جمعہ، 7 جولائی، 2017

مینڈک کی مثال اور غامدی مذہب ...!

چورنگی نامہ


سوشل میڈیا پر گزشتہ شب سے ایک مینڈک کی مثال گردش میں ہے لوگ باگ اس سے اپنے اپنے تجربے اور افتاد طبع کے مطابق نتائج اخذ کررہے ہیں مگر ہمیں تو یہ غامدیت اور اسلام پر سو فی صد لاگو ہوتی ہوئی دکھائی دی ملاحظہ کیجئے.
"ایک پانی سے بھرے برتن میں ایک زندہ مینڈک ڈالیں اور پانی کو گرم کرنا شروع کریں
جیسے ہی پانی کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گا ، مینڈک بھی اپنی باڈی کا درجہ حرارت پانی کے مطابق ایڈجسٹ کرے گا اور تب تک کرتا رہے گا جب تک پانی کا درجہ حرارت "بوائلنگ پوائنٹ" تک نہیں پہنچ جاتا ۔۔۔۔
جیسے ہی پانی کا ٹمپریچر بوائلنگ پوائنٹ تک پہنچے گا تو مینڈک اپنی باڈی کا ٹمپریچر پانی کے ٹمپریچر کے مطابق ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا اور برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا لیکن ایسا کر نہیں پائے گا کیونکہ تب تک مینڈک اپنی ساری توانائی خود کو "ماحول کے مطابق" ڈھالنے میں صرف کر چکا ہو گا
بہت جلد مینڈک مر جائے گا ".
بس غامدیت اسلام کے ساتھ یہی سلوک کرنا چاہتی ہے کہ اسلام کو وقت اور حالات کے مطابق اس حد تک تبدیل کردیاجاوے کی اس کے امیون سسٹم میں سے آخری درجہ قوت استعداد بھی ختم ہو جاوےاور وہ اپنی موت آپ مر جاوے.
حسیب احمد حسیب

مسلمانو " روزہ معاف کرالو " .

چورنگی نامہ

مختصر افسانہ
مصنف : حسیب احمد حسیب
مسلمانو " روزہ معاف کرالو " .
ابھی میں اس پری کی مخروطی انگلیاں تھامے انگوٹھی پہنانے جا ہی رہا تھا کہ اماں بی کی کرخت آواز کانوں میں دھماکے کی طرح گونجی اور پری گھبرا کر پھڑ پھڑاتی ہوئی اڑن چھو ہو گئی آواز کچھ یوں آ رہی تھی ...
اٹھ جا کمینے اٹھ کر روزہ معاف کروالے چل اٹھ جا آج میں ہڈ حراموں کو سحر و افطار کروانے والی نہیں چل اٹھ وقت نکلا جا رہا ہے ...
ہائیں میں خواب میں ہی ہونق ہو چکا تھا یہ سچائی ہے یا میں نیند میں ہوں نیند میں تو میں ہوں تو پھر یہ آواز کیسی ہے کہیں میرا آخری وقت تو نہیں آ گیا سنا ہے قیامت کے دن روزہ معاف ہوجاوے گا نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ابھی میں نے ملک الموت کا سامنا کرنے کا موڈ بنانا شروع ہی کیا تھا کہ جوتی میزائل کا اٹیک ہوا اس سے پہلے کہ جھاڑو حملے کی نوبت آتی میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا ارے کیا اول فول بک رہی ہو اماں بی کیا ہو گیا سروتہ کھینچ کر مارونگی ابھی اماں بی کہ جو پاندان کھولے بیٹھی تھیں انہوں نے مجھے دھمکایا ...
آخر ہوا کیا ہے ...؟ میں نے جھنجلا کر پوچھا ...!
ارے بے وقوف روزہ معاف ہو رہا ہے جا تو بھی جا کر معاف کروالے میں نے گھڑی دیکھی ڈھائی کا وقت تھا ابھی اماں بی کے سٹھیانے کا ٹائم تو نہیں ہوا تھا اچانک کانوں میں آواز گونجی کوئی لاؤڈ اسپیکر پر صدا لگا رہا تھا
مسلمانو ...! روزہ معاف کرالو
اٹھ جاؤ مسلمانو ... ! روزہ معاف کرانے ٹائم ہو گیا ہے مسلمانو ... ! جلدی جلدی آؤ روزہ معاف ہوا چاہتا ہے ..
ہائیں ...
اتنا ہونق تو میں اس وقت بھی نہ ہوا تھا کہ جب باھو بلی کا مفت ٹکٹ ملا تھا میں بے اختیار گھر سے باہر نکلا
کیا منظر دیکھتا ہوں کہ قوت بیان عاجز ہوکر اظہار سے قاصر ہوئی جاتی تھی
عجیب منظر ہے رات کے اس پہر جنگل میں منگل کا سما ہے چہار طرف روشنی پھیلی ہوئی ہے ایسا لگتا ہے کہ چاند زمین پر اتر آیا ہے اپنے گھروں کی بالکنیوں میں کھڑی سندر ناریاں ہاتھ لہرا لہرا کر خوشی کا اظہار فرما رہی ہیں جسکو دیکھو شاداں و فرحاں ہاتھوں میں خوبصورت رنگ برنگے سرٹیفیکٹس لیے چلا آتا ہے ایک جانب ایک لمبی قطار جا رہی ہے ..
ابھی میں اس خوبصورت منظر میں مدہوش ہوا جاتا تھا کہ اچانک کسی نے میری گدی ناپی پہ یہ چچا جگاڑی تھے .. یہاں کیوں کھڑا ہے کسی آوارہ گیڈر طرح ..
چل چل کر روزہ معاف کروالے اور یہ الو کی طرح دیدے نہ مٹکا یہ حقیقت ہے مجدد دوراں فقیہ زماں حضرت چریاکوٹی صاحب تشریف لے آۓ ہیں چل دنیا بدل رہی ہے تو بھی اس تبدیلی کا حصہ بن جا ...
میں دل ہی دل میں چچا جگاڑی پر لعنت بھیجتا ہوا انکے پیچھے قطار میں لگ گیا گلی سے نکلا تو کیا منظر دیکھتا ہوں مرد و عورت غول در غول سوسائٹی کے درمیان موجود چمن عاشقاں کی جانب خراماں خراماں چلے جاتے ہیں سو میں بھی اچک اچک کر چمن عاشقاں کی اور چل پڑا ..
چمن کے سارے در کسی عاشق کے گریبان اور کسی معشوقہ کی قبا کے بندوں کی طرح کھلے پڑتے تھے ایک خوبصورت ریڈ کارپٹ تھا کہ جو ہر دروازے سے کسی باندر کی زبان کی طرح چمن کے بیچ فوارے تک چلا جاتا تھا میں بھی ایک سرخ قالین پر ہو لیا قالین کے طرفین خوبصورت کنواری کنیائیں قالین پر چلنے والوں کے اوپر گل پاشی کرتی جاتی تھیں اور ہم بوۓ گل کی بھینی بھینی خوشبو سے مسحور ہوۓ چلے جاتے تھے ...
فوارے کے چاروں طرف خوبصورت لائٹنگ تھی اور فوارہ رنگدار پانی پھینک رہا تھے درمیان میں ایک نقشین تخت لگا تھا کہ جسپر ایک نستعلیق بزرگ براجمان تھے ٹیکنی کلر شیروانی سر پر قراقلی ٹوپی پیروں میں سلیم شاہی جوتے اور منہ میں بدیسی سگار کہیں سے آواز آئی یہی تو ہیں حضرت علامہ پیر مغاں مجدد دوراں امام مغرب سلام مشرق چریا کوٹی صاحب ...
فواروں کی خوبصورت دھاروں میں رنگ رنگ ہوتے علامہ کے ہر دو اطراف سرو قد خوبصورت نشیب و فراز کی حامل پرشین حسینائیں مور کے پنکھ جھلتی تھیں سامنے ہی ایک بڑی میز پر رنگ برنگی خوبصورت اسانید دھری تھیں اور علامہ کا تخت ریوال ونگ تھا کہ جو مدھر موسیقی کی لے کے ساتھ مہو گردش تھا آنے والے چہار راستوں سے آتے اور رنگ و نور کی بارش میں بھیگتے ہوۓ اپنے اپنے حصے کی سند لیکر آداب و تسلیمات کرتے ہوۓ چلتے بنتے ...
ایک جانب ایک درویش رقصاں تھا تو دوسری جانب ایک مستانی مٹک رہی تھے درویش بار بار وجد کے عالم میں نعرہ حق بلند کرتا ..
سب کو معاف .... سب کو معاف اور مستانی ہر ہر بار معاف کی "ف" کے ساتھ سر سے سر ملاتی
ترتیب کچھ یوں تھی
درویش ... سب کو معاف .. مستانی لے ملاتے ہوۓ ... میف .....
معاف ..... میف ..... معاف ..... میف ..... معاف .... میف ..... معاف ... میف .....
ابھی ہم اس سر تال میں ہی مگن تھے کہ نستعلیق بزرگ کے تخت شاہی کے قریب جا پہنچے ...
کیا دیکھتے ہیں کہ در دولت کھلا ہے فیض عام جاری ہے ہر کس و ناکس مستفید ہو رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ خزانانوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ہو ..
ایک جوان رعنا آگے بڑھتا ہے استازی امتحان علامہ سامنے پڑا ہتھوڑا اٹھا کر حکم لگاتے ہیں ... معاف بیک گراونڈ میں درویش کا نعرہ حق بلند ہوتا ہے ... معاف .. پیچھے سے مستانی ککڑی کی طرح کوکتی ہے ... میف .... میف ...
ایک لونڈیا آگے آتی ہے حضور شاپنگ ... ہتھوڑا برستا ہے ... معاف .. درویش اور مستانی روٹین میں لگے ہوۓ ہیں ...
معاف .... میف .... میف ...
اب تو ایک سلسلہ دکھائی دیتا ہے ... ایک نیا نویلا دولہا استاذی شادی ... استاذی شریر .... چل معاف ... ہتھوڑا برستا ہے ...
ایک گونگلو بدن آنٹی ... بھیا گرمی ... استاذی ... معاف ... ہتھوڑا ... ڈھن .. ایک مدقوق بڈھا ... بابو قبض ... استاذی .... معاف ... ہتھوڑا ... ڈھن .. ایک خوبصورت دوشیزہ ... جانو ..... استاذی .... معاف معاف ... ہتھوڑا ... ٹن ٹن ٹنا ٹن ٹن ٹنا
بیک گراؤنڈ میں بجتی جلترنگ
معاف .... میف .... میف ...
ابھی ہم اس منظر میں مگن ہی ہوتے ہیں کہ اچانک دھکا لگتا ہے اور ہم استاذی کے سامنے جا کھڑے ہوتے ہیں ...
استاذی ہمیں گھورتے ہیں ہم استاذی کو تاڑتے ہیں انکی نگاہیں سوال کرتی ہیں ہمارے ہونٹ خاموش ہو جاتے ہیں
ہائیں ہم کیا کہیں ہمارے پاس تو کوئی عذر بھی نہیں اب ہمارا روزہ کیسے معاف ہوگا
ابھی یہ گستاخانہ خیالات ہمارے مغز میں کلبلا ہی رہے ہوتے ہیں کہ ااستاذی کا چہرہ جلال میں سرخ قندھاری انار کی مانند چمک اٹھتا ہے
تو کیا سمجھتا ہے ہمارے در سے خالی جاوے گا لے معاف ... استاذی ہتھوڑا ایسے گھماتے ہیں کہ جیسے ہمارے منہ پر ہی دے ماریںگے ....
ایک چندن ناری لچکتی ہوئی آتی ہے اور ایک خوبصورت ریشمی سند ہمارے ہاتھوں میں تھما دیتی ہے
پیچھے سے درویش کا نعرہ حق بلند ہوتا ہے .... معاف ... مستانی کوکتی ہے ..... میف ..... میف ..... ہتھوڑا بجتا ہے .... ڈھن ڈھن ڈھنا ڈھن ڈھن ڈھنا ڈھن ڈھن .....
ہم ہتھوڑے کی خوبصورت تال پر شادی مرگ کی کیفیت میں رقص کرتے ہوۓ ریڈ کارپٹ سے باہر آتے ہیں اور سامنے رقص کرتی ہوئی ایک فربہی مائل آنٹی سے بغلگیر ہو جاتے ہیں ابھی ہم اس سوز و گداز کو محسوس ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ ...
ڈھن ڈھن کی خوبصورت تال دھم دھم کے دھماکوں میں بدل جاتی ہے اچانک پیٹھ پر دو ہتڑ پڑتے ہیں ہم مڑ کر دیکھتے ہیں تو علامہ چریا کوٹی کی شکل دھندلی ہوئی جاتی ہے اور انکے منہ سے آواز نکلتی ہے ...
کمینے ... پیچھے سے درویش کی ہیت بدلتی ہے اور وہ بھی نعرہ حق بلند کرتا ہے کمینے .... مستانی بھی بدلی بدلی لگتی ہے وہ بھی تال ملاتی ہے .... کمینے ...
اور اچانک اماں بی کا چہرہ نمودار ہوتا ہے اٹھ جا کمینے ... سحری کا وقت نکلا جاتا ہے اگر مرتا بھی ہوا تو روزہ ضرور رکھنا پڑے گا چل اٹھ کچھ کھا مر لے ہم مڑتے ہیں تو بانہوں میں فربہی مائل آنٹی کی جگہ گاؤ تکیہ ہوتا ہے اچانک ایک کھٹمل نمودار ہماری ستواں ناک کا بانسہ چومتا ہے اور ہم حیران و پریشان اٹھ بیٹھتے ہیں اور سوچتے ہیں
پھر وہی دل تھا، وہی ماتم، وہی درد و قلق خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
حسیب احمد حسیب

رویت ہلال اور وحدت امت ...!

چورنگی نامہ

رویت ہلال اور وحدت امت ...!
ہر گزرتے دور کے ساتھ امت میں ایسی بدعات کا ظہور ہوتا ہے کہ جس سے پچھلے لوگ (سلف) ناواقف تھے ایسی ہی ایک بدعت رمضان و عیدین کو وحدت امت کا مظہر سمجھنا ہے ہمیں خلافت راشدہ کہ جو لاکھوں مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی اور اسکے بعد اموی عباسی اور عثمانی خلافتوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ رمضان و عیدین ایک ہی دن کیے جاتے ہوں بلکہ معاملہ اسکے برعکث دکھائی دیتا ہے
"عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ، بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ، فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: " لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ، أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ فَقَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "
(صحیح مسلم : ۱/۳۴۷، طبع دہلی)
کریب سے روایت ہے کہ ام الفضل بنت الحارث نے ان کو معاویہ رض کے پاس شام بھیجا وہ کہتے ہیں میں شام گیا اور میں نے ان کا کام پورا کیا میں شام ہی میں تھا کہ رمضان شروع ہوگیا میں نے وہاں چاند جمعہ کی رات میں دیکھا اور پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا ابن عباس رض نے مجھ سے احوال پوچھے پھر پوچھا کہ تم لوگوں نے ہلال کب دیکھا .. ؟ میں نے بتایا کہ جمعہ کی رات میں انہوں نے پوچھا کیا تم نے خود دیکھا .. ؟ میں نے کہا ہاں ، اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا ان لوگوں نے روزہ رکھا اور معاویہ رض نے روزہ رکھا ، ابن عباس رض نے کہا مگر ہم لوگوں نے چاند سنیچر کی رات دیکھا اس لئے ہم لوگ روزہ رکھیں گے ، یہاں تک کہ تیس دن پورے کرلیں ، کریب نے کہا کیا آپ معاویہ کی رویت اور ان کے صیام کا اعتبار نہیں کریں گے ؟ تو انہوں نے کہا نہیں ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے ۔
یہ حضرت معاویہ رض کا دور حکومت تھا اور ایک ہی خلافت میں رمضان اور عیدین مختلف ہوئے اور نہ تو اس سے وحدت امت کو خطرہ ہوا اور نہ ہی حکومتی رٹ چیلنج ہوئی اور نہ ہی ابن عباس رض کو اریسٹ کیا گیا ..
درحقیقت وحدت امت کی علامت توحید الہی رسالت محمدی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن کریم سیرت رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نفاذ شریعت ہے ناکہ چاند و عیدین..
دوسری جانب قومی و وطنی ریاستوں میں ایسے معیارات کا سوال ہی بے جا ہے اگر کوئی گروہ اپنی سمجھ اور فکر کے اعتبار سے اپنی عبادات کرنا چاہے تو آئینی طور پر انہیں پوری آزادی ہے جب آپ بوہری اور اسماعیلی گروہوں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنا رمضان اور اپنی عیدین الگ کریں تو آئینی طور پر کسی بھی دوسری مذہبی اکائی سے اس حق کو چھیننے کا آپ کو کوئی اختیار نہیں یاد رہے کہ ریاست کی نگاہ میں شیعہ مکتب فکر کے تمام فرقے بوہری آغاخانی اور اثنا عشری یکساں مسلمان ہیں ..
بنیادی طور پر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس بات سے بھی انکار نہیں کہ اس حوالے سے ریاست کا موقف ہی درست ہے مگر ایک جمہوری ریاست میں جو حق دوسرے گروہوں کو حاصل ہے وہی پوپلزئی اور انکے متعلقین کو بھی ہے.
حسیب احمد حسیب

جمعرات، 19 جنوری، 2017

" سوشل میڈیا اور الحاد ".

چورنگی نامہ

" سوشل میڈیا اور الحاد ".

مارک الیوٹ زکربرگ  {Mark Elliot Zuckerberg} سنہ ١٩٨٤ وہائیٹ پلینز نیویورک میں ڈینٹسٹ اڈورڈ زکربرگ اور سائیکی ایٹرسٹ کیرن کیمپنر کے گھر پیدا ہونے والا بچہ .

کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ مستقبل میں سوشل میڈیا کی دنیا میں ایک انقلاب بپا کر دے گا
{51.4 billion USD}
کے اثاثوں کا مالک مارک ذکر برگ، دنیا کا معروف ترین سافٹویر ڈیولپر پیدائشی طور پر ایک یہودی خانوادے سے تعلق رکھتا ہے
{bar mitzvah}
 کے مذہبی عمل سے گزارنے والے نوجوان نے جب شعور سنبھالا تو خود کو " لا مذھب " کہلوانا پسند کیا .

{the initiation ceremony of a Jewish boy who has reached the age of 13 and is regarded as ready to observe religious precepts and eligible to take part in public worship}

گو کہ جب بھی کبھی بنی اسرائیلیوں نے اپنی نسبت کسی مذھب فکر یا عقیدے ہی جانب موڑی ہے اس میں دھوکہ ہی ہوا ہے چاہے سینٹ پال کا قبول مسیحیت ہو یا عبدللہ ابن سبا کا قبول اسلام یا پھر زکربرگ کا
" مذھب لادینیت " کا قبول کرنا .

عجیب لطیفہ یہ ہے کہ موصوف آجکل بدھ مت کی جانب راغب دکھائی دیتے ہیں حضرت فرماتے ہیں کہ

{Zuckerberg is visiting Asia to promote Facebook — though the network is blocked in China. Zuckerberg’s wife, Priscilla Chan, is Buddhist. In his post, Zuckerberg wrote that he offered a prayer for his wife at the pagoda, and said that he’s interested in learning more about Buddhism.}

ویسے بیگم کے خوف سے خود کو بدھسٹ کہلوانا بھی کوئی برا سودا نہیں ہے گھر کا اور ذہن کا سکون آخر کسے درکار نہیں .

اگر غور کیا جاۓ تو مذھب بدھ ازم بھی لادینیت سے اتنا دور نہیں کیونکہ اس مذھب میں تصور خدا موجود نہیں ہے اور اس کی تعلیمات دراصل بودھ کی تعلیمات ہیں ناکہ وحی الہی .

سابقہ یہودی موجودہ " لادین " اور مائل بہ بودھ ازم مارک ذکر برگ کے سوشل میڈیا جن " کتاب رخ " {facebook} پر کس انداز میں لادینیت کو پروموٹ کیا جاتا ہے اسکی مثال ریبیکا سواستیو {Rebecca Savastio} کے کالم .

" Social Media Growing Atheism by the Millions "





میں ملتی ہے اپنے کالم میں موصوفہ ایک جگہ لکھتی ہیں .

" Even more notable than the jump in atheism is the increase in people who say they simply don’t adhere to any religion. A recent PEW study found that 20% of Americans now say they are “unaffiliated” with any specific faith or set of religious practices. 20% of Americans is a huge number: over 63 million people. Out of that number, roughly one third are atheist or agnostic. That’s over 21 million non-believing “heathens.”

Such a large number has undoubtedly been helped along by social media, especially Facebook. A search of the words “atheist,” “agnostic,” “skeptic,” “God” and “secular,” reveals close to 100 atheistic Facebook pages ranging in membership from a few thousand to a quarter million people. "

ذیل میں کچھ معروف سوشل میڈیا گروپس کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جنکا مقصود الحاد و دہریت کو پھیلانا ہے ،

1. The ExposingReligion Network
https://www.facebook.com/Top10AtheistPages/

2. We Fucking Love Atheism
https://www.facebook.com/WFLAtheism

3. Religion Poisons Everything
http://www.facebook.com/GodIsNotGreat

4. Atheist Republic
https://www.facebook.com/AtheistRepublic

5. Hammer the Gods
https://www.facebook.com/HammerTheGods

6. The Thinking Atheist
http://www.facebook.com/pages/The-Thinking-Atheist/302201620116

7. United Atheists of America
http://www.facebook.com/WEAREUAA

8. Working class atheists
http://www.facebook.com/workingclassatheists

9. The Atheist's Bible Commentary
http://www.facebook.com/TABCP

10. Atheism
http://www.facebook.com/AtheismFTW

ان تمام الحادی پیجز کے صارفین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور خاص طور پر انکا ٹارگیٹ نوجوان طبقہ ہے کہ جسے یہ دین سے برگشتہ کر کے لا دین بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں .

دوسری جانب اردو بولنے والے طبقے کیلئے زبان و بیان اور ادب کی آڑ میں متعدد  ایسے گروپس تشکیل دیے گۓ کہ جنکا مقصود پردوں میں لپٹ کر لا دینیت کی ترویج تھا .

رفیع رضا صاحب ایک جانے مانے ادیب ہیں کہ جو طویل عرصے سے الحاد و دہریت کیلیے کام کر رہے ہیں لوگ انکی ادبی حیثیت سے متاثر ہوکر انکی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور انکے لادینیت کا زہر لے اٹھتے ہیں .


http://www.rafiraza.com/

فری تھنکرز کے نام سے طویل عرصے تک ان صاحب کی زیر نگرانی ایک گروپ چلایا جاتا رہا کہ جسے دل آزار مواد کی وجہ سے متعدد بار رپورٹ بھی کیا گیا لیکن کہ مختلف نام بدل بدل کر سامنے آتے رہے .

ایک دوسرے صاحب کہ جو خود کو علامہ ایاز نظامی کہتے ہیں اور بقول انکے یہ سابقہ عالم دین اور موجودہ ملحد ہیں سوشل میڈیا اور خاص کر کتاب رخ پر انتہائی متحرک ہیں انکی برقی صفحہ " جرت تحقیق " کے نام سے زہر اگلتا ہے .

https://realisticapproach.org/author/nizami/

قریب کے دنوں میں ایک خاتون نسیم کوثر صاحبہ کا غلغلہ بھی اٹھا تھا کہ جنہوں نبی کریم صل علیہ وسلم کی شان میں کھلی گستاخی کی اور اسکیلئے اسی میڈیم کو استعمال کیا .

دوسری جانب بڑی دیر کے بعد جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس جانب متوجہ ہوا کہ اس الحادی فکر اور گروہ کا تعاقب کیا جاۓ

ایک گروپ

" آپریشن ارتقاء فہم و دانش " کے نام سے متحرک ہے  کہ جسکے ایک لاکھ



صارفین ہیں تو دوسری جانب ایک برقی صفحہ " الحاد جدید کا علمی محکمہ "



کے نام سے مصروف عمل ہے .

محترم دوست جناب زوہیب زیبی صاحب اپنے مضمون

 " سوشل میڈیا پر الحاد کے خلاف گزرے پانچ سال "


میں لکھتے ہیں


" ان فتنہ پرور لوگوں کے بدنیت ہونے کی تیسری علامت ان کا خود کو سابق مسلمان کہہ کر عام مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے۔ یہ مسلمانوں والے نام کی آئی ڈی بناتے، جب اعتراض ہوتا کہ’’ آپ لوگ غیر مسلم ہو کر مسلمان کیوں بن رہے ہیں؟‘‘ تو ان کا جواب ہوتا کہ ’’ہم پیدائشی مسلمان ہیں، البتہ بعد میں تحقیق کرکے اسلام کو غلط پایا اور پھر اسلام و خدا کو چھوڑ دیا‘‘۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے آٹے میں نمک کے برابر بھی ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو حقیقتاً پیدائشی مسلمان تو دور کی بات ہے، کبھی مسلمان بھی رہے ہوں۔ وگرنہ ہم نے تو یہی دیکھا کہ جب کبھی ایسے پیدائشی مسلمانوں سے بطور امتحان چھوٹے موٹے اسلامی سوال کیے جاتے تو یہ لوگ جواب دینے میں ہمیشہ نہ صرف ناکام رہے بلکہ بہانے بھی بنائے کہ ہم کوئی بہت اچھے مسلمان نہیں تھے وغیرہ۔ مثلاً ایک فیس بکی ملحد سے پوچھا کہ ’’تہجد کی کتنی رکعات ہوتی ہیں؟‘‘ تو جواب ملا ’’ہمارے تو کبھی فرائض بھی پورے نہیں ہوئے، تہجد کا کیا معلوم!‘‘ ایک سے انتہائی بچگانہ سوال پوچھا کہ ’’ قرآن کی کتنی منزلیں ہیں؟‘‘ تو جواب دیا ’’میں بہت زیادہ باعلم مسلمان نہیں تھا، میں کیا جانوں‘‘۔ ذرا غور تو کیجیے کہ جو شخص ’’اپنی تحقیق‘‘ کے مطابق قرآن میں عربی کی غلطیاں اور سائنسی خامیاں بیان کر رہا ہے، وہ یہ نہیں جانتا کہ قرآن میں منزلیں کتنی ہوتی ہیں۔ ایک صاحب نے تو حد ہی کردی، نام تھا ان کا ’یزید حسین‘۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ حافظ قرآن تھے اور تراویح بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اگر تراویح کی ایک رکعت نکل جائے تو اسے کیسے پورا کرتے ہیں؟ تو موصوف کا انتہائی مضحکہ خیز جواب تھا ’’چونکہ اسلام چھوڑے کئی سال ہوگئے ہیں، اس لیے اب میں بھول چکا ہوں‘‘۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ایک شخص انڈیا کا پیدائشی مسلمان ہو کر انڈیا میں ہی درس نظامی یعنی 8 سالہ عالم دین کورس کرنے کا مدعی ہو لیکن اسے اردو زبان نہ آئے؟ جبکہ اس کی آئی ڈی کا نام تھا ’’منصور حلّاج‘‘۔ جب مکمل تحقیق کے بعد اسلام چھوڑا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ انتہائی سادہ و بچگانہ اسلامی باتیں بھی نہ جانتے ہوں " ؟.

 گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسّلہ انتہائی گھمبیرتا اختیار کرتا جا رہا ہے


" Attacks by Islamic extremists in Bangladesh "

کے نام سے تلاش کیجئے سنہ ٢٠١٣ سے صرف بنگلہ دیش میں متعدد سوشل میڈیا لادینوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جسکی تفصیل اس وکیپیڈیا کالم میں پڑھی جا سکتی ہے .





انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا روایتی دینی طبقہ کہ جو اب انتہائی بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر موجود ہے اس طوفان کے آگے پل باندھنے سے قاصر تو کجا اس میدان سے بھی ناواقف ہے .

مدارس میں تقابل ادیان کے نام پر " مسالک کا تقابل "
اور رد عقائد باطلہ کے نام پر " مخالف مسلک کے اعتقادات کا رد "
تک محدود مواد پڑھایا جاتا ہے .

مسیحیت یا ہندو مت کے تقابل سے متلعق مواد شاید جدید جامعات میں ضرور میسر آ خالص دینی جماعت میں شاید چند ایک میں ہی اس سے متعلق مواد موجود ہو .

دوسری جانب الحاد کے حوالے سے ہمارا دامن بلکل خالی ہے اور سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر ہونے والا کام خالص ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ جو پختہ دینی مراجع سے اتنے ہی دور ہیں کہ جتنے خالص دینی طبقات جدید مراجع سے ہیں  اگر اس اہم ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوۓ کام نہ کیا گیا تو کل ہمارا وہی حال ہوگا کہ جسکی جانب شاعر نے کیا خوب اشارہ کیا ہے .


اٹھو ، وگرنہ حشر بپا ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا



حسیب احمد حسیب

جمعہ، 9 ستمبر، 2016

سیاست شرعی ، سیکولر سوالات اور اسلام پسندوں کی غلط فہمیاں ... ! پہلی قسط

سیاست شرعی ، سیکولر سوالات اور اسلام پسندوں کی غلط فہمیاں  ... !

ابن خلدون مقدمے میں ریاست کی تین اقسام بیان کرتا ہے

١.ملوکیت
٢.سیاست عقلی
٣. خلافت

" ملوکیت " کا تعلق براہ راست عصبیت کے جذبے   کے ساتھ  ہے اور بغیر عصبیت ملوکیت کا چلنا ممکن نہیں یہ عصبیت ہی دراصل وہ قوت فراہم کرتی ہے کہ جو ملوکیت کا ایندھن قرار دی جا سکتی ہے .

" سیاست عقلی "  کا سراغ ابن خلدون نے اس دور میں لگایا تھا کہ جب جدید جمہوریت کا تصور اپنے واضح خد و خال کے ساتھ نہیں ابھرا تھا ایک ایسا نظام کہ جس میں لوگوں کے منتخب نمائندے اپنی عقل کے مطابق اتفاق راۓ سے ایک سیاسی نظام تشکیل دیں کہ جس کی بنیاد دین پر نہ ہو .

" خلافت " کی بحث کرتے ہوۓ علامہ فرماتے ہیں کہ ..

نری بادشاہت جو عصبیت کی طاقتوں کے زریعے  زندہ ہو تو وہ اسلئے غلط ہے اور جور و عدوان کے مترادف ہے کہ اس میں خواہشات انسانی کی روک تھام کیلئے کوئی اہتمام نہیں کیا گیا .

سیاست عقلی میں یہ قباحت ہے کہ اس میں وہ روشنی ہی مفقود ہے جو دین مہیا کرتا ہے اسلئے قدرتی طور پر اس کے دوائر میں محدود دنیا ہی کے مفادات آ سکتے ہیں عقبی کے تقاضوں کو سمجھنا اس کے بس کا روگ نہیں ہے .

رہا سیاست دین کا مسلہ تو وہ نظام سامنے آتا ہے کہ جس میں صلاح دنیا کے ساتھ ساتھ صلاح
آخرت   کا اہتمام  بھی موجود  ہو  اسی نظام کو انبیا علیہم السلام چلاتے ہیں اور ان کے بعد انکے خلفاء انکی قائم مقامی کرتے ہیں .

فی معنی الخلافتہ والا امامتہ

دور جدید میں جب سیکولر حضرات کی جانب سے سوالات سامنے آتے ہیں تو اسلام پسندوں کے پاس بودی تاویلات کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا انکے اس معذرت خواہانہ رویے کی وجہ سے ہی ایک جانب تو اسلام کی حقیقی تصویر دوسروں تک نہیں پہنچ پاتی اور دوسری جانب انکی مدافعت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ شرمساری کی شکل اختیار کر لیتی ہے آج ہم اس دور میں کھڑے ہیں کہ اسلام کے " احیاء " کا سوال ہی ایک مغالطہ لگتا ہے کیوں کہ جو کچھ استعمار اپنی باقیات کے طور پر پیچھے چھوڑ گیا ہم نے اسے اسلام کی قباء پہنا کر مسلمان کر دیا .

کیا خوب کہا تھا حضرت اقبال نے ...

ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد


وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو
آتی نہیں‌ کچھ کام یہاں عقل خداداد

اے مردِ خدا ... ! تجھ کو وہ قوت نہیں‌ حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں‌ اللہ کو کر یاد

مسکینی و محکومی و نومیدیء جاوید
جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد


اور اسی مضمون کو اقبال سے پہلے غالب خوب باندھ گۓ ہیں


مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے

(Colonial period) دور استعمار میں اسلام پسندوں خاص کر بر صغیر کے مسلمانوں نے خوب ہاتھ مارے کہ انکی حمیت و غیرت غلامی قبولنے کو تیار نہ تھی

آئیے تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں


اگر یہ کہا جاوے کہ شاہ ولی الله دھلوی رح کی فکر کے جانشین یہ فکر وہابیہ کے علمبردار ہی ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ شاہ صاحب مرحوم کی ایما پر ہی احمد شاہ ابدالی افغانستان سے ہندوستان آیا تھا اور اس نے مرہٹہ قوت کو پانی پت کی میدان میں تاراج کیا تھا ......

سید احمد شہید اور شاہ اسمعیل شہید رح کی تحریک جہاد کو کون فراموش کر سکتا ہے اور پھر اسی کا تسلسل تیتو میر کی تحریک حریت اورحاجی شریعت اللہ اور ان کے بیٹے محمد محسن عرف دودھو میاں کی فرائضی تحریک 1819 ء پھر ١٨٥٧ کی جنگ آزادی اسکے بعد مولانا محمود الحسن کی قیات میں تحریک ریشمی رومال مولانا آزاد کی تحریک خلافت اور مولانا عطا الله شاہ بخاری رح کی احرار غرض اگر کوئی فعال طبقہ تھا تو یہی تھا ..........

پہلی بار اسلام کا یہ فعال طبقہ تقسیم کا شکار ہو تو جب ہوا کہ اس نے حریت کے راستے کو چھوڑ کر  جمہوریت کا راستہ اختیار کیا ...


دیوبند جیسی عظیم قوت کا دو دھڑوں میں تقسیم ہو جانا اور اپنی سیاسی فکر کو مستقبل میں مسلم لیگ اور کانگریس کے حوالے کر  دینا در اصل اس بات کا اعلان تھا کہ اب مستقبل کی سیاست سے مولوی بے دخل ہو چکا ہے اور مستقبل میں وہ جو بھی کردار ادا کرے بر صغیر پاک و ہند کے سیاسی منظر نامے میں اس کی حیثیت ثانوی ہی رہے گی ..

اپنے ارد گرد سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں صاف دکھائی دے گا کہ اسلام پسند سیاسی جماعتوں کی ذاتی حیثیت کچھ بھی نہیں انہیں سیاسی اتحاد کیلئے آج بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب دیکھنا پڑتا ہے اور اب  اس میں ایک نئی قوت تحریک انصاف شامل ہو چکی ہے ...

مذہبی طبقے کی یہ تقسیم اتنی گہری ہے کہ متحدہ مجلس عمل جیسے تجربات بھی اسے پاٹنے میں ناکام رہے ہیں ..

اب اگر بنظر غائر دیکھا جاوے تو مذہبی طبقے کی اس تقسیم کی بنیاد دراصل " تقسیم " کا واقعہ ہی تھا کہ جب آپ نے اپنی حریت فکر اور انقلابی روح کو " جمہوریت " کے حوالے کر دیا اور پھر آپ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے چلے گۓ ..


حسیب  احمد حسیب 


جاری ہے ...

جمعرات، 28 جولائی، 2016

کراۓ دارن کی چیں چیں ...!

چورنگی نامہ

کراۓ دارن کی چیں چیں ...!

کراۓ دار ایک ایسی مخلوق ہے کہ جو سر پہ چھت قائم رکھنے کیلئے سالوں رقوم ادا کرتے ہیں اور پھر بھی چھت انکی نہیں ہوتی ..

پاکستان کی ایک بڑی اکثریت اپنا گھر نہ ہونے کی وجہ سے کراۓ دار ہے یہ ایک معاشرتی مسلے سے زیادہ  ایک المیہ بنتا جا رہا ہے لوگ کروڑوں اربوں روپیہ ہر ماہ کراۓ کی مد میں دیتے ہیں اور یہ ایک بڑی معاشی حرکت بن چکی ہے ..

ایک طرف تو کراۓ دار مجبور ہوتا ہے کہ کراۓ کہ مکان میں رہے تو دوسری طرف  اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنا مکان کراۓ پر ضرورت کے تحت اٹھاتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں نے اسے ایک منافع بخش کاروبار بنا لیا ہے اگر کسی کے پاس پیسے ہوں تو وہ متعدد مکان بنا کر کراۓ پر چڑھا دیتا ہے اور خوب نفع کماتا ہے دوسری جانب ایک بڑی رقم ایڈوانس کے نام پر رکھ لی جاتی ہے اس کاروبار سے نفع اٹھانے والے کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں دیتے اور ایک منافع بخش معاشی حرکت کا ریاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا..

کراۓ داروں کے مسائل بے شمار ہیں اور ان میں ایک بڑا حصہ قانون کی غیر موجودگی اور اسٹیٹ اجنٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے کہ جو آسان پیسہ کمانے کے چکر میں کراۓ کی قیمت بڑھواتے چلے جاتے ہیں .

اگر آپ کے دو بچے ہیں اور چھوٹی فیملی ہے تو مکان آسانی سے مل جاوے گا لیکن اگر آپ کی بڑی فیملی ہے تو مکان کا ملنا جوۓ شیر لانے سے زیادہ کٹھن ہو جاتا ہے .

ہر سال زمین کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ مکان کے کراۓ بھی بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں دوسری طرف کوئی بھی مالک مکان سال بھر سے زیادہ کسی کو رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوتا ..
وجہ .. ہر سال نیا اگریمنٹ اضافی کرایہ اور زیادہ اڈوانس ...

پہلے لوگ اپنا مکان انتہائی ضرورت کے تحت صرف شریف لوگوں کو کراۓ پر دیا کرتے تھے لیکن اب مقصود صرف زیادہ سے زیادہ پیسوں کا حصول ہے .

دوسری جانب اسٹیٹ اجنٹس مالک مکان سے تو کچھ وصول نہیں کرتے لیکن کراۓ دار سے ایک کرایہ وصول کر لیتے ہیں اس حوالے سے بھی حکومت کی جانب سے کوئی قانون سازی نہیں ہے .

اسی گز کے مکان کا کرایہ پندرہ ہزار
ایک سو بیس گز کا مکان بیس ہزار
دو سو گز تیس ہزار .......

دوسری جانب مکان مالک اور کراۓ دار کی ایک بڑی تقسیم نے دو الگ الگ معاشرتی طبقات پیدا کر دیے ہیں اور ان معاشرتی طبقات کے درمیان پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل کس انداز میں معاشرے کو متاثر کر رہے ہیں معاشرے کی توجہ بھی اس جانب نہیں جاتی .

مجھے یاد ہے کہ لیاقت آباد میں ایک مکان ہم نے کراۓ پر لیا تھا مالک مکان فیملی بہت اچھے اور معقول لوگوں کی تھی اس فیملی میں ایک بزرگ خاتون تھیں جنہیں میری والدہ سے بہت تعلق ہو گیا تھا اور ہمارے گھر کے لوگ بھی انہیں اماں کہنے لگے تھے اکثر وہ ہمارے ہاں آتیں اور والدہ کے ساتھ وقت گزارتیں.

مالک مکان پہلی منزل پر براجمان تھے اور ہم گراؤنڈ فلور پر گو کہ کرایہ دار اور مالک مکان ایک بزنس ڈیل کے دو فریق ہوتے ہیں لیکن مالکان مکان کے اذہان میں ایک نفسیاتی فوقیت ضرور ہوتی ہے اور منہ مانگی قیمت وصول کرنے کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے کراۓ داروں پر کوئی احسان عظیم فرما رہے ہوں اور اس احسان کے بدلے اضافی ذمہ داریاں کہ جو ہر دو فریق کے ذمے ہونی چاہیئں صرف کراۓ داروں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہیں ...

ایسی ہی ایک ذمہ داری رات رات بھر جاگ کر پانی کا ٹینک بھرنا اور گیلری وغیرہ کی صفائی بھی تھی جبکہ گیلری مشترکہ تھی اور اس میں مالک مکان کی موٹر سائکل وغیرہ بھی کھڑی ہوتی تھی ..

ایک مرتبہ باہر سے کسی جانور نے آکر مشترکہ  گیلری  میں غلاظت پھیلا دی جس کی وجہ سے سخت تعفن پھیل گیا والدہ کو صفائی کرنے میں کراہیت محسوس ہوئی اور انہوں نے مالک مکان خاتون سے  صفائی کروانے کیلئے کہا جس پر انکی کچھ تلخ کلامی بھی ہو گئی بعد میں اسی تلخی کی وجہ سے ہمیں گھر بھی تبدیل کرنا پڑا..

لطف کی بات یہ کے مالکان مکان کی بزرگ خاتون  اس دوران بھی ہمارے ہاں آتی رہیں

الله انکی مغرفت فرماۓ انتہائی عبادت گزار اور پاکیزہ خاتون تھیں

لیکن والدہ سے بات نہیں کرتی تھیں اور بس انکی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا تھا ...

کراۓ دارن کی چیں چیں کبھی ختم نہیں ہوتی "

گو کہ بعد میں بھی والدہ کا ان سے تعلق قائم رہا اور وہ ہمیں بلاتی رہیں کہ تم لوگ دوبارہ یہیں آجاؤ لیکن والدہ ہمیشہ انہیں طرح دے جاتی تھیں کہ ایک بار جو در چھوڑ دیا سو چھوڑ دیا ...

اسی طرح ایک مکان مالک کا لونڈا تیز آواز میں موسیقی سننے کا شوقین تھا اور ان دنوں والد صاحب کی نائٹ ڈیوٹیاں ہوا کرتی تھیں وہ صبح صبح تیز آواز میں   موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا شوقین اور والد محترم کے سونے کا وقت اکثر ہم بھائیوں کو غصہ آتا اور اسے سبق سکھانے کا ارادہ کرتے لیکن والد صاحب کی تنبیہ نہیں جھگڑا نہیں کرنا ..

یہ صرف  چند ایک مثالیں ہیں کہ جن سے اس معاشرتی مسلے کی جانب اشارہ ہوتا معلوم نہیں ارباب اختیار کبھی اس حوالے سے کوئی قدم اٹھائینگے یا نہیں لیکن بطور مالک مکان پڑھنے والوں کو ضرور دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے کیونکہ جس مکان کے وہ مالک ہیں وہ مکان عارضی ہے .


حسیب احمد حسیب