اورامام بارگاہوں میں یاعلی مدداورعلی مشکل کشاجیسے کلمات فخریہ طورکندہ کرتے ہیں اورخودبھی ایسے کلمات پورے جوش میں بولتے ہیں).
جس طرح سینٹ پال نے عیسائیت میں فتنہ اورافتراق پیداکیااسی طرح عبداللہ بن سبانے مسلمانون میں فتنہ پیداکیا۔یہ شخص نہایت خطرناک تھااوربڑی مکاری کے ساتھ یہ مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوااورباطل عقائد،فتنہ پردازی کاانجکشن مسلمانوں میں پیوست کیا۔
ابن عبداللہ اشعری کتاب المقالات الفرق کے صفحہ 20میں فرماتے ہیں کہ یہ فرقہ سبیہ کہلاتاہے اسکاپورانام عبداللہ بن وہب راہبی ہمدانی تھا۔عبداللہ بن حرمی اورابن اسوداسکے رفقااورشریک سازش تھے۔ابن سباوہ پہلاشخص تھاجس نے اصحاب ثلاثہ اوردیگراصحاب پرسب و تشنیع کی۔ابان بن عثمان کے مطابق خداابن سباپرلعنت کرے جوحضرت علی رض کوخداکہتاہے جبکہ وہ خداکے مطیع بندے تھے ہم اس سے اپنی برات کااعلان کرتے ہیں۔(رجال کشی ص 107اور108)
رجال الطوسی ص51میں ابن سبا کوغلوکرنے والااورکافرلکھاگیاہے اوررجال القہبائی میں بھی اس کے بارے میں یہی لکھاہواہے۔علامہ اربلی بھی اسکے متعلق یہی لکھتاہے۔اپنے پڑھنے والوں کومیں بتادوں کہ امام خمینی نے کتاب رجال کشی کوشیعیت کی ایک اہم کتاب بتایاتھااورپڑھنے والے جانتے ہیں کہ ایران ملک کی شیعوں کی نظرمیں کتنی اہمیت ہے اورشیعہ ایران کے انقلاب سے کتنے مسرورہیں اسی ملک کاایک روح اللہ سمجھاجانے والا جس کتاب کے بارے میں تعریف کرتاہے میں نے اسی کاحوالہ نظرخدمت کیاہے۔
تعجب ہے کہ شیعہ حضرات اس شخص کے وجودسے ہی انکارکرتے نظرآتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ شخص تھاہی نہیں بلکہ ایک فرضی کرداربنادیاگیاہے۔شیعیت یہودیت کی پیداوارنہیں ہے بلکہ یہ وہ مسلمان ہین جنہوں نے اسلامی شریعت کومضبوطی سے تھامے رکھااورجب آپ ص کاانتقال ہواتویک دم 1400صحابہ کرام کی جماعت مرتدہوگئی اورصرف اہل بیت اورچندصحابہ صراط مستقیم پررہے۔لیکن انکی جیدکتابیں کچھ اورکہتی ہیں میرے خیال میں اگرشیعہ علمابجائے مسلمانوں کی کتب کی غلط تشریحات کے اگراپنی ہی کتابوں کامطالعہ کریں توبہت حدتک اختلافات کاتدارک ممکن ہے۔علامہ ابتسام الحق کی بات یادآگئی کہ شیعہ حضرات وہ روایات جوانکے عقائدسے مناسبت نہین رکھتی ہیں انہیں نہین مانتے۔
انکادعوی ہے کہ انہوں نے براہ راست احادیث اہل بیت یعنی خاندان محمدص لی ہیں لیکن راوی سارے شیعہ ہوتے ہیں۔جوکام سینٹ پال نے عیسائیوں کے ساتھ کیاوہی کام عبداللہ بن سبانے مسلمانوں کے ساتھ کیاسینٹ پال نے عیسائیوں میں پروٹیسٹینٹ فرقہ بنایاتوابن سبانے شیعہ فرقہ بنادیالیکن شیعہ اس سے انکارکرتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ اس کے وجودکوہی دیومالائی گردانتے ہیں۔مولاناجھنگوی کے بقول یہ ایک ایسافرقہ ہے جس کی بنیاددھوکہ،فریب اورجھوٹ پررکھی گئی ہے۔


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک سازش کے تحت فتنہ کھڑا کیا گیا ۔ اور یہ سازش عبداللہ بن سبا جو کہ نسلا یہودی تھا اور اوپر سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا تھا تیار کی گئی ۔ چنانچہ ایک گروہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر پانچ الزامات لگائے گئے ۔ 

١ آپ نے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہ کے بجائے اپنے ناتجربہ کار رشتہ داروں کو بڑے بڑے عہدے دے رکھے ہیں ۔

٢ آپ اپنے عزیزوں پر بیت المال کا روپیہ بے حد صرف کرتے ہیں ۔ 


٣ آپ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے قرآن مجید کے سوا باقی سب صحائف کو جلا دیا ہے ۔

٤ آپ نے بعض صحابہ کرام کی تذلیل کی ہے ۔ اور نئی نئی بدعتیں اختیار کر لی ہیں ۔ 

٥ مصری وفد کے ساتھ صریح بد عہدی کی ہے ۔ 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاجزادے محمد بن ابوبکر پیش پیش تھے ۔ اس نے آگے بڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ریش مبارک پکڑ کر زور سے کھینچی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بھتیجے اگر آج تمہارے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے ۔ تو تمہاری اس حرکت کو پسند نہ فرماتے ۔ محمد بن ابی بکر یہ سن کر پشیمان ہوا ۔ اور پیچھے ہٹ گیا ۔ مگر کفانہ بن بشیر نے آپ کی پیشانی پر کاری ضرب لگائی ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ زمین پر گر پڑے اور فرمایا ۔ بسم اللہ توکلت علی اللہ ۔ 
دوسرا وار سودان بن حمران نے کیا ، جس سے خون کا فوارہ چل نکلا اور اس کے ساتھ ہی امیر المومنین تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ 



خلافت عثمان رض اور شوری کا قیام !


!خلافت عثمان رض اور شوری کا قیام
خلیفۂ دو م حضرت عمر رضی اﷲ عنہ تندرست تھے کہ کچھ اہل ایمان نے انھیں اپنا جانشین مقرر کرنے کا مشورہ دیا ۔ وہ سوچ میں پڑ گئے اور کہا:اگر میں اپنا جانشین خود مقرر کروں تو روا ہو گا، کیونکہ مجھ سے بہتر شخص(ابوبکر رضی اﷲ عنہ)نے ایسا کیا ہے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو بھی جائز ہے کیونکہ مجھ سے کہیں زیادہ صاحب فضیلت شخصیت (حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) نے ایسا کیا ہے ۔ کچھ غور وفکر کے بعد انھیں اندیشہ ہوااگر اس بارے میں اہل ایمان کی راہ نمائی نہ کی گئی تو وہ نزاع میں مبتلا ہو جائیں گے۔ قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعدبھی انھوں نے کسی فرد کو نامزد کرنے کے بجاے عشرۂ مبشرہ میں سے۶ زندہ اصحاب رسول حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر بن عوام ، حضرت طلحہ بن عبید اﷲ،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمان بن عو ف کی مجلس بنانا پسند کیااور ساتویں صاحب بشارت سعیدبن زید کو اپنا چچا زاد ہونے کی وجہ سے شامل نہ کیا۔حضرت عمرنے ان صحابیوں کو ترجیح دینے کی وجہ خود ہی بیان کر دی کہ رسول اﷲ صلی علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوتے وقت ان سے راضی تھے ۔ ان میں سے کسی ایک کومامور کرنا ان کے لیے مشکل ہو گیا یا شاید وہ خیال کر رہے تھے کہ اہل راے کے باہمی مشورہ سے خلیفہ کا انتخاب زیادہ موزوں ہو گا۔انھوں نے اپنے بیٹے عبد اﷲ کووصیت کی ،انتخاب کے وقت موجود رہیں تاہم ان کااس میں کوئی دخل نہ ہو گا۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب بہت تاخیر سے اس وقت ایمان لائے تھے جب آپ نے فتح کے لیے کوچ کیا۔رخصت ہونے کے بعد وہ بنو ہاشم کو خلافت دلانے کے لیے سرگرم رہے۔ اوائل محرم ۲۴ھ میں بھی جب خلیفۂ ثالث کا انتخاب ہونے لگاتو انھوں نے حضرت علی کو مشورہ دیا کہ ۶ اصحاب کی 
مجلس انتخاب میں وہ شامل نہ ہوں۔حضرت علی نے یہ کہہ کر انکار کر دیاکہ میں اختلا ف پسند نہیں کرتا۔
 عبدالرحما ن بن عوف نے یہ مسئلہ سلجھانے کی کوشش کی۔انھیں معلوم تھا کہ علی وعثمان ہی خلافت کے دو بنیادی حق دار ہیں۔ وہ ان دونوں سے الگ الگ ملے،حضرت علی سے پوچھا ،آپ سبقت الی الاسلام کی وجہ سے خلافت کے اہل ہیں لیکن اگر آپ کو خلافت نہ ملی تو آپ کے خیال میں یہ ذمہ داری کسے اٹھانی چاہیے؟ انھوں نے جواب دیا عثمان کو، پھریہی بات حضرت عثمان سے پوچھی تو انھوں نے حضرت علی کا نام لیا۔اب عبدالرحمان نے چاہا،انتخاب ان دونوں پر موقوف ہو جائے۔ انھوں نے اصحاب شوریٰ سے مطالبہ کیا کہ ان میں سے تین ان تینوں کے حق میں دست بردار ہو جائیں جنھیں وہ خلافت کا زیادہ حق دار سمجھتے ہیں۔ چنانچہ زبیرعلی کے حق میں ، سعد عبدالرحمان کے اور طلحہ عثمان کے حق میں دست بردار ہوگئے ۔ عبدالرحمان اپنے امیدوار نہ ہونے کا اعلان پہلے ہی کر چکے تھے ، اس لیے معاملۂ انتخاب علی وعثمان کے بیچ معلق ہو گیا۔
 عبدالرحمان اپنے بھانجے مسور بن مخرمہ کے گھر پہنچے۔علی و عثمان کو وہاں بلایا اور انھیں بتایاکہ اہل ایمان آپ دونوں میں سے ایک کو خلیفہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ان دونوں سے عہد لیا،جسے وہ خلیفہ مقرر کریں گے، عدل و انصاف سے کام لے گااور جسے یہ ذمہ داری نہ مل پائی، سمع و اطاعت کرے گا۔فجر کے وقت منادی ہوئی کہ لوگ مسجد نبوی میں جمع ہو جائیں۔عوام الناس کے ساتھ انصار و مہاجرین کے زعمااور فوجی کمانڈر موجود تھے۔ نماز کے بعدعبدالرحمان منبر پر چڑھے ،انھوں نے وہ عمامہ پہن رکھا تھا جو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کے سر پر باندھا تھا ۔ان کی دعاطویل ہو گئی تو سعد بن ابی وقاص پکارے، جلد انتخاب خلیفہ کا اعلان کر دیجیے ،مبادا لوگ کسی فتنے میں مبتلا ہو جائیں۔عبدالرحمان بن عوف نے علی کا ہاتھ تھامااور پوچھا، کیا وہ کتاب اﷲ ، سنت رسول اﷲﷺ اور سیرت شیخین ابو بکر و عمر پر عمل کریں گے؟ ان کے اقرار کے بعدکہ وہ اپنے علم کے مطابق مقدور بھر ایسا ہی کریں گے انھوں نے حضرت عثمان سے بھی یہی عہد لیا۔وہ عثمان کا ہاتھ تھامے رہے ،سر آسمان کی طرف بلند کیا اور تین بار کہا،اے اﷲ!سن لے اور گواہ رہ۔میں نے خلافت کی ذمہ داری عثمان کو سونپ دی۔ عبدالرحمان کے بعد ان کے پاس کھڑے علی نے عثمان کے ہاتھ پربیعت کی پھر مسجد میں موجود سب اہل ایمان بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے ۔(ابن سعد)ایک روایت کے مطابق حضرت علی نے تاخیرکی اور عبدالرحمان کے پکارنے پر بیعت کے لیے لوٹے۔ (طبری)
غور کیجئے حضرت علی اور حضرت عباس رض مکمّل متفق نہ تھے لیکن امّت کی وحدت کو محفوظ رکھنا مقصود تھا !

مسلہ خلافت میں اصحاب رض کی مختلف آرا !

!مسلہ خلافت میں اصحاب رض کی مختلف آرا

خلافت کا غیر موجود رہنا دین کے بعض بنیادی امور کا ناقابل عمل ہو جانا ہے اسلئے امّت کے ابتدائی رجال نے ہمیشہ اس امر کو مقدم رکھا !
ہے”۔

اب چونکہ خلافت کی عدم موجودگی میں تقریباً تمام اجتماعی احکامات پر عمل در آمد نہیں ہو سکتا اسی لئے فقہاء اقامت خلافت کو “اُمَّ الفرائض“ قرار دیتے ہیں۔  اﷲ تعالی نے قرآن میں فرماتے ہیں:

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (التوبة: 33)

“وہی وہ ذات ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اسے تمام ادیان پر خواہ (یہ بات) مشرکوں کو کتنی ہی ناگوارہ ہو“
یہ امر بدہی ہے کہ قرآن کے مندرجہ بالا حکم پر چلنے کے لئے یعنی اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے، ایک طاقتور ریاست کی ضرورت ہے جو یقیناً خلافت کے علاوہ کچھ نہیں۔ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب “السیاسة الشرعیہ” (صفحہ 189) پر اس کی یوں وضاحت فرمائی:

“ریاست (خلافت) کی زبردست طاقت کے بغیر دین خطرے میں ہوتا ہے اور الہامی قوانین (شریعت) کے نفاذ کے بغیر ریاست جابرانہ ادارہ بن جاتی ہے۔”

        خلافت کی فرضیت کو رسول اﷲ ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ کے ذریعے بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا۔ امام مسلم نے ابن عمر سے روایت کیا کہ آپ ﷺ  نے فرمایا:

(مَن خَلَعَ یَدًا مِّنْ طَاعَة' لَقِیَ اللّٰہَ یَومَ القِیَامَة' لَاحُجَّة لَہُ ' وَمَن مَاتَ وَلَیسَ فِی عُنُقِہ بَیعَة ' مَاتَ مِیتَة جَاھِلِیَّة)

“جو شخص (امیر کی )اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لے تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہو گی ۔اور جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت (کا طوق) نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔”

!ثقیفہ بنو سعدہ

   رسول اﷲ ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام (r-a) نے بھی اسلامی ریاست یعنی خلافت کی بقاء کو ایک اہم ترین فریضہ گردانا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صحابہ (r-a) جو آپ ﷺ پر جان چھڑکتے تھے، آپ ﷺ کے وضو کے پانی کو تبرکاً حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے مسابقت کرتے تھے۔ آپ ﷺ کو اپنے نفوس اور اپنے ماں باپ پر فوقیت دیتے تھے، آپ ﷺ کے وصال کے بعد ثقیفہ بنی صاعدہ میں جمع ہو کر خلافت کے اہم ترین فریضے میں جُت جاتے ہیں اور آپ ﷺ کے جسد پاک کی تجہیز و تدفین کو مؤخر کردیتے ہیں۔ حالانکہ اسلام کسی بھی مسلمان کی وفات کی صورت میں اس کے عزیز و اقارب کو اس کی تجہیز و تدفین جلد از جلد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن اکابر صحابہ (r-a) جن میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عبد الرحمان بن عوف اور سعد بن عبادہ شامل تھے انصار کی ایک کثیر جماعت کے ساتھ ثقیفہ بنی سعدہ میں نئے خلیفہ کے انتخاب کے عمل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ نیز کوئی بھی صحابی انہیں رسول اﷲ ﷺ کی تجہیز و تدفین کو ایک دن تک مؤخر کر کے خلافت کے قیام میں مصروف ہو جانے پر ملامت یا تنقید کا نشانہ نہیں بناتا۔ صحابہ (r-a) سے بڑھ کر اسلام اور شریعت کو کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی ان سے بڑھ کر شریعت کا کوئی پابند ہو سکتا ہے۔ چنانچہ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب تمام صحابہ (r-a) ایک ایسی حدیث جانتے ہوں جس کے مطابق خلیفہ کا انتخاب رسول اﷲ ﷺ کی تجہیز و تدفین سے بھی بڑھ کر اہم اور فوری فریضہ ہو۔ یہ ہے خلافت کی فرضیت پر اجماع الصحابہ (r-a) سے دلیل۔ امام الحیثمی (807ھ) “صواعق الحراکة” میں فرماتے ہیں: “یہ امر سب کو معلوم ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین متفق تھے کہ دور نبوت کے خاتمے پر امام کا انتخاب واجب تھا۔ بلاشبہ انہوں نے اس فرض کو دیگر تمام فرائض پر فوقیت دی اور رسول اﷲ ﷺ کی تدفین کے بجائے اس (فرض کی تکمیل )میں جُت گئے۔”
یہ مسلمانو کے باہمی اجتماع اور انتخاب خلافت کی اعلی ترین مثال ہے 

حضور  کی وفات کے حادثہ سے حضرت ابوبکرصدیقؓ کی مذکورہ بالا تقریر کے نتیجہ میں صحابہ کرامؓ باہر آچکے تھے اور انہیں یہ یقین ہوچکا تھا کہ حضور  اپنے پروردگار کے پاس جاچکے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ہی انصارؓ و مہاجرینؓ میں حضور  کی خلافت کے مسئلہ کو لیکر ایک ایسا زبردست اختلاف پیدا ہوچکا تھا کہ اگر اس کو بروقت نہ روکا جاتا تو امت مسلمہ دو لخت ہوچکی ہوتی اور صحابہ کرامؓ جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کی برکت سے اور حضور  کی تربیت کے نتیجہ میں بھائی بھائی بنادیا تھا،باہم دست و گریباں ہوجاتے اور اس طرح اسلام کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہوجاتا، لیکن خدا کو توحید کی روشنی سے تمام عالم کو منور کرنا تھا اس لئے اس نے آسمانِ اسلام پر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ جیسے مہر وماہ پیدا کردئے تھے، جنہوں نے اپنی عقل و سیاست کی روشنی میں افقِ اسلام کی ظلمت و تاریکی کو کافور کردیا، جیسے ہی حضرت ابوبکرؓ کو ثقیفۂ بنو ساعدہ میں انصار کے جمع ہونے کی اطلاع ملی،آپؓ حضرت عمرؓ کو ساتھ لئے ہوئے وہاں پہنچے، انصار نے دعویٰ کیا کہ ایک امیر ہمارا ہو اور ایک تمہارا! ظاہر ہے کہ اس دو عملی کا نتیجہ کیا ہوتا؟ ممکن تھا کہ مسند خلافت مستقل طور پر صرف انصار ہی کے سپرد کردی جاتی، لیکن دقت یہ تھی کہ قبائل عرب خصوصاً قریش ان کے سامنے گردنِ اطاعت خم نہیں کرسکتے تھے،پھر انصار بھی دو گروہ تھے، اوس اور خزرج اور ان میں باہم اتفاق نہ تھا، غرض ان دقتوں کو پیش نظر رکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے کہا : "امراء ہماری جماعت سے ہوں اور وزراء تمہاری جماعت سے"۔ اس پر جناب بن المنذرؓ انصاری بول اٹھے: خدا کی قسم نہیں ! ایک امیر ہمارا ہو ،ایک تمہارا! حضرت ابوبکرؓ نے یہ جوش و خروش دیکھا تو نرمی و آشتی کے ساتھ انصار کے فضائل و محاسن کا اعتراف کرکے جو کچھ فرمایا وہ ان کی سیاسی بصیرت کا بیِّن ثبوت ہے، آپؓ نے فرمایا:"صاحبو! مجھے آپ کے محاسن سے انکار نہیں !لیکن درحقیقت تمام عرب قریش کے سواء کسی کی حکومت تسلیم نہیں کرسکتا، پھر مہاجرین اپنے تقدم اسلام اور رسول اللہ  سے خاندانی تعلقات کے باعث بہ نسبت آپ سے زیادہ استحقاق رکھتے ہیں ،یہ دیکھو ابو عبیدہ ابن الجراحؓ اور عمر ابن الخطابؓ موجود ہیں ، ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کرلو"۔ لیکن حضرت عمرؓ نے پیش قدمی کرکے خود حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ میں ہاتھ دیدیا اور کہا کہ: "نہیں !بلکہ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں ، کیونکہ آپ ہمارے سردار، ہم لوگوں میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ  آپ کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے"۔ (۷)
چنانچہ اس مجمع میں حضرت ابوبکرؓ سے زیادہ کو ئی بااثر بزرگ اور معمر نہ تھا اس لئے اس انتخاب کو سب نے استحسان کی نگاہ سے دیکھا اور تمام خلقت بیعت کے لئے ٹوٹ پڑی، اس طرح یہ اٹھتا ہوا طوفان بصیرتِ صدیقیؓ کی برکت سے رک گیا اور لوگ حضور  کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہوگئے۔
دکھے کس طرح اصحاب رسول رض نے اختلاف کو رفع کیا !
فاروق اعظم کی جانشینی  کا واقعہ !
پہلے اک بنیادی اصول سمجھ لینا ضروری ہے ،
بھائی صاحب انتخاب امیر کا دوسرا طریقہ جس کو فقہاء نے بالاتفاق درست قرار دیا ہے، وہ یہ کہ خلیفہٴ وقت خود اپنی زندگی میں اپنے بعد کے لیے امیر نامزد کردے، علامہ ماوردی نے اس کے جواز پر اجماع امت نقل کیا ہے،اس کا سب سے بڑا مأخذ حضرت صدیق اکبر کا عمل ہے، کہ آپ نے اپنی وفات سے پیشتر حضرت عمر فاروق کو اپنا جانشین تجویز فرمایا اوراس کا اعلان بھی اپنی زندگی میں فرمادیا، حضرت صدیق کی وفات کے بعد مسلمانوں نے بالاتفاق حضرت عمر کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا، کسی ایک شخص نے بھی حضرت صدیق کے اس انتخاب کی مخالفت نہیں کی، حضرت عمر بن خطاب نے اپنے جانشین کے انتخاب کا یہ طریقہ اختیار فرمایاکہ کسی ایک شخص کو نامزد کرنے کے بجائے معاملہ ارباب حل وعقد کی ایک جماعت کے حوالے کردیا، یہ ایک محفوظ راستہ تھا؛ البتہ اس میں امیر کے اس اختیار پر روشنی پڑتی ہے کہ امیر کے معاملے کو تمام مسلمانوں کے بجائے ایک مخصوص کمیٹی کے حوالے کرسکتا ہے، اس چیز کو بھی تمام صحابہ نے من وعن تسلیم کیا، چنانچہ حضرت عمر کی وفات کے بعد جس وقت اس مجلس منتخبہ کی میٹنگ ہورہی تھی حضرت عباس نے اس مجلس میں شرکت کی خواہش کی تو حضرت علی نے جو اس کمیٹی کے اہم رکن تھے سختی کے ساتھ ان کو روک دیا۔ (الموسوعة الفقہیہ)
حضرت صدیق کے عمل سے ولی عہدی کا دستور جاری ہوا، یعنی امیر کو یہ اختیار حاصل ہوا کہ وہ اپنی حیات میں اپنا جانشین نامزد کردے۔

بھائی صاحب امیرالمؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا اوردس برس چھ ماہ چاردن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تخت خلافت پر رونق افروز ہو کر جانشینی رسول کی تمام ذمہ داریوں کو باحسن وجوہ انجام دیا۔۲۶ذی الحجہ ۲۳ھ؁ چہار شنبہ کے دن نماز فجر میں ابولؤلوہ فیروز مجوسی کافر نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شکم میں خنجر مارا اور آپ یہ زخم کھا کر تیسرے دن شرف شہادت سے سرفراز ہوگئے ۔ بوقت وفات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف تریسٹھ برس کی تھی۔ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور روضۂ مبارکہ کے اندر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلوئے انور میں مدفون ہوئے ۔

(تاریخ الخلفاء وازالۃ الخفاء وغیرہ)

 حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کو ابھی صرف سوادوبرس ہوئے تھےاور اس قلیل عرصہ میں مدعیان نبوت ،مرتدین اور منکرین زکوۃ کی سرکوبی کے بعد فتوحات کی ابتداء ہی ہوئی تھی کہ پیام اجل پہنچ گیا،حضرت عائشہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن جب کہ موسم نہایت سردوخنک تھا، آپ نے غسل فرمایا غسل کے بعد بخار آگیا اور مسلسل پندرہ دن تک شدت کے ساتھ قائم رہا، اس اثناء میں مسجد میں تشریف لانے سے بھی معذور ہوگئے؛چنانچہ آپ کے حکم سے حضرت عمر ؓ امامت کی خدمت کے فرائض انجام دیتے تھے۔
مرض جب روز بروزبڑھتا گیااور افاقہ سے مایوسی ہوتی گئی تو صحابہ کرام ؓ کو بلاکر جانشینی کے متعلق مشورہ کیا اور حضرت عمر ؓ کا نام پیش کیا، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا عمر ؓ کے اہل ہونے میں کس کو شبہ ہوسکتا ہے ؛لیکن وہ کسی قدر متشدد ہیں"حضرت عثمان ؓ نے کہا"میرے خیال میں عمر ؓ کا باطن ظاہر سے اچھا ہے"لیکن بعض صحابہ ؓ کو حضرت عمر ؓ کے تشدد کے باعث پس وپیش تھی؛چنانچہ حضرت طلحہ عیادت کے لئے آئےتو شکایت کی کہ آپ عمر ؓ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں، حالانکہ جب آپ کے سامنے وہ اس قدر متشدد تھے تو خدا جانے آئندہ کیا کریں گے؟حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا" جب ان پر خلافت کا بار پڑے گا تو ان کو خود نرم ہوناپڑے گا۔"اسی طرح ایک دوسرے صحابی نے کہا، آپ عمر ؓ کے تشدد سے واقف ہونے کے باوجود ان کو جانشین کرتے ہیں ، ذراسوچ لیجئے آپ خدا کے یہاں جارہے ہیں وہاں کیا جواب دیجئے گا۔"فرمایا "میں عرض کروں گا خدایا میں نے تیرے بندوں میں سے اس کو منتخب کیا ہے جوان میں سب سے اچھا ہے۔"
غرض سب کی تشفی کردی اور حضرت عثمان ؓ کو بلا کر عہد نامہ خلافت لکھوانا شروع کیا، ابتدائی الفاظ لکھے جاچکے تھے غش آگیا، حضرت عثمان ؓ نے یہ دیکھ کر حضرت عمر ؓ کا نام اپنی طرف سے بڑھادیا،تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان ؓ سے کہا کہ پڑھ کرسناؤ،انہوں نے پڑھا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور کہا خدا تمہیں جزائے خیر دے تم نے میرے دل کی بات لکھ دی، غرض عہد نامہ مرتب ہوچکا تو اپنے غلام کو دیا کہ جمع عام میں سنادے اور خود بالاخانہ پر تشریف لے جاکر تمام حاضرین سے فرمایا کہ میں نے اپنے عزیز بھائی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا ہے ؛بلکہ اس کو منتخب کیا ہے جو تم لوگوں میں سب سے بہتر ہے، تمام حاضرین نے اس حسن انتخاب پر سمعنا وطعنا کہا، اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عمر ؓ کو بلاکر نہایت مفید نصیحتیں کیں جو ان کی کامیاب خلافت کے لئے نہایت عمدہ دستور العمل ثابت ہوئیں۔
(طبقات ابن سعد قسم اول ج ۳ وصیت ابوبکر ؓ ص ۴۲)

یہاں بھی کچھ اصحاب رض کو حضرت عمر رض  کی جانشینی پر اختلاف تھا لیکن کسی نے بھی صدیق اکبر رض کی راۓ سے انکار نہیں کیا ! 

جمعہ، 23 نومبر، 2012

انسان الله کا خلیفہ ہے ( حصّہ: دوم )


انسان الله کا خلیفہ ہے  ( حصّہ: دوم )

اقسام خلافت  !
 خلافت عامہ!
حضرت شاہ اسماعیل شہید اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

'' پس جیسا کہ کبھی کبھی دریائے رحمت سے کوئی موج سربلند ہوتی ہے اور آئمہ ہدیٰ میں سے کسی امام کو ظاہر کرتی ہے ایسا ہی اللہ کی نعمت کمال تک پہنچتی ہے تو کسی کو تخت خلافت پر جلوہ افروز کر دیتی ہے اور وہی امام اس زمانے کا خلیفہ راشد ہے اور وہ جو حدیث میں وارد ہے کہ خلافت ِراشدہ کا زمانہ رسول مقبول علیہ الصلوٰة والسلام کے بعد تیس سال تک ہے اس کے بعد سلطنت ہو گی تو اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت راشد متصل اور تو اتر طریق پر تیس ٣٠ سال تک رہے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیام قیامت تک خلافت ِراشدہ کا زمانہ وہی تیس سال ہے اور بس۔ بلکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم یہی ہے کہ خلافت راشد ہ تیس سال گزرنے کے بعد منقطع ہو گی نہ یہ کہ اس کے بعد پھر خلافت ِراشدہ کبھی آہی نہیں سکتی۔ بلکہ ایک دوسری حدیث خلافت ِراشدہ کے انقطاع کے بعد پھر عود کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ چنانچہ نبی ﷺنے فرمایا ہے:

تکون النبوة فیکم ماشاء اﷲ ان تکون ثم یرفعہا اﷲ تعالیٰ ثم تکون خلافة علی منہاج النبوة فیکم ماشاء اﷲ ان تکون ثم یرفعہا اﷲ ثم تکون ملکاً عاضا فیکون ماشاء اﷲ ان یکون ثم یرفعہا اﷲ ثم یکون ملکاً جبرّیاً فیکون ماشاء اﷲ ان یکون ثم یرفعہا اﷲ تعالیٰ ثم تکون خلافة علیٰ منہاج النبوة ثم سکت.(منصب امامت ص١١٦۔١١٧)

'' نبوت تم میں رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھالے گا اور بعد نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی جو اللہ کے منشاء تک رہے گی پھر اسے بھی اللہ اٹھا لے گا۔پھر بادشاہی ہو گی اور اسے بھی اللہ جب تک چاہے گا رکھے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا۔ پھر سلطنت جابرانہ ہو گی جو منشاء باری تعالیٰ تک رہے گی۔ پھر اسے بھی اُٹھالے گا اور اس کے بعد پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی، پھر آپﷺ خاموش ہو گئے۔''

حدیث کے الفاظ پر غور کریں !
١. پہلے نبوت 
٢.خلافة علی منہاج النبوة
٣.ملکاً عاضا(خلافت ) عام 
٤.ملکاً جبرّیاً(خلافت )جابرانہ 
٥. ثم یرفعہا اﷲ تعالیٰ(یعنی خلافت سرے سے مفقود ہو جانے گی )
٦.ثم تکون خلافة علیٰ منہاج النبوة ثم سک(دوبارہ قیام خلافت )

طریق انتخاب !
خلیفہ کے تقرر کے چار طریقے ہیں۔

۱۔ اہل الحل والعقدکا بیعت کرلینا: یہ طریقہ دو مواقع پر جاری ہوتا ہے۔ (١)خلیفہ ولی عہد اور شوریٰ بنائے بغیر فوت ہو جائے۔(٢)خلیفہ خود ان امور کی وجہ سے خلافت سے معزول ہو جائے، جو اس کے بذات خود خلافت سے معزول ہونے کا تقاضا کرتے ہیں یا اہل حل وعقد خلیفہ کوان امور کی وجہ سے معزول کر دیں جن کے ذریعہ وہ خلیفہ کو معزول کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔


٢ .تولیت ،ولی عہدی: اس کی صورت یہ ہے کہ خلیفۂ عادل مسلمانوں کی خیر خواہی کو مد نظررکھتے ہوئے جامع شروط خلافت لوگوں میں سے کسی شخص کو منتخب کر کے لوگوں کے سامنے اس کی ولی عہد کا اعلان کرے کہ میری وفات کے بعد یہ شخص تمہارا خلیفہ ہو گا اور تم اس کی اتباع کرنا۔ اب ولی عہد تمام جامع شروط الخلافۃ لوگوں میں سے خلافت کے لیے مخصوص ہو جائے گا اور خلیفہ کی وفات کے بعد اسی کو خلیفہ بنانا امت پر لازم ہے۔ خلیفہ اپنی زندگی تک خودمنصبِ خلافت پر فائز رہے گا اور اس کی وفات کے بعد ولی عہد کی بیعت ِاطاعت کی جائے گی جس سے وہ خلیفہ بن جائے گا۔


۳۔ شورٰی۔ شوریٰ کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ جامع الشروط لوگوں میں سے چند آدمیوں کو منتخب کرے اور اہل حل وعقد کو اختیار دیدے کہ ان میں سے جس کو چاہیں خلیفہ منتخب کر لیں خلیفہ کی وفات کے بعد اہل حل وعقد مشاورت کے بعد مقررہ لوگوں میں سے جس کو منتخب کریں گے وہ خلیفہ بن جائے گا۔


٤. (استیلائ): یعنی کوئی شخص استخلاف اور اہل حل و عقد کی بیعت کے بغیر مسندِ خلافت پر غالب ہو جائے۔خلیفہ نے نہ کسی کو ولی عہد بنایا نہ شورٰی بنائی تو خلیفہ کی وفات کے بعد کوئی شخص اہل حل و عقد کی بیعت کے بغیر مسند خلافت پر زبردستی غالب ہو جائے ۔ اس طریقے (یعنی غلبہ وجبر) سے انعقادِ خلافت کی کچھ صورتیں ہیں۔پہلی یہ کہ غلبہ سے مسند خلافت پر غالب شخص میں شروط خلافت کا مل طور پر پائی جائیں۔ دوسری صورت یہ کہ مسند خلافت پر غالب شخص میں اگرچہ منصب ِ خلافت کی شرائط نہیں پائی جاتی ہیں لیکن وہ امور ِریاست سر انجام دینے کا اہل ہے۔تیسری صورت یہ کہ منصب خلافت کی اہلیت نہیں رکھتا، نہ اس کو طاقت و سختی حاصل ہو اور نہ اسے کفایت و استغناء یعنی خود امور سلطنت چلانا اور دوسروں کا محتاج نہ ہونے کی خوبی حاصل ہے۔


جانشینی کا دو درجات ہیں!
١ اپنے اہل میں جانشیں بنانا
٢ اپنے اغیار میں جانشیں بنانا 

١ .


وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ
(بنی اسرائیل وہاں سے آگے بڑھے تو) ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ ٹھیرایا اور دس مزید راتوں سے اُس کو پورا کیا تو (اِس کے نتیجے میں) اُس کے پروردگار کی ٹھیرائی ہوئی مدت، چالیس راتیں پوری ہو گئی۔ ۴۹۵(اِس وعدے کے لیے جاتے ہوئے) موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرو گے اور (لوگوں کی) اصلاح کرتے رہو گے
٢.

اب ذرا یہ روایت ملاحظہ کریں !
ایک حدیث جو خاص اہل سنت کی روایت سے اس امر کا قطعی فیصلہ کرتی ہے جس میں آنحضرت نے مرض الموت میں حضرت عائشہؓ کو فرمایا تھا: عن عائشة قالت قال لي رسول اﷲ! في مرضه: اُدعي لي أبا بکر أباک وأخاک حتی أکتب کتابًا فإنی أخاف أن يتمنّٰی متمنّ ويقول قائل: أنا ويأبی اﷲ والمؤمنون إلا أبابکر (صحيح مسلم: رقم ۲۳۸۷) ''اپنے باپ ابوبکرؓ اور بھائی عبدالرحمنؓ کوبلا کہ میں خلافت کا فیصلہ لکھ دوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کوئی کہنے لگے کہ میں خلافت کا حق دار ہوں حالانکہ اللہ کو اور سب مؤمنوں کو ابوبکرؓ کے سوا کوئی بھی منظور نہ ہوگا۔''
انتخاب امیر کا دوسرا طریقہ جس کو فقہاء نے بالاتفاق درست قرار دیا ہے، وہ یہ کہ خلیفہٴ وقت خود اپنی زندگی میں اپنے بعد کے لیے امیر نامزد کردے، علامہ ماوردی نے اس کے جواز پر اجماع امت نقل کیا ہے،اس کا سب سے بڑا مأخذ حضرت صدیق اکبر کا عمل ہے، کہ آپ نے اپنی وفات سے پیشتر حضرت عمر فاروق کو اپنا جانشین تجویز فرمایا اوراس کا اعلان بھی اپنی زندگی میں فرمادیا، حضرت صدیق کی وفات کے بعد مسلمانوں نے بالاتفاق حضرت عمر کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا، کسی ایک شخص نے بھی حضرت صدیق کے اس انتخاب کی مخالفت نہیں کی، حضرت عمر بن خطاب نے اپنے جانشین کے انتخاب کا یہ طریقہ اختیار فرمایاکہ کسی ایک شخص کو نامزد کرنے کے بجائے معاملہ ارباب حل وعقد کی ایک جماعت کے حوالے کردیا، یہ ایک محفوظ راستہ تھا؛ البتہ اس میں امیر کے اس اختیار پر روشنی پڑتی ہے کہ امیر کے معاملے کو تمام مسلمانوں کے بجائے ایک مخصوص کمیٹی کے حوالے کرسکتا ہے، اس چیز کو بھی تمام صحابہ نے من وعن تسلیم کیا، چنانچہ حضرت عمر کی وفات کے بعد جس وقت اس مجلس منتخبہ کی میٹنگ ہورہی تھی حضرت عباس نے اس مجلس میں شرکت کی خواہش کی تو حضرت علی نے جو اس کمیٹی کے اہم رکن تھے سختی کے ساتھ ان کو روک دیا۔ (الموسوعة الفقہیہ)
حضرت صدیق کے عمل سے ولی عہدی کا دستور جاری ہوا، یعنی امیر کو یہ اختیار حاصل ہوا کہ وہ اپنی حیات میں اپنا جانشین نامزد کردے


حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ نابالغ کو ولی عہد بنایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ امام کی وفات کے بعد ملکی معاملات اور ذمہ داریوں کے لیے عارضی طور پر اس کا کوئی نائب مقرر کردیا جائے، جو ولی عہد کے بلوغ تک امورِ مملکت انجام دے، وعلی عہد کے بالغ ہونے کے بعد نائب خود بخود معزول ہوجائے گا۔ (حاشیہ ابن عابدین ۱/۳۶۹)
دور جدید اور انتخاب خلیفہ (جب خلافت مفقود ہے )


جو حکمراں عوامی انقلاب اور افرادی قوت کے ذریعہ اقتدار میںآ تے ہیں وہ بھی اسی زمرہ میں آتے ہیں، الا یہ کہ خواص اور اہل علم وفضل کا طبقہ بھی اس کی تائید کررہا ہو ، اسلامی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن میں عوامی طاقت کے ذریعہ حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی گئی، اورمتعدد کامیابی بھی ملی، خود حضرت امام حسین کا سفر کوفہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، حضرت عبداللہ بن زبیر نے عوامی انقلاب کے ذریعہ مکہ معظمہ میں اپنی حکومت قائم فرمائی، وغیرہ۔ بعد کے ادوار میں بھی ایسی کئی کوششوں کا تذکرہ ملتا ہے جن میں بعض کو ہمارے مشہور ائمہ کی تائید بھی حاصل ہوئی، مثلاً خلافتِ بنی امیہ کے زمانے۔ (صفر ۱۲۲ھ م ۷۴۰/) میں حضرت زید بن علی نے عوامی تحریض پر حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش فرمائی، جس کو حضرت امام ابوحنیفہ کی تائید حاصل ہوئی، آپ نے ان کو مالی مدد بھی فراہم کی۔ (الجصاص:۱/۸۱، الخیرات الحسان للمکی:۱/۲۶۰)

کیا خلافت مفقود ہو گئی تھی !

 خلافت عامہ!
حضرت شاہ اسماعیل شہید اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

'' پس جیسا کہ کبھی کبھی دریائے رحمت سے کوئی موج سربلند ہوتی ہے اور آئمہ ہدیٰ میں سے کسی امام کو ظاہر کرتی ہے ایسا ہی اللہ کی نعمت کمال تک پہنچتی ہے تو کسی کو تخت خلافت پر جلوہ افروز کر دیتی ہے اور وہی امام اس زمانے کا خلیفہ راشد ہے اور وہ جو حدیث میں وارد ہے کہ خلافت ِراشدہ کا زمانہ رسول مقبول علیہ الصلوٰة والسلام کے بعد تیس سال تک ہے اس کے بعد سلطنت ہو گی تو اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت راشد متصل اور تو اتر طریق پر تیس ٣٠ سال تک رہے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیام قیامت تک خلافت ِراشدہ کا زمانہ وہی تیس سال ہے اور بس۔ بلکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم یہی ہے کہ خلافت راشد ہ تیس سال گزرنے کے بعد منقطع ہو گی نہ یہ کہ اس کے بعد پھر خلافت ِراشدہ کبھی آہی نہیں سکتی۔ بلکہ ایک دوسری حدیث خلافت ِراشدہ کے انقطاع کے بعد پھر عود کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ چنانچہ نبی ﷺنے فرمایا ہے:

تکون النبوة فیکم ماشاء اﷲ ان تکون ثم یرفعہا اﷲ تعالیٰ ثم تکون خلافة علی منہاج النبوة فیکم ماشاء اﷲ ان تکون ثم یرفعہا اﷲ ثم تکون ملکاً عاضا فیکون ماشاء اﷲ ان یکون ثم یرفعہا اﷲ ثم یکون ملکاً جبرّیاً فیکون ماشاء اﷲ ان یکون ثم یرفعہا اﷲ تعالیٰ ثم تکون خلافة علیٰ منہاج النبوة ثم سکت.(منصب امامت ص١١٦۔١١٧)

'' نبوت تم میں رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھالے گا اور بعد نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی جو اللہ کے منشاء تک رہے گی پھر اسے بھی اللہ اٹھا لے گا۔پھر بادشاہی ہو گی اور اسے بھی اللہ جب تک چاہے گا رکھے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا۔ پھر سلطنت جابرانہ ہو گی جو منشاء باری تعالیٰ تک رہے گی۔ پھر اسے بھی اُٹھالے گا ا

 · 

  • یہ درست ہے کہ خلافت اسلام کا اصل نظام ہے البتہ اگر بادشاہ اللہ کے قانون کو لوگوں پر نافذ کرے تو اسلام ایسی ملوکیت کو بالکلیہ غلط نہیں کہتا ۔آج مغربی جمہوریت سے متاثر ہو کر لوگ ملوکیت کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ ملوکیت فی نفسہ مذموم نہیں۔دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
    ۱۔ ۔۔رسول اللہ ﷺ نے شاہِ فارس خسر و پرویز کو یہ پیغام بھی بھیجا کہ اگر تم مسلمان ہو جائو تو جو کچھ تمہارے زیر ِاقتدار ہے وہ سب میں تمہیں دے دوں گا اور تمہیں تمہاری قوم کا بادشاہ بنا دوں گا (رحیق المختوم)
    ۲۔۔رسول اللہ ﷺ نے بادشاہت کو رحمت قرار دیا :عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
    ‘‘اس دین کا ابتدائی حصہ نبوت اور رحمت ہے پھر خلافت اور رحمت ہو گا پھر بادشاہت اور رحمت ہو گی پھر اس بادشاہت پر لوگ گدھو ں کی طرح ایک دوسرے کو کاٹیں گے تب تم پر جہاد لازم ہو گا ۔اور افضل جہا د سرحدوں کی حفاظت ہے ۔(سلسلۃ الصحیحہ للالبانی :3270،المعجم الکبیر للطبرانی رقم:۱۰۹۷۵)
    ۳۔۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر احسان جتلاتے ہوئے بادشاہت کو انعام قرار دیا:{وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْن}(المائدہ20)
    اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیں جب تم میں سے انبیاء بنائے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ عطا فرمایا جو تم سے پہلے دنیا میں کسی کونہ دیا گیا۔
    ۴۔۔۔دائود علیہ السلام کے بیٹے سلیمان علیہ السلام نے خود اللہ تعالیٰ سے بادشاہت کے لئے یوں دعا فرمائی۔{قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکاً لَّا یَنبَغِیْ لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ إِنَّکَ أَنتَ الْوَہَّاب}
    اے میرے رب مجھے معاف فرما اور مجھے ایسی بادشاہت دے جو میرے بعد کسی کو نہ ملے بلاشبہ تو بڑا عطا فرمانے والا ہے (صٓ ۳۵)
    ۵۔۔داود علیہ السلا م بیک وقت بادشاہ بھی تھے اور خلیفہ بھی {وَآتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃ} اور اللہ نے (داود کو )بادشاہت اور حکمت عطا فرمائی‘‘(البقرہ ۲۵۱)){یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ} (صٓ ۲۶)’’اے دائود ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کرنا‘‘
    ۶۔۔۔بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے عرض کیا کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ مقرر کر دیجئے تو اللہ نے ان پر بادشاہ مقرر کردیا:
    وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ إِنَّ اللّہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکاً }(البقرہ ۲۴۷)
    ان کے نبی نے ان سے کہا اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بودشاہ مقرر کیا ہے
    ان حوالہ جات سے واضح ہے کہ بادشاہت فی نفسہ بری چیز نہیں۔ جو بادشاہ اللہ تعالیٰ کو قانون ساز تسلیم کرے پھر اس کے احکام پر خود بھی چلے اور لوگوں پر بھی ان احکام کو نافذ کرے تو یقینا وہ ’’الامیر‘‘اور ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ہی کے حکم میںہے۔
    ۷۔۔۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین بن جاتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ (بخاری۳۴۵۵، مسلم۱۸۴۲)
    جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اسلام بارہ خلیفوں تک ہمیشہ قوی رہے گا اور وہ سب قریش میں سے ہیں ۔ (بخاری۷۲۲۲ و مسلم۱۸۲۱)
    اس حدیث نے وضاحت کردی کہ خلافت صرف چار خلفاء تک محدود نہیں۔ یقینا بنوامیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں میں سے بہت سے خلفاء بھی تھے۔
    عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی جب تک کہ ان میں دو آدمی باقی رہیں۔ (بخاری۳۵۰۱ و مسلم۱۸۲۰)
    ۸۔۔صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین کے بہترین ادوار میں مسلمانوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں کی بیعت کی ان کی غلط بات کا انکار کیا لیکن جماعت اور امیر جماعت سے الگ نہ ہوئے۔ کیونکہ رسولﷺ نے ایسا کرنے کا حکم دیا۔
    آپ ﷺنے فرمایا ’’تم پر امیر ہوں گے ان کے بعض کام تم اچھے سمجھو گے اور بعض کو برا سمجھو گے جس نے ان کی غلط بات کا انکار کیا وہ بری ہوا اور جس نے ان کی بری بات کو مکروہ جانا وہ سالم رہا اور لیکن جو ان کی بری بات پر راضی ہوا اور ان کی پیروی کی (وہ نقصان میں رہا)‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا ’’کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟‘‘ فرمایا ’’نہیں جب تک وہ نماز پڑھیں۔ نہیں جب تک وہ نماز پڑھیں ‘‘۔(مسلم۱۸۵۴)
    رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ جو شخص اپنے امیر میں کوئی ایسی چیز دیکھے جس کو وہ مکروہ سمجھتا ہے پس چاہئے کہ وہ صبر کرے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی جدا ہوا اور اس حال میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔ (بخاری ۷۰۵۳و مسلم۱۸۴۹)



    • حافظ  صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:بات دراصل یہ ہے کہ اسلام میں اصل مطاع اور قانون ساز اللہ ہے۔ خلیفہ کا منصب نہ قانون سازی ہے نہ اس کی ہر بات واجب الاطاعت ہے۔ وہ اللہ کے حکم کا پابند اور اس کو نافذ کرنے والا ہے اور اس کی اطاعت بھی اسی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔حکمرانی کا یہ اسلامی تصور پہلے چار خلفاء کے دل و دماغ میں جس شدت کے ساتھ جاگزیں تھا بعدمیں یہ تصور بتدریج دھندلاتا چلا گیا۔ اسی کیفیت کو بادشاہت کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ورنہ فی الواقع بادشاہت اسلام میں مذموم نہیں۔ عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ اصطلاحی طور پر بادشاہ ہی تھے یعنی طریقہ ولی عہدی ہی سے خلیفہ بنے تھے لیکن اپنے طرزِ حکمرانی کی بناء پر اپنا نیک نام چھوڑ گئے۔ اسی طرح اسلامی تاریخ میں اور بھی متعدد بادشاہ ایسے گزرے ہیں جن کے روشن کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق مزین اور جن کی شخصیتیں تمام مسلمانوں کی نظروں میں محمود و مستحسن ہیں … پھر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اسلام میں فی نفسہٖ بادشاہت کوئی مذموم شے نہیں۔ صرف وہ بادشاہت مذموم ہے جو اللہ اور رسول کی بتلائی ہوئی حدود سے ناآشنا ہو جس طرح ہمارے دور کے حکمران ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کو اگر کوئی شخص ’’امیرالمومنین‘‘ کا لقب بھی دیدے تب بھی وہ مشرف بہ اسلام نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی نظروں میں وہ مبغوض ہی ہیں تاآنکہ وہ اللہ کو مطاع حقیقی اور قانون ساز تسلیم کرکے اپنے آپ کو اس کے احکامات کا پابند اور ان کو نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ (خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت صفحہ399)


انسان الله کا خلیفہ ہے ! حصہ: اول

انسان الله کا خلیفہ ہے !( حصہ: اول )

رشاد باری تعالیٰ ہے :
”ولقد کرمنا بنی آدم وحملنھم فی البر والبحر ورزقنھم من الطیبت وفضلنھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا “ (سورة الاسراء ،۷۰)
ترجمہ: ” اور ہم نے آدم کی اولا دکو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں ان کو عطافرمائیں اور ہم نے ان کو بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی“۔
اس کے ساتھ ہی اللہ جل شانہ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرماکر انسان کو خلافت سے بھی نوازا اور فرشتوں کے سامنے اعلان فرمادیا :
”واذقال ربک للملئکة انی جاعل فی الارض خلیفة “ (سورةالبقرة،۳۴)
ترجمہ: ”اورجس وقت آپ کے رب نے فرشتوں کے سامنے ارشاد فرمایا کہ ضرور میں بناوٴں گا زمین پر ایک نائب“۔ 

انسان کے لیے کائنات کو تسخیر کیا گیا !
اسکے دو درجات ہیں !
١. خلافت عقلی : بقول وحید الدین خان،
کائنات اک بہت بڑی کتاب کی مانند ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے مگر یہ اک ایسی انوکھی کتاب ہے جس کے کسی صفحہ پر اس کا موضوع اور اسکے مصنف کا نام تحریر نہیں اگر چہ اس کتاب کا اک اک حرف یہ بول رہا ہے کہ اس کا موضوع کیا ہوسکتا ہے اور اسکا مصنف کون ہے – جب کوئی شخص آنکھ کھولتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ اک وسیع و عریض کائنات کے درمیان کھڑا ہے تو بالکل قدرتی طور پر اس کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ ---- " میں کون ہوں اور یہ کائنات کیا ہے –" وہ اپنے آپ کو اور کائنات کو سمجھنے کیلئے بے چین ہوتا ہے اپیہ فطرت میں سموئے ہوئے اشارات کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے دنیا میں وہ جن حالات سے دوچار ہورہا ہے چاہتا ہے کہ وہ انکے حقیقی اسباب معلوم کرے غرض اس کے ذہن میں بہت سے سولات اٹھتے ہیں جنکا جواب معلوم کرنے کیلئے وہ بیقرار رہتا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ اس کا جواب کیا ہوسکتا ہے یہ سوالات محض فلسفیانہ قسم کے سوالات نہیں ہیں بلکہ یہ انسان کی فطرت اور اسکے حالات کا قدرتی نتیجہ ہیں – یہ ایسے سوالات ہیں جن سے دنیا میں تقریبا ہر شخص کو اک بار گزرنا ہوتا ہے – جن کا جواب نہ پانے کی صورت میں کوئی پاگل ہوجاتا ہے ،کوئی خودکشی کرلیتا ہے ،کسی کی ساری زندگی بے چینیوں میں گذرجاتی ہے اور کوئی اپنے حقیقٰی سوال کا جواب نہ پاکر دنیا کی دلچسپیوں میں کھوجاتا ہے اور چاہتا ہے اسی میں گم ہوکر اس ذہنی پریشانی سے نجات حاصل کرے – وہ جو کچھ حاصل کرسکتا ہے اسکو حاصل کرنے کی کوشش میں اسکو بھلا دیتا ہے جس کو وہ حاصل نہ کرسکا -

یہ عمل قیامت تک جاری رہے گا ،
علامہ کہتے ہیں !وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
حیات کیا ہے ، خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں
عجب مزا ہے ، مجھے لذت خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں
ضمیر پاک و نگاہ بلند و مستی شوق
نہ مال و دولت قاروں ، نہ فکر افلاطوں
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے ‘کن فیکوں’
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
٢ . خلافت تکوینی  !
یعنی مادی اصولوں کے خلاف غیر مادی اسباب سے تسخیر اسباب جسکو معجزہ یا کرامت کہینگے ،
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
لغت کے اعتبار سے"کرامات" لفظ "کرامۃ" کی جمع ہے، جس کا معنی ہے "خارقِ عادت امر" یعنی انسانوں میں معلوم ومعروف امر کے برعکس امر کا وقوع۔
کرامت کی شرعی تعریف
شرعی اصطلاح میں کرامت سے مراد وہ خرق ِعادت امور جنہیں اللہ تعالی اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری فرماتا ہے۔
ولی کی شرعی تعریف
"الاولیاء" لفظ "ولی" کی جمع ہے۔ اور ولی (ہر) مومن ومتقی شخص کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ

(یونس: 62-63)
(یاد رکھو اللہ تعالی کے دوستوں (اولیاء اللہ) پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وہ ہیں کہ جو ایمان لائے اور (برائیوں) سے پرہیز کرتے ہیں یعنی تقوی اختیار کرتے ہیں)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے فرمایا: ‘‘اہل سنت کے (عقیدے کے) اصول میں سے یہ بات بھی ہےکہ کرامات اولیاء اور جو خرقِ عادت امور، مختلف علوم ومکاشفات اور مختلف قسم کی قدرتوں اور تأثیرات کے حوالے سے ان کے ہاتھوں رونما ہوتے ہیں، کی تصدیق کی جائے۔ اسی طرح سے سابقہ امت سے سورۂ کہف وغیرہ میں جو منقول ہے اور اس امت کے اول طبقہ صحابہ کرام، تابعین y اور امت کے دیگر افراد سے جو کرامات منقول ہیں، کی تصدیق کی جائے۔ اور یہ کرامات اس امت میں قیامت تک موجود رہیں گی’’۔



خلافت بہ معنا حکومت !


'' یقینا میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں۔''

امام قرطبی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

۲۔(ہٰذِہ الاٰیةُ اَصْل فِی نَصْبِ اَمِامٍ وَخَلَیفة یُسْمَعُ لہُ ویْطَاعْ لتجتمع بہ الکلمة وتَنْفُذُ بِہ احکام الخَلِیْفَةِ ولا خلافَ فیِ وُجُوبِ ذٰلِکَ بَیْنَ الأمةولَابَیْنَ الأئمة )[الجامع لاحکام القرآن١/٢٥١]

'' یہ آیت امام و خلیفہ کے تقرر کے بارے میں قاعدہ کلیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسا امام جس کی بات سنی جائے اور اس کی اطاعت کی جائے تاکہ کلمہ (اسلام کی شیرازہ بندی) اس سے مجتمع رہے اور خلیفہ کے احکام نافذ ہوں۔ امت اور آئمہ میں خلیفہ کے تقرر کے واجب (فرض کفایہ) ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔'
انبیاء علیہم السلام کی بعثت ایسے وقت میں ہوتی ہے جبکہ دنیا میں ظلمت اور تاریکی کا دور دورہ ہوتا ہے اور’’ظھر الفساد فی البر والبحر‘‘ کی کیفیت ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے طفیل اللہ تعالیٰ ان ظلمتوں اور اندھیروں کو اپنے نور کے ذریعہ زائل کرتا ہے اور ایمان لانے والی اور عمل صالح کرنے والی جماعتیں کھڑی کر دیتا ہے۔ 



  •  قرآن کریم میں جہاں جہاں خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بعد الارض کا لفظ بھی ضرور آیا ہے اور "إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً" سے ثابت ہوا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے آدمی یعنی بنی آدم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے ،بنی آدم کا اشرف المخلوقات ہونا ظاہر اور نوع انسان کا زمینی مخلوقات پر حکمراں ہونا عیاں ہے پس یہ خلافت انسان کی جو زمین کے ساتھ مخصوص ہے یقیناً خلافت الٰہیہ ہے اور نوع انسان خلیفۃ اللہ ؛لیکن خدائے تعالیٰ کی ذات جو سب کی خالف ومالک ہے،اس سے بہت اعلیٰ وارفع ہے کہ من کل الوجوہ کوئی مخلوق چاہے وہ اشرف المخلوقات ہی کیوں نہ ہو اس کی جانشین یعنی خلیفہ ہوسکے پس نوع انسان کی خلافت الہیہ من وجہ تسلیم کرنی پڑے گی اور وہ بجز اس کے اورکچھ نہیں ہوسکتی کہ جس طرح خدائے تعالیٰ تمام موجودات مخلوقات کا حقیقی حکمراں اورشہنشاہ ہے اسی طرح زمین میں صرف نوع انسان ہی تمام دوسری مخلوقات پر بظاہر حکمراں نظر آتی ہے اور ہر چیز اورہر زمینی مخلوق سے اپنی فرماں برداری انسان کرالیتا ہے


انبیا کی خلافت !
''لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَےِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَامَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِےْزَانَ لِےَقُوْمَ النَّاسُ بِا لْقِسْطِ۔۔۔'' ٢
''اور ہم نے اپنے انبیاء کو واضح نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب (قانون ) اور میزان (عدالت )کو بھی نازل کر دیا تاکہ لو گوں میں انصاف کو قائم کریں ''
انبیا کا مقام پوری امّت سے بالاتر ہوتا ہے اسلئے انبیا کے بعد خلافت امتوں تفویض ہوتی ہے !

 وَعَدَ اﷲ ُالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَکِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُوْنَنِیْ لَا يُشْرِکُوْنَ بِیْ شَيْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۤئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ. (نور ٢٤:٥٥)'' تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو اس ملک میں اقتدار عطا فرمائے گا۔جس طرح اس نے ان لوگوں کو عطا فرمایا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو مضبوطی سے قائم کردے گا جو اس نے ان کے لیے پسند فرمایااور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرے ساتھ شریک نہ کریں گے۔اور جو اس کے بعد پھر منکر ہوں گے وہی ہیں جو نافرمان ٹھیریں گے۔ ''
خلافت راشدہ !

''اللہ کے جو پیغمبر بھی اس دنیا میں آئے،قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی دعوت الی اللہ اور انذار و بشارت کے لیے آئے۔ سورہ بقرہ کی آیت 'کان الناس امة واحدة فبعث اللّة النبيين مبشرين و منذرين ' میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔ ان نبیوں میں سے اللہ تعالیٰ نے جنھیں رسالت کے منصب پر فائز کیا،ان کے بارے میں البتہ، قرآن بتاتا ہے کہ وہ اس انذار کو اپنی قوموں پر شہادت کے مقام تک پہنچا دینے کے لیے بھی مامور تھے۔ قرآن کی اصطلاح میں اس کے معنی یہ ہیں کہ حق لوگوں پر اس طرح واضح کر دیا جائے کہ اس کے بعد کسی شخص کے لیے اس سے انحراف کی گنجایش نہ ہو: 'لئلا يکون للناس علی اللّٰه حجة بعد الرسل' ( تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے )۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رسولوں کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ ان کے ذریعے سے اسی دنیا میں برپا کر دیتے ہیں۔ انھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے میثاق پر قائم رہیں گے تو اس کی جزا اور اس سے انحراف کریں گے تو اس کی سزا انھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا ان کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہی شہادت ہے۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو جن کے ذریعے سے قائم ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ انھیں غلبہ عطا فرماتے اور ان کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں۔''(قانون دعوت 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت مختلف مراحل طے کرتے ہوئے، جب اپنے اتمام کو پہنچی تو عرب کی سر زمین سیاسی اعتبار سے ایک ریاست کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ قبل ازیں عرب قبائل اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار حیثیت سے رہتے تھے۔اگرچہ ان میں رہن سہن، رسوم ورواج، لباس وطعام اور مذہبی عقائد و اعمال کااشتراک تھا، لیکن یہ اشتراک انھیں کسی سیاسی وحدت میں تبدیل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ہماری مراد یہ ہے کہ وہ کسی ایک سیاسی یا اجتماعی نظام میں جڑے ہوئے نہیں تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی کامیابی کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کی اٹھائی ہوئی دینی اور اخلاقی اصلاح کی تحریک بڑے پیمانے پر کامیاب ہوئی۔ دوسرا یہ کہ عرب منتشر اور متفرق گروہوں میں منقسم نہیں رہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں ایک سیاسی وحدت کی صورت اختیار کر گئے۔

شرائط خلافت !
نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ
مَا بَالُ رِجَالٍ یَشْتَرِطُوْنَ شُرُوْ طًا لَیْسَتْ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ مَا کَانَ مِنْ شَرْطٍ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ فَھُوَ بَاطِلٌ وَ اِنْ کَانَ مِائَۃَ شَرْطٍ قَضَاءُ اللّٰہِ اَحَقُّ وَ شَرْطُ اللّٰہ اَوْثَقُ
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا اللہ کی کتاب میں پتہ نہیں۔ جو شرط اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرطیں بھی ہوں ۔ اللہ ہی کا حکم حق ہے اور اللہ ہی کی شرط پکی ہے ۔ ( بخاری ،کتاب البیوع۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا)
 عاقل و بالغ ہو
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ !
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ﴿﴾ وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰٓی اِذَا بَلَغُوْا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْآ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ 
اور نہ دو کم عقلوں کو اپنے مال جس کو بنایا اللہ نے تمہارے لیے ذریعہ گزران اور کھلاؤ انہیں اس میں سے اور پہناؤ بھی اور سمجھاؤ انہیں اچھی بات۔ اور جانتے پرکھتے رہو یتیموں کو یہاں تک کہ جب پہنچ جائیں نکاح کی عمر کو ، پھر اگر تم پاؤ ان میں عقل کی پختگی تو دے دو ان کو مال ان کے۔ (۴:النساء۔۵،۶)
درج بالا آیات میں یتیموں کوان کے مال صرف اس وقت حوالے کرنے کا حکم نکلتا ہے جب وہ عاقل و بالغ ہو جائیں۔ جب کسی کو اس کا مال اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ عاقل و بالغ نہ ہو جائے تو اہل ِ ایمان کی سیاست کی ذمہ داری کسی ایسے فردکو کیونکر دی جا سکتی ہے جو عاقل و بالغ نہ ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خلیفہ صرف اسی کو بنایا جائے گا جو عاقل و بالغ ہو ۔
 خلافت کی خواہش سے بے نیاز ہو
جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ!
تَجِدُوْنَ النَّاسِ مَعَادِنَ فَخِیَارُھُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقُھُوْا وَ تَجِدُوْنَ مِنْ خَیْرِ النَّاسِ فِی ھٰذَا الْاَمْرِ اَکْرَھُھُمْ لَہ‘ قَبْلُ اَنْ یَّقَعَ فِیْہِ 
تم لوگوں کو معدن (معدنی کان سے نکلی ہوئی چیز) کی مانند پاؤ گے جو جاہلیت میں اچھا ہوتا ہے وہی اسلام میں بھی اچھا ہوتا ہے جب وہ دین کی سمجھ پیدا کرلے اور تم اس امر(خلافت) کے لیے وہی آدمی زیادہ موزوں پاؤ گے جو اس کو بہت بری چیز خیال کرے تا آنکہ ایسا شخص خلیفہ بنا دیا جائے۔ 
 مرد ہو
نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ!
لَنْ یُّفْلِحَ قَومٌ وَلَّوْا اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً
وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو عورت کو اپنا حاکم بنائے۔ 
(بخاری ،کتاب المغازی ۔ابو بکرہ رضی اللہ عنہ)
 اہل ِ ایمان میں سے ہو 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ! 
یٰٓاَ یُّھَاا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی ا لْاَ مْرِ مِنْکُمْ 
اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور صاحبانِ امر کی جو تم (اہل ایمان) میں سے ہوں۔ 
(۴:النساء ۔ ۵۹)
اک اور اہم معاملہ قرشی ہونے کا ہے !
نبیﷺ کے ارشادات ہیں کہ!
اَلاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ
امامت قریش میں رہے گی۔ (احمد: باقی مسند المکثرین۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ) 
لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْش ٍمَا بَقِیَ مِنْھُمُ اثْنَان ِ
یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی بے شک ان (قریش ) میں سے دو ہی آدمی باقی رہ جائیں۔
(بخاری ،کتاب الاحکام ۔عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ)
لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْش ٍمَا بَقِیَ مِنَ النَّاسِ اثْنَانِ
یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی بے شک انسانوں میں سے دو ہی آدمی باقی رہ جائیں۔ 
(مسلم:کتاب الامارۃ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ)
اِنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ فِیْ قُرَیْشٍ لَا یُعَادِیْھِمْ اَحَدَ اِلَّا کَبَّہُ اللّٰہُ عَلَی وَجْھِہٖ مَٓا اَ قَامُوْا الدِّیْنَ
یہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے اور جو کوئی ان سے دشمنی کرے گا اللہ اس کو اوندھے منہ جہنم میں گرائے گا۔ ( بخاری: کتاب الاحکام۔امیر معاویہ رضی اللہ عنہ)
حدیث بالا سے عام طور پر لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جب قریش دین کو قائم نہ رکھیں گے تو خلافت ان سے چھن کر غیر قریشیوں کے سپرد ہو جائیگی لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات واضح ہیں کہ ’’یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی‘‘ اس بنا پر آپ کے اس ارشاد کہ ’’ یہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے‘‘ کا صاف مطلب یہ سامنے آتا ہے کہ جب قریش دین کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو خلافت سرے ہی سے ختم ہو جائیگی نہ کہ غیر قریش کو منتقل ہو جائیگی درج بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غیر قریشی کی خلافت غیر شرعی ہو گی۔
ہنگامی حالات !
حبشی غلام کی خلافت کا مسئلہ 
نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ!
اِسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌ کَانَ رَأَسُہ‘ زَبِیْبَۃٌ
حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو بے شک تم پر ایک حبشی غلام مقرر کیا جائے جس کا سر منقے کی طرح ہو۔
(بخاری:کتاب الاحکام۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ)
اِنْ اُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ مُجَدَّعٌحَسِبْتُھَا قَالَتْ اَسْوَدُ یَقُوْدُکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَاَطِیْعُوْا۔
اگر تمہارے اوپر ہاتھ پاؤں کٹا کالا غلام بھی امیر بنایا جائے اور وہ تمہیں کتاب اللہ کے ساتھ چلائے تو اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ ( مسلم: کتاب الامارۃ ۔جدت یحیٰ بن حصین رضی اللہ عنہا)
بعض لوگ نبیﷺ کے درج بالا ارشاد ات کی بنا پرغیر قریشی کے علاوہ کسی غلام کو بھی خلیفہ بنانا جائز سمجھتے ہیں ۔جبکہ آپﷺ کے ارشادات کو غور سے پڑھنے سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے اسْتَعْمِلَ(استعمال کیا جائے) اور اُمِّرَ( امیرمقرر کیا جائے ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔جو اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اس استعمال کیے جانے والے یا مقرر کیے جانے والے امیرکے پس منظر میں اس سے بھی بڑی کوئی ایسی اتھارٹی موجود ہے جو اس کو استعمال کر رہی ہے یا امیرمقرر کر رہی ہے اور یہ بات طے ہے کہ کتاب و سنت میں امت کے اندر اللہ کے بعد سب سے بڑی اتھارٹی نبی کی ہوتی ہے اور اُس کے بعد خلیفہ کی جو امیر مقرر کرتی ہے جیسا کہ ذیل کی حدیث سے واضح ہوتا ہے ۔ 
بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ سَرِیَّۃً وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ رَجُلًا مِّنَ الْاَنْصَارِ وَاَمَرَ ھُمْ اَنْ یَّسْمَعُوْا لَہٗ وَ یُطِیْعُوْ ہُ 
رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک انصاری کو امیر مقررکیا اور لوگوں کو اس کا حکم سننے اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ۔ (مسلم :کتاب الامارۃ۔علی رضی اللہ عنہ)
درج بالا احادیث سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مقرر کیا جانے والا امیرخلیفہ نہیں بلکہ خلیفہ کی طرف سے مقرر کیا جانے والا کوئی ذیلی حاکم (سپہ سالار یا کسی صوبے یا محکمے کا امیر) ہے جو غیر قریشی بھی ہو سکتا ہے اور غلام بھی لیکن وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا ۔ 
حبشی غلام کی خلافت کا مسئلہ 
نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ!
اِسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌ کَانَ رَأَسُہ‘ زَبِیْبَۃٌ
حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو بے شک تم پر ایک حبشی غلام مقرر کیا جائے جس کا سر منقے کی طرح ہو۔
(بخاری:کتاب الاحکام۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ)
اِنْ اُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ مُجَدَّعٌحَسِبْتُھَا قَالَتْ اَسْوَدُ یَقُوْدُکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَاَطِیْعُوْا۔
اگر تمہارے اوپر ہاتھ پاؤں کٹا کالا غلام بھی امیر بنایا جائے اور وہ تمہیں کتاب اللہ کے ساتھ چلائے تو اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ ( مسلم: کتاب الامارۃ ۔جدت یحیٰ بن حصین رضی اللہ عنہا)
بعض لوگ نبیﷺ کے درج بالا ارشاد ات کی بنا پرغیر قریشی کے علاوہ کسی غلام کو بھی خلیفہ بنانا جائز سمجھتے ہیں ۔جبکہ آپﷺ کے ارشادات کو غور سے پڑھنے سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے اسْتَعْمِلَ(استعمال کیا جائے) اور اُمِّرَ( امیرمقرر کیا جائے ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔جو اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اس استعمال کیے جانے والے یا مقرر کیے جانے والے امیرکے پس منظر میں اس سے بھی بڑی کوئی ایسی اتھارٹی موجود ہے جو اس کو استعمال کر رہی ہے یا امیرمقرر کر رہی ہے اور یہ بات طے ہے کہ کتاب و سنت میں امت کے اندر اللہ کے بعد سب سے بڑی اتھارٹی نبی کی ہوتی ہے اور اُس کے بعد خلیفہ کی جو امیر مقرر کرتی ہے جیسا کہ ذیل کی حدیث سے واضح ہوتا ہے ۔ 
بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ سَرِیَّۃً وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ رَجُلًا مِّنَ الْاَنْصَارِ وَاَمَرَ ھُمْ اَنْ یَّسْمَعُوْا لَہٗ وَ یُطِیْعُوْ ہُ 
رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک انصاری کو امیر مقررکیا اور لوگوں کو اس کا حکم سننے اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ۔ (مسلم :کتاب الامارۃ۔علی رضی اللہ عنہ)
درج بالا احادیث سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مقرر کیا جانے والا امیرخلیفہ نہیں بلکہ خلیفہ کی طرف سے مقرر کیا جانے والا کوئی ذیلی حاکم (سپہ سالار یا کسی صوبے یا محکمے کا امیر) ہے جو غیر قریشی بھی ہو سکتا ہے اور غلام بھی لیکن وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا ۔