بدھ، 19 نومبر، 2014

مفتی صاحب جواب دو

مفتی صاحب جواب دو !

https://www.facebook.com/pages/%DA%86%D9%88%D8%B1%D9%86%DA%AF%DB%8C-%D9%86%D8%A7%D9%85%DB%81-Chorangi-Nama/1424576877789438?fref=photo


آج فیس بک پر ایک تحریر سے گزرا تحریر کیا تھی ایک دکھڑا تھا ایک شکوہ تھا ہاۓ بے چارہ کیا کہوں ......
یہ ایک ایسے صاحب کی کہانی ہے جو معاشی تنگی سے پریشان ہیں 
اجی کون نہیں ہوتا مگر کیا کیجئے ہمارا قومی مزاج 
بلکہ قومی بیماری ہے (Narcissism) نرگسیت کی ایک کیفیت یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنی کمیوں کوتاہیوں اور غلطیوں کا الزام آسانی سے دوسروں پر دھرتا چلا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ لاشعور میں موجود خود پسندی اور عملی کم ہمتی ہے .
اس کہانی میں یہ صاحب مفتی صاحب سے سوال کرتے ہیں اور اپنے سوال کے لغو ہونے کو نہیں دیکھتے بلکہ مفتی صاحب سے شاکی ہیں اور انھیں مجرم گردانتے ہیں
" مفتی صاحب بت بنے اسکی باتیں سنتے رہے اس اثناء میں وہ شخص جانے کے لئیے کھڑا ہوگیا اور بولا میرے ہر سوال کا جواب آپکی مجرمانہ خاموشی میں پنہاں ہے۔ بس اب آپ سے اور آپکی علماء برادری سے آخری بات یہ ہی کہوں گا کہ اب بھی اگر آپ لوگوں نے سولہہ کروڑ عوام کے اس مسلے پر مسجد کے منبر سے آواز حق بلند نہ کی تو ثابت ہوجائے گا کے آپ اور آپکی پوری علماء برادری بھی سولہہ کروڑ عوام کی تباہی میں برابر کے شریک ہیں آپ بھی ان ہی دس پرسنٹ لٹیروں میں شامل ہیں، آپکو اور آپکی علماء برادری کو بھی سولہہ کروڑ عوام کے اس اہم اور بنیادی مسلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے پر برابر کا حصہ مل رہا ہے۔
یاد رکھئیے گا میری بات جس دن بھی عوام کے اندر پکا ہوا یہ لاوا پھٹا اس روز ان دس پرسنٹ مراعت یافتہ لوگوں کے ساتھہ ساتھہ عوام آپکی بھی پگڑیاں نہیں، سر اچھالے گی۔ اس سے پہلے کہ مفتی صاحب مزید کچھہ کہتے وہ شخص کمرے سے جاچکا تھا۔ "
اور یہ ساری برسات اسلئے کہ کہانی کے ہیرو صاحب دو پیسے کمانے کا ہنر نہیں جانتے 
پڑھنے کے بعد میں نے سوچا
ابھی پچھلا کچھ عرصہ میرا بیروزگاری کا گزرا کتنا آسان تھا میں بھی کسی مولوی کسی مفتی کو جاکر ذلیل کرتا اور دل کا سکون پاتا .......
میں بے وقوف سی وی ڈالتا رہا انٹرویوز دیتا رہا اور میری کم نصیبی آج اچھی نوکری کر رہا ہوں 
ارے او مولوی !
یہ سب تیرا قصور کہ مجھ سے دو پیسے نہ کماۓ جا سکیں 
میں اگر نکما نکھٹو ہوں تو کیا ہوا 
اب یہ تو مجھے حرام کمانے کا لائسنس دے 
یا میری گالیاں سن
جی ہاں حرام کا کمانے کا لائسنس بس یہی تو گلا ہے مولوی سے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں 
پھر سوچا کچھ لکھوں شاید اس شکوہ بے جا کا کچھ مداوا ہو سکے
گو کہ بظاہر انتہائی خوبصورت اور دلگداز تحریر ہے لیکن اس کی مثال اس خوبصورت زہر کی سی ہے جسکو خوبصورت رنگ و خوشبو میں لپیٹ کر کسی کے سامنے پیش کر دیا جاوے کہ لیجئے نوش جاں فرمائیے اور جان سے گزر جائیے.......
دیکھئے مولوی کی نہ مان کر ساٹھ سال پہلے ہم نے مسٹر کے ہاتھ پر بیعت فرما لی تھی تو آج مولوی سے سوال کیسے ! کیا آپ کی معیشت کو سنوارنے کی ذمےداری مولوی کی ہے اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو جان لیجے آپ بے وقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں یہ ایک جمہوری ریاست ہے جو آپ نے ایک مسٹر کی قیادت میں حاصل کی ہے یہ کوئی اسلامی خلافت نہیں جناب خلافت تو آپ نے بالاکوٹ کے پہاڑوں میں دفنا دی تھی جب شہیدین رح کے خون سے سر زمین بالاکوٹ رنگی گئی تھی کیا آپ کو ١٨٥٧v کی جنگ آزادی یاد ہے یا تحریک ریشمی رومال ..........
اپنی کمزوری کا رونا ، رونا ہے اپنی بےکسی کا پیٹنا ڈالنا یا اپنی کسمپرسی کا ماتم کرنا تو خدا را مولوی پر تبرا مت بھیجئے اپنے سینے پر ماتمی ضربیں لگائیں.........
مولوی یہ مولوی وہ ...........
آپ شاید اس دور میں ابو حنیفہ ، راضی و غزالی یا ابن تیمیہ رح کی پیدائش کے خواہش مند ہیں مگر کیسے ...........؟
آپ کے گھر کا سب سے کم عقل کمزور بچہ دین کے علم کے واسطے اور آپ کے مال کا سب سے زیادہ بچا کچہ دینی درسگاہوں کے واسطے .......
جتنا پیسہ سال بھر میں ایک او لیول پڑھنے والے بچے پر خرچ ہوتا ہے اتنے میں ایک مولوی تیار ہو جاتا ہے .......
اصل میں یہ بغض یہ جلن مولوی سے نہیں شاد و آباد مساجد سے ہے علما سے نہیں بلکہ علوم دینیہ سے ہے یہ دشمنی مفتی سے نہیں دین سے ہے ......
اور جناب فقر کا اتنا ہی خوف اور اتنی ہی پریشانی تو مولوی سے کیوں نالاں ہیں مولوی تو ہے ہی بیکار مادی اسباب اختیار کیجئے آپ کی کم ہمتی اور ناقابلیت کا ذمےدار مولوی تو نہیں اور اسی خرابی میں نظام میں باہمت لوگ شکر گزاری کے ساتھ اپنی معاش حاصل کر رہے ہیں
ویسے دعوی تو ہے اس قوم کو حب رسول کا لیکن اس تقاضے کون نباہے .......
ایک اعرابی الله کے رسول سے آکر کہنے لگا !
”یارسول اللہ ! مجھے آپ سے محبت ہے- آپ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ کر کہو- تو اس نے تین دفعہ کہا، خدا کی قسم مجھے آپ سے محبت ہے- آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے محبوب رکھتے ہو تو پھر فقر و فاقہ کے لئے تیار ہو جاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے) کیونہ جو مجہ سے محبت کرتا ہے فقر و فاقہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسی تیزی سے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے-“ (ترمذی؛۲۳۵٠)
اب کیا کریں کمی آپ سے ہوتی نہیں 
حب رسول کا آپ دعوا کرتے ہیں 
شکر کرنا آپکےلئیے مشکل 
اور صبر کرنا کار لاحاصل 
آسان کام یہ ہے مولوی کو برا بھلا کہیں اور دل کا سکون پائیں
" نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ......... نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے "
آج مفتی آپ سے پوچھتا ہے 
اسلام کے نام پر مملکت قائم کرنے والوں نے کتنی مساجد تعمیر کیں کتنی اعلی دینی درسگاہوں کا قیام ہوا دیوبند ، ندوہ ، علیگڑھ اور اعظم گڑھ تو آپ ہندوستان میں چھوڑ آۓ یہاں کون سا الاظہر آپ نے قائم فرما دیا پھر کس منہ سے آپ مولوی پر پھبتی کستے ہیں ہاں مجھے کہنے دیجئے دینی تعلیم و عبادت گاہوں کا قیام آپ کے مقاصد میں تھا ہی کب ہاں بنک کا افتتاح آپ نے ضرور کیا .......
آج مفتی آپ سے پوچھتا ہے ہاں یہ دیوبندی ہے بریلوی ہے اہل حدیث ہے لیکن یہ جو مہاجر ، پٹھان ، سندھی ، بلوچی ، پنجابی سرائیکی ، بہاری کی دیواریں ہیں یہ کس نے کھڑی کر دی ہیں آپ کے درمیان ......
آپ ذرا یہ تو بتائیں آپ کا دنیوی تعلیمی مقام کیا ہے کتنے عظیم علمی دماغ آپ نے پیدہ کر ڈالے کون سی ایجادات کا تمغہ آپ کے سینے پر سجا ہے ......
اور افسوس تو یہ کہ جو چند مولوی سیاهست میں آپ کے سامنے پیش ہوتے ہیں انھیں آپ بطور قوم دھتکار کر کن لوگوں کو چنتے ہیں 
یہ بی بی کا بیٹا ہے یہ مہاجر قوم کا اکلوتا رہنما یہ پنجاب کی شان پنجاب کی آن یہ باچا خانی پشتون ہے اور یہ رنگیلے خان کا دیوانہ دیوانی کیا حکومت کسی مولوی کے ہاتھ ہے 
مولوی کیا کرے الکشن لڑے تو حکومت کا بھوکا کہلاے 
جہاد کی بات کرے تو دہشت گرد بن جاوے 
دعوت و اصلاح کا بیڑا اٹھاۓ تو غیر فعال راہب کی پھبتی سنے 
اور انقلاب کی بات کرے تو فسادی کہلاے .......
آج آپ سے بحیثیت قوم سوال ہے 
کیا آپ پورے کے پورے دین کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں 
الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے عمر فاروق رض سے کہا تھا 
تم مجھے اپنے جان سے زیادہ عزیز رکھو 
اور فاروق ایک لمحے میں فنا فی الرسول کے مقام پر کھڑے تھے
(بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں ۔ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا! قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جب تک کہ میں تجھے جان سے پیارا نہ ہو جاؤں تو تیرا ایمان کامل نہیں ۔ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا بخدا! اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہو گئے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا: ترجمہ: ’’عمر اب تمہارا ایمان کامل ہو گیا۔ ‘‘
حوالہ کیلئے صحیح بخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبیﷺ، حدیث نمبر 6142)
مسلہ یہ نہیں کہ مولوی کیا کہتا ہے مسلہ یہ ہے کہ کیا آپ دین کو پوری طرح قبول کرنے کیلئے تیار ہیں اور کیا آپ الله کے دین پر راضی ہیں 
اگر ہاں تو ضرور سوال کیجئے 
اور اگر نہیں تو پھر آپ کو کوئی حق حاصل نہیں
قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالٰی اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالٰی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا
(التوبہ : 24)
حسیب احمد حسیب

اسکے نام پے بیٹھی ہے

غزل
اسکے نام پے بیٹھی ہے 
کتنی پاگل ناری ہے


ارمانوں کا خون ہے یا
کپڑوں پر گلکاری ہے

تنہائی ، یادوں کا بوجھ
دل پر کتنا بھاری ہے


جان تمہیں ہم کہتے ہیں 
جان ہی تم پر واری ہے


تیری جدائی کا دل پر 
وار بہت ہی کاری ہے


ہونٹوں پر آتی مسکان 
دیکھو کتنی پیاری ہے


موسم بدلا ہے یا پھر 
تم نے زلف سنواری ہے


کل شب بادل برسا تھا 
آج ہماری باری ہے


آنکھوں سے اسکی تصویر 
ہم نے آج اتاری ہے


آگ بجھانے والے کے 
دامن میں چنگاری ہے


موسم سے ڈرنا کیسا 
طوفانوں سے یاری ہے


دریا میں موجوں کا حسیب 
کھیل ابھی تک جاری ہے


حسیب احمد حسیب

جمعہ، 29 اگست، 2014

* استفسار *

* استفسار *

اچھا ! تو کیا میں که دوں ...........؟

یہ تم سے پوچھنا ہے
لیکن مجھے پتہ ہے 
تم نے نہیں سنا ہے 
کتنا عجیب سا یہ 
چاہت کا سلسلہ ہے 
ہونٹوں کو بند کر کے 
آنکھوں سے بولنا ہے 

اچھا ! تو کیا میں کہ دوں ........... ؟

چاہت کے سلسلوں میں 
الجھے سے راستوں پے 
چلنا ہے آبلہ پا 
رکنا نہیں کہیں بھی 
لیکن میں جانتا ہوں 
تم کو نہیں پتہ ہے 
یہ دل کا معاملہ ہے 

اچھا ! تو کیا میں کہ دوں ........ ؟

جاؤ نہیں میں کہتا 
تم سے میں کیوں کہوں وہ 
جو آرزو ہے میری 
جو جستجو ہے میری 
جو بھی میں سوچتا ہوں 
جو بھی میں دیکھتا ہوں 
اے گردش زمانہ 
روٹھی ہوئی ہوئی محبت 
کب لوٹ کر ہے آئی
پھر بھی میں پوچھتا توں 
پھر بھی میں پوچھتا ہوں 

اچھا ! تو کیا میں کہ دوں .......... ؟

حسیب احمد حسیب

فکری قبض

فکری قبض !

مولانا فرماتے ہیں
چوں کہ قبض آید تو در وے بسط بیں
تازہ باش وچیں میفگن بر جبین
چوں کہ قبضے آیدت اے راہ رو
آں صلاحِ تست آیس دل مشو
(ترجمہ:جب حالت قبض تجھ کو پیش آئے تو اس میں خوش رہ، ہشاش بشاش رہو اور پیشانی پر شکن نہ لاؤ، اے راہ سلوک کے مسافر !تجھے حالت قبض پیش آتی ہے اس سے مقصود تیری اصلاح ہے، اس حالت پر تو دل چھوٹا نہ کر۔)

اس کے بعد بسط کی کیفیت ہوتی ہے
ایک تخلیق کار پر یہ کیفیات ضرور طاری ہوتی ہیں کبھی مضامین کا ورود ہوتا ہے قلم رواں ہوتا ہے زبان پر الفاظ جاری ہوتے ہیں اور تخلیقی عمل اپنے عروج پر ہوتا ہے اور کبھی قلم روک دیا جاتا ہے زبان پر لکنت طاری ہو جاتی ہے اور تخلیقی سوتے خشک ہو جاتے ہیں یاد رہے یہ وقت تحقیق کا ہوتا ہے ہتھیار تیز کرنے کا کیونکہ طبیعت دوبارہ رواں ہونے والی ہے ......

لاروا جب بھی اپنے (cocon) میں جاتا ہے ہر مرتبہ خوبصورت رنگوں اور پروں کو ساتھ لیے پرواز کیلئے تیار نکلتا ہے یہ تخلیقی قبض پرواز کی بلندی کیلئے ہوتا ہے

قعر چہ بگزید ہر کہ عاقلست
زانکہ در خلوت صفاہائے دلست
چشم بند و لب بہ بند و گو ش بند
گر نہ بینی نور حق بر ما نجند

یعنی ہوشیار لوگ گہرائی میں جانا کیوں پسند کرتے ہیں اس لئے کہ خلوت میں دلوں کی صفائی حاصل ہوتی ہے ۔آنکھوں کو ،ہونٹوں کو اور کانوں کو کچھ عرصے کے بند کرو یعنی تخلیہ میں چلے جاؤ پھر حق کا نور نہ دیکھو تو مجھ پر ہنسو۔بعض لوگ وقتی طور پر باطن کی کچھ صفائی حاصل کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں اور اپنی حفاظت سے غافل ہوجاتے ہیں تو جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ لاکھوں جال بکھرے ہوئے ہیں اس میں کسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اس لئے رومی ؒ اس قسم کی اطمینان سے اس طرح منع کرتے ہیں :

اندر رہ می تراش و می خراش
تادمے آخر دمے فارغ مباش
تا دمے آخر دمے آخر بود
کہ عنایت با تو صاحب سر بود

اندر ہی اند ر تراش و خراش جاری رکو اور نفس کی اصلاح سے آخری سانس تک فارغ نہ بیٹھنا ۔آخری دم تک کام کرتے رہ یہاں تک کہ آخر وقت آجائے ممکن ہے کہ راز والا آپ کو راز آشنا کردے

(اقتباس )

میں خود سےدورنکلنےکے فن سے واقف ہوں
میں اپنے آپ میں رہتا ہوں ضم نہیں ہوتا

کبھی کبھی اپنے آپ سے دور نکلنا بھی تخلیقی عمل کے لوازمات میں سے ہوتا ہے یہ وقت ارکتاز کا وقت ہے بیٹری کو ریچارج کرنے کا وقت .........
یاد رکھئے نیند بیداری کیلئے ضروری ہے ورنہ احساس کی موت واقع ہو سکتی ہے

حسیب احمد حسیب

میرے مزاج کے رنگوں کو ظاہر کرتی

میرے مزاج کے رنگوں کو ظاہر کرتی 

تازہ غزل !

دیوار میں در رکھنا 
دیوار مگر رکھنا 

پرواز کے موسم تک 
ٹوٹے ہوے پر رکھنا

شیشے کی عمارت ہے 
پتھر کا جگر رکھنا 

حق میرا مجھے دے دو
پھر دار پہ سر رکھنا

جانا ہے عدم بستی 
کیا زاد سفر رکھنا 

پندار بھلے ٹوٹے 
کردار مگر رکھنا

کٹ جاۓ بھلے گردن
دستار میں سر رکھنا 

لمبی ہے شب فرقت
آنکھوں میں سحر رکھنا

سورج سے نہیں خطرہ 
جگنو پے نظر رکھنا

تہذیب کے لاشے کو 
مت لا کے ادھر رکھا 

باطن ہے منور تو 
کیا شمس و قمر رکھنا 

مشکل ہے بہت مشکل 
دل میں تیرے گھر رکھنا 

شعروں میں حسیب اپنے 
کچھ لعل و گہر رکھنا 

حسیب احمد حسیب

پھر نگاہوں نے وہ منظر دیکھا

پھر نگاہوں نے وہ منظر دیکھا !

لال مسجد کا گھیراؤ کیا جا چکا ہے خون کی ہولی کھیلنے کا وقت قریب ہے بے گناہ بچیوں کو قتل کیا جانا ہے مسجد کی بےحرمتی ہونی ہے مقدس اوراق کو بوٹوں تلے روندا جانا ہے .......

نگاہوں نے وہ منظر دیکھا .......

ملک گیر احتجاج ہوا پارلیمنٹ ہاؤس کا گھیراؤ کر لیا گیا قاتل مشرف کے خلاف انقلابی تحریک شروع ہوئی تمام دیوبند مدارس میں تعلیمی عمل بند کر دیا گیا اکابرین وفاق نکل کھڑے ہوے پورا دیوبند مسلک ہم آواز ہو گیا ......
یہاں صرف دیوبندی نہیں اہل حدیث بھی جو تمام مسلکی تعصبات کو بالاۓ طاق رکھ کر اپنے مواحد بھائیوں کا ساتھ دینے میدان میں آ چکے ہیں یہیں کہیں جماعتی احباب اپنی منظم قوت کے ساتھ موجود ہیں اور ہراول دستے کا کام دے رہے ہیں .....
جہادی حلقوں کی اسلام آباد آمد شروع ہو چکی تمام جہادی حلقوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایسا کوئی ظلم نہیں ہونے دینگے .....

پھر نگاہوں نے وہ منظر دیکھا 

وہ منظر دیکھا وہ منظر دیکھا وہ منظر دیکھا وہ منظردیکھا 

مگر نگاہوں نے وہ منظر نہیں دیکھا 
کبھی نہیں دیکھا 

سلام عمران خان سلام طاہر القادری 

خوش رہو آج معلوم ہوا اہل سنت حلقوں کی فکری موت واقع ہو چکی ہے .

حسیب احمد حسیب

تم بھی دیکھو گے ہم بھی دیکھیںگے

تم بھی دیکھو گے ہم بھی دیکھیںگے


 تم بھی دیکھو گے ہم بھی دیکھیںگ

بے لباسی لباس والوں کی

 

میری دھرتی میں ہے پزیرائی


تن کے گوروں کی من کے کالوں کی 

حسیب احمد حسیب

حدیث اور فرقہ واریت

حدیث اور فرقہ واریت !

مجھے اس مغالطے کی وجہ کبھی سمجھ نہیں ای کہ اسلام میں فرقہ واریت کی وجہ حدیث ہے .................
غور کیجئے حدیث میں جرح و تعدیل کے اصول ہیں روایت و درایت کا اہتمام کیا جاتا ہے اگر کوئی فرقہ اپنی دلیل میں کوئی حدیث پیش کرتا ہے تو اسکی جانچ ہوتی ہے اسکو روایت و درایت کے اصولوں سے گزارا جاتا ہے دوسری احادیث سے اسکی تطبیق کی جاتی ہے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ قرآن سے تو متصادم نہیں سو حدیث کی بنیاد پر فرقہ گری کا امکان ہی نہیں .......

دوسری طرف جب کوئی فرقہ اپنی دلیل میں قرآن کو پیش کرتا ہے تو آپ اس میں صحیح و ضعیف کا سوال ہی نہیں اٹھا سکتے یہاں راویوں کو دیکھنے کی بات ہی نہیں ہو سکتی یہ قرآن ہے اسکا ماننا لازم ہے ....
سو جدید و قدیم ہر فرقہ اپنے فرقے کی حقانیت کیلئے قرآن ہی کو دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے ابتداء میں بننے والے دو بڑے فرقوں روافض و خوارج نے قرآن کو ہی دلیل بنایا تھا.....

اور میں فرقوں کی کتب سے قرآنی دلائل کی بے شمار امثال پیش کر سکتا ہوں
تو کیا آپ کے اصول کے مطابق قرآن کو بھی چھوڑ دیا جاۓ......

حسیب احمد حسیب

جمعرات، 14 اگست، 2014

غریب کا بچہ

" غریب کا بچہ "
غریب کا بچہ !

جی یہ وہ غریب کا بچہ نہیں جو واقعی غریب کا بچہ ہوتا ہے کیونکہ غریب کے بچے کا تذکرہ آخر کون کرے گا اور اسکا فائدہ بھی کیا بلکہ غریب کا بھی کیا فائدہ بجز اسکے کہ وہ کسی ہنگامے ، طوفان اور فساد کی نظر ہو جاوے یا بیچارہ عید کی خوشی میں سمندر پر نہاتے ہوے انتظامی بدحالی کی وجہ سے سمندر کا رزق ہو جاوے اور الزام اسکی جہالت پر ڈال دیا جاۓ ........ ہنہ غریب کا بچہ "
ہاں ہمارے لوگ غریب کی بچیوں کی طرف ضرور راغب ہوتے ہیں نرم دل انسانیت پسند جو ٹھہرے ویسے غریب کی بچی کی پرواز ہوتی بہت اونچی ہے اب اپنی لالہ کو ہی لےلیجے جسکا ملال پوری دنیا کو ہے .......

یہ وہ غریب کا بچہ ہے جسے یہ لقب دوستوں کی طرف سے دیا جاتا ہے ...
آپ کسی ہوٹل میں جائیں اور کسی ایک ساتھی کے پاس کم پیسے نکل آئیں تو اسکے دوست اسے پانچ انگلیاں دکھاتے ہوے کہتے ہیں ہنہ غریب کا بچہ...
اگر آپ کے حلقہ احباب میں کوئی بیروزگار ہے اور دوستوں کی عیاشیوں کے ساتھ قدم ملا کر چلنا اسکیلئے ممکن نہیں تو پھر وہی پھبتی چل غریب کا بچہ....

کسی دیندار آدمی کی شادی ہو اور سادی ہو تو خاندان کے دوستوں کی طرف سے پھبتی ابے غریب کے بچے کچھ خرچہ ہی کر لیتا اور اس غریب کے بچے کی کھسیانی ہنسی .....

کبھی کبھی یہ لقب کسی خسیس کو شرم دلانے کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہمیشہ دوستوں سے دعوتیں اڑا کر اپنی خالی جیب دکھا دے اور دوست کہیں " ابے غریب کے بچے "

ایک مسلہ بلکہ قومی مسلہ یہ بھی ہے کہ ان غریبوں کے بچے ہوتے بھی بہت ہیں یہ بچے دو ہی اچھے کے مقولے کو مانتے تو ہیں لیکن دس میں سے دو کو چن کر .....

بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی کوئی یہودی سازش ہے کہ غریب کی غربت اور اسکے بچے کو تضحیک کی علامت بنا دیا گیا کبھی یہ کسی نے نہیں کہا ارے او " امیر کے بچے "

لیکن اگر غور کیا جاوے تو یقین کیجئے اس غریب کے بچے کے بغیر ہماری قوم ہماری قومیت اور ہماری قوت کا بھٹہ ہی بیٹھ جاوے کیونکہ یہی غریب کا بچہ قوم ہے یہ قومیت کا مارا ہے اور یہی ہماری قوت کی بھٹیوں کا ایندھن بھی ہے .....

ہر جگہ غریب کا بچہ ہے یہ مسجد کا موزن ہو یا اگلی صفوں پر لڑنے والا سپاہی یہ مجاہد فی سبیل الله ہو یا مل کا مزدور یا پھر کوئی لنڈورا سڑک چھاپ روڈ ماسٹری کرنے والا یہ ہر جگہ ہے اور یہ ہر طرح ہے ....
کیونکہ یہ ہے ایک

" غریب کا بچہ "

حسیب احمد حسیب

دہریت کا بنیادی مرض

" میں آزاد ہوں "
دہریت کا بنیادی مرض !

" میں آزاد ہوں "

کلی آزادی یہ ہمیشہ انسان کی خواہش رہی ہے مگر کیا کیجئے انسان مقید ہے آپ لاکھ انکار کیجئے حیلے بہانے تراشیں لیکن آپ مجبور ہیں ....

انسان مقید ہے انسان کا
انسان مقید ہے اپنے مادی وجود کا
انسان مقید ہے اپنے جذبات و احساسات کا
انسان مقید ہے اپنے ماحول کا
انسان مقید ہے اپنے افکار کا

کہیں خونی رشتے آپ کے پیر کی دیوار ہیں تو کہیں ریاستی قوانین آپ کے راستے کی رکاوٹ کہیں آپ کا کمزور وجود آپ کی خواہشات کو پورا کرنے میں ناکام تو کہیں آپ کے جذبات آپ کی فکری پرواز میں مزاحم .....
کیا خوب کہا ہے شاعر نے

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

خدا کا آپ سے ایک ہی مطالبہ ہے دیکھو میری غلامی میں آجاؤ اور آپ کی یہی رٹ میں ناں مانوں..

غور کیجئے کیا آپ اپنے ارد گرد موجود مادی حدود و قیود کو توڑ سکتے ہیں اس لا محدود پھیلی ہوئی کائنات میں آپ کی پرواز کہاں تک ہے پھر آپ کی جسمانی کمزوریاں کیا آپ ہمیشہ جاگ سکتے ہیں یا ہمیشہ سو سکتے ہیں کیا آپ غم خوشی دکھ تکلیف سے مبراء ہو سکتے .....

پھر آپ پر زمینی حدود کی پابندیاں یہ پاکستان ہے یہ ہندوستان یہ امریکہ یہ انگلستان یہ کوریا یہ جاپان .....
کبھی کسی ملحد نے اس پر اعتراض کیوں نہیں کیا ہاں جہاں مذاہب کی حدود کی بات آئی پھر میں ناں مانوں کی تکرار .....

آپ کی مرضی مت مانئے آپ کے ماننے یا نہ ماننے سے حقائق تبدیل نہیں ہوتے .....

پھر ہر شخص دوسرے شخص کا قیدی میری آزادی وہاں ختم ہوتی ہے جہاں آپ کی ناک شروع ہوتی ہے ایسا کیوں جناب آپ کی آزادی وہاں کیوں ختم نہیں ہوتی جہاں مذھب کی حد شروع ہوتی ہے ......

کبھی آپ بچے تھے تو آپ کے ماں باپ نے آپ کی پرورش کی استادوں نے آپ کو پڑھایا کتابوں میں لکھے نے آپ کو سکھایا دنیا کے مشاہدے نے آپ کو سمجھایا ......
تو سوال یہ ہے کہ آپ کہاں ہیں آپ کون ہیں آپ کی اپنی حیثیت کیا ہے
ایک عظیم الشان فطری کارخانے کے ایک کارندے جو اس مشین میں چل رہا ہے اور اس کا اس مشین سے نکلنا ممکن ہی نہیں .

آپ لاکھ کہیں میں آزاد ہوں لیکن کیا کیجئے
آپ صرف ایک غلام ہیں فطرت کے غلام
اب فیصلہ آپ کا ہے کہ آپ کو کس کا غلام بننا ہے
اپنی بےلگام خواہشات کا یا پھر
ایک سچے حقیقی رب کا

حسیب احمد حسیب

اسلام ایک متواتر دین

اسلام ایک متواتر دین !

تواتر ایک فطری امر ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتا ہے ہم کسی بھی چیز کے متواتر ہونے سے اسکی حقیقت پر اعتبار حاصل کرتے ہیں اب اپنے ارد گرد موجود مظاہر فطرت پر نگاہ ڈالیے سورج کا روز نکلنا اور غروب ہونا چاند کا نمودار ہونا موسموں کا تبدیل ہونا اور دوسرے کائناتی تغیرات ایک تواتر (pattern) کو ظاہر کرتے ہیں پھر انسان کے اپنے معاملات جن سے وہ اپنی کیفیات کو پہچانتا ہے متواتر ہیں بچوں کی ولادت مرد و زن کے باہمی تعلقات انسانی جذبات و احساسات سب ایک تواتر پر موجود ہیں یا متواتر ہیں .......
غور کیجئے اگر یہ تواتر موجود نہ ہوتا تو کسی بھی چیز کو بدیہی حقیقت یا حقائق میں کیسے شمار کیا جا سکتا تھا سورج کبھی نکلتا اور کبھی نہ نکلتا کبھی پورا سال موسم سرما جاری رہتا اور کبھی گرمی کا موسم ....

ہم اپنے ماحول حالات واقعات کی پہچان تواتر سے ہی کرتے ہیں یہ ایک (Natural phenomenon) ہے اور یہ کسی مذہبی مولوی کی ذہنی اختراع نہیں بلکہ جدید دنیا کے محققین بھی اسی نتیجے تک پہنچے ہیں ...

پھل پھول نباتات جمادات غرض کائنات کی ہر شے میں ایک عظیم تواتر موجود ہے .پچھلی صدی کا ایک عظیم دماغ آئین سٹائن کہتا ہے (The basic laws of the universe are simple, but because our senses are limited, we can’t grasp them. There is a pattern in creation.

If we look at this tree outside whose roots search beneath the pavement for water, or a flower which sends its sweet smell to the pollinating bees, or even our own selves and the inner forces that drive us to act, we can see that we all dance to a mysterious tune, and the piper who plays this melody from an inscrutable distance—whatever name we give him—Creative Force, or God—escapes all book knowledge.)

سچ ہے اگر اس کائنات سے متواترات کو ختم کر دیں تو اس کی کیا حقیقت باقی رہتی ہے .
ہماری مذہبی سوچ کا مسلہ یہ بھی ہے کہ وہ قدیم مذہبی نظریات سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے تو جدید مذہبی بندش میں پھنس جاتا ہے لیکن کائناتی اسرار و رموز اسپر نہیں کھلتے اور وہ انھیں سمجھنے سے قاصر رہتا ہے ..

اگر کتاب الله تواتر سے ثابت نہیں یا دینی اعتقادات کا ثبوت تواتر میں نہیں یا وہ اپنی اصل میں متواتر نہیں تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ خلاف فطرت ہیں اور خلاف فطرت چیز خالق کی عطا کردہ نہیں ہو سکتی کیونکہ فطرت اپنی حقیقت میں خالق کی منشاء ہی تو ہے ......

تواتر کے انکار میں آپ اتنا بڑھے کہ آپ نے کتاب الله کو بھی غیر متواتر ثابت کر دیا ...
معاملہ یہ ہے کہ حقائق (reaction philosophy) سے ثابت نہیں ہوتے (conspiracy theories) کے شائق دماغ ہر شے میں چھپے ہوے کیڑے نکال کر بلکہ یہ کہیں کہ کیڑے ڈال کر اپنی عقل سے کچھ نیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اس کو آسان زبان میں خود نمائی کہا جاتا ہے .

جبتک کہ پچھلی عمارت نہ ڈھا دی جاوے نئی کھڑی نہیں کی جا سکتی چاہے پچھلی کتنی ہی مظبوط بنیادوں پر کیوں نہ کھڑی ہو (demolish and construct) کا اصول ہر جگہ لاگو نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات تخریب کرنے والے کچھ نیا تعمیر کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے .

انکار حدیث والے حضرات کا بنیادی مسلہ یہی ہے .

آپ نے فرمایا تواتر اپنی حقیقت میں کچھ نہیں اور کسی بھی چیز کو ثابت کرنے کیلئے تواتر کی کوئی ضرورت نہیں یہاں آپ نے کدال تو حدیث پر چلائی لیکن اسکی ضرب سیدھی دین پر پڑی.

ایک جدید ذہن اسی رویہ کی وجہ سے الحاد و دہریت کی جانب متوجہ ہوتا ہے اب سوال یہ پیدہ ہوتا ہے کہ آپ سو دوسو تین سو سال پیچھے چلے جائیں آپ یہ کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ کتاب جو آپ کے ہاتھ میں ہے یہی کتاب الله ہے ہمیں معلوم ہے کہ پچھلی دینی کتب میں تحریفات ہو چکی ہے نہ تو تورات محفوظ رہی نہ انجیل اور نہ ہی زبور تو پھر قرآن کی حفاظت کا سب سے بڑا معجزہ اسکا تواتر سے ثابت ہونا ہی تو ہے .......
آپ تواتر کہ بغیر یہ کیسے (Establish) کر سکتے ہیں کہ جو کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے یہ اسی شکل میں اتنے ہی پاروں میں انہی الفاظ کے ساتھ الله کے رسول صل الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی.

پھر آپ نے ایک اور لطیفہ بیان کیا کہ قرآن کی حقانیت کا ثبوت اسکی اندرونی شہادت ہے عجیب بات ہے جناب پھر تو دنیا کے تمام مقدمات ایک لمحے میں ختم ہو سکتے ہیں کیونکہ ہر شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ میں حق پر ہوں مجھے حیرت ہے کہ قول رسول کو اپنی خود ساختہ حق کی کسوٹی پر پرکھنے والوں کے پاس اتنے بودے دلائل بی ہو سکتے ہیں جو (common sense) کے بھی خلاف ہوں .

اگر قرآن کی اندرونی شہادت ہی کافی ہوتی تو نبی یا رسول بھیجنے کی کوئی حقیقی ضرورت موجود نہیں تھی یہ کافی تھا کہ فرشتے کتاب کسی اونچی پہاڑی پر رکھ جاتے پھر کتاب الله کو بتدریج نازل کرنے کی عقلی توجیہ ہی کیا ہے .
پہلے نبی کا کردار منوانا اکو صادق و امین کہلوانا اس بات کا متقاضی تھا کہ اندرونی شہادت کے ساتھ خارجی شواہد بھی پیش کئے جاویں تاکہ جیتے جاگتے زندہ معاشرے میں کسی چیز کا وجود ثابت ہو سکے اسلام عملی دنیا کا دین ہے کوئی فکری یا کتابی چیز نہیں کہ جو امور دنیا سے مستغنی ہو یا صرف لوگوں کے علمی گفتگو کیلئے موجود رہے اندرونی شہادت اسی وقت پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے جب وہ عملی دنیا میں جیتی جاگتی حقیقت بن کر کھڑی ہو .....

پھر آپ اپنے مقدمے کو یوں تام کرتے ہیں کہ قرآن از خود اپنی شہادت کیسے ہے یا اسے شہادت کیوں تسلیم کریں تو اسکی بنیاد اعتقاد ہے .

جناب من اگر اعتقاد پر ہی بحث ختم کرنا تھی اور دین کو یونہی لٹکتا چھوڑ دینا تھا تو پھر جان لیجئے کہ ہر کسی کا اعتقاد الگ الگ ہے اور وہ اسپر اتنا ہی یقین رکھتا ہے جتنا آپ اپنے معتقدات پر میرے محترم اعتقاد یا ایمان کوئی علمی دلیل نہیں یہ ایک روحانی کیفیت ہے جو دوسروں سے منوائی نہیں جا سکتی .

الله اپنی حقیقت میں حق ہے قرآن اپنی اصل میں حق ہے اور الله کے رسول صل الله علیہ اپنی حقیقت میں سچ ہیں لیکن ان کی حقانیت کو دنیا میں ثابت کرنے کیلئے دعوت کے میدان میں دلائل کی قوت درکار ہے ورنہ یہ حقائق دنیا سے پوشیدہ ہی یہ جاتے اور دلائل میں سے ایک عظیم الشان دلیل امور دینیہ کا تواتر سے ثابت ہونا بھی ہے .

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس آپ اپنا رخ اﷲ کی اطاعت کے لئے کامل یک سُوئی کے ساتھ قائم رکھیں۔ اﷲ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو)، اﷲ کی پیدا کردہ (سرِشت) میں تبدیلی نہیں ہوگی، یہ دین مستقیم ہے لیکن اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے

حسیب احمد حسیب

صابن !

صابن !

قدیم پرتگیزی کا صباو (sabão) فارسی کے صیغہ ساختن پر تخفیف ہوکر صابن بنا جو ہماری اردو میں بھی مستعمل ہے یہ صابن ہے کیا صفائی کا ایک آلہ ایک ایسی شے جو ظاہری میل کچیل کو صاف کردے لیکن جب بھی صابن کے فلسفے پر غور کیا جی ہاں صابن کا فلسفہ ......

دنیا کی ہر شے اپپنے اندر ایک فلسفہ رکھتی ہے اور وہ فلسفہ انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتا اگر سوچ و فکر کے سوتے خشک نہ ہو چکے ہوں ....

یہ صابن ہے رنگ برنگی شکلوں خوشبوں مختلف سانچوں میں ڈھلا الگ الگ برانڈز کے ساتھ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتا ......

کیا ہے یہ صابن جو ہمیں بھی دھوتا ہے اور ہمارے میلے کپڑے بھی دھوتا ہے اور خود گھلتا ہے جی ہاں یہ گھلتا ہے .

صابن کا فلسفہ اسکا گھلنا ہے .......

چاہے غریب کا صابن ہو یا امیر کا سستہ ہو یا مہنگا یہ گھلتا ہے
یہ کیوں گھلتا ہے کیونکہ ہمارا گند صاف ہو سکے

ہر وہ شخص گھلتا ہے جو دوسروں کا گند صاف کر سکے دعوت و اصلاح کی بنیاد گھلنا ہی تو ہے گھلنا کڑھنا تاکہ لوگوں کے قلوب صاف ہو سکیں چاہے اپنی ہستی فنا ہی کیوں نہ ہو جاوے

رب العزت اپنے محبوب کو کہتے ہیں

اے نبی آپ کیوں گھلتے ہیں

لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ[ (سورة التوبة:128)

’’(مسلمانو!) تمہارے لئے تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں,جن پرہروہ بات شاق گزرتی ہے,جس سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے,تمہاری ہدایت کے بہت خواہش مند ہیں ,مومنوں کے لئے نہایت شفیق ومہربان ہیں

اور پھر یہ معاملہ یہاں تک بڑھتا ہے کہ

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ أَسَفًا(۶)
تو شاید آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کرنے والے ہیں، اگر وہ ایمان نہ لائے اس بات پر، غم کے مارے۔(۶)

بَاخِعٌ عربی میں کہتے ہیں اپنے آپ کو غم میں گھلا دینا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دینا کے یہ امت ہدایت پر آجاوے

نبوی صفت کو صابن سے سمجھیں جی ہاں صابن

جو دوسروں کا میل صاف کرتا ہے انکو پاک کرتا ہے انکا گند دھو دیتا ہے لیکن خود گھلتا کڑھتا اسکا دل دکھتا ہے ...

اگر ہر کوئی صابن بن جاوے تو اس دنیا میں گندگی کا وجود ہی نہ رہے اور یہ دنیا حقیقت میں پاکیزہ ہو جاوے لیکن اسکیلئے خود گھلنا ضروری ہے .

حسیب احمد حسیب

کن کٹی ماں !

کن کٹی ماں !

کہتے ہیں ایک شخص کو اسکے جرائم کی وجہ سے پھانسی کی سزا ہوئی اسنے آخری خواہش اپنی ماں سے ملنے کی ظاہر کی جب ماں اس سے ملنے آئی تو اس نے کہا اے ماں اپنا کان میرے پاس لا تجھے ایک راز کی بات کہنی ہے ماں بیچاری سمجھی کہ مرنے سے پہلے کسی چھپی ہوئی دولت کی خبر دینا چاہتا ہے کہ میرا بڑھاپا سکون سے کٹے لیکن عجیب ماجرا ہوا اسکی ماں جب اپنا کان اسکے منہ کے پاس لے گئی تو اس نے اپنی ماں کا کان کاٹ لیا .....
لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی اور ماں بھی روتی پیٹتی زخمی کان لیے وہاں سے رخصت ہوئی کسی نے پوچھا ارے او ناہنجار نابکار جہنم کے ایندھن تو نے یہ کیا کیا ......؟
تو اس نے کہا ماں ہی جنت ماں ہی دوزخ اگر یہ ماں میری اچھی تربیت کرتی تو آج میرا مقدر پھانسی کا پھندہ نہ ہوتا.........

یہ کہاوت یوں یاد آئی کہ ہمارے گھر کام کرنے والی ماسی رونی صورت بناۓ روتی پیٹتی آئی یہ چاند رات کی بات ہے امی نے پوچھا کیا ہوا تو اس نے اپنا دکھڑا سنایا ......

جس گھر میں وہ کام کرتی ہے اسکے نچلی منزل میں ایک فیملی رہتی ہے سیڑھیوں کی صفائی کرتے وقت اس نے اپنا بٹوہ وہاں رکھ دیا جو اسکی آنکھوں کے سامنے نچلی منزل والی فیملی کا بچہ لیکر چمپت ہوگیا بچے کی عمر دس بارہ سال ہوگی جب اس نے واویلا کیا تو بچے کی ماں نے اپنے بچے کی طرفداری شروع کر دی اور اسے جھٹلا دیا وہ بیچاری خوب روئی پیٹی بہت واویلا کیا لوگ جمع ہوے سب نے ماسی کی ایمانداری اور سچے ہوانے کی گواہی دی ایک موقع پر جب بچے نے قبول بھی لیا تو اسکی ماں نے اسے آنکھیں دکھا کر خاموش کروا دیا .......

ماسی کے بٹوے میں اسکی کل کمائی تھی جس سے اس نے اپنی بچوں کیلئے عید کی خریداری کرنی تھی اسکا شناختی کارڈ اور دوسرے ضروری کاغذات قصہ مختصر لوگوں کے زور دینے پر وہ عورت مان تو گئی لیکن الزام اپنے بوڑھے سسر پر دھر دیا کہ وہ چوری کے عادی ہیں ماسی کو خوب رو رلا کر اپنی جمع پونجی واپس ملی بوڑھے باریش سسر کی عزت خاک میں ملی لیکن ایک ماں اپنے بچے کے جرم پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہی ..........

لیکن میں سوچتا ہو یہ بچہ جوان ہوکر کیا بنے گا یہ کتنے گھر اجاڑے کتنوں کا مال لوٹے گا اور پھر مجھے پھانسی کا پھندہ اور ایک " کن کٹی ماں " دکھائی دیتی ہے .

حسیب احمد حسیب

غامدی صاحب کے ایک بڑے ناقد

غامدی صاحب کے ایک بڑے ناقد

ایک طرف مدرسہ فراہی کا نظم قرآن ہے جو امین احسن اصلاحی سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچتا ہے تو دوسری طرف سید مودودی کا تحریکی مزاج جو اقامت دین کا متقاضی ہے ...

دور جدید میں ہمیں ہر دو مذکورہ بالا فکر سے متعلق دو افراد ملتے ہیں جنکی بابت خود ان کی طرف سے اور ان کے متبعین کی طرف سے یہ دعویٰ ہے کہ وہ فکر مودودی اور اصلاحی کے امین ہیں ..

یہ دو افراد کون ہیں
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور جاوید احمد غامدی
کچھ تذکرہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا بچپن سے انکا ذکر سنا ایک اپنے نانا مرحوم ظہور احمد خان کے حوالے سے اور اپنے دادا کے بڑے بھائی مولانا برکات احمد خان رح کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب اور میرے نانا مرحوم ہم مکتب تھے ضلع کنج پورہ حصار میں وہ نانا مرحوم کو ظہور بھائی کہا کرتے تھے ....

جب ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنی ڈاکٹری کی پریکٹس کے دوران جو منٹگمری ساہیوال میں تھی علوم دینیہ کی جانب متوجہ ہوے تو پہلا علمی استفادہ عربی اور فارسی کے حوالے سے مولانا برکات احمد خان رح سے کیا پھر آپ نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات گولڈ میڈل کیا ڈاکٹر صاحب مرحوم سے انکی وفات سے کچھ سال پھر قبل جب ملاقات ہوئی تو مختلف موضوعات پر سوالات کیے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے کہا کے مولانا محمود الحسن مجدد کبیر تھے اور اپنی تحریک کو تحریک ریشمی رومال کا تسلسل قرار دیا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب تک میں جماعت میں تھا میرے نزدیک اصحاب رسول کے بعد سب سے عظیم شخصیت سید مودودی مرحوم کی تھی جماعت سے نکلا تو دوسرے اہل علم سے تعارف ہوا غامدی صاحب کے تذکرے پر سخت الفاظ ادا فرماۓ اور محترم حامد کمال الدین صاحب کا ذکر آنے پر انکی توصیف کی ..

ڈاکٹر صاحب مرحوم وہ شخصیت تھے جنہوں نے ایک طرف تو امین احسن اصلاحی کی قرآنی فکر کو آگے بڑھایا تو دوسری طرف سید مودودی کی تحریک اقامت دین کو اپنے انداز سے پروان چڑھایا ہم کہ سکتے ہیں کہ آپ قرآنی فکر اصلاحی اور تحریکی فکر مودودی کے امین تھے ..

دوسری طرف آپ کو اہل علم کی جانب سے پذیرائی ملی ایک طرف ڈاکٹر حمید الله خان مرحوم تو دوسری طرف ابو الحسن علی ندوی رح کے توصیفی کلمات پھر آپ کو فکر اقبال کا سب سے بڑا شارح کہا جاوے تو غلط نہ ہوگا اور آپ میں نری ظاہریت ہی نہیں تھی بلکہ تصوف کا گہرا رنگ بھی موجود تھا جو مولانا داوود غزنوی رح سے تعلق کی بنیاد پر تھا.

دوسری طرف غامدی صاحب کی شخصیت ہے جنھیں معتبر علمی حلقوں میں چاہے وہ قدیمی ہوں یا جدید علوم سے وابستہ جیسے ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کی شخصیت پذیرائی نہیں مل سکی بلکہ ہر دو گروہ کے نزدیک انکی شخصیت متنازعہ ہی رہی ہے ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک ڈاکٹر اسرار مرحوم کو تو اپنا استاد کہتے ہیں لیکن غامدی صاحب کی طرف ذرا بھی التفات نہیں....

عجیب معاملہ یہ ہے کہ ایک ہی استاد کے دو شاگردوں یا شاگردی کا دعویٰ کرنے والوں میں شدید منافرت رہی ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ڈاکٹر اسرار مرحوم نے غامدی صاحب کو اپنی مسجد تک سے نکال دیا اور یہ وہ وقت تھا جب مدارس کے علما کو غامدی فکر سے واقفیت تک حاصل نہ تھی کیونکہ غامدی صاحب کو مشرف دور میں ہائپ ملی جیسے احمد جاوید ، عامر لیاقت ، زید زمان کو ملی .....

سوال یہ ہے کہ ہر دو حضرات جنکا تعلق ایک طرف تو تحریکی اعتبار سے سید مودودی سے تھا تو دوسری طرف فکری اعتبار سے امین احسن اصلاحی سے تھا اتنے مخالف کیوں کہ ڈاکٹر اسرار مرحوم برملا غامدی صاحب کو گمراہ کہتے انکے ادارے سے غامدی صاحب کے خلاف کتب تصنیف ہوتی ہیں اور انکی مسجد سے غامدی صاحب کو نکال دیا جاتا ہے کیا وجہ سے کہ ایک ہی فکر سے منسلک ہونے کا دعویٰ رکھنے والوں میں اتنا اختلاف .

دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ ڈاکٹر اسرار مرحوم کے درس قرآن اور سلسلہ تراویح کو وہ مقبولیت ملی جسکی نظیر ملنا مشکل ہے اور انکی تحریک عالمی سطح پر منظم ہوئی اور عموم کے قلوب میں انکی مقبولیت انکے جنازے میں دکھائی دی ....

کیا وجہ ہے کہ علما فکر غامدی سے نالاں ہیں کیا اس کو صرف تعصب کا نام دیکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور کیا وجہ ہے کہ فکر غامدی کے سب سے بڑے ناقد اصلاحی فکر قرآنی اور مودودی فکر اقامت دین کے امین ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ہی تھے .

حسیب احمد حسیب

حقیقی انقلاب یا کاسمیٹک انقلاب

حقیقی انقلاب یا کاسمیٹک انقلاب !

لفظ انقلاب عربی زبان سے سے اردو میں آیا ہے جسکا مصدر قلب ہے قلب درمیان کو بھی کہتے ہیں علم الابدان کے ماہرین کے نزدیک یہ ایک آلہ ہے جو جسم میں خون کی گردش کو رواں رکھنے اور گندے خون کو صاف کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے لیکن اسکے لغوی معنی تبدیلی یا پلٹ دینے یا ایک کیفیت سے دوسری کیفیت کی طرف منتقل ہونے کے ہیں ......

اسلامی فکر کے مطابق انقلاب صرف ظاہری حالات و واقعات کی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ ماہیت قلب کا نام ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے

یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ عَلٰی دِیْنِکَ
اے دِلوں کو پھیرنے والے !میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ (ترمذی)

یا ایک جگہ آتا ہے

یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ عَلٰی دِیْنِکَ
اے دِلوں کو پھیرنے والے !میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ (ترمذی)

اگر دین قلب میں جاگزیں ہو تو اس کے انقلاب سے پناہ مانگی گئی ہے

کیا خوب کہا ہے شاعر نے

باطن میں ابھر کر ضبط فغاں لے اپنی نظر سے کار زیاں
دل جوش میں لا فریاد نہ کر تاثیر دکھا تقریر نہ کر

اسلام مسلمان سے مکمل تبدیلی کا تقاضہ کرتا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے

اسلامی انقلاب صرف سیاسی تبدیلیوں کا نام نہیں بلکہ اسکی ابتداء عقائد سے ہوتی ہے اور انتہا ایک مکمل اسلامی معاشرت کا ظہور ہے اسی کو خلافت اسلامی ریاست یا حکومت الہیہ کہا جاتا ہے .

اسلامی انقلاب کا مکمل منشور جو اس کے اطراف و جوانب کا احاطہ کرتا ہے الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کا آخری خطبہ ہے

یہ ایک عجیب خطبہ ہے

آپﷺ نے اس کے لئے عجیب بلیغ انداز اختیار فرمایا، لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا … کچھ معلوم ہے کہ آج کونسا دن ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ خدا اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے، آپﷺ دیر تک خاموش رہے ، لوگ سمجھے کہ شاید آپﷺ اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے، دیر تک سکوت اختیار فرمایا اور پھرکہا ! کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا: ہاں بے شک ہے، پھر ارشاد ہوا : یہ کونسا مہینہ ہے؟ لوگوں نے پھر اسی طریقہ سے جواب دیا ، آپ ﷺ نے دیر تک سکوت اختیار کیا اور پھر فرمایا: کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں بے شک ہے ، پھر پوچھا : یہ کونسا شہر ہے؟ لوگوں نے بدستور جواب دیا، آپﷺ نے دیر تک سکوت کے بعد فرمایا : کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں بے شک ہے ، تب لوگوں کے دل میں یہ خیال پوری طرح جا گزیں ہو چکا کہ آج کا دن بھی ‘ مہینہ بھی اور خود شہر بھی محترم ہے یعنی اس دن اور اس مقام میں خوں ریزی جائز نہیں ، تب فرمایا :
" تو تمہارا خون ، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ( تاقیامت) اس طرح محترم ہے جس طرح یہ دن اس مہینہ میں اور شہر میں محترم ہے، " قوموں کی بربادی ہمیشہ آپس کے جنگ و جدال اور باہمی خوں ریزیوں کا نتیجہ رہی ہے ، وہ پیغمبر جو ایک لازوال قومیت کا بانی بن کر آیا تھا اس نے اپنے پیروؤں سے بہ آواز بلند کہا :
" ہاں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ خود ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو ، تم کو خدا کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس کرے گا "

" ہاں مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے ، باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور بیٹے کے جرم کا جواب دہ باپ نہیں"
عرب کی بد امنی اور نظام ملک کی بے ترتیبی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ ہر شخص اپنی خداوندی کا آپ مدعی تھا اور دوسرے کی ماتحتی او فرمانبرداری کو اپنے لئے ننگ و عار جانتا تھا، آپﷺ نے ارشاد فرمایا : " اگر کوئی حبشی بریدہ غلام بھی تمہارا امیر ہواور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو"

ہاں شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا تھا کہ اب تمہارے اس شہر میں اس کی پرستش قیامت تک نہ کی جائے گی، لیکن البتہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کی پیروی کروگے اور وہ اس پر خوش ہو گا"

اپنے پرودگار کو پوجو ، پانچوں وقت کی نماز پڑھو، ماہ رمضان کے روزے رکھو اور میرے احکام کی اطاعت کرو، خدا کی جنت میں داخل ہو جاؤگے "
یہ فرما کر آپﷺ نے مجمع کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : " کیوں میں نے پیغام خداوندی سنادیا" سب بول اٹھے ، بے شک بے شک آپﷺ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچادیا، آپﷺ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف جھکا کر تین بار فرمایا : " ائے اللہ تو بھی گواہ رہیو ، گواہ رہیو ، گواہ رہیو"
(سیرت النبی جلد اول)

اسلام کا مزاج خیر ہے دین کا مزاج سلامتی ہے الله کی زمین میں فساد الله کو پسند نہیں

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں

قریب کی انسانی تاریخ کا ایک عظیم انقلاب انقلاب فرانس تھا اس کی ایک تصویر ملاحظہ کیجئے

یہ انقلابی تحریک ۱۷۸۹ء میں شروع ہوئی اور یورپ پر غیر معمولی طور پر اثر انداز ہوئی۔ اس وقت رعایا کی حالت بالخصوص زرعی اضلاع میں بہت خراب تھی۔ نظام حکومت میں رشوت ستانی کا دور دورہ تھا۔ اقتدار بادشاہ اور امراء کے ہاتھوں میں مرکوز ہو گیا تھا اور اس پر کوئی مؤثر پابندیاں نہیںتھیں۔ اونچے طبقوں کے لوگ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے۔ نتیجتاً اس کا بار بڑی سختی کے ساتھ غریبوں پر پڑتا تھا۔ ملک کا مالیہ مایوس کن انتشار کا شکار تھا۔ اسی زمانہ میں والٹیر (Voltaire)روسو (Rousseau) اور دوسرے فلسفیوں نے عوام کو نئے خیالات سے روشناس کرایا جنہیں خاص مقبولیت شہروں میں حاصل ہوئی۔ والٹیر نے مذہبی اور دیگر روایتوں کو جن کی وجہ سے عوام اپنی زبوں حالی کو چپ چاپ مان لینے کے عادی ہو گئے تھے قابل تحقیر قرار دیا۔ روسو نے انسان کے فطری حقوق کی نشاندہی کی اور ایک ایسی سلھنت کا تصور پیش کیا جس میں عوام کی مرضی کو بالادستی حاصل ہو ۔ لوگوں نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ عدم مساوات ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اس کا نہ تو کوئی خدائی جواز تھا اور نہ انسانی۔ ایک طویل وقفہ کے بعد فرانس کی نمائندہ مجلس ۱۷۸۹ء میں اسٹیٹس جنرل (The States General)کو طلب کیاگیا۔ اس مجلس کے اجلاس میں عوامی نمائندوں نے قومی اسمبلی کو بلانے پر اصرار کیا۔ اس اثناء میں ۱۴؍ جولائی ۱۷۸۹ء کو لوگوں کے ایک ہجوم نے حملہ کرکے پیرس کے پرانے قلعہ باسٹیل (Bastille)کو جس میں شاہی مجرم قید کیے جاتے تھے مسمار کر دیا ۔ اور پورے ملک میں بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ سرخ سفید اور نیلے رنگ پر مشتمل ایک ترنگا (Tri Colour)جھنڈا انقلاب اور جمہوریت کی علامت بن گیا ۔ قومی اسمبلی نے ہی کیا کہ تمام طبقاتی مراعات ختم کردی جائیں۔ اسمبلی نے اپنے آپ کو مجلس قانون ساز میں تبدیل کر لیا۔ امراء کی بڑی تعداد انگلستان اور دوسرے ملکوں کی طرف بھاگ نکلی لیکن اب بھی بہت سے لوگ بادشاہ کے طرف دار تھے حالانکہ اس کی حیثیت ایک قیدی سے زیادہ نہ تھی۔ جون ۱۷۹۱ء میں بادشاہ نے پیرس سے راہ فرار اختیار کی لیکن وارن نس (Varennes)کے پاس اس کو روک کر واپس لایا گیا۔ مجلس نے یہ فیصلہ کیا کہ فرانس کو دستوری بادشاہت بنایا جائے ۔لیکن متعدد اسباب کی وجہ سے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ نہ سکا۔فرانس میں واقعات کی یہ رفتار دیکھ کر یورپ کے اکثر حکمراں اور ان کی رعایا بری طرح خوف زدہ ہو گئے۔ جلا وطن فرانسیسی امیروں نے یورپ کے حکمران کو فرانس میں مداخلت کرنے کے لیے اکسایا۔ ان حکمرانوں میں نمایاں مقام شہنشاہ آسٹریا کو حاصل تھا جو فرانسیسی بادشاہ لوئی شش دہم (Louis XVI)کی بیوی میری آنتوانت (Marie Antoinette)کا بھائی تھا۔ پرشیا (Prussia)کے بادشاہ کے ساتھ مل کر اس نے ایک اعلان جاری کیا اور مطالبہ کیا کہ فرانس لوئی شش دہم کو اس کے اصل رتبہ پر بحال کردیؤ انقلابی جماعت مضبوط ہوتی گئی۔ بیرونی مداخلت حاصل کرنے کی کوشش نے اس جماعت کے اثرورسوخ میں مزید اضافہ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مارچ ۱۷۹۲ء میں فرانس نے آسٹریا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ پرشیا نے آسٹریا کا ساتھ دیا۔ لیکن بغاوتوں اور بد نظمیوں کے باوجود فرانسیسی سپاہیوں نے والمی (Valmy)کے مقام پر پرشیائیوں (Prussians)کوشکست دے دی۔ اب ایک قومی مجلس (National Convention)نے معاملات کی باگ ڈور سنبھالی اور اس کے ساتھ ہی انقلاب کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ انتہا پسند پورے طور پر برسر اقتدار آ گئے۔ دانتان (Danton)رابس پیر (Robespierre)اور مارا (Marat)ان کے لیڈر تھے۔ ۲۱ جنوری ۱۷۹۳ء کو ایک جمہوریہ قائم کی گئی اور ابدشاہ پر مقدمہ چلا کر اس کی گردن مار دی گئی۔ بیرونی ممالک سے جو معاہدے ہوئے تھے وہ ختم کر دیے گئے۔ فرانس نے اعلان کر دیا کہ وہ یورپ کے عوام کو ان کے موروثی حکمرانوں کو خاتمہ کرنے میں مدد دے گا۔ ہزاروں لوگوں کو قید میں ڈال دیاگیا۔ اس دوران فرانسیسی فوجیں بین الاقوامی جنگوں میںکامیابی پر کامیابی حاصل کرتی جا رہی تھیں۔ ۱۷۹۳ء میں تحفظ عامہ کی کمیٹی (Committee of Public)کا قیام عمل میں آیا۔ رابس پری اس کمیٹی کا روح رواں تھا اس کمیٹی کے قیام کے ساتھ ہی دہشت کا دور (Reign of Terror)شروع ہوا سیکڑوں امراء اور سیاست دانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ ۱۶ ؍اکتوبر ۱۷۹۳ء کو فرانس کی ملکہ کی گردن اڑا دی گئی اور پھر یہ لوگ آپس میں لڑ پڑے۔ ۵ ؍ اپریل ۱۷۹۴ء کو رابس پیر نے دان تان کو قتل کروا دیا اور ۲۸ جولائی کو خود رابس پیر کا یہی حشر ہوا۔ دہشت کا یہ دور جلد ہی ختم ہو گیا۔ اکتوبر ۱۷۹۵ء میں ڈائریکٹری (The Directory)قائم ہوئی اور ساتھ ہی اس دور کا خاتمہ ہو گیا جس کو فرانسیسی انقلاب کہاجاتاہے۔

جدید استعماری دنیا جو اسلامی حکومتوں کے مقابر پر کھڑی ہے اور اس کا بنیادی مقصود دنیا میں حقیقی اسلامی انقلاب کو ابھرنے سے روکنا ہے ہر کبھی اسلامی دنیا میں کاسمیٹک انقلابات کھڑے کرتی رہتی ہے جسکی سب سے قریبی مثال عرب سپرنگ ہے

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوں میں طویل شخصی آمریتوں اور بادشاہتوں کے خلاف مقبول عوامی احتجاج کی لہر سے خطے کو پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔
جیو پولیسیٹی نامی ادارے نے مغرب میں ’عرب سپرنگ‘ کے نام سے مشہور ہونے والی اس عوامی تحریک کے بارے میں تحقیق کی ہے۔
تحقیق کے مطابق عوامی شورش کی سب سے زیادہ قیمت مصر، شام اور لیبیا کو ادا کرنا پڑی ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ خطے کے استحکام کے لیے عرب ریاستوں کی سربراہی میں اگر کوئی بین الاقوامی پروگرام نہیں بنا تو عرب سپرنگ کا الٹا اثر بھی ہوسکتا ہے۔
اقتصادی نقصان کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن موجود اعداد و شمار کے مطابق لیبیا کو چودہ اعشاریہ دو ارب ڈالر، شام کو ستائیس اعشاریہ تین اور مصر کو نو اعشاریہ سات نو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

ان انقلابات کو باسی کڑھی میں ابال کہا جا سکتا ہے اور ان کو اٹھانے کا مقصود عوام کو مصروف رکھنا ہے تاکہ حقیقی تبدیلی کا دوازہ بند کیا جا سکے .

یہ ایک اصولی حقیقت ہے کہ اسلامی ممالک میں کوئی بھی ایسا انقلاب جسکا راستہ اسلام کی ترقی کی طرف نہیں جاتا صرف اور صرف ایک دھوکے اور فریب سے زیادہ کچھ نہیں ہے ....

قدرت الله شہاب نے ٨٠ کی دھائی میں " شہاب نامہ " میں ایک باب پاکستان کا مستقبل میں لکھا تھا.

قومی سطح پر ہماری ہماری سیاسی قیادت کا ایک بڑا حصہ اپنی طبعی یا ہنگامی زندگی گزار کر دنیا سے اٹھ چکا ہے یا جمود کا شکار ہوکر غیر فعال ہو چکا ہے کچھ سیاسی پارٹیوں کے رہنما پیر تسمہ پا بن کر اپنی اپنی جماعتوں کی گردن پر زبردستی چڑھے بیٹھے ہیں ان میں سے چند نے کھلم کھلا یا درپردہ مارشل لا سے آکسیجن لیکر سسک سسک کر زندگی گزاری ہے ان نیم جان سیاسی ڈھانچوں میں نہ تو کوئی تعمیری سکت باقی ہے اور نہ ہی ان کو عوام کا پورا اعتماد حاصل ہے پرانی سیاست کی بساط الٹ چکی ہے ....

ایک اور جگہ لکھتے ہیں .

بہت سے لوگوں کے نزدیک پاکستان کی سلامتی و استحکام کا راز صرف اس بات میں مضمر ہے کہ حالات کے اتار چڑھاؤ میں انکے ذاتی اور انفرادی مفادات کا پیمانہ کس شرح سے گھٹتا و بڑھتا ہے . "

اصل کام یہ ہے کہ اس حنوط شدہ قومی لاشے میں کیسے جان ڈالی جاۓ کہ ایک جیتا جاگتا اسلامی وجود بیدار ہو سکے .

حسیب احمد حسیب

مرد و عورت

مرد و عورت

اصل میں جسمانی قوت کے اعتبار سے بعض معاملات میں عورت مرد سے کمزور اور بعض میں قوی ہے ......

مشقت کے اٹھانے یا دوسرے تکلیف دہ امور کے سرانجام دینے میں مرد عورت پر فائق ہے لیکن یہی عورت ایک جان کو نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھ کر اپنے خون سے پروان چڑھاتی ہے مرد اس سے قاصر ہے ......

اسی طرح عورت و مرد کی ذہنی استعداد مختلف ہے عورت میں لطیف جذبات انسانی ہمدردی کی زیادتی ہے جبکہ مرد میں اسکے مقابل سخت اور بعض اوقات بے رحم فیصلے لینے کی صلاحیت ہے ......

ہر دو کا میدان عمل مختلف ہے .....
اسکو سمجھنا اسکا احترام کرنا اور ایک دوسرے کا معاون و مددگار بننا یہ زندگی کی ضرورت ہے .

اگر مرد و عورت کا موازنہ کیا جاوے تو
سائنس دان ، فلسفی ، انجینیر یا شاعر و ادیب کیوں بنتے ہیں کیا انھیں بنایا جاتا ہے یا یہ کوئی فطری رجحان اندرونی صلاحیت ہے جو انہیں اسطرف متوجہ کرتی ہے ......

اب ایک مفروضہ ہی سمجھ کر اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جاوے کہ یہ ایک فطری رجحان کے ماتحت ہوتا ہے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ فطری رجحان ہماری صلاحیتوں پر پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں ہم اپنی فطرت کے تابع ہوتے ہیں اور اسی افتاد طبع کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہمارے میدان مختلف ہوتے ہیں ...

اب یہاں سے گفتگو کو آگے بڑھاتا ہوں
کیا عورت میں مختلف میدانوں میں آگے بڑھنے اور عظیم بننے کی صلاحیت موجود نہیں ......
اگر ہم تاریخ کے اوراق کو کھنگالیں تو ہمیں ایسی بے شمار مثالیں مل جائینگی .....
چونکہ میرا میدان اسلامی تاریخ ہے اسلئے وہاں سے کچھ امثال پیش کرتا ہوں .....

حضرت خولہ بنت ازور رض کی بہادری معروف وہ جنگوں میں مردوں کے شانہ با شانہ شامل ہوتی تھیں .....
حضرت عائشہ صدیقہ رض کی فقاہت معروف ہے اور آپکا تقابل ابن مسعود رض سے کیا جا سکتا ہے اسی طرح علم حدیث میں آپ ابو ہریرہ رض کے ساتھ صف اول میں نظر آتی ہیں ......
حضرت خنساء رض کا شمار عرب کی ان شاعرات میں ہوتا ہے کہ جن کا تقابل اساتذہ سے ہو سکتا ہے ........
اور پھر قبول اسلام میں حضرت خدیجہ رض پر کسی بھی دوسری شخصیت کو فوقیت حاصل نہیں ہے ......

یہاں سے ایک بات معلوم ہوتی ہے کہ عورت کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے .....

اب آتے ہیں اس طرف کہ عملی دنیا میں ایسے مردوں کی تعداد کیوں زیادہ ہے اور خواتین کی انتہائی قلیل کیوں ......
ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ کسی اندیکھی سازش کے تحت خواتین کو ہمیشہ عملی میدانوں سے دور رکھا گیا انکو دبایا گیا .....
لیکن یہ سازش تھیوری مجھے تسلیم نہیں کہ پوری مرد جاتی ہی عورت جاتی کے خلاف کسی عالمی سازش میں مشغول رہی ہو یہ ایک بعید از عقل بات ہے .....

اصل وجہ وہی فطری مزاج اور الہی قانون ہے جو عورت کو اس میدان کی طرف متوجہ رکھتا ہے جو اسکی کی تخلیق کی عظیم ترین وجہ ہے .....
مجھے کہنے دیجئے کہ عورت نے ایک ایسے عہدے کی خاطر اپنی تمام خوبیوں اور صلاحیتوں میں کمی برداشت کر لی جسے " ماں " کا نام دیا جاتا ہے .....

میرے خیال میں ماں بننے کا تخلیقی عمل ہی ایک ایسا اعلی درجے کا کام ہے جسکا کوئی مقابل نہیں جس میں ماں کی اپنی جان اسٹیک پر ہوتی ہے اور پھر اس اولاد کی تعلیم و تربیت .......

حسیب احمد حسیب

تصور جزا و سزا اور فلسفہ دین !

تصور جزا و سزا اور فلسفہ دین !

بنیادی طور پر ہر انسان کی جان قیمتی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ مذہب اور انسانیت کا متفقہ اصول ہے لیکن کیا ہر انسان کی جان یکساں قیمتی ہے یہاں مختلف پیمانے ہیں اسکو کسی بھی علمی عملی اور عقلی اعتبار سے ثابت کرنا امر محال ہے ....

ایک ایسا شیر خوار بچہ جو سننے بولنے اور دیکھنے کی صلاحیت سے قاصر ہو اسکی جان اور ایک ایسا شخص جو اپنے کنبے کا واحد کفیل ہو اسکی جان کیا یکساں اہمیت کی حامل ہوگی ...

اگر یہ سوال ایک ماں سے کیا جاوے تو وہ ہر حال میں فوقیت اپنی اولاد کو دے گی لیکن اگر یہ سوال عموم سے کیا جاوے تو انکے نزدیک وہ شخص زیادہ اہم ہے جو اپنے کنبے کا واحد کفیل ہے .....

ایسے ہی ایک شخص مظبوط جسامت کا مالک ہے اعلی ذہنی صلاحیتیں رکھتا ہے اچھی تعلیم بھی اس کے پاس ہے دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جو معذور ہے اب کامن سینس کے مطابق پہلا شخص زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ وہ پہلا شخص قاتل ہے اشتہاری ہے تو قانونی اعتبار سے دوسرے شخص کی زندگی زیادہ اہم ہوگی ......

قانون فطرت قانون ریاست اور قانون مودت الگ الگ فیصلے صادر کرینگے اور اس معاملے میں انسانی ذہن کوئی بھی ١٠٠ فیصد مقبول ترین کلیہ بنانے سے ہمیشہ قاصر ہی رہے گا.

اب اگر ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصول الگ الگ ہیں تو منطقی اعتبار سے ہر جان کسی نہ کسی اصول کے مطابق کوئی نہ کوئی قیمت ضرور رکھے گی .....

پھر اگر مذہبی نکتہ نظر سے ہی دیکھیں تو کیا خالق نے تخلیق لایعنی کی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے اور بیشک ایسا نہیں ہے تو پھر خالق کی ہر تخلیق ضرور اہم ہے ہاں اب اگر کوئی احسن تقویم سے اسفل سافلین میں جا گرے تو اور بات ہے لیکن وہ خالق کی نگاہوں سے گرے گا مگر اسکی عمومی حیثیت ختم نہیں ہوگی خالق نے ہمیں یہ اختیار نہیں دیا کہ ہم کسی کے متعلق فیصلہ سنا کر اسکو لا شے قرار دے ڈالیں

جہاں بات قانونی معاملات کی ہے وہاں ایک گونگے بہرے اندھے شخص کی جان کا قصاص ایک تندرست و توانا کی جان کے قصاص کے برابر ہی ہوگا اور ہر دو میں کوئی فرق نہیں کیا جاوے گا یعنی قانون کی نگاہ میں دونوں ایک ہی ہیں ......

لیکن منطق دونوں میں تفریق کرے گی اشکالات اٹھاۓ گی سوالات پیدہ کرے گی قانونی اصول اپنے الگ پیمانے رکھتے ہیں اور منطقی اصول الگ ہیں

جہاں معاملہ ہے رجال کی یا رجل کی اہمیت کا تو ہر دو میں فرق ہے کسی بھی شخصیت کا دائرہ کار جتنا وسیع ہے اسکی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہے کوئی قومی مفاد کیلئے کام کرتا ہے تو کوئی گروہی مفاد کیلئے کوئی انسانی مفاد کیلئے تو کوئی الہی مفاد کیلئے ہر کسی کی اہمیت اسکے کام کے اعتبار سے ہے ایک ایسی شخصیت جسکی وجہ سے پوری قوم راہ لگ رہی ہے اسکی حفاظت کیلئے آپ ہزاروں افراد کو آسانی سے قربان کر دینگے لیکن ایک عامی کی حفاظت کے لیے شاید ایک شخص بھی کھڑا نہ ہو ......

لیکن اگر ایسی کسی شخصیت سے کوئی جرم سر زد ہوگا تو پھر وہ عامی اور وہ شخصیت دونوں قانون کی نگاہ میں برابر شمار ہونگے.....

حسیب احمد حسیب

قدرت الله شہاب...... جواب دو .....................؟

قدرت الله شہاب...... جواب دو .....................؟

بچپن سے جوانی تک دینی علوم سے ہٹ کر جو کتاب پڑھی وہ " شہاب نامہ " ہے جسکو پڑھ کر مصنف کے بارے میں تصور ابھرتا ہے کہ وہ ایک سچا پکا ٹھیک محب وطن پاکستانی مسلمان ہے آج جب میں شہاب نامہ کے اقتباسات یاد کرتا ہوں تو جی چاہتا ہے شہاب صاحب سے کچھ سوالات کروں

وہ کہتے تھے .....قومی سطح پر ہماری ہماری سیاسی قیادت کا ایک بڑا حصہ اپنی طبعی یا ہنگامی زندگی گزار کر دنیا سے اٹھ چکا ہے یا جمود کا شکار ہوکر غیر فعال ہو چکا ہے کچھ سیاسی پارٹیوں کے رہنما پیر تسمہ پا بن کر اپنی اپنی جماعتوں کی گردن پر زبردستی چڑھے بیٹھے ہیں ان میں سے چند نے کھلم کھلا یا درپردہ مارشل لا سے آکسیجن لیکر سسک سسک کر زندگی گزاری ہے ان نیم جان سیاسی ڈھانچوں میں نہ تو کوئی تعمیری سکت باقی ہے اور نہ ہی ان کو عوام کا پورا اعتماد حاصل ہے پرانی سیاست کی بساط الٹ چکی ہے ....

......... بہت سے لوگوں کے نزدیک پاکستان کی سلامتی اور استحکام کا راز فقط اس بات میں مضمر ہے کہ حالات کے اتار چڑھاؤ میں انکی ذاتی اور سراسر انفرادی مفاد کا پیمانہ کس شرح سے گھٹتا اور بڑھتا ہے۔۔۔ ایسے لوگ قابلِ رحم ھیں ۔۔۔وہ بنیادی طور پر نہ تو وطن دشمن ھوتے ھیں نہ ہی ان پر وطن غداری کا الزام لگانا چاھیے ۔۔۔۔مریضانہ ذہنیت کے یہ لوگ ہرص و ہوس کی آگ میں سلگ سلگ کر اندر ہی اندر بذدلی کی راکھ کا ڈھیر بن جانتے ھیں۔۔۔۔

حوادثِ دنیا کا ہلکہ سا جھونکا اس راکھ کو اڑا کر تتر بتر کر دیتے ہیں۔۔ انکا اپنا کوئی وطن نہیں ھوتا۔۔۔ان کا اصلی وطن محض ان کا نفس ھوتا ھے۔۔۔ اسکے علاوہ جو سر زمین بھی انکی خود غرضی ، خود پسندی، خود فروشی اور منافقت کو راس آئے، وہ وھیں کے ھو رھتے ھیں۔۔۔پاکستان میں اسطرح کے افراد کا ایک طبقہ موجود تو ھے لیکن خوش قسمتی سے ان کی تعداد محدود ھے۔۔۔........

.........١٩٦٩ میں جب میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا ممبر تھا-تو ایک صاحب سے میرے نہایت اچھے مراسم ہو گے،جو مشرقی یورپ کے باشندے تھے اور ان کا ملک اپنی مرضی کے خلاف روس کے حلقہ اردات میں میں جڑا ہوا تھا -وہ اپنے وطن میں بعض کلیدی آسامیوں پر رہ چکے تھے-اور روس کی پالیسیوں اور حکمت عملی سے بڑی حد تک واقف اور نالاں تھے - ایک روز باتوں باتوں میں انہوں نے کہا :اگرچہ روس اور امریکا ایک دوسرے کے حریف ہیں لیکن بعض امور میں اپنے اپنے مفاد کی خاطر دونوں کی پالیسیاں اور منصوبے ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت اختیار کر لیتے ہیں - مثلا ؟...میں نے پوچھا "مثلا پاکستان " وہ بولے -

میری درخواست پر انہوں نے وضاحت کی " یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی اعلیٰ افواج میں ہوتا ہے یہ حقیقت نہ روس کو پسند ہے اور نہ امریکا کو - روس کی نظر افغانستان کے علاوہ بحر عرب کی جانب بھی ہے اس کے علاوہ روس کو بھارت کی خوشنودی حاصل رکھنا بھی مرغوب خاطر ہے -ان تینوں مقاصد کی راہ میں جو چیز حائل ہے وہ پاکستان کی فوج ہے امریکا کا مقصد مختلف ہے امریکا کی اصلی اور بنیادی وفاداری اسرائیل کے ساتھ ہے -یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر کسی وقت اسلامی سطح پر جہاد کا فتویٰ جاری ہو گیا تو پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں کی مسلح افواج اور نہتی آبادی کسی مزید حکم کا انتظار کیے بغیر جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر بسوے اسرائیل اٹھ کھڑی ہو گی -عالم اسلام میں اپنی تمام کامیاب ریشہ دوانیوں کے باوجود امریکا یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا اس کے علاوہ روس کی مانند امریکا بھی بھارت کی خیر سگالی اور خوشنودی حاصل کرنے اور بڑھانے کا آرزومند ہے-پاکستان کی مسلح افواج روس ،امریکا اور بھارت کی آنکھ میں برابر کھٹکتی ہے -اس لیے تمہاری فوج کو نکما اور کمزور کرنا تینوں کا مشترکہ نصب العین ہے..........

( پاکستان کا مستقبل: شہاب نامہ )

آج دل میں آتی ہے ان سے پوچھوں شہاب صاحب جواب دیجئے کیا یہ وہی پاکستان ہے جسکا خواب ہمارے بڑوں نے دیکھا تھا جسکےلئیے ہمارے پرکھوں نے اپنی جانیں اپنے اموال اور اپنی عزتیں قربان کیں کیا اسی پاکستان کی خواہش اقبال نے کی تھی اسی کیلئے محمد علی جناح نے اپنی زندگی کھپا دی اور اسی کیلئے تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی .

آج جب ایک طرف جاہ و حشمت اور کرسی کے پجاری اپنی اپنی دکانیں چمکانے سر بازار چلے آۓ ہیں اور عوام کی اس منڈی میں اسی عوام کو بیچ رہے ہیں تو میرا دل چاہتا ہے پوچھوں

قدرت الله شہاب جواب دیجئے
ہماری بہادر سپاہ کو اقتدار کی غلام گردشوں کی ہوا لگ چکی آج فلسطین خون خون ہے اور غزہ لہو لہو ہے آج حرم سے کوئی فتویٰ صادر نہیں ہوتا آج خیر و شر کی ساز باز ہو چکی ہے آج ہماری سنگینیں ہمارے ہی خون سے سرخ ہیں ....

شہاب صاحب آج ہم کشمیریوں کا خون بیچ کر دشمن سے تجارتی پینگیں بڑھا رہے ہیں آج مغرب سے درآمد شدہ علامے وطن کی مٹی کو روندنے کے درپے ہیں آج قومی ہیرو دکھائی دینے والے قوم کو ہی رسوا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ..

شہاب صاحب اس پاکستان میں قتل ہے خون ہے دہشت گردی ہے ناانصافی ہے اس میں جاگیر دار ہیں جو معصوم بچوں کے ہاتھ کٹوا دیتے ہیں مخالفوں کی عورتوں کی برہنہ پریڈ کرواتے ہیں ..
یہاں سرمایہ دار ہیں جو عالمی استعماری نظام کے پروردہ ہیں جو دین تہذیب معاشرت اور معیشت کی جڑیں کھود رہے ہیں ......

یہاں جھوٹے ہیرو ہیں جو عوام کو جھوٹے خواب دکھا کر ذلت کی ان گہرائیوں میں گرا دینا چاہتے ہیں جہاں سے ابھرنا ممکن ہی نہیں ........

یہاں جرنیل ہیں کرنیل ہیں جو اس ملک کی حفاظت کیلئے اس ملک کے ہی لوگوں کے خون سے اس ملک کو رنگ رہے ہیں ....

یہاں دھوکے باز مولوی ہیں جو اندروں خانہ بیرونی امداد لیکر دین کی بنیادیں ہی کھود دینے کے چکر میں ہیں ......

اور جب میں یہ سوالات پوچھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہیں دور سے قدرت الله شہاب کی آواز آ رہی ہے اور وہ کہ رہے ہیں ....

" ہم پاکستانی صرف اس وجہ سے بنے کہ ہم مسلمان تھے۔اگر افغانستان،ایران، مصر، عراق اور ترکی اسلام کو خیر باد کہہ دیں تو پھر بھی وہ افغانی، ایرانی، مصری، عراقی اور ترک ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہم اسلام کے نام سے راہ فرار اختیار کریں تو پاکستان کا اپنا کوئی الگ وجود نہیں قائم نہیں رہتا۔۔"

حسیب احمد حسیب

ہفتہ، 2 اگست، 2014

رویت ہلال

رویت ہلال اور اسلامی مہینوں کے ایک مستقل کلینڈر کی تشکیل اور اسکی قباحت سے متعلق ایک علمی مکالمہ !

سوال یہ ہے کہ اسلامی مہینوں کے تعین میں قمری تقویم پر ہی کیوں اعتبار کیا گیا ہے شمشی تقویم پر کیوں نہیں جبکہ روزے سے فائق عبادت نماز جو ہر روز پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے اسکیلئے شمسی تقویم پر ہی اعتبار کیا گیا .......
پھر یہ تو وہ امر تھا کہ جس کے تعین کیلئے آپ کی جدید ترین ٹیکنولوجی سے بھی صحیح ذریعہ وحی کا تھا یعنی الله کے رسول کو وحی کے ذریعے خبر دے دی جاتی کہ فلاں تاریخ سے رمضان محرم صفر یا کوئی بھی اسلامی مہینہ شروع ہوگا تو کیا کوئی الله کے رسول صل الله علیہ وسلم سے سوال کرتا پھر غور کیجئے اگر الله کے رسول علیہ سلام یہ کہ دیتے کہ ہر مہینہ تیس دن کا ہوگا اور سال ٣٦٠ دن کا یا ہر مہینہ ٢٩ دن کا ہوگا اور سال ٣٤٨ دن کا تو کیا صحابہ رض احتجاجی کمیٹی بٹھا دیتے ......

کیا اسکا آپ کے پاس کوئی جواب ہے کہ جس چیز کا تعین الله کے رسول آسانی سے فرما سکتے تھے بغیر کسی جدید ترین ٹیکنولوجی کے استعمال کے تو کیوں نہیں فرمایا .....

آج آپ یہ کر سکتے ہیں نہ کہ سال میں فلاں فلاں دن چاند اپنی پیدائش کے اعتبار سے فلاں فلاں مقام پر ہوگا سو اسلامی مہینے فلاں فلاں تاریخوں میں شروع اور فلاں فلاں میں ختم ہونگے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تو کیا مشکل تھا رسول خدا کیلئے کہ وہ فلاں اور فلاں مقرر کر دیتے اور امت انکے سامنے چوں بھی بول سکتی یا الله رب العزت آسمان سے ہی کوئی تقویم اتار دیتے تو کیا مشکل تھا جب حضرت مسیح علیہ سلام کی قوم کیلئے مائدہ اتار دیا تھا کہ نشانی ہو تو محمّد عربی صل الله علیہ وسلم کی قوم کیلئے ایک جنتری نہیں اتاری جا سکتی تھی .....

اسلامی مہینوں کا مدار قمری تقویم پر رکھنے میں کیا حکمت پوشیدہ تھی ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم دینی مسائل میں بنیاد ہے جسکی تشریح حدیث رسول صل الله علیہ وسلم سے ہوتی ہے اسلامی امور کا بنیادی منبع یہی دو نصوص ہیں یعنی قرآن و سنت ..........

لیکن امت مسلمہ کو تفقہ اور اجتہاد کی نعمت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال ہجری سن کی ابتداء ہے جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف سفہاء نہیں تھے بلکہ صاحبان عقل تھے ...

کچھ تفصیل ہجری سن کی :

ﻋﻼﻣﮧ ﺷﺒﻠﯽ ﻧﻌﻤﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ”ﺍﻟﻔﺎﺭﻭﻕ“ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﺭﻗﻢ ﻃﺮﺍﺯ ﮨﯿﮟ
21 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺷﻌﺒﺎﻥ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ "ﯾﮧ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺷﻌﺒﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ؟
ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﻠﺲ ﺷﻮﺭﯼٰ ﻃﻠﺐ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ
ﺍﻭﺭ ﺗﻘﻮﯾﻢ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﭘﮩﻠﻮ ﺯﯾﺮ ﺑﺤﺚ ﺁﺋﮯ، ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﭘﮩﻠﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﮯ ﺳﻨﮧ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮨﻮ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﮨﺠﺮﺕ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ 8 ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﻮ ﮨﺠﺮﺕ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻋﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻝ ﻣﺤﺮﻡ ﺳﮯﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺁﭨﮫ ﺩﻥ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺳﻨﮧ ﮨﺠﺮﺕ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ
ﺳﻦ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻗﺎﺿﯽ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﭘﻮﺭﯼ، ﻋﻼﻣﮧ ﺷﺒﻠﯽ ﻧﻌﻤﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺧﺘﻼﻓﺎﺕ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ”ﺭﺣﻤﺔ ﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ“ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
”ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﮧﮨﺠﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﻮﺍ،
ﺟﻤﻌﺮﺍﺕ 30ﺟﻤﺎﺩﯼ ﺍﻟﺜﺎﻧﯽ 17 ﮨﺠﺮﯼ: ﻣﻄﺎﺑﻖ 9/12 ﺟﻮﻻﺋﯽ 638ﺀ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻡ ﮐﻮ ﺣﺴﺐ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﭘﮩﻼ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﻣﺰﯾﺪ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﺠﺮﺕ ﺳﮯ ﺳﻨﯿﻦ ﮐﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ )ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ ﺟﻠﺪ ﺍﻭﻝ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﺍﻟﺘﺎﺭﯾﺦ ﻟﻠﺴﯿﻮﻃﯽ ﺑﺤﻮﺍﻟﮧ ﺗﻘﻮﯾﻢ ﺗﺎﺭﯾﺦ(
ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﻗﺮﯾﻨﮧ ﻗﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻋﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﻗﻤﺮﯼ ﮐﯿﻠﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﺭﻭﺍﺝ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﮨﻢ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺗﮭﺎ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﮯ ﺳﻨﯿﻦ ﮐﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﭼﻞ ﻧﮑﻼ ﺗﮭﺎ، ﺍﻟﺒﺘﮧ ﻋﮩﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﺗﮏ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﺮﺍﺳﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﻤﻞ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺭﺍﺝ ﻻﺯﻣﯽ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺴﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺩﻓﺘﺮﯼ ﺧﺎﻣﯽ ﺳﮯ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺧﺎﻣﯽ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﻧﮯ
ﻣﺠﻠﺲ ﺷﻮﺭﯼٰ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺣﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔

تقویم کی تحقیق اوراس کی ضرورت
گزشتہ زمانے کے واقعات وحادثات وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اور آئندہ زمانہ کے لین دین ، معاملات وغیرہ کی تاریخ متعین کرنے کے لیے کیلنڈر کی نہایت ضرورت ہے، کیوں کہ کیلنڈر کے بغیر ماضی کی تاریخ معلوم ہو سکتی ہے، نہ مستقبل کی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے۔

تقویم کی اقسام
واضح ہو کہ دنیا میں کئی قسم کی تقاویم چلتی ہیں، جن کا دار ومدار تین چیزیں ہیں ۔ سورج، چاند ، ستارے۔ اس لیے بنیادی تقاویم تین ہیں ۔ شمسی، قمری، نجومی۔ پھر شمسی کیلنڈر کی تین قسمیں ہیں۔ ایک عیسوی ،جس کو انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں دوم بکرمی جس کو ہندی بھی کہتے ہیں، سوم تاریخ فصلی۔ ان کے علاوہ او ربھی تقاویم ہیں ،جیسے تاریخ رومی ، تاریخ الہٰی۔

تاریخ عیسوی
تاریخ عیسوی ( جس کو تاریخ انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں) شمسی ہے۔ یہ تاریخ حضرت عیسیٰ کی ولادت سے رائج ہے یا نصاری کے بزعم باطل حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے سے شروع ہوتی ہے، اس کی ابتدا جنوری او رانتہا دسمبر پر ہوتی ہے۔

تاریخ ہندی
ہندی سال کو بسنت کہتے ہیں۔ اس تاریخ کا دوسرا نام بکرمی ہے۔ مہینے یہ ہیں ، چیت، بیساکھ، جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادوں، کنوار، کاتک، اگہن، پوس، ماگھ، پھاگن۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سن ہجری سے تقریباً637 سال پہلے اور سن عیسوی سے 57 سال پہلے سے گجرات کاٹھیاوار میں رائج تھی۔

تاریخ فصلی بنیادی طور پر سال شمسی ہے، یہ سن اکبر بادشاہ کے زمانے میں مال گزاری کی وصولیابی اور دوسرے دفتری انتظامات کے لیے وضع کیا گیا تھا۔

نجومی جنتری شاکھا کے نام سے مشہور ہے ، مہینے یہ ہیں: حمل، ثور، جوزا، سرطان ،اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔

تاریخ رومی، تاریخ اسکندری اور تاریخ الہیٰ
تاریخ رومی اسکندر کے عہدسے مروج ہے، جس پر1975ء میں 2286ء سال شمسی گزر چکے ہیں، اس کا دوسرا نام تاریخ اسکندری ہے یہ 282 قبل المسیح سے شروع ہوتی ہے ۔

تاریخ رومی کے مہینے ( جن کی ابتداء مہرجان یعنی کا تک سے ہوتی ہے) یہ ہیں: تشرین اول، تشرین آخر، کانون اول، کانون آخر، شباط ، اذار، نیسان، ابار، حزیران، تموز، اب، ایلول۔ رومیوں کا سال 1-4-365 دن کا ہوتا ہے۔ تشرین آخر، نیسان، حزیران، ایلول یہ چار مہینے 30 دن کے باقی سب 31 کے ہوتے ہیں، سوائے شباط کے، جو28 دن کا ہوتا ہے اور ہر چوتھے سال 29 دن کا ہوتا ہے ۔

تاریخ الہیٰ کے مہینے یہ ہیں : فروردین ، اردی، بہشت ،خورداد، تیر،ا مرداد، شہر پو،مہر، آبان ذے، بہمن، اسفندار۔یہ سن جلال الدین اکبر بادشاہ کے جلوس کی تاریخ ( یعنی3 ربیع الثانی992ھ) سے شروع ہوا، اس میں حقیقی شمسی سال ہوتے ہیں۔

تاریخ قمری
تاریخ قمری کی ابتدا محرم الحرام سے ہوتی ہے، یہ اسلامی تاریخ ہے ،جو دیگر تقاویم سے ہر لحاظ سے ممتاز ہے۔

سنہ شمسی اور قمری میں فرق
جاننا چاہیے کہ سنہ شمسی تین سو پینسٹھ دن او رربع یوم کا ہوتا ہے ، چار سال میں ایک دن کا اضافہ ہو کر ہر چوتھے سال 366 دن کا سال ہو جائے گا۔ سنہ قمری سے سنہ شمسی میں دس دن اکیس گھنٹے زائد ہوتے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ہُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیآءً وَّالْقَمَرَ نُوْراً وَّقَدَّرَہ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ“ (یونس:۵)< /div> ترجمہ:۔”وہ اللہ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو (بھی) نورانی بنایا اور اس (کی چال) کے لئے منزلیں مقرر کیں (کہ ہر روز ایک منزل قطع کرتا ہے) تاکہ (ان اجرام کے ذریعے) تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو“۔(معارف القرآن)

یہاں سورج اور چاند کو سال کے دنوں کے تعین کا مدار بتایا جا رہا ہے

پہلی اقوام میں مصریوں نے شمسی حسابات پر اپنی تقویم کی بنیاد رکھی، اس میں قمری مہینوں کے بجائے نئے مہینوں کا تعین کیا جاتاہے اور یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ مہینوں سے موسموں کی مکمل نشاندہی ہو، اس سے متأثر ہوکر رومی بادشاہ جولیس نے شمسی کیلنڈر کو اپنایا۔اس وقت رومی کیلنڈر کا برا حال تھا، کسی وقت میں یہ بالکل ایک قمری کیلنڈر تھا اور اس میں دس مہینے تھے اور اس کی ابتداء مارچ سے ہوتی تھی ، بعد ازاں اس میں دو مہینے اور شامل کئے گئے اور اس کی ابتداء مارچ کے بجائے جنوری سے کی گئی، نیز دن کی ابتداء مغرب کے بجائے رات کے نصف سے ہونے لگی، غالباًیہ پہلی باقاعدہ کوشش تھی کہ مہینوں میں موسموں کا خیال رکھا جائے۔ جولیس نے مصریوں سے متأثر ہوکر اس کیلنڈر کو بالکل ایک شمسی کیلنڈربناکر اس کا ناطہ چاند سے بالکل توڑ دیا، اس نے مہینوں کی تعداد بارہ رہنے دی اور ان میں دنوں کی تعداد ایسی رکھی کہ سب کا مجموعہ ۳۶۵ یا ۳۶۶ بنے، اس میں ایک دن کا فرق لیپ کے سال کے لئے ہے۔ جولیس نے ساتویں مہینے کو اپنے نام سے موسوم کرکے جولائی بنادیا، اس کے بعد آنے والے بادشاہ نے آٹھویں مہینے کو اپنے نام سے منسوب کرکے اگست بنادیا… عام لوگ اس کو عیسائی کیلنڈر سمجھتے ہیں، اگرچہ عیسائی بھی اس کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یہ رومی کیلنڈر تھا… نہ تو ا س کی ابتداء کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس کے مہینوں سے اس کا کچھ اظہار ہوتا ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا، بحوالہ فہم الفلکیات)

اب اسلام چاند کو بنیاد تصور کرتا ہے یہ ایک بنیادی اصول ہے

پہلی چیز ہے مہینوں کی تعداد کا تعین سو قرآن کہتا ہے

”ان عدة الشھور عند اللّٰہ اثنا عشر شھرافی کتاب اللّٰہ یو م خلق السمٰوات والا رض منھا اربعة حرم۔ذلک الدین القیم۔ (التوبہ:۳۶)
ترجمہ:۔” بلا شبہ، مہینوں کا شمار اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ مہینے ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جس دن کہ پید اکیا تھا (اللہ نے) آسمانوں اور زمین کو، ان (بارہ) میں سے چار حرام ہیں (جن میں جنگ کرنے کی ممانعت ہے) یہ درست دین ہے۔“

یعنی مہینے بارہ ہی ہیں لیکن اسلامی سال کے دنوں کی تعداد رومی یا عیسوی تقویم کی طرح ٣٦٥ نہیں اسلامی سال عام طور پر ٣٥٥ یا ٣٥٤ دنوں کا ہوتا ہے جیسے کہ پہلے بھی عرض کی کہ اگر تمام اسلامی سال ٢٩ دنوں کے مہینوں پر مشتمل ہو تو ٣٤٨ دن کا سال ہوگا اور اگر تیس دنوں پر مشتمل ہو تو ٣٦٠ دن کا سال ہوگا اب آپ اسلامی کلینڈر کو کیسے تشکیل دینگے یعنی ہر مہینہ ٢٩ کا ہو یا ہر مہینہ ٣٠ کا ہو یا پھر ہر دو مہینے ٢٩ کے اور پھر دو تیس کے ہوں ..........

معاملہ یہ ہے کہ قمری تقویم میں ایسا کرنا ممکن ہی نہیں ہے اگر آپ کو سال کا کوئی کلینڈر تشکیل ہی دینا ہے تو پھر شمسی تقویم اختیار کیجئے قمری تقویم سے ہاتھ اٹھا لیجئے لیکن یہ امر نصوص یعنی قرآن و سنت کے مخالف ہوگا......

”یسألونک عن الا ھلة، قل ھی مواقیت للناس والحج“(البقرة:۱۸۹)
ترجمہ:۔” وہ آپ سے ہلا لوں کے متعلق دریافت کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے وہ لوگوں کے لئے مقررہ اوقات(کے پیما نے) ہیں اور حج کے لئے۔“

لیجئے قرآن وضاحت کر رہا ہے کہ اسلامی سال کے مہینوں کی ابتداء و انتہاء کا تعین چاند پر ہوگا ناکہ سورج پر ......

فواد بھائی کے پیش کردہ نکات کی روشنی میں چند چیزوں کی وضاحت کر دوں....

پیش نظر مسلے کا تعلق ایمانیات سے نہیں ہے جیسا کہ میں نے اپنے ابتدائی کمنٹ میں کہا " دیکھئے دین یا مذہب کچھ بنیادیں رکھتا ہے اور انہی بنیادوں پر اس دین کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اب ان بنیادوں کو اگر جدت یا دنیوی تبدیلیوں کی وجہ سے تغیر پذیر کر دیا جاوے تو دین کی شکل ہی تبدیل ہو جاوے گی .....

دین کی بنیاد عقائد پر ہے پھر عبادات ہیں پھر معاشرت ، معیشت ، عدالت ، سیاست اور اخلاقیات کا نمبر آتا ہے اب دنیا چاہے کتنی ہی ترقی کر جاوے ایمانیات یا عقائد کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا کہ پہلے اگر لوگ اونٹ پر سفر کرتے تھے اور اب جہاز میں اڑتے پھرتے ہیں تو کیا اس سے عقیدہ توحید ، رسالت یا پھر ختم نبوت پر کوئی فرق پڑے گا .....

یہی معاملہ عبادات کا ہے کیا دنیوی ترقی کی وجہ سے نمازوں کی تعداد کو پانچ سے تین کر دیں یا روزے تیس سے پندرہ کر دیں یا پھر نماز میں رکوع و سجود کی ترتیب تبدیل کر دی جاوے ......

اب اس مسلے کو دیکھتے ہیں کہ یہ کہاں فال کرتا ہے

چونکہ یہ عقائد کا معاملہ نہیں اسلئے ایمانیات میں سے نہیں یہ معاملہ عبادات کا ہے اور یہ لازمی امر ہے کہ عبادات کا کوئی نہ کوئی طریق تو سنت میں مذکور ہوگا جو تبدیل نہیں ہو سکتا .....

دوسری طرف یہ معاملہ انتظامی بھی ہے اور اسکو جانچنا پرکھنا اور اسکی تنظیم کرنا ریاست کی مقتدر قوتوں کی ذمے داری ہے اب اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے

اب ہر دو مقدمات کو الگ سمجھتے ہیں

١ طریق عبادت
٢ انتظامی اسٹرکچر

پہلی چیز چونکہ طریق عبادت منصوص ہے تو اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا سکتی اب کچھ نماز والی مثال کی وضاحت چونکہ نماز کے اوقات کا معلوم کرنا انتظامی امر ہے سو اس میں کسی بھی جدید ترین ذریعے کا استعمال طریق عبادت میں مخل نہیں ہوگا یعنی رکوع و سجود کی ھیت یا پڑھے جانے والے اذکار کی نوعیت وغیرہ ........

اسکو مزید یوں سمجھیں آپ مساجد کی تعمیر جیسے چاہیں کریں اسلام اس میں مخل نہیں ہوتا لیکن کیا نمازیوں کو نماز کیلئے بلانے کا طریق تبدیل کیا جا سکتا آپ یہ کہیں کہ چونکہ اب جدید دور ہے سو اذان نہ دی جاۓ بلکہ اسکی جگہ ہارن بجا دیا جاوے یا نمازیوں کے موبائلز پر ایس ایم ایس الرٹ موصول ہو جاوے .....

اذان کے ذریعے نماز کیلئے بلانا منصوص ہے جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ہاں اذان دی کیسے جاۓ یعنی اسکیلئے کون سا آلہ استعمال ہو یہ منصوص نہیں انتظامی امر ہے ..........

اب یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی مہینوں کی ابتداء یا انتہاء کا منصوص طریقہ کیا ہے اور اس میں انتظامی امور کون سے ہیں ......

اس کی منصوص بنیاد ہلال کی رویت بصری ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے

عن ابی ہریرة رض قال: قال رسول اللہ ا صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ فان غم علیکم فصوموا ثلاثین یوما“۔ (۴)

حضرت ابوہریرة رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب تم اسے دیکھو تو افطار کرو......

اسکی مزید وضاحت دوسری روایت میں ہوتی ہے

فلاتصوموا حتی تروہ پس روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو

آگے اور وضاحت ہوتی ہے

”عن ابن عباس رض قال جاء اعرابی الی النبی ا فقال انی رایت الہلال یعنی ہلال رمضان فقال اتشہد ان لا الہ الا اللہ‘ قال نعم! قال اتشہد ان محمد ارسول اللہ‘ قال نعم‘ قال یا بلال! اذن فی الناس ان یصوموا غداً“۔ (۱۰)
ترجمہ:․․․”حضرت ابن عباس رض سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم ا کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے چاند دیکھا یعنی رمضان کا چاند دیکھا ہے‘ حضور ا نے فرمایا: تو گواہی دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی خدا نہیں‘ اس نے جواب دیا ”جی ہاں“ پھر فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد ا اللہ کے رسول ہیں‘ اس نے جواب دیا جی ہاں! حضورا نے فرمایا: اے بلال رض !لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ کل روزہ رکھیں

ہر جگہ صراحت ہے کہ بنیاد چاند کا دیکھ لینا ہے یعنی صاف اور صریح رویت بصری ......

پیش کی گئی آخری روایت پر غور کیجئے اس میں دو امور ہیں ایک احکامی اور دوسرا انتظامی جو احکامی ہے وہ امر لازم ہے اور جو انتظامی ہے اسپر کوئی شدت نہیں کی گئی......

اب دو امور کو الگ الگ سمجھئیں پہلا ہے چاند کا موجود ہونا یا چاند کا (visible height) پر موجود ہونا دوسرا ہے چاند کا آنکھوں سے دیکھ لیا جانا یعنی (sighting of moon )
اسلام نے مدار (sighting of moon ) کو بنایا ہے ناکہ اسکے موجود ہونے کو آپ لوگوں کی پوری بحث کا مدار چاند کی پیدائش پر ہے سو یہ اسلام کا مسلہ ہی نہیں پہلی اسٹیج پر اسلام کا مسلہ ہے چاند کے دیکھ لیے جانے پر .......

یعنی چاند (visible height) پر موجود ہے لیکن (weather cloudy ) ہے سو چاند کو دیکھا نہیں جا سکتا تو اسلام اس پر حکم نہیں لگاۓ گا اب سائنس یہ تو بتا سکتی ہے کہ چاند موجود ہے لیکن اسلامی احکامات کے مطابق جب تک لوگ اسے دیکھ نہ لیں اسلامی مہینہ شروع یا ختم نہیں ہوگا .....

اس بنیادی اصول کو اور آسان کرتا ہوں
" اسلامی عبادات کے لئے اوقات اور ایام کے تعین میں سورج اور چاند دونوں کی گردش کا اعتبار کیا گیا ہے‘ مگر اس میں فرق یہ ہے کہ اوقات کا تعین سورج کی گردش کے حوالہ سے ہوتا ہے اور ایام کا تعین چاند کی گردش کے حساب سے کیا جاتاہے‘ مثلا: روزے کے دن کا تعین قمری ماہ کے طور پر رویت ہلال کے ذریعہ ہوتا ہے‘ مگر روزے کے روز مرہ دورانیہ کا تعین سورج کی گردش کے مطابق کیا جاتاہے۔ اسی طرح حج کے ایام کا تعین چاند کی گردش کے حساب سے ہوتاہے‘ مگر حج کے ارکان وافعال مثلا: عرفات‘ مزدلفہ‘ منیٰ کے وقوف اور اوقات کا تعین سورج کی گردش کے مطابق ہوتا ہے "

پوری اسلامی تاریخ میں جب وسائل آج کی طرح موجود نہیں تھے چاند پر کبھی جھگڑا کھڑا نہیں ہوا اور آج بھی دنیا اسلام میں یہ مسلہ ہمارے ملک پاکستان کا ہے اس معاملے میں اسلام کی تعلیمات اتنی واضح اور سادہ ہیں کہ کسی ابہام کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں .....

صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ ایک سادہ صاف اور واضح کلیہ جو دین نے مقرر کر دیا ہے چاند دیکھ کر رمضان کی ابتداء کرو چاند دیکھ کر انتہاء کرو چاند اپنی پیدائش کے بعد ویکسنگ فیز میں کب آتا اور کب وہ وزیبل ہائٹ پر موجود ہوتا ہے اس سے اسلام گفتگو ہی نہیں کرتا .......

اب اگر آپ کلینڈر مقرر بھی کر دیجئے تو اسکو تسلیم کتنے لوگ کرینگے اور کیا اختلاف کرنے والے اپنی روش سے رک جائینگے جناب من یہ مسلہ حقیقت میں انتظامی کمزوری اور سیاسی اختلافت اور پھر سب سے بڑھ کر مناصب کے حصول کا ہے ....

اب ہم لیتے ہیں مسلے کے انتظامی پہلو کو ....

١ اس ادارے کا موجود ہونا جو حکومت وقت کی طرف سے (moon sighting) کرے .
٢ گواہیوں کے ادارے تک پہنچنے کا انتظام
٣ گواہیوں کی جانچ پڑتال (Scrutiny)
٤ ادارے کے ممبران
٥ فیصلے کا عوام تک پہنچایا جانا

یہ تمام امور انتظامی ہیں اور آپ آزاد ہیں ان میں جدید ترین آلات استعمال کیجئے اسلام ایسی تمام کاوشوں کو خوش آمدید کہے گا.....

یہاں حدیث کے دوسرے حصے کو لیتے ہیں اور انتظامی امور کے تیسرے نکتے کو دیکھتے ہیں جو ٹکنالوجی کے استعمال کے اعتبار اہم ترین ہے یعنی گواہیوں کی جانچ پڑتال (Scrutiny)...

”عن ابن عباس رض قال جاء اعرابی الی النبی ا فقال انی رایت الہلال یعنی ہلال رمضان فقال اتشہد ان لا الہ الا اللہ‘ قال نعم! قال اتشہد ان محمد ارسول اللہ‘ قال نعم‘ قال یا بلال! اذن فی الناس ان یصوموا غداً“۔ (۱۰)
ترجمہ:․․․”حضرت ابن عباس رض سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم ا کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے چاند دیکھا یعنی رمضان کا چاند دیکھا ہے‘ حضور ا نے فرمایا: تو گواہی دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی خدا نہیں‘ اس نے جواب دیا ”جی ہاں“ پھر فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد ا اللہ کے رسول ہیں‘ اس نے جواب دیا جی ہاں! حضورا نے فرمایا: اے بلال رض !لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ کل روزہ رکھیں....

الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے گواہ کی حیثیت کو پرکھا فقال انی رایت الہلال یعنی ہلال رمضان فقال اتشہد ان لا الہ الا اللہ‘ قال نعم! قال اتشہد ان محمد ارسول اللہ‘ قال نعم‘ یہ ایک انتظامی امر تھا چونکہ عرب ایک صحرائی علاقہ ہے اسلئے چند کا دیکھ لیا جانا مشکل نہیں تھا لیکن پھر بھی اس سے پوچھا گیا تاکہ اسکے سچ اور جھوٹ کی تصدیق ہو سکے .......

اب ایک صاحب سرحد کے کسی دور دراز گاؤں سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ انہوں نے چاند دیکھ لیا ہے لیکن علم فلکیات کے اعتبار سے چاند ابھی (visible height ) پر موجود ہی نہیں یا اسکی (naked eye) سے (visibility) ممکن ہی نہیں سو ہم علم فلکیات کی رو سے حق الیقین پر کھڑے ہیں کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے سو اسکی گواہی مردود ہوگی ......

اب آپ ایک منصوص کلیے کے ساتھ انتظامی امر کے جدید ترین طریقوں کو منسلک کر دیجئے تو ایک شفاف ترین نظام وجود میں آ جاۓ گا ....

جناب من یہ نہیں کہا چاند نظر آ گیا بلکہ یہ کہا چاند دیکھ کر دونوں میں بہت فرق ہے جیسا کہ عرض کی اس معاملے کو رویت سے جوڑا گیا ہے چاند کی پیدائش (new moon ) سے نہیں ...

دونوں معاملات میں بنیادی فرق ہے نمازوں کے اوقات کی پابندی کا حکم ہے وہ جیسے بھی معلوم ہوں یہ ایک انتظامی امر ہے یہاں چاند کی رویت بصری کا حکم ہے جو ایک انتظامی معاملہ نہیں ......

اذان والی مثال بہت واضح ہے اصل حکم نماز ہے اور اسکی طرف بلانے کا منصوص طریقہ اذان ہے ایسا ہی اصل حکم روزہ ہے اور اسکی ابتداء کو معلوم کرنے کا منصوص طریقہ چاند کی رویت بصری ہے ....

کچھ امور کے معلوم کرنے کا طریقہ منصوص ہو تو اسکی پابندی ضروری ہے اور اگر طریقہ منصوص نہ ہو تو پابندی ضروری نہیں اب دونو روایات ساتھ رکھئے کیا وہاں بھی حکم ایسے ہی منصوص ہے یا نہیں بات انتہائی آسان ہے جناب من .....

اچھا ایک اور مثال پر بات کرتے ہیں.

یہ تو سب جانتے ہیں کے جنگ کے لیے گھوڑے تیار رکھنا قرآن و حدیث دونو میں ہی بلکل صاف اور منصوص ہے.بلکہ یہ تو شائد چاند والے معامله سے بھی زیادہ منصوس ہے کیونکہ اسکا تو براہ راست قرآن میں حکم ہے.....تو کیا آج بھی ہم گھوڑوں کو ہی تیار رکھیں ؟ اگلے بھانویں ڈرون مار مار کر ہماری مت وجا دیں ....! ؟
كل 12:28 ﺻﺒﺢ بجے · Edited · Unlike · 2

Haseeb Khan محترم گھوڑے آلات حرب میں شامل ہیں جو بذات خود مقصود ہے مقصود گھوڑے نہیں آلات حرب ہیں .......

دیکھئے جیسا کہ پہلے بھی عرض کی اگر کیلنڈر ہی تشکیل دینا ہوتا تو سب سے بہترین طریقہ شمسی تقویم کا تھا .......
یہاں دو چیزوں کی وضاحت کریں اسلامی مہینوں کی ابتداء (new moon) پر ہے یا (sighting of the moon) پر آپ کیا سمجھتے ہیں .......

اختلاف کوئی نہیں ہمارے بیچ محترم صرف راۓ کا فرق ہے .....

دیکھئے یا تو چاند کی پیدائش کو مدار تسلیم کرنا پڑے گا اگر کلینڈر تشکیل دینے کی بات ہو پھر اس میں بھی بےشمار تکنیکی الجھنیں ہیں اور وہ شریعت کی منشا بھی نہیں ....
یا رویت بصری کا آسان ترین کلیہ ہے جو صاف اور واضح ہے ...

دیکھئے اگر کوئی قمری کلینڈر تشکیل دینے کی بات ہوگی تو کون سا ٹائم زون مدار تسلیم کیا جاوے گا یا پھر دنیا کے ہر ملک کا الگ کلینڈر ہوگا یا اسکو بر اعظموں میں تقسیم کیا جاوے گا اسکی انتظامی ترتیب کیا ہوگی ....

Syed Fawad Bokhari قبلہ حسیب صاحب آپ کے نکات کے ماخز مندرجہ زیل ہیں۔

۱۔ چونکہ یہ عقائد کا معاملہ نہیں اسلئے ایمانیات میں سے نہیں یہ معاملہ عبادات کا ہے اور یہ لازمی امر ہے کہ عبادات کا کوئی نہ کوئی طریق تو سنت میں مذکور ہوگا جو تبدیل نہیں ہو سکتا۔

۲۔ دوسری طرف یہ معاملہ انتظامی بھی ہے اور اسکو جانچنا پرکھنا اور اسکی تنظیم کرنا ریاست کی مقتدر قوتوں کی ذمے داری ہے اب اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔

۳۔ چونکہ نماز کے اوقات کا معلوم کرنا انتظامی امر ہے سو اس میں کسی بھی جدید ترین ذریعے کا استعمال طریق عبادت میں مخل نہیں ہوگا۔ س معاملے کو رویت سے جوڑا گیا ہے چاند کی پیدائش (new moon ) سے نہیں۔ چاند کی رویت بصری کا حکم ہے جو ایک انتظامی معاملہ نہیں۔

۴۔ اب اگر کوئی کہے کہ اس نے چاند دیکھ لیا ہے لیکن علم فلکیات کے اعتبار سے چاند ابھی (visible height ) پر موجود ہی نہیں یا اسکی (naked eye) سے (visibility) ممکن ہی نہیں سو ہم علم فلکیات کی رو سے حق الیقین پر کھڑے ہیں کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے سو اسکی گواہی مردود ہوگی۔

۵۔ یا تو چاند کی پیدائش کو مدار تسلیم کرنا پڑے گا اگر کلینڈر تشکیل دینے کی بات ہو پھر اس میں بھی بےشمار تکنیکی الجھنیں ہیں اور وہ شریعت کی منشا بھی نہیں۔ دیکھئے اگر کوئی قمری کلینڈر تشکیل دینے کی بات ہوگی تو کون سا ٹائم زون مدار تسلیم کیا جاوے گا یا پھر دنیا کے ہر ملک کا الگ کلینڈر ہوگا یا اسکو بر اعظموں میں تقسیم کیا جاوے گا اسکی انتظامی ترتیب کیا ہوگی۔ ب اگر آپ کلینڈر مقرر بھی کر دیجئے تو اسکو تسلیم کتنے لوگ کرینگے اور کیا اختلاف کرنے والے اپنی روش سے رک جائینگے جناب من یہ مسلہ حقیقت میں انتظامی کمزوری اور سیاسی اختلافت اور پھر سب سے بڑھ کر مناصب کے حصول کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اب ان پہ اپنی ناقص رائے کی مد میں کچھ کہتا ھوں
17گھنٹے · Unlike · 2

Syed Fawad Bokhari حسیب صاحب کا نکتہ نمبر ۱ اور ۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ یہ عقائد کا معاملہ نہیں اسلئے ایمانیات میں سے نہیں یہ معاملہ عبادات کا ہے اور یہ لازمی امر ہے کہ عبادات کا کوئی نہ کوئی طریق تو سنت میں مذکور ہوگا جو تبدیل نہیں ہو سکتا۔
دوسری طرف یہ معاملہ انتظامی بھی ہے اور اسکو جانچنا پرکھنا اور اسکی تنظیم کرنا ریاست کی مقتدر قوتوں کی ذمے داری ہے اب اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔
(حسیب صاحب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو نمار کا بھی تو جو طریقہ سنت میں تھا وہ سایہ پر ہی مبنی تھا، تو اسکو کیوں تبدیل کیا گیا۔ یہ تبدیل کرنا ہی اس بات کی نص ھے کہ کسی حق الیقین کی موجودگی میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں؟

اور اگر ریاست حق القین پر مبنی کوئی ایسا فیصلہ کردے تو تب تو ایسا ھو بھی سکتا ھے؟
17گھنٹے · Unlike · 2

Syed Fawad Bokhari حسیب صاحب کا نکتہ نمبر ۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ نماز کے اوقات کا معلوم کرنا انتظامی امر ہے سو اس میں کسی بھی جدید ترین ذریعے کا استعمال طریق عبادت میں مخل نہیں ہوگا۔ س معاملے کو رویت سے جوڑا گیا ہے چاند کی پیدائش (new moon ) سے نہیں۔ چاند کی رویت بصری کا حکم ہے جو ایک انتظامی معاملہ نہیں۔
(حسیب صاحب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جتنا نماز کے اوقات معلوم کرنا انتظامی ھے اتنا ہی روزہ کے وقے کا تعین کرنا انتظامی ھے۔ نمای کے معاملے ک وبھی تو سایہ س جوڑا گیا تھا، وھاں پر حق القین کو استعمال کیا جاتا ھے تو یہاں رویت کو کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا اور کییئے جانے میں کوئی مزاحمت ھے تو اس مزاحمت کا تعلق زیادہ تو کسی تشریح کے نفاز کی ہی مد میں معلوم ھوتی ھے۔ آپکا کیا خیال ھے؟
17گھنٹے · Unlike · 2

Syed Fawad Bokhari حسیب صاحب کا نکتہ نمبر ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگر کوئی کہے کہ اس نے چاند دیکھ لیا ہے لیکن علم فلکیات کے اعتبار سے چاند ابھی (visible height ) پر موجود ہی نہیں یا اسکی (naked eye) سے (visibility) ممکن ہی نہیں سو ہم علم فلکیات کی رو سے حق الیقین پر کھڑے ہیں کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے سو اسکی گواہی مردود ہوگی۔
(حسیب صاحب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گویا کہ حق الیقین گواہی کے مردود ھونے میں استعمال ھو سکتا ھے، تو گویا کہ کوئی گواہی تب تک نہ مانی جائے گی کہ جب تک حق الیقین اسکی صداقت کی گواہی نہ دے۔ تو ایسے میں پھر بنیاد تو حق الیقین ہی ھو گیا۔ اور پھر حق الیقین کی مد میں ہی موجود علم کی بنیاد و معیار قرار پایا۔ تو باقی تب پھر ان علوم کی موجودگی میں اضافی ھو جائے گا۔ اور میرا خیال ھے کہ آپکا یہ نکتہ بحث کو مرکوز کرنے کی مد میں کافی ھو گیا ھے۔
17گھنٹے · Unlike · 2

Syed Fawad Bokhari حسیب صاحب کا نکتہ نمبر ۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ یا تو چاند کی پیدائش کو مدار تسلیم کرنا پڑے گا اگر کلینڈر تشکیل دینے کی بات ہو پھر اس میں بھی بےشمار تکنیکی الجھنیں ہیں اور وہ شریعت کی منشا بھی نہیں۔ دیکھئے اگر کوئی قمری کلینڈر تشکیل دینے کی بات ہوگی تو کون سا ٹائم زون مدار تسلیم کیا جاوے گا یا پھر دنیا کے ہر ملک کا الگ کلینڈر ہوگا یا اسکو بر اعظموں میں تقسیم کیا جاوے گا اسکی انتظامی ترتیب کیا ہوگی۔ ب اگر آپ کلینڈر مقرر بھی کر دیجئے تو اسکو تسلیم کتنے لوگ کرینگے اور کیا اختلاف کرنے والے اپنی روش سے رک جائینگے جناب من یہ مسلہ حقیقت میں انتظامی کمزوری اور سیاسی اختلافت اور پھر سب سے بڑھ کر مناصب کے حصول کا ہے۔ ۔
(حسیب صاحب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساینسی اعتبار سے اور جاننے کی مد میں آج کے دور میں کوئی بھی تیکنیکی مسئلہ نہیں رھا ھے۔ اور شریعت کی منشا کی تشریح تو اضافی نوعیت کی ھوتی ھے، کہ جو ابھی ہی پیچھے اس بات پہ مرکوز ھو گئی ھے کہ علم الیقین کی موجودگی میں باقی شہادت اضافی ہی ھوگی۔
جہاں تک ٹائم زون کی بات ھے، تو ٹائم زون تو دور کی بات ھے، سایئنسی علم اتنا Accurate ھو چکا ھے، کہ کسی بھی ٹائم زون کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رھا۔ علاقے یا ملک کی حد کے اند باآسانی پورے سال اور دہائی، صدی کا کیلینڈر بنایا جا سکتا ھے۔

جہاں تک تسلیم کی بات ھے، تو کیا کسی بات کو اس وجہ سے تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے کہ اسکو تسلیم زیادہ لوگ نہیں کریں گے؟
17گھنٹے · Unlike · ٢

بخاری صاحب نوازش کہ آپ نے میری معروضات کو قابل توجہ سمجھا اب پیش کردہ نکات کی کچھ وضاحت .....
14گھنٹے · Like

Haseeb Khan ١،٢ : تو نمار کا بھی تو جو طریقہ سنت میں تھا وہ سایہ پر ہی مبنی تھا، تو اسکو کیوں تبدیل کیا گیا۔ یہ تبدیل کرنا ہی اس بات کی نص ھے کہ کسی حق الیقین کی موجودگی میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں؟

اور اگر ریاست حق القین پر مبنی کوئی ایسا فیصلہ کردے تو تب تو ایسا ھو بھی سکتا ھے؟

وضاحت : اگر آپ نماز والی روایت پر غور کریں تو اس میں کہیں بھی سایہ سے متعلق احکامی انداز اختیار نہیں کیا گیا قرآن کریم میں صاف اور واضح حکم ہے الله تعالى نے فرمايا : ﯾﻘﯿﻨﺎﹰ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﻭﻗﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ.

اب اوقات کے تعین سے متعلق کوئی صریح حکم نہیں ....

دوسری طرف رویت ایک مستقل حکم ہے

۰۰۹۱ حدثنا یحیی بن بکیر قال: حدثنی اللّیث، عن عقیل، عن ابن شہاب، قال : اخبرنی سالم بن عبداللّٰہ بن عمر ان ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ((اذا رایتموہ فصوموا، واذا رایتموہ فافطروا ، فان غم علیکم فاقدروا لہ ))۔
وقال غیرہ عن اللّیث:حدثنی عقیل و یونس: لہلال رمضان۔
ترجمہ : ابن عمر صسے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم رمضان کا چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو افطار کرو، اگر تم پر بدلی چھائی ہو تو اس کا اندازہ کرو۔
مسئلہ رویت ِہلال
۔” اذا رایتموہ فصوموا، واذا رایتموہ فافطروا “۔
جب تم چاند کو دیکھو تو روزہ رکھو اور جب چاند کو دیکھو تو افطار کرو ۔

وضاحت : نماز کے اوقات کا معلوم کرنا انتظامی ہے بلکل ہے جناب ایسے ہی روزے کے اوقات کا معلوم کرنا بھی انتظامی ہے ....
آپ نے غور نہیں فرمایا کہ روزے کا اوقات کا تعلق بھی نماز سے ہی ہے یعنی ابتداء فجر سے روزے کا وقت شروع ہوتا ہے اور ابتداء مغرب پر اختتام پذیر ہو جاتا ہے اور ان اوقات کا تعین انتظامی ہے اور انکا ایک دائمی نقشہ بھی موجود ہے .....
ہماری گفتگو روزے کے اوقات سے نہیں رمضان کی ابتداء و انتہا سے متعلق ہے جسے رویت بصری (moon sighting) سے جوڑا گیا ہے ....

وضاحت : محترم یہاں معاملہ گواہی کا یا گواہ کی حیثیت کے تعین کا ہے اسلامی قوانین میں گواہ کی انتہائی اہمیت ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے زناء ، قذف ، نکاح یا دوسرے امور سے متعلق گواہ کی حیثیت کو جانچنا ..

زناء کی حد لاگو ہونے کیلئے گواہان کی ضرورت ہوتی ہے اب اگر کسی ذریعے سے اس گواہ کی حیثیت مشکوک ہو جاوے تو حد کا نفاز نہیں ہوگا بلکہ تعزیر لاگو ہوگی ...
اوپر بدو والی روایت پیش کی جس میں گواہ سے توحید و رسالت کا اقرار کروایا گیا اور اسی کو کافی سمجھا گیا اب جدید سائنسی آلات کے استعمال سے اسکا سچا یا جھوٹا ہونا ثابت ہو سکتا ہے یہ حق الیقین گواہ سے متعلق ہے .......
جیسا کہ عرض کی چاند کی رویت ایک مستقل عبادت ہے جیسے اذان ایک مستقل عبادت ہے لیکن نماز سے ہٹ کر اسکا کوئی وجود نہیں ......
نکتہ نمبر ٥ ایک مکمل تکنیکی بحث ہے اسکو آسان انداز میں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں .

جیسا کہ میں نے سوال کیا تھا کہ آپ مدار کس کو تسلیم کرینگے (new moon) یا پھر (moon at visible height) ہونے پر یہ دو مختلف امور ہیں ..
ہر دو اعتبار سے کلینڈر مختلف انداز سے ترتیب دیا جاوے کا یہ ایک مکمل تکنیکی اور سائنسی کام ہے لیکن اصول کہاں سے لیا جاوے گا بنیاد نیا چاند ہوگا یا چاند کا وزیبل ہائٹ پر ہونا اسکیلئے آپ کو قرآن و سنت سے صریح دلیل پیش کرنا ہوگی .....

جیسکہ آپ نے متعدد بار نماز اور سایہ کی مدد سے اوقات کے تعین کی بات کی اب اوقات کا تعین یا سایہ کا گھٹنا بڑھنا کسی بھی جدید طریقے سے معلوم ہو سکتا ہے لیکن معیار سایہ گھٹنا بڑھنا ہی ہے ......

یہاں آپ معیار کس کو تسلیم کرینگے
١ (new moon)
٢ moon at visible height)
اصول کیا بنے گا جب آپ کلینڈر بنانے جائینگے یا اپنی مرضی سے کسی کو بھی اصول تسلیم کر لینگے یاد رہے دونوں میں ٢٤ گھنٹے سے زیادہ کا فرق ہو سکتا ......

اس گرافک کو دیکھیں نیا چاند ایک بلائنڈ سائٹ ہوتا ہے اور اسے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا پھر آہستہ آہستہ اسکی وزیبلیٹی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اب اسکے مختلف فیزز کو دیکھیں (sighting ) کے اعتبار سے – New Moon – Not visible
– Waxing crescent Moon – Right 1-49% visible
– First quarter Moon – Right 50% visible
– Waxing gibbous Moon – Right 51-99% visible
– Full Moon – Fully visible
– Waning gibbous Moon – Left 51-99% visible
– Third quarter Moon – Left 50% visible
– Waning crescent Moon – Left 1-49% visible
– New Moon – Not visible

https://fbcdn-sphotos-g-a.akamaihd.net/hphotos-ak-xpf1/t1.0-9/10489964_1506717326230019_8622495475813217373_n.jpg


We can’t see the new moon from Earth, except during the stirring moments of a solar eclipse. Then the moon passes in front of the sun, and the night portion of the moon becomes visible to us, surrounded by the sun’s fiery corona.

Once each month, the moon comes all the way around in its orbit so that it is more or less between us and the sun. If the moon always passed directly between the sun and Earth at new moon, a solar eclipse would take place every month

https://scontent-a-mxp.xx.fbcdn.net/hphotos-xpa1/t1.0-9/10502409_1506718212896597_3840304426288694784_n.jpg

چاند جب ویزیبل ہائٹ پر ہوتا ہے تو وہ اپنے ویکسنگ پیریڈ میں ہوتا ہے اسی کو ہلال کہا جاتا گرافک میں ملاحظہ کیجئے ......
اسی ہلال کی رویت پر اسلامی مہینوں کا شرعی مدار ہے

https://scontent-a-mxp.xx.fbcdn.net/hphotos-xpf1/t1.0-9/10432489_1506719136229838_513127327743252454_n.jpg


Let us examine the conjunction as a possible basis of starting a month. Remember, the conjunction can occur at any time between 24 hours. Suppose the conjunction occurs at 11pm Universal Time (Sunday), then at that moment Makkah time is 2am (Monday). Should England start the month on Monday and Saudi Arabia start the month on Tuesday?

Now, if someone says that let us make Makkah as our basis and whatever day in Makkah, the conjunction occurs the next day the new month starts. The problem with this is that if conjunction occurs at 0:01am (Monday) of Makkah time then at that moment it is 2:01pm (Sunday) in Hawaii. Should Hawaii start the month on Monday and Saudi Arabia start the month on Tuesday?

Look at another case: Suppose the conjunction occurs at 11:59pm (Sunday) Makkah time then at that moment it is 5:59am (Monday) in Tokyo. Should Japan start the month on Tuesday and Saudi Arabia start the month on Monday?

If someone says, ignore what time it is in other locations of the world, just go by Makkah time, then why do we have different prayer times for every city? Why not adopt Makkah Prayer Time all over the world.

Muslims have looked at the conjunction as a possible basis, which we can call a convention. If a convention is adopted then moonsighting will not be the basis; possibility of moonsighting may be the basis along with conjunction


The moon-sighting prediction calculations are not that simple as you think. If the moon surface facing the earth is completely dark and the moon is above 5° or 10°, or even 20° it means it is there but is invisible. 5 or 10° above horizon is a function of curvature of the globe. But for visibility, the moon has to reflect sun's light. To do that the moon has to be at about 10° angle minimum from the sun (this angle is also called elongation, or arc of light). Elongation was 5.2° in Detroit on Dec. 29; That is why you did not see the moon on that day. On Jan 28, you will still not see the moon, because the elongation is less than 10°, and the age is 17 hours, and there are other parameters of the moon that make it impossible to see it on Jan 28. However, on Jan 29, you will see a big moon that is 41 hours old, that still does not mean that it was yesterday's moon, because yesterday, it was 17 hours old and was not visible in your area


On the day of new moon, the moon rises when the sun rises. It sets when the sun sets. It crosses the sky with the sun during the day. That’s why we can’t see the new moon in the sky. It is too close to the sun’s glare to be visible. Plus its lighted hemisphere is facing away from us.

Then a day or two later, the moon reappears, in the west after sunset. Then it’s a slim waxing crescent visible only briefly after sunset – what some call a young moon.

Each new lunar cycle is measured beginning at each new moon. Astronomers call one lunar cycle a lunation.

اس بات کا سائنسی امکان موجود ہی نہیں ہے کہ آپ یہ صحیح ترین (prediction) کر دیں کہ چاند کس وقت وزیبل ہائیٹ پر ہوگا ......
پھر غور کیجیے نیا مون تو predict کیا جا سکتا ہے لیکن مون کب وزبل ہوگا یہ (prediction) نہیں ہو سکتی .......


The lunation number represents the number of times the Moon has cycled the Earth since January 1923 (based on a series described by Ernest W. Brown in Planetary Theory, 1933). One cycle, or lunation, starts at new moon and lasts until the next new moon.
Duration
Duration is the number of days (d), hours (h), and minutes (m) between one new moon and the following one. The average value is 29 days 12 hours 44 minutes and is called a synodic month. The duration varies from one lunation to another, most importantly because the orbit of the Earth and Moon are ellipses rather than circles, where the orbit speed depends on how close the orbiting object is to the mass center. For example, the Moon moves faster when it is closest to the Earth. Some years, such as 2004, have relatively small duration differences throughout the year (five hours difference between minimum and maximum duration), while the year 2008 will have larger differences (more than twelve hours).

آپ مستقبل کیلئے یہ (prediction) کیسے کرینگے کہ چاند اور زمین کس رفتار سے ایک دوسرے کو کراس کر سکتے ہیں یہ کلیہ کبھی بھی مستند نہیں ہو سکتا

اب اس بات کو سمجھیں کہ نیا چاند انسانی آنکھ سے دیکھ لیے جانے کی ہیت میں آنے کیلئے کم سے کم ١٧ اور زیادہ سے زیادہ ٢٤ گھنٹے لے سکتا ہے ....
آپ کسی بھی جدید ترین سائنسی طریقے سے یہ نہیں بتا سکتے کہ (exact time) کیا ہو گا ١٧ ، ١٨ ، ١٩ ، ٢٠ ، ٢١ ، ٢٢ ، ٢٣ ، ٢٤ یا اس سے زیادہ ....

اب آپ (eve rig time) نکالینگے یعنی پچھلے پانچ دس یا سو سال کا تخمینہ ..

اب یہاں ایک بات یاد رہے کہ اسلامی تاریخ مغرب کے بعد تبدیل ہو جاتی ہے اور اگلا دن لگ جاتا ہے یعنی اسکا تعلق سورج نہیں ہے ..
اگر یہ فرق چار سے پانچ گھنٹے کا ہو جاتا ہے تو دن ہی تبدیل ہو جاوے گا اور پھر لازمی طور پر تیس دن پورے کرنے ہونگے ......

اب مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم رویت بصری کا سنت سے ثابت شدہ اصول چھوڑ کر اس پریشانی میں مبتلاء ہی کیوں ہونا چاہتے ہیں جس میں ایک طرف تو سنت کا ترک لازم آوے گا اور دوسری طرف کوئی یقینی نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکے گا......

یہاں آکر میری گفتگو مکمل ہو جاتی ہے مقصود اپنی راۓ کا مسلط کرنا نہیں بلکہ صحیح ترین راۓ تک پہنچنے میں آسانی پیدہ کرنا ہے ......

ایک نکتہ جو باقی ہے جس میں چاند کو امت کی وحدت اور اتحاد کی علامت بتلایا جا رہا ہے اس سے متعلق ایک مستقل پوسٹ لگانے کا ارادہ ہے ان شاء الله .....
باقی الله ہم سب کو حق کی طرف پہنچنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین .

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

حسیب احمد حسیب