جمعہ، 25 دسمبر، 2015

http://urduvilla.com/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D8%B7%D9%84%D8%A8-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%9F/

پاکستان کا مطلب کیا ... ؟
آج قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کا یوم پیدائش ہے اورہمیشہ کی طرح قائد کی شخصیت کو لیکر سیکولر حلقے یہ بحث دوبارہ سامنے لائے ہیں کہ پاکستان کے تناظر میں بابائے قوم کی دینی فکر کیا تھی اور کیا انکا مقصود ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا یا کہ وطنی و قومی سیکولر ریاست کا قیام .....


اس سے پہلے کہ اس حوالے سے مزید بات کی جاوے اگر ہم تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان میں سب سے بڑا عنوان ہی اسلام کو بنایا گیا تھا اور اس بات کا اندازہ ان نعروں سے ہو جاتا ہے کہ جو اس وقت لگائے گئے ........
اس دور کا ایک لازوال نعرہ تھا "پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الہٰ الا اللہ"
یہ نعرہ در اصل تحریک پاکستان کے مجاہد پروفیصور اصغر سودائی مرحوم کی معروف نظم کا حصہ تھا
. اصغر سودائی جب مرے کالج میں زیر تعلیم تھے تو 1944 میں ایک جلسہ عام مین اپنی نظم پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ سنائی یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ مرے کالج کے در و دیوار سے نکل کر پورے ہندوستاں کے گلی کوچوں میں زباں زد عام ہو گئی
تحریک پاکستان کے زمانہ عروج میں جب نیشنل کانگریس اور ان کے حواری نیشنلسٹ مسلمانوں سے تضحیک کے انداز میں پوچھا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا تو اس کے جواب میں 1944 کی نظم سنا کر دیتے تھے کہ
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ
لیجئے وہ نظم ملاحظہ کیجیے
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
شب ظلمت میں گزاری ہے
اٹھ وقت بیداری ہے
جنگ شجاعت جاری ہے
آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
ہادی و رہبر سرور دیں
صاحب علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں
احمد مرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
چھوڑ تعلق داری چھوڑ
اٹھ محمود بتوں کو توڑ
جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ
غیر اللہ کا نام مٹا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
جرات کی تصویر ہے تو
ہمت عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو
آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
نغموں کا اعجاز یہی
دل کا سوز و ساز یہی
وقت کی ہے آواز یہی
وقت کی یہ آواز سنا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
ہنجابی ہو یا افغان
مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان
ایک رسول اور ایک خدا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
تجھ میں ہے خالد کا لہو
تجھ میں ہے طارق کی نمو
شیر کے بیٹے شیر ہے تو
شیر بن اور میدان میں آ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
مذہب ہو تہذیب کہ فن
تیرا جداگانہ ہے چلن
اپنا وطن ہے اپنا وطن
غیر کی باتوں میں مت آ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
اے اصغر اللہ کرے
ننھی کلی پروان چڑھے
چھول بنے خوشبو مہکے
وقت دعا ہے ہاتھ اٹھا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
از اصغر سودائی مرحوم
ایک قول جو کہ جناح صحاب مرحوم سے منسلک کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ
" یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے اور اسی لیے قائد اعظم نے کہا تھا کہ: ”تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔“
گو کہ یہ بات تحقیق طلب ہے
اسی طرح جب لیگی حضرت کا کانگریسی مسلمانوں سے سامنا ہوتا تو وہ پھبتی کستے
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ... !
مسلمانوں میں مسلم لیگ کی مقبولیت کی وجہ ایک شاعر افضل ہاپوڑی کے شعر کا یہ مصرعہ بنا ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘۔افضل ہاپوڑی صوبہ اترپردیش کے شہر میرٹھ کے قریب ایک قصبہ ہاپوڑی کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے تحریک ِخلافت اور تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تمام جلسوں میں شریک ہوئے اور اپنی نظموں سے حاضرین میں جوش اور ولولہ پیدا کرتے ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ اُن کی نظم کا ایک مصرعہ ہے، جو اُنھوں نے مسلم لیگ کے ایک جلسے میں پڑھا ،تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ مصرعہ نعرہ بن کر برصغیر کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ اس نعرے کی وجہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے قبل اس جماعت میں مخصوص طبقے کے لوگ ہی شامل تھے۔ بعد ازاں یہ عوامی جماعت بن گئی، افضل ہاپوڑی کی یہ نظم کچھ یوں ہے:
باطل سے نہ ڈر تیرا ہے خدا پردے سے نکل کر سامنے آ
ایمان کی قوت دل میں بڑھا مرکز سے سرک کر دُور نہ جا
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ...
پاکستان کوئی سولو فلائٹ نہیں تھا بلکہ تشکیل پاکستان میں جتنا کچھ جناح صاحب کی قیادت کا کمال تھا تو اس سے بڑھ کر فکر اقبال اس کے پس منظر میں کار فرما تھی
جاوید اقبال مرحوم اقبال کی اسلامی سیاسی فکر کو کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں
اقبال کا تصور اسلامی ریاست .... (۱)
اقبال کا تصور اسلام کیا ہے؟ اگر وہ پاکستان میں ”اسلامی ریاست“ قائم کرنا چاہتے تھے تو وہ کس نوعیت کی ریاست ہے؟ ان سوالوں کا جواب دینے سے پیشتر اقبال کے چند ایسے مقولوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن سے ان کے تصور اسلام کی وضاحت ہوتی ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں ”زمانہ قدیم میں مذہب ”علاقائی“ تھا۔ یہودیت نے واضح کیا کہ مذہب ”نسلی“ ہے، مسیحیت نے تعلیم دی کہ مذہب ”ذاتی“ ہے مگر اسلام کا فرمان ہے کہ مذہب نہ علاقائی ہے نہ نسلی نہ ذاتی بلکہ خالصتاً ”انسانی“ ہے“۔ پھر فرماتے ہیں :”توحید“ کا مطلب ہے انسانی اتحاد، انسانی مساوات اور انسانی آزادی“ پھر ارشاد ہوتا ہے ”بطور عقیدہ اسلام کی نہ کوئی زبان ہے نہ رسم الخط اور نہ لباس“ پھر فرماتے ہیں”اسلام کا مقصد روحانی جمہوریت کا قیام ہے“ اقبال نے ”روحانی جمہوریت“ کی تعریف بیان نہیں کی لیکن معلوم ہوتا ہے ان کا اشارہ رسول اللہ کے وضع کردہ تحریری دستور ”میثاق مدینہ“ کی طرف ہے۔ آنحضور نے مدینہ میں مکہ کے مہاجرین اور مدینہ کے انصار کو باہم ملا کر ملت یا امت قائم کی۔ اسی بنا پر مسلم قومیت کے بارے میں اقبال کا قول ہے ”اگر انسانوں کا گروہ علاقہ، نسل یا زبان کے اشتراک پر ایک قوم بن سکتا ہے تو عقیدہ کے اشتراک کی بنیاد پر بھی وہ ایک قوم بن سکتا ہے۔ ہند کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سے اقبال کے اختلاف کا سبب یہی تھا کہ مولانائے دیوبند مسلمانوں کو قوم کے اعتبار سے ہندوستانی اور ملت کے اعتبار سے مسلمان سمجھتے تھے لیکن اقبال کے نزدیک قوم و ملت کے جو معنی ہمیں آنحضورﷺ نے بتائے ہیں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ ایک ہی معنی ہیں یعنی مسلمانوں کی ”قومیت“ اسلام ہے۔
پھر اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جاوے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بر صغیر کا مسلمان کبھی سیکولر نہیں رہا اور اگر جناح صاحب کسی سیکولر ریاست کے طالب ہوتے تو انہیں وہ پزیرائی ملنا نا ممکن تھی کہ جو ملی دوسری جانب تحریک پاکستان کا بنیاد مطالبہ ہی فاسد ہو جاتا کہ ہندوستان ایک ایسی بڑی جمہوریہ ہی بننے جا رہا تھے کہ جس کا مزاج سیکولر ہوتا ........
پھر اگر جناح صاحب کے مزاج کی ہی بات کی جاوے تو اسے کسی بھی طرح سیکولر ثابت نہیں کیا جا سکتا انکی زندگی کا ہی ایک بڑا واقعہ اس بات کو روز روشن کی طرح واضح کر دیتا ہے .....
ڈاکٹر صفدر محمود ایک جگہ لکھتے ہیں
یہ ایک حیرت انگیز حقیقت اور دلچسپ اتفاق ہے کہ قائداعظم ؒ کی واحد اولاد یعنی انکی بیٹی دینا جناح نے 14 اور15 اگست 1919ءکی درمیانی شب کو جنم لیا۔ایک مورخ کے بقول انکی دوسری ”اولاد“ اسکے صحیح اٹھائیس برس بعد 14 اور 15 اگست 1947ءکی درمیانی شب کو معرض وجود میں آئی اور اسکا نام پاکستان رکھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم ؒ اپنی اولاد کو دل و جان سے چاہتے تھے اور خاص طور پر دینا جناح انکی زندگی کی پہلی محبت کی آخری نشانی تھی لیکن اسکے باوجود جب دینا نے کسی مسلمان نوجوان کی بجائے ایک پارسی نوجوان نیوائل وادیا سے شادی کا فیصلہ کیا تو قائداعظمؒ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے تعلق توڑ لیا۔ دینا ا کے جگر کا ٹکڑا تھی، اس سے بیٹی کی حیثیت سے تعلقات رکھے جا سکتے تھے۔ ہمارے ہاں اس قسم کی لاتعداد مثالیں ہیں کہ لبرل قسم کے مسلمان مذہبی رشتہ ٹوٹنے کے باوجود اولاد سے سماجی تعلقات نبھاتے رہے لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قائداعظم ؒ نے بیٹی سے مذہب کا رشتہ منقطع ہونے کے بعد اس سے ہر قسم کے رشتے توڑ لئے۔ دوستوں سے کبھی دینا کا ذکر تک نہ کیاجیسے ان کی کوئی اولاد ہی نہ تھی اور پھر مرتے دم تک دینا کی شکل نہ دیکھی۔ شادی کے بعد دینا نے چند ایک بار اپنے والد گرامی کو خطوط لکھے۔ قائداعظم ؒ نے ایک مہذب انسان کی مانند ان خطوط کے جوابات دیئے لیکن ہمیشہ اپنی بیٹی کو ڈیئر دینا“ یا پیاری بیٹی کہہ کر مخاطب کرنے کی بجائے مسز وادیا کے نام سے مختصر جواب دیئے۔ (بحوالہ سٹینلے والپرٹ، جناح آف پاکستان صفحہ 370)
دوسری جانب مولانا اشرف علی تھانوی رح ایسے بزرگان دین کی جناح صاحب کی جانب توجہ بھی انتہائی قابل غور ہے
۔۲۳ تا ۲۶ اپریل ۱۹۴۳ ؁ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا دہلی میں اجلاس شروع ہونے والا تھا۔اس تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے حضرت تھانوی ؒ کو ہدایات دینے کے لیے دعوت نامہ بھیجا۔یہ حضرت تھانوی ؒ کی وفات سے تین ماہ قبل کا واقعہ ہے۔بامر مجبوری آپ نے اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کرتے ہوئےاپنی ہدایات ایک تاریخی خط میں لکھ کر روانہ فرمادیںجس میں اپنی دو کتابوں ’’حیاۃ المسلمین اور صیانۃ المسلمین ‘‘کی طرف رہنمائی فرمائی : پہلی کتاب شخصی اصلاح اور اور دوسری کتاب معاشرتی نظام کی اصلاح کے لیے تھیں۔ جب مسلم لیگ ۱۹۳۹ ؁ء میں اپنے تنظیمی منصوبے کے تحت صوبوں اور ضلعوں میں از سرِ نو شاخیں قائم کررہی تھی تب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اور بعض دیگر اکابر علمائے دیوبندکے مشورہ سے مسلمانانِ ہند کو مسلم لیگ کی حمایت و مدد کرنے کافتویٰ دیا۔ صف علماء سے یہ پہلی آواز تھی جو مسلم لیگ کی حمایت میں بلند ہوئی جس سے مخالفین کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی کیوں کہ وہ مسلمانانِ ہند میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا اثر و رسوخ اچھی طرح جانتے تھے۔ان کے ہزاروں متوسلین خلفاءجگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔عین اسی موقع پر جماعت اسلامی نے گانگریس کی حمایت کرکے تحریکِ پاکستان کی تائید کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’جب کونسلوں، میونسپلٹیوں میں ہندؤوں سے اشتراکِ عمل جائز ہےتو دوسرے معاملات میں کیوں نہیں؟‘‘۔ دارالعلوم دیوبند کی سیاسی جماعت جمعیت علمائےہند دو حصوں میں تقسیم ہوگئی :ایک جماعت کانگریس کی حامی ہوگئی جس کی سربراہی مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرمارہے تھےاور دوسری مسلم لیگ کی حمایت میں کھڑی ہوگئی جس کی صدارت علامہ شبیر احمد عثمانی فرمارہے تھے۔ ان دنوں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی تھے، حضرت تھانوی ؒ کے خلیفہ مجاز ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت میں تھے۔ اس مسئلے پر دونوں فریقین کے مابین آراء کا اختلاف ہوا، بحث و مباحثہ کی نوبت آئی۔ بالآخر دارالعلوم دیوبند کو اس اختلاف کے اثرات سے دور رکھنے کے لیےعلامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ، مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اور چند دیگر علمائے کرام نے دارالعلوم سے باضابطہ استعفیٰ دے دیا اور پاکستان کی حمایت میں اپنے اوقات کو آزادانہ وقف کردیا۔بعض مخالفین اس اختلاف کو بیان کرکے اکابر دیوبندکو متہم کرتے اور لوگوں کو علمائے دیوبند اور پاکستان کی حامی جمعیت علمائے اسلام کو پاکستان دشمن قرار دے کر لوگوں کے اذہان پراگندہ کرتے ہیں، یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے جو تعصب کی علامت ہے دونوں اکابر کا اختلاف اخلاص پر مبنی تھا۔ تحریکِ پاکستان کی کامیابی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کی تائید کرنے والے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ہیں۔
اقتباس : تحریکِ پاکستان اور علمائے دیوبند ……?
مصنف : مولانا محمد مبشر بدر
پھر اگر جناح صاحب کے ساتھ موجود قیادت پر نگاہ ڈالی جاوے تو ان میں کوئی بھی معروف سیکولر دکھائی نہیں دیتا .........
حقیت تو یہ ہے کہ پاکستان کا سیکولر طبقہ ایک ایسے جھوٹ کو سچائی بنانے پر مصر ہے کہ جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہوں ........
دوسری جانب آج بھی پوری پاکستانی قوم پر یہ امر فرض ہے کہ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اصلی پاکستان بنائیں ورنہ الله کی پکڑ ہم سے دور نہیں ..
حسیب احمد حسیب

راستے روکنے کا جرم

راستے روکنے کا جرم ... !

اسلام دین فطرت اور فطرت انسانی آسانی کی متقاضی ہے اسی لیے حدیث مبارکہ میں آتا ہے
 " دین میں آسانی ہے "

 قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ماجعل علیکم فی الدین من حرج﴾․(حج:7) یعنی الله تعالیٰ نے دین اسلام میں مشقت اور تعب نہیں رکھی ، حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے : ”ان الدین یسر“ ․ (بخاری ص:10) یعنی دین آسان ہے۔

 ایک اور حدیث میں حضور صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :”احب الدین الی الله الحنیفیة السمحة“․
(بخاری ص:10)

یعنی آسان او رتوحید والی شریعت الله تعالیٰ کے ہاں محبوب ہے۔

 موافقات شاطبی (ج4، ص:24)
راستے روکنے کا جرممیں ایک اصول مذکور ہے کہ ”مجموع الضروریات خمسة: حفظ الدین ، والنفس، والنسل، والمال، والعقل․“ اس اصول کے تحت ہر ایسا طریقہ اختیار کرنے سے اسلام روکتا ہے جس سے انسان کے دین ومذہب، جان ومال اورنسل وعقل کو نقصان پہنچتا ہو۔ یہاں سے یہ امر انتہائی واضح ہو جاتا ہے کہ جو کوئی بھی مشکلات پیدا کرے رکاوٹیں ڈالے اور لوگوں کے بوجھ میں اضافہ کرے تو وہ دین حق کے حقیقی مزاج کے خلاف کھڑا ہوگا .. الله اپنے بندوں پر آسانیاں فرماتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اس دين حنيف کے ساتھ۔ بھیجا گیا ہے جس میں آسائش اور رواداری ہے۔ الله کے رسول علیہ سلام نے نے امت کیلیے آسانیاں مانگیں نمازوں کی تعداد کا پچاس سے پانچ کروانا احادیث صحیحہ میں مذکور ہے ...... اسی آسانی اور سہولت کی جانب الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے طاقت والوں اور حکمرانوں کو بھی متوجہ کیا ہے جب حضرت معاذ اور ابوموسی رضي الله عنهما کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ: تم دونوں آسانیاں پیدا کرو ، مشکلیں مت کھڑی کرو ، خوشخبریاں دیا کرو ، اور نفرت مت پھیلاؤ، اور مل جل کر رہو اور اختلافات پیدا مت کرو (صحیح بخاری ) راستوں کو روکنا اور لوگوں کیلیے رکاوٹیں کھڑی کرنا بد ترین جرائم میں سے ایک ہے سوره عنکبوت میں قرآن کریم ایک عذاب زدہ قوم کے گناہوں میں ایک گناہ یہ بھی بیان کرتا ہے أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿029:029﴾ [جالندھری] کیا تم (لذت کے ارادے سے) مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو اور (مسافروں کی) راہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو؟ تو ان کی قوم کے لوگ جواب میں بولے تو یہ بولے کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر خدا کا عذاب لے آؤ تفسیر ابن كثیر یہاں وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ کی مزید تفصیل کچھ اس انداز سے بیان کی گئی ہے لوطیوں کی مشہور بدکرداری سے حضرت لوط انہیں روکتے ہیں کہ تم جیسی خباثت تم سے پہلے تو کوئی جانتاہی نہ تھا۔ کفر، تکذیب رسول، اللہ کے حکم کی مخالفت تو خیر اور بھی کرتے رہے مگر مردوں سے حاجت روائی تو کسی نے بھی نہیں کی۔ دوسری بد خلصت ان میں یہ بھی تھی کہ راستے روکتے تھے ڈاکے ڈالتے تھے قتل وفساد کرتے تھے مال لوٹ لیتے تھے راستوں کے روکنے کا گناہ انتہائی شدید ہے کسی بھی انسان کے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی جھوٹی تعظیم کے لیے کسی دوسرے کو مشقت میں ڈالے إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ عِبَادُ اللَّهِ قِيَامًا، فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتًا فِي النَّارِ» . هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ لوگ اس کے لیے بت بن کر کھڑے ہوں ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے ۔ ہر وہ شخص کہ جس کے پاس طاقت اور قوت ہے اور وہ اپنی قوم گروہ یا قبیلے کا بڑا متصور ہوتا ہے در حقیقت وہ را عی یعنی نگہبان ہے اور اس سے اسکی قوم کی بابت سوال ہوگا ابن عمررضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اپنی ذمہ داری کے لیے جوابدہ ہے ۔امام اپنے عوام کے لیے ،آدمی اپنے گھر کے لیے ،نوکر مالک کے مال کے لیے جوابدہ ہے میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاتھا کہ آدمی اپنے باپ کے مال کا ذمہ دار ہے اوراس کے لیے جوابدہ ہے ۔(بخاری۔مسلم) الله کے رسول علیہ وسلم کے ہاں کوئی دربان کوئی چوکیدار نہیں ہوتا تھا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی رورہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ سے ڈرو صبر کرو۔اس نے کہا آپ پر وہ مصیبت نہیں آئی جو مجھ پر آئی ہے اس لیے کہہ رہے ہیں اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں تھا کسی نے اس سے کہا کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ آپ کے دروازے پر آئی تو وہاں کوئی دربان وچوکیدار نہیں پایا اس نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :صبر وہ ہے جوصدمہ پہنچتے ہی کیا جائے ۔(بخاری۔مسلم۔احمد۔ترمذی۔ابوداؤد۔نسائی۔ابن ماجہ۔ابویعلیٰ۔بیہقی) عموم کے لیے راستے روکنے کو دین ناپسند کرتا ہے ابومریم ازدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ جس کو مسلمانوں کے امور کا نگہبان بنادے اور وہ ان کی ضروریات وشکایات سننے کے بجائے درمیان میں رکاوٹیں کھڑی کردے اللہ اس کے لیے رکاوٹیں پیدا کردیتا ہے ۔ایک روایت میں ہے اللہ جس کو مسلمانوں کا حاکم بنائے پھر وہ مظلوموں اورمساکین کے لیے دروازے بندکردے اللہ اس کے لیے اپنی رحمت کا دروازہ بند کردیتا ہے حالانکہ یہ اللہ کی رحمت کا زیادہ محتاج ہوتا ہے۔

(ابوداؤد۔حاکم۔بیہقی۔بسند صحیح)

یہ کیسا تکبر ہے کہ جو ایک جاگیر دار ایک وڈیرے کی حرمت میں قوم کی بچیوں کی جانیں قربان کر دیتا ہے یہ کیسا کفر ہے کہ جو ظالموں کا وطیرہ بن چکا ہے حضرت رسول خدا مدینہ کے ایک راسے سے گزر رہے تھے تو ایک سیاہ فام عورت وہاں سے گوبر اٹھا رہی تھی۔ کسی نے اس سے کہا: "رسول خدا کو راستہ دے دو تو اس نے جواب دیا "راستہ کشادہ ہے" اس پر ایک شخص نے نے اسے اس کی گستاخی کی سزا دینے کا ارادہ کیاتو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا: "جانے دو! کفریہ مغرور و سرکش عورت ہے" 

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۱۰

یہ کیسی سرکشی ہے یہ کیسا کبر ہے یہ کیسا غرور ہے اور یہ کیسا کفر ہے جی ہیں بے شک یہ بھی کفر حضرت عبداللہ بن عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کے حقوق کو نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:ادب کا بیان :رحمت وہمدردی کا بیان

حسیب احمد حسیب

جمعرات، 10 دسمبر، 2015

" تحقیق اسلام کی نگاہ میں "

" تحقیق اسلام کی نگاہ میں "

اسلام دین فطرت ہے   اور فطرت انسانی اس بات  کی متقاضی ہے کہ چیزوں کی کھوج اور جستجو کی جاوے ایک بچہ ہوش سنبھالتے ہی اپنے ارد گرد کا مشاہدہ شروع کر دیتا ہے اور یہی مشادہ اس کے اندر چیزوں کو جاننے کا جزبہ بیدار کرتا ہے اور جیسے جیسے اس کا چیزوں سے تعارف ہوتا چلا جاتا ہے اس کی جستجو بڑھتی چلی جاتی ہے .

دین اسلام میں اس جستجو کو مختلف نام دیتا ہے کہیں اسے تحقیق کہتا ہے کہیں تفقہ اور کہیں استنباط 

تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ  ح ، ق ، ق ہے یعنی و الحق صدق الحدیث اور کسی بات کا حق اور سچ ہونا ....

استنباط عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہيں کہ ﷲ تعالٰیٰ نے جو پانی زمین کی تہہ میں پیدا کر کے عوام کی نظروں سے چھپا رکھا ہے اس پانی کو کنواں وغیرہ کھود کر نکال لینا۔

تفقہ کا مطلب ہے سمجھ بوجھ کا حاصل ہونا حضرت علی رض  سے مروی ہے کہ ایسی عبادت سے کوئی فائدہ نہیں جو تفقہ سے خالی ہو۔"

اب ہم کچھ آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ پیش کرتے ہیں کہ جو " تحقیق " کی موید ہیں 

آیات قرآنی 

سورہ آل عمران آیات ۱۹۰ـ١٩١

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۰﴾ۚۙ

بیشک آسمان اور زمین کا بنانا اور رات اور دن کا آنا جانا اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کو


الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۱﴾

وہ جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور فکر کرتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدائش میں کہتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ عبث نہیں بنایا تو پاک ہے سب عیبوں سے ہم کو بچا دوزخ کے عذاب سے

{قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّهُ يُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ}(العنکبوت: ۲۰)

''کہہ دیجیے ! زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداے پیدائش کی ۔

پھر اللہ تعالیٰ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا۔اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ ''


الحجرات/٦

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ

  اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ

وإذا جاءهم أمر من الأمن أو الخوف أذاعوا به ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم ولولا فضل الله عليكم و رحمته لاتبعتم الشيطان إلا قليلا[؟–؟] (النساء/83)

ترجمہ : اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کہ کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کر ديتے ہیں اور اگر اس کو پہنچا ديتے رسول تک اور اپنے اولوا الامر (علماء و حکام) تک تو جان لیتے اس (کی حقیقت) کو جو ان میں قوت_استنباط (تحقیق کرنے کی اہلیت) رکھتے ہیں اس کی اور اگر نہ ہوتا فضل ﷲ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو البتہ تم پيچھے ہو ليتے شیطان کے مگر تھوڑے۔

چناچہ امام رازی اس آیت کی تفسیر کے تحت تحریر فرماتے ہیں:

ترجمہ : بس ثابت ہوا کہ استنباط حجت ہے، اور قیاس یا تو بذات خود استنباط ہوتا ہے یا اسی میں داخل ہوتا ہے، لہذا وہ بھی حجت ہوا جب یہ بات طے ہوگی تو اب ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت چند امور (باتوں) کی دلیل ہے، ایک یہ کہ نت نئے مسائل میں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو نص سے (واضح) معلوم نہیں ہوتیں، بلکہ ان کا حکم معلوم کرنے کے لئے استنباط کی ضرورت پڑتی ہے، دوسرے یہ کہ استنباط حجت ہے، اور تیسرے یہ کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ پیش آنے والے مسائل و احکام کے پارے میں علماء کی تقلید کرے۔ [تفسیر_کبیر : 3/272]

احادیث مبارکہ 

سیدنا معاویہ  رض   سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے:
« مَن يُرِدِ اللهُ بِه خَيرًا يُفَقِّهْهُ في الدِّيْنِ » ۔۔۔ البخاري ومسلم
کہ ’’اللہ تعالیٰ جس سے خیر کا ارادہ فرماتے ہیں، اسے دین (کتاب وسنت) کی سمجھ بوجھ عطا کر دیتے ہیں۔‘‘

سیدنا ابو ہریر رض  سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« خياركم في الجاهلية خياركم في الإسلام إذا فقهوا » ۔۔۔ صحيح البخاري
کہ ’’تم میں جاہلیت میں بہترین، اسلام میں بھی بہترین ہیں اگر وہ (دین میں) فقاہت حاصل کریں۔‘‘

نبی کریمﷺ نے سیدنا ابن عباس رض   کو دُعا دیتے ہوئے فرمایا:
« اللهم فقهه في الدين » ۔۔۔ صحيح البخاري
کہ ’’اے اللہ! اسے دین کی فقاہت عطا کر دیں۔‘‘

الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے فرمایا ... !

آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ جو سنے اسے بیان کر دے 

تاریخ طبری 

ابن زبیر رض سے بخاری میں مروی ہے کہ الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے .

حضرت عمر رض کا حدیث پر گواہی طلب کرنا 

صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس (رض) آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر (رض) کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابو موسیٰ (رض) اور حضرت عمر (رض) کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر (رض) سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری (رض) گئے اور حضرت عمر (رض) سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر (رض) اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا

5-زادالمعاد 112/1

خود الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کہ جو صاحب وحی تھے تحقیق سے گریز نہ فرماتے تھے 
الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کو حضرت اسامہ بن زید رض سے غیر معمولی محبت تھی جس کی وجہ سے قدرۃ کچھ منافق اسامہؓ کے حاسد بھی پیدا ہوگئے تھے یہ لوگ اسامہؓ کو ذلیل اورآنحضرت ﷺ کے کبیدہ خاطر کرنے کے لیے کہتے کہ اسامہؓ زیدؓ کے نطفہ سے نہیں ہیں، آنحضرت ﷺ کو اس سے تکلیف پہنچتی ؛لیکن ان کے خاموش کرنے کا کوئی طریقہ نہ تھا، عربوں میں قیافہ شناسی کا ملکہ بہت تھا ،قائف کی بات عام طورپر ہم پایہ وحی سمجھی جاتی تھی،اتفاق سے ایک دن مجرزمدبحی جس کو قیافہ شناسی میں خاص مہارت تھی،آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت زیدؓ اوراسامہؓ دونوں سر سے پیر تک ایک چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے،صرف پاؤں کھلے ہوئے تھے اس نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ قدم ایک دوسرے سے پیدا ہیں، یہ سن کر آنحضرت ﷺ کو بہت مسرت ہوئی،آپ حضرت عائشہؓ کے پاس ہنستے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا تم کو کچھ معلوم ہے،مجرز نے ابھی اسامہؓ کے پاؤں دیکھ کر کہا کہ یہ قدم ایک دوسرے سے پیدا ہیں، (بخاری،جلد۲کتاب الفرائض باب القائف )

حقیقت یہ ہے کہ اسلام  وہ واحد  دین جو انسانوں کو عقل و فہم استعمال کرنے کی کھلی دعوت دیتا ہے اور اپنا آپ خالص دلیل کی بنیاد پر منواتا ہے .

اتوار، 29 نومبر، 2015

گندی عورت ........ !

گندی عورت ........ !

وہ گندی عورت نہیں تھی لیکن اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ایک عورت تھی اور عورت ہمیشہ مظلوم ہوتی ہے چاہے وہ مشرق کی روایت میں مقید ہو یا مغرب کی آزادی میں قید جی ہاں یہ قید ہی تو ہے کہ جو چار دیواری میں سکون سے رہنے کو جرم ہی بنا دے کیا ہوا کہ کوئی شہزادی بن کر گھر کی پرسکون فضاء میں آرام کے چند سانس لےسکے اور کیوں اسے مجبور کیا جاوے کہ وہ سڑکوں کی خاک چھانے .....

اسے یاد تھا
کچھ کچھ تھوڑا تھوڑا

گرجے کی دیواروں سے اٹھتا ہوا الوہی نغمہ اور وہ خود سفید لباس میں ملبوس جیسے آسمان سے کوئی حور زمین پر اتر آئی ہو اور اس کے لبوں پر جاری بائبل کی مقدس آیات بس یہی واحد یاد تھی اسکی اپنے رب سے تعلق کی ........

پھر وہی افرا تفری تیز سے تیز تر ہوتی ہوئی زندگی کہ جس کا ساتھ دیتے دیتے سانسیں مدھم پڑنا شروع ہو جائیں اور موت کی آہٹ قریب محسوس ہونے لگے ........

باپ کی موت اور ماں کا کم عمری میں ہی اسے اپنے کسی یار کیلیے چھوڑ جانا کیا کرتی کہاں جاتی اور پھر اس کی ابھرتی ہوئی جوانی کلی کو پھول بننے میں آخر کتنی دیر لگتی ہے ........

ہاں اس کا اثاثہ اور کیا تھا اس کا خوبصورت سانچے میں ڈھلا ہوا بدن حالات کے بے رحم ہاتھوں نے اسے ایک " گندی عورت " بنا دیا تھا ایک سٹرپر جس کا کام شراب خانے میں آنے والوں کو اپنی بے لباسی سے محظوظ کرنا ہی تو تھا ہاں کبھی کبھی وہ نیند میں سے جاگ اٹھتی وہ خواب جس میں وہ سفید لبادہ پہنے چرچ کی روحانی فضاء میں بائبل کی مقدس آیات پڑھ رہی ہوتی لیکن یہ خوبصورت یاد اب اسکیلئے ایک بھیانک خواب ہی تو تھی کہ جس سے وہ پیچھا چھڑانا چاہتی تھی ........

اے میرے مالک کب تک آخر کب تک اس غلاظت میں پڑے رہنا میرا مقدر ہے .........

پھر ایک دن کچھ عجیب ہوا گو کہ سورج اسی طرح نکلا اور غروب ہوا تھا چاند کی رنگت ویسی ہی تھی رات کی سیاہی ویسی ہی تو تھی لیکن وہ کون لوگ تھے بڑی بڑی داڑھیوں والے ڈھیلے ڈھالے سفید چمکتے ہوے پاکیزہ لبادوں میں ملبوس جیسے حضرت مسیح کے مقدس حواری بائبل کے صفحات سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں سامنے آن کھڑے ہوں ہر کوئی مبہوت تھا بے لباس سٹرپرز قریب پڑی میزوں سے چادریں کھینچ کر اپنے ننگے بدن چھپا رہی تھیں یہ کون لوگ تھے کہ جن کے آتے ہی حیاء بھی کہیں سے باہر نکل آئی تھی جو شاید کتنی ہی صدیوں سے انکے اندر کہیں دفن تھی یہ کون لوگ تھے کہ جنکی آمد سے مردے زندہ ہو رہے تھا ........

اور پھر ان میں سے ایک شخصیت آگے بڑھی اور اس نے الله کی شان بیان کرنا شروع کی الفاظ کا دریا ایسا کہ بہتا ہوا سیدھا دل کے سمندر میں گرتا چلا جا رہا تھا اور بہاؤ ایسا کہ کوئی رکاوٹ رکاوٹ نہ رہے یہ کیسا عجیب معاملہ تھا کہ پہلی بار دل کی سیاہی دھلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی قلب کے مندر میں لگے بت گرتے چلے جا رہے تھے اور لگتا تھا کہ جیسے کوئی مقدس زمین ہو جو کہیں کسی بنجر خطے کے اندر دبی پڑی ہو ہر طرف نور ہی نور تھا اور کانوں میں صرف ایک آواز

الله اکبر الله اکبر ..........

لگتا تھا کہ بہت ہی پرانی بات ہوئی

اور ......

اب تو یہ سیاہ لبادہ اسے اپنے جسم کا حصہ ہی محسوس ہوتا تھا اس کی ٹھنڈک ایسی کہ جیسے روح تک اتر جاوے اس سیاہ لبادے میں ملبوس وہ خود کو ایسا تصور کرتی کہ جیسے کعبے کی مقدس دیواروں سے سیاہ غلاف لپٹا ہوا ہو وہ عریاں جسم کہ جو کبھی لباس کا عادی ہی نہ تھا آج کسی انجانے کی نگاہ کے سامنے آنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا یہ کیسی تبدیلی تھی کہ ایک الله والے کی نگاہ پڑی اور کایا کلپ ہوئی آج بس میں سفر کرتے ہوے اس کے ہاتھ سے اچانک چادر ہٹ گئی ایسا محسوس ہوا کہ گویا آسمان سر پر گر پڑا ہو اور دنیا اندھیر ہو گئی ہو گھر آکر روتی رہی روتی رہی شوہر پریشان تھا کہ آخر ہوا کیا ہے اور اس کے منہ سے نکلتا مولانا مولانا .......

اور جب وہ مولانا سے پوچھ رہی تھی .........

کیا میرا الله مجھے اس بات پر عذاب تو نہ دے گا کہ میرا ہاتھ ننگا ہو گیا .........

ادھر مولانا روتے جاتے تھے 
ادھر یہ روتی جاتی تھی ..........

نہیں میری بیٹی تجھے کیا عذاب ہوگا

ارے تیری توبہ تو وہ توبہ ہے کہ اگر سب میں بانٹ دی جاوے تو کفایت کرے .......

ایک غامدیہ خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں‌ حاضر ہوتی ہیں اور عرض کرتی ہیں

اے الله کے رسول صل الله علیہ ......... !

مجھ سے گناہ ہو گیا 
مجھ سے گناہ ہو گیا

مجھ پر حد لگائی جائے ......

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سوچ لے کیا کہتی ہے 
سوچ لے کیا کہتی ہے

ابھی نہیں‌، تمھیں‌رجم کر دیا گیا ہے تو بچے کو دودھ کون پلائے گا؟

وہ پھر دوبارہ حاضرِ خدمت ہوئی اور عرض کیا، یا رسول اللہ صل الله علیہ وسلم ! ابن آس نے دودھ پینا چھوڑ دیاہے اور کھانا کھانے لگا ہے،

بچے کے ہاتھ میں‌روٹی کا ٹکڑا تھا .......

دلیل ساتھ لائی تھی

آپ صل الله علیہ وسلم حکم دیتے ہیں

الله کی حدود نافذ کرو 
حد نافذ ہوتی ہے

رجم کرتے ہوئے اس کا خون حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چہرہ پر پڑا تو انھوں‌نے اسے برا کہا

مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «مَهْلًا يَا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ» “ (مسلم: 1695 (23))
"باز رہو اے خالد! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں‌میری جان ہے بے شک اس نے ایسی توبہ کی کہ محصول لینے والا ایسی توبہ کرے تو اسے بخش دیا جائے۔"

مولانا اسے واقعہ سناتے ہیں اور اسے تسلی ہوتی ہے .......

نجانے کتنے سال گزر گئے 
مولانا سے کوئی رابطہ نہ ہوا 
اب تو خولہ اور خنساء بھی بڑی ہو رہی ہیں 
مغرب کے اس گندے ماحول میں اپنی معصوم بچیوں کو دینی زندگی دینا بھی تو ایک جہاد ہے 
بے شک یہ بھی ایک جہاد ہے

ایک روز عبدللہ خولہ اور خنساء کا والد کہیں سے خبر لاتا ہے

ایمان .... ایمان

تم نے سنا مولانا پر مصیبت آن پڑی
لوگ انھیں گمراہ کہ رہے ہیں

یا میرے مالک کیا ہوا 
اس کا دل رک سا گیا 
آخر ہوا کیا بولتے کیوں نہیں .....

خبر آئی ہے کہ مولانا ایک مشہور سیاسی شخصیت سے اس کے گھر کی عورتوں کی موجودگی میں ملے ہیں اور ان کے چہرے کھلے تھے .......

کیا مولانا گمراہ ہو گئے ........

وہ روتی جا رہی ہے 
وہ سوچتی جا رہی ہے

مولانا تو ایک بے لباس گندی عورت سے بھی ملے تھے 
تو کیا مولانا اس وقت بھی گمراہ تھے

تو پھر ایک گمراہ شخص نے ایک گندی عورت کو پاکیزہ کیسے بنا دیا 
وہ سوال پوچھ رہی ہے .......

کیا کسی کے پاس ہے کوئی جواب .......... ؟

حسیب احمد حسیب

میں حسیب ہوں ...

میں حسیب ہوں ...

خودی اور خود بینی " autoscopy " کے درمیان کے باریک سی لکیر ہے جو شعور ذات اور حصار ذات کے درمیان تفریق کرتی ہے کبھی نجانے کس کیفیت میں کہا تھا 

میں خود سے دور نکلنے کے فن سے واقف ہوں 
میں اپنے آپ میں رہتا ہوں ضم نہیں ہوتا

خیام قادری مرحوم کہا کرتے تھے 

صوفی ہیں اور عشق ہے آل سعود سے 
حضرت نکل گئے ہیں حدود و قیود سے 

سو زندگی میں کبھی حدود و قیود کی پابندی نہ کی یا یوں کہیے پابندی ہو نہ سکی 
نسبی تعلق بنی اسرائیل کی بچھڑی ہوئی بھیڑوں سے ہے اجداد نے ہندوستان کی ریاست محمد آباد ٹونک کو اپنی آماجگاہ بنایا کہ جو تیر کابل سے نکلا تھا ہندوستان کی قلب میں پیوست ہوا ......
اختر شیرانی ، مشتاق احمد یوسفی ، عیش ٹونکی اور مفتی ولی حسن خان ٹونکی جیسی علمی و ادبی شخصیات کی ریاست سے تعلق قابل فخر تو ضرور ہے لیکن اگر خود کو دیکھوں تو شرمساری بھی ہوتی ہے کہ میں کہاں کھڑا ہوں ..........

اپنے بارے میں بات کرنا انتہائی آسان بھی ہے اور انتہائی مشکل بھی 
لیکن بات یہ بھی ہے کہ آخر اپنے بارے میں بات کی ہی کیوں جاوے ..؟!

گو کہ تعارف وہ کھڑکی ہے کہ جو بیرونی دنیا کو آپ کے اندر جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے لیکن اندر کا منظر وہی دکھائی دیتا ہے کہ جو آپ انھیں دکھلانا چاہیں ہاں جب تعارف پہچان میں بدل جاوے تو حقیقت سامنے آتی ہے ......

طالب علم ہوں اور طالب علموں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہوں گو کچھ لوگوں کو یہ مغالطہ ضرور ہے کہ " ٹیچر " ہوں لیکن حقیقت میں پھٹیچر ہوں لکھنے کا شوق رکھتا ہوں اسلیے لکھتا ہوں اور اس بات کا طالب نہیں کہ میرے لکھے ہوے کو پڑھا بھی جاوے ہاں اگر کوئی پڑھ لے تو بلکل برا نہیں مانتا ......

لنگڑی لولی شاعری بھی کر لیتا ہوں وہ بھی استاد محترم اعجاز رحمانی صاحب کا ہی اعجاز ہے 

محترم دوست حسن علی امام صاحب فرماتے ہیں 

مولانا عموما گفتگو کم کرتے ہیں زیادہ تر بحث ہی کرتے ہیں اور یہ مباحثے اس وقت زور پکڑ جاتے ہیں جب مخالفین کو یہ احساس ہو جائے کے وہ غلطی پر ہیں - مولانا تقریبا چالیس ہزار کتابیں پڑھ چکے ہیں "

مولانا غصہ بہت کم کرتے ہیں غصے کی جگہ بھی وہ بحث ہی کر لیتے ہیں - 

اب اس مولانا کے الزام سے کون جان چھڑا ئے اور کیسے چھڑا ئے 

کبھی اس حوالے سے بھی کچھ لکھا تھا 

خدا کی قسم میں " مولوی " نہیں ہوں !

اچانک جب بحث کے دوران نازک صورت حال آجاتی ہے اور گفتگو کا رخ تلخی کی جانب بڑھنے کا احتمال ہوتا ہے تو مجھے اندازہ ہو جاتا ہے ......

یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہمارے محترم صحافی دوست جمالی بھائی طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوے ہمیں حسیب میاں سے " مولانا " کر دیتے ہیں اور یقین جانئے ان کے اس " مولانا " میں بڑی کاٹ ہوتی ہے اس کی چبھن اندر تک محسوس ہوتی ہے ......

اور پھر ہمارے شیخ الفدوی کا تنبیہی لہجہ 
اچھا تو آپ بھی مولانا ہیں ہم تو پہلے ہی آپ کی علمیت کے قائل تھے 
مجھے شرم سے پانی پانی کر دینے کیلئے کافی ہوتا ہے

اگر " مولانا " ایک گالی ہے تو بسر و چشم قبول ہے 
لیکن اگر یہ ایک عالی رتبہ ہے اور بےشک ہے تو میں اس کے قابل نہیں .......
کبھی کبھی میں سوچ کر دیر تک ہنستا ہوں عجیب مخمصہ ہے

نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا رہا
نہیں جناب میں مولانا نہیں مجھ سے تو چند سلیس عربی جملے بھی نہ جوڑے جاویں
شیخ الجوجل کی مدد سے ٹوٹی پھوٹی عربی سمجھتا ہوں 
کیا ہوا جو ایم اے اسلامیات کیا ہوا ہے 
کیا تو پرائیویٹ ہی ہے 
اور کیا ہوا جو او لیول کے برگر بچوں کو پڑھاتا ہوں

" قال الله اور قال الرسول " کا بلند مرتبہ تو میری پہنچ سے کافی دور ہے
جب میرے ادبی دوست مجھے مولانا سمجھ کر اپنی توپوں کا رخ میری جانب کرتے ہیں تو سوچتا 
ہوں 
ارے میرے یاروں میں شاعر بھی تو ہوں گو غیر معروف ہی سہی 
کالم نگار بھی تو ہوں گو فیس بکی ہی سہی 
اور افسانے چند بھی لکھ چھوڑے ہیں 
گو کوئی پڑھتا نہیں
نہیں نہیں میں مولانا نہیں 
ہاں میری داڑھی ہے تو یہ تو سنت رسول علیہ سلام کی علامت ہے 
میرے سر پر ٹوپی بھی ہے مگر صرف رواجی ہے 
میرا یہ ملبوس بظاہر مجھے متقی دکھاتا ہے مگر دھوکے میں مت آجانا 
رند ہوں رند
مگر کیا کروں جب کوئی دینی طبقے پر پھبتیاں کسے تو برداشت نہیں ہوتا نجانے کون سی قوت قلم اٹھانے اور قلم سے سروں کو توڑنے پر مجبور کرتی ہے ....
مگر ڈرتا ہوں کہیں کوئی یہ نہ کہ دے 
ارے او ظالم تو کون سا عالم ہے جو اپنی علمیت جھاڑتا ہے گستاخ ........
پھر میرے ادبی دوست مجھے کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں

جمالی بھائی کی طنزیہ مسکراہٹ اور جگر کو چیرتی آواز " مولانا "

اور شیخ الفدوی کے الفاظ " اچھا آپ بھی مولوی ہیں ..........

خدا کی قسم میں " مولانا " نہیں ہوں .

حسیب احمد حسیب