ہفتہ، 29 مارچ، 2014

" بچوں کا ادب "

" بچوں کا ادب "


کہتے ہیں ہر آدمی کے اندر ایک بچہ ہوتا ہے کچھ کے اندر کا بچہ گھٹ کر مر جاتا ہے اور کچھ کا فرار ہو جاتا ہے یہ بچہ زندگی کی علامت ہے یہ بہت حساس ہوتا ہے اسے زندہ رکھنا ہے تو اس سے دوستی کرلیجئے لیکن اسکے لیے آپ کو اپنا بچپن یاد رکھنا ہوگا ...

بڑوں کا بچوں سے تعلق ختم ہو گیا ہے یا بچپن سے تعلق ختم ہوگیا ہے انہوں نے خواہشات کے کھلونے تو خرید لیے ہیں لیکن انکے اندر کا بچپن مرجھا چکا ہے ....

کھلونے پا لیے ہیں میں نے لیکنمرے اندر کا بچہ مر رہا ہے

آج کے بڑے بچوں سے بہت شاکی ہیں انکو اپنے بچوں سے شکایات ہیں انکے کچھ تحفظات ہیں .................لوگ کہتے ہیں بچوں میں ادب کا بہت فقدان ہو گیا ہے جناب اگر بچے بھی ادب آداب کے چکر میں پڑ جائیں تو وہ بچے کہاں رہینگے بچہ تو نام ہی ہے مستی کا شرارت کا اگر بچہ شرارت نہ کرے تو سمجھیں وہ بڑا ہو گیا ہے .......نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے ان بڑوں کو جنکے گھروں کے بچے شرارت نہیں کرتے بچوں میں سنجیدگی بیماری ہے جسکا واحد علاج ہے مستی بچہ جتنی مستی کرے گا اتنا ہی صحت مند قرار دیا جاۓ گا .......

یہ نیا دور ہے اور اس دور کے بچے سمجھدار ہیں کیا خوب کہا تھا پروین شاکر نے

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریںبچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

بچوں کو ادب سکھانے سے زیادہ مفید کام ہے بچوں کا ادب تخلیق کیا جاۓ بچے خود ادب سیکھ جائینگے کسی دور میں حکیم سعید ہوتے تھے پھر لوگوں نے انکو شہید کر دیا پچھلی اور اس سے پچھلی نسل کی تربیت میں انکے "نونہال " کا ہاتھ بھی ہے ...سعید سیاح کے سفر نامے، جاگو جگاؤ اور پھر انکی ٹیم مسعود احمد برکاتی ، تورا کینہ قاضی اور خاص الخاص اشتیاق احمد ....کون ہے جو انسپکٹر جمشید سے واقف نہیں پھر بڑے بچے ٹین ایجرز جو عمران اور فریدی کے عشق میں مبتلا تھے ..بیشمار گمنام اور نامور لکھنے والے جنکے بیشمار نامور اور گمنام شہکار و کردار بچوں کے ادب کی آبیاری کرتے رہے ...اب جب سے جدید آئ ٹی کا دور آیا ہے نہ بچوں کا ادب باقی رہا ہے اور نہ ہی بچوں میں ادب باقی رہا ہے بلکہ بچے اب بچے نہیں دکھائی دیتے ....سوشل میڈیا ایک جن ہے جو بوتل سے باہر آ چکا ہے اور بوتل ٹوٹ چکی ہے اب یہ جانے والا نہیں لوگوں نے اسکو اپنی اپنی افتاد طبع خیالات اور نظریات کے تحت استعمال کرنا شروع کر دیا ہے .

ایک تجزیہ کے مطابق سات سے انیس سال کے بچے یعنی ٹین ایجرز تک سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں انکے لیے بچوں کے ادب کی تخلیق ادیبوں پر بچوں بلکہ انکے بچپن کا قرض ہے

عمرو عیار ، طلسم ہوشربا ، داستان امیر حمزہ ، چلوسک ملوسک ، ٹوٹ بٹوٹ ، الف لیلیٰ اور ایسی ہی ایک طویل فہرست جس نے بچوں کو ادب ہی نہیں زبان و بیان سے بھی متعرف کرایا آج بھی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کے ادیب اس قرض کو جو سود کے ساتھ انپر چڑھتا چلا جا رہا ہے ادا کرنے کی کوشش بلکہ اس کوشش کی کوشش کریں ...

کیا کوئی ہے اس نقار خانے میں .....

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: