جمعہ، 7 جولائی، 2017

مینڈک کی مثال اور غامدی مذہب ...!

چورنگی نامہ


سوشل میڈیا پر گزشتہ شب سے ایک مینڈک کی مثال گردش میں ہے لوگ باگ اس سے اپنے اپنے تجربے اور افتاد طبع کے مطابق نتائج اخذ کررہے ہیں مگر ہمیں تو یہ غامدیت اور اسلام پر سو فی صد لاگو ہوتی ہوئی دکھائی دی ملاحظہ کیجئے.
"ایک پانی سے بھرے برتن میں ایک زندہ مینڈک ڈالیں اور پانی کو گرم کرنا شروع کریں
جیسے ہی پانی کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گا ، مینڈک بھی اپنی باڈی کا درجہ حرارت پانی کے مطابق ایڈجسٹ کرے گا اور تب تک کرتا رہے گا جب تک پانی کا درجہ حرارت "بوائلنگ پوائنٹ" تک نہیں پہنچ جاتا ۔۔۔۔
جیسے ہی پانی کا ٹمپریچر بوائلنگ پوائنٹ تک پہنچے گا تو مینڈک اپنی باڈی کا ٹمپریچر پانی کے ٹمپریچر کے مطابق ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا اور برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا لیکن ایسا کر نہیں پائے گا کیونکہ تب تک مینڈک اپنی ساری توانائی خود کو "ماحول کے مطابق" ڈھالنے میں صرف کر چکا ہو گا
بہت جلد مینڈک مر جائے گا ".
بس غامدیت اسلام کے ساتھ یہی سلوک کرنا چاہتی ہے کہ اسلام کو وقت اور حالات کے مطابق اس حد تک تبدیل کردیاجاوے کی اس کے امیون سسٹم میں سے آخری درجہ قوت استعداد بھی ختم ہو جاوےاور وہ اپنی موت آپ مر جاوے.
حسیب احمد حسیب

مسلمانو " روزہ معاف کرالو " .

چورنگی نامہ

مختصر افسانہ
مصنف : حسیب احمد حسیب
مسلمانو " روزہ معاف کرالو " .
ابھی میں اس پری کی مخروطی انگلیاں تھامے انگوٹھی پہنانے جا ہی رہا تھا کہ اماں بی کی کرخت آواز کانوں میں دھماکے کی طرح گونجی اور پری گھبرا کر پھڑ پھڑاتی ہوئی اڑن چھو ہو گئی آواز کچھ یوں آ رہی تھی ...
اٹھ جا کمینے اٹھ کر روزہ معاف کروالے چل اٹھ جا آج میں ہڈ حراموں کو سحر و افطار کروانے والی نہیں چل اٹھ وقت نکلا جا رہا ہے ...
ہائیں میں خواب میں ہی ہونق ہو چکا تھا یہ سچائی ہے یا میں نیند میں ہوں نیند میں تو میں ہوں تو پھر یہ آواز کیسی ہے کہیں میرا آخری وقت تو نہیں آ گیا سنا ہے قیامت کے دن روزہ معاف ہوجاوے گا نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ابھی میں نے ملک الموت کا سامنا کرنے کا موڈ بنانا شروع ہی کیا تھا کہ جوتی میزائل کا اٹیک ہوا اس سے پہلے کہ جھاڑو حملے کی نوبت آتی میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا ارے کیا اول فول بک رہی ہو اماں بی کیا ہو گیا سروتہ کھینچ کر مارونگی ابھی اماں بی کہ جو پاندان کھولے بیٹھی تھیں انہوں نے مجھے دھمکایا ...
آخر ہوا کیا ہے ...؟ میں نے جھنجلا کر پوچھا ...!
ارے بے وقوف روزہ معاف ہو رہا ہے جا تو بھی جا کر معاف کروالے میں نے گھڑی دیکھی ڈھائی کا وقت تھا ابھی اماں بی کے سٹھیانے کا ٹائم تو نہیں ہوا تھا اچانک کانوں میں آواز گونجی کوئی لاؤڈ اسپیکر پر صدا لگا رہا تھا
مسلمانو ...! روزہ معاف کرالو
اٹھ جاؤ مسلمانو ... ! روزہ معاف کرانے ٹائم ہو گیا ہے مسلمانو ... ! جلدی جلدی آؤ روزہ معاف ہوا چاہتا ہے ..
ہائیں ...
اتنا ہونق تو میں اس وقت بھی نہ ہوا تھا کہ جب باھو بلی کا مفت ٹکٹ ملا تھا میں بے اختیار گھر سے باہر نکلا
کیا منظر دیکھتا ہوں کہ قوت بیان عاجز ہوکر اظہار سے قاصر ہوئی جاتی تھی
عجیب منظر ہے رات کے اس پہر جنگل میں منگل کا سما ہے چہار طرف روشنی پھیلی ہوئی ہے ایسا لگتا ہے کہ چاند زمین پر اتر آیا ہے اپنے گھروں کی بالکنیوں میں کھڑی سندر ناریاں ہاتھ لہرا لہرا کر خوشی کا اظہار فرما رہی ہیں جسکو دیکھو شاداں و فرحاں ہاتھوں میں خوبصورت رنگ برنگے سرٹیفیکٹس لیے چلا آتا ہے ایک جانب ایک لمبی قطار جا رہی ہے ..
ابھی میں اس خوبصورت منظر میں مدہوش ہوا جاتا تھا کہ اچانک کسی نے میری گدی ناپی پہ یہ چچا جگاڑی تھے .. یہاں کیوں کھڑا ہے کسی آوارہ گیڈر طرح ..
چل چل کر روزہ معاف کروالے اور یہ الو کی طرح دیدے نہ مٹکا یہ حقیقت ہے مجدد دوراں فقیہ زماں حضرت چریاکوٹی صاحب تشریف لے آۓ ہیں چل دنیا بدل رہی ہے تو بھی اس تبدیلی کا حصہ بن جا ...
میں دل ہی دل میں چچا جگاڑی پر لعنت بھیجتا ہوا انکے پیچھے قطار میں لگ گیا گلی سے نکلا تو کیا منظر دیکھتا ہوں مرد و عورت غول در غول سوسائٹی کے درمیان موجود چمن عاشقاں کی جانب خراماں خراماں چلے جاتے ہیں سو میں بھی اچک اچک کر چمن عاشقاں کی اور چل پڑا ..
چمن کے سارے در کسی عاشق کے گریبان اور کسی معشوقہ کی قبا کے بندوں کی طرح کھلے پڑتے تھے ایک خوبصورت ریڈ کارپٹ تھا کہ جو ہر دروازے سے کسی باندر کی زبان کی طرح چمن کے بیچ فوارے تک چلا جاتا تھا میں بھی ایک سرخ قالین پر ہو لیا قالین کے طرفین خوبصورت کنواری کنیائیں قالین پر چلنے والوں کے اوپر گل پاشی کرتی جاتی تھیں اور ہم بوۓ گل کی بھینی بھینی خوشبو سے مسحور ہوۓ چلے جاتے تھے ...
فوارے کے چاروں طرف خوبصورت لائٹنگ تھی اور فوارہ رنگدار پانی پھینک رہا تھے درمیان میں ایک نقشین تخت لگا تھا کہ جسپر ایک نستعلیق بزرگ براجمان تھے ٹیکنی کلر شیروانی سر پر قراقلی ٹوپی پیروں میں سلیم شاہی جوتے اور منہ میں بدیسی سگار کہیں سے آواز آئی یہی تو ہیں حضرت علامہ پیر مغاں مجدد دوراں امام مغرب سلام مشرق چریا کوٹی صاحب ...
فواروں کی خوبصورت دھاروں میں رنگ رنگ ہوتے علامہ کے ہر دو اطراف سرو قد خوبصورت نشیب و فراز کی حامل پرشین حسینائیں مور کے پنکھ جھلتی تھیں سامنے ہی ایک بڑی میز پر رنگ برنگی خوبصورت اسانید دھری تھیں اور علامہ کا تخت ریوال ونگ تھا کہ جو مدھر موسیقی کی لے کے ساتھ مہو گردش تھا آنے والے چہار راستوں سے آتے اور رنگ و نور کی بارش میں بھیگتے ہوۓ اپنے اپنے حصے کی سند لیکر آداب و تسلیمات کرتے ہوۓ چلتے بنتے ...
ایک جانب ایک درویش رقصاں تھا تو دوسری جانب ایک مستانی مٹک رہی تھے درویش بار بار وجد کے عالم میں نعرہ حق بلند کرتا ..
سب کو معاف .... سب کو معاف اور مستانی ہر ہر بار معاف کی "ف" کے ساتھ سر سے سر ملاتی
ترتیب کچھ یوں تھی
درویش ... سب کو معاف .. مستانی لے ملاتے ہوۓ ... میف .....
معاف ..... میف ..... معاف ..... میف ..... معاف .... میف ..... معاف ... میف .....
ابھی ہم اس سر تال میں ہی مگن تھے کہ نستعلیق بزرگ کے تخت شاہی کے قریب جا پہنچے ...
کیا دیکھتے ہیں کہ در دولت کھلا ہے فیض عام جاری ہے ہر کس و ناکس مستفید ہو رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ خزانانوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ہو ..
ایک جوان رعنا آگے بڑھتا ہے استازی امتحان علامہ سامنے پڑا ہتھوڑا اٹھا کر حکم لگاتے ہیں ... معاف بیک گراونڈ میں درویش کا نعرہ حق بلند ہوتا ہے ... معاف .. پیچھے سے مستانی ککڑی کی طرح کوکتی ہے ... میف .... میف ...
ایک لونڈیا آگے آتی ہے حضور شاپنگ ... ہتھوڑا برستا ہے ... معاف .. درویش اور مستانی روٹین میں لگے ہوۓ ہیں ...
معاف .... میف .... میف ...
اب تو ایک سلسلہ دکھائی دیتا ہے ... ایک نیا نویلا دولہا استاذی شادی ... استاذی شریر .... چل معاف ... ہتھوڑا برستا ہے ...
ایک گونگلو بدن آنٹی ... بھیا گرمی ... استاذی ... معاف ... ہتھوڑا ... ڈھن .. ایک مدقوق بڈھا ... بابو قبض ... استاذی .... معاف ... ہتھوڑا ... ڈھن .. ایک خوبصورت دوشیزہ ... جانو ..... استاذی .... معاف معاف ... ہتھوڑا ... ٹن ٹن ٹنا ٹن ٹن ٹنا
بیک گراؤنڈ میں بجتی جلترنگ
معاف .... میف .... میف ...
ابھی ہم اس منظر میں مگن ہی ہوتے ہیں کہ اچانک دھکا لگتا ہے اور ہم استاذی کے سامنے جا کھڑے ہوتے ہیں ...
استاذی ہمیں گھورتے ہیں ہم استاذی کو تاڑتے ہیں انکی نگاہیں سوال کرتی ہیں ہمارے ہونٹ خاموش ہو جاتے ہیں
ہائیں ہم کیا کہیں ہمارے پاس تو کوئی عذر بھی نہیں اب ہمارا روزہ کیسے معاف ہوگا
ابھی یہ گستاخانہ خیالات ہمارے مغز میں کلبلا ہی رہے ہوتے ہیں کہ ااستاذی کا چہرہ جلال میں سرخ قندھاری انار کی مانند چمک اٹھتا ہے
تو کیا سمجھتا ہے ہمارے در سے خالی جاوے گا لے معاف ... استاذی ہتھوڑا ایسے گھماتے ہیں کہ جیسے ہمارے منہ پر ہی دے ماریںگے ....
ایک چندن ناری لچکتی ہوئی آتی ہے اور ایک خوبصورت ریشمی سند ہمارے ہاتھوں میں تھما دیتی ہے
پیچھے سے درویش کا نعرہ حق بلند ہوتا ہے .... معاف ... مستانی کوکتی ہے ..... میف ..... میف ..... ہتھوڑا بجتا ہے .... ڈھن ڈھن ڈھنا ڈھن ڈھن ڈھنا ڈھن ڈھن .....
ہم ہتھوڑے کی خوبصورت تال پر شادی مرگ کی کیفیت میں رقص کرتے ہوۓ ریڈ کارپٹ سے باہر آتے ہیں اور سامنے رقص کرتی ہوئی ایک فربہی مائل آنٹی سے بغلگیر ہو جاتے ہیں ابھی ہم اس سوز و گداز کو محسوس ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ ...
ڈھن ڈھن کی خوبصورت تال دھم دھم کے دھماکوں میں بدل جاتی ہے اچانک پیٹھ پر دو ہتڑ پڑتے ہیں ہم مڑ کر دیکھتے ہیں تو علامہ چریا کوٹی کی شکل دھندلی ہوئی جاتی ہے اور انکے منہ سے آواز نکلتی ہے ...
کمینے ... پیچھے سے درویش کی ہیت بدلتی ہے اور وہ بھی نعرہ حق بلند کرتا ہے کمینے .... مستانی بھی بدلی بدلی لگتی ہے وہ بھی تال ملاتی ہے .... کمینے ...
اور اچانک اماں بی کا چہرہ نمودار ہوتا ہے اٹھ جا کمینے ... سحری کا وقت نکلا جاتا ہے اگر مرتا بھی ہوا تو روزہ ضرور رکھنا پڑے گا چل اٹھ کچھ کھا مر لے ہم مڑتے ہیں تو بانہوں میں فربہی مائل آنٹی کی جگہ گاؤ تکیہ ہوتا ہے اچانک ایک کھٹمل نمودار ہماری ستواں ناک کا بانسہ چومتا ہے اور ہم حیران و پریشان اٹھ بیٹھتے ہیں اور سوچتے ہیں
پھر وہی دل تھا، وہی ماتم، وہی درد و قلق خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
حسیب احمد حسیب

رویت ہلال اور وحدت امت ...!

چورنگی نامہ

رویت ہلال اور وحدت امت ...!
ہر گزرتے دور کے ساتھ امت میں ایسی بدعات کا ظہور ہوتا ہے کہ جس سے پچھلے لوگ (سلف) ناواقف تھے ایسی ہی ایک بدعت رمضان و عیدین کو وحدت امت کا مظہر سمجھنا ہے ہمیں خلافت راشدہ کہ جو لاکھوں مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی اور اسکے بعد اموی عباسی اور عثمانی خلافتوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ رمضان و عیدین ایک ہی دن کیے جاتے ہوں بلکہ معاملہ اسکے برعکث دکھائی دیتا ہے
"عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ، بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ، فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: " لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ، أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ فَقَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "
(صحیح مسلم : ۱/۳۴۷، طبع دہلی)
کریب سے روایت ہے کہ ام الفضل بنت الحارث نے ان کو معاویہ رض کے پاس شام بھیجا وہ کہتے ہیں میں شام گیا اور میں نے ان کا کام پورا کیا میں شام ہی میں تھا کہ رمضان شروع ہوگیا میں نے وہاں چاند جمعہ کی رات میں دیکھا اور پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا ابن عباس رض نے مجھ سے احوال پوچھے پھر پوچھا کہ تم لوگوں نے ہلال کب دیکھا .. ؟ میں نے بتایا کہ جمعہ کی رات میں انہوں نے پوچھا کیا تم نے خود دیکھا .. ؟ میں نے کہا ہاں ، اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا ان لوگوں نے روزہ رکھا اور معاویہ رض نے روزہ رکھا ، ابن عباس رض نے کہا مگر ہم لوگوں نے چاند سنیچر کی رات دیکھا اس لئے ہم لوگ روزہ رکھیں گے ، یہاں تک کہ تیس دن پورے کرلیں ، کریب نے کہا کیا آپ معاویہ کی رویت اور ان کے صیام کا اعتبار نہیں کریں گے ؟ تو انہوں نے کہا نہیں ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے ۔
یہ حضرت معاویہ رض کا دور حکومت تھا اور ایک ہی خلافت میں رمضان اور عیدین مختلف ہوئے اور نہ تو اس سے وحدت امت کو خطرہ ہوا اور نہ ہی حکومتی رٹ چیلنج ہوئی اور نہ ہی ابن عباس رض کو اریسٹ کیا گیا ..
درحقیقت وحدت امت کی علامت توحید الہی رسالت محمدی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن کریم سیرت رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نفاذ شریعت ہے ناکہ چاند و عیدین..
دوسری جانب قومی و وطنی ریاستوں میں ایسے معیارات کا سوال ہی بے جا ہے اگر کوئی گروہ اپنی سمجھ اور فکر کے اعتبار سے اپنی عبادات کرنا چاہے تو آئینی طور پر انہیں پوری آزادی ہے جب آپ بوہری اور اسماعیلی گروہوں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنا رمضان اور اپنی عیدین الگ کریں تو آئینی طور پر کسی بھی دوسری مذہبی اکائی سے اس حق کو چھیننے کا آپ کو کوئی اختیار نہیں یاد رہے کہ ریاست کی نگاہ میں شیعہ مکتب فکر کے تمام فرقے بوہری آغاخانی اور اثنا عشری یکساں مسلمان ہیں ..
بنیادی طور پر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس بات سے بھی انکار نہیں کہ اس حوالے سے ریاست کا موقف ہی درست ہے مگر ایک جمہوری ریاست میں جو حق دوسرے گروہوں کو حاصل ہے وہی پوپلزئی اور انکے متعلقین کو بھی ہے.
حسیب احمد حسیب