جمعرات، 20 مارچ، 2014

کہاں راجہ بھوج !

کہاں راجہ بھوج !

ایک کہاوت بچپن سے سنتے اۓ ہیں "ایاز حد خود بشناس، کہاں راجہ بھوج کہاں ننوا تیلی.......
ایک صاحب نے ایک فورم میں فرمایا !
غامدی صاحب کام پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی طرز کا کام ھے،،جو ریفیرینس کے طور پر آنے والی صدیوں میں استعمال ھو گا،تب تک ھم عصروں کی فطری اور تاریخی چپقلش بھی دم توڑ چکی ھو گی دوسرا وہ قدیم ھو کر مقدس بھی ھو چکے ھوں گے اور متقدمین کلب کے ممبر بھی بن چکے ھونگے ! یہ کام کم ازکم موجودہ حالات میں عوام میں کبھی بھی پذیرائی نہیں پا سکے گا،،اس کام کو جتنا عوامی کیا جائے گا،،مخالفت اور پروپیگنڈے کی شدت میں اضافہ ھو گا !! یہ بات جناب استاذ غامدی صاحب پورے شعور کے ساتھ سمجھتے ھیں !!
ایک ایسی شخصیت جسکا کا مقام محقق کا ہے اور ایک ایسی شخصیت جو صرف اشکالات اٹھانا جانتی ہے دونوں کا موازنہ کہاں کا انصاف ہے ......
اگر جدید تعلیمی تقابل ہی کیا جاوے تو ایک صاحب سادہ بی اے دوسرے پی ایچ ڈی ایک کی پہچان چند جدید اشکالات دوسرے کا عظیم تحقیقی و علمی کام .......
کہاں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کا نامور سپوت مناظر احسن گیلانی جیسے عظیم محقق کا شاگرد پیرس میں لاکھوں لوگوں کو اسلام کی طرف لانے والا .....
اور کہاں ......
ڈاکٹر اسرار کا نام لیتے ذاکر نائیک کی بات کرتے ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک مرحوم کا تذکره ہوتا یا ڈاکٹر محمود احمد غازی کی بات ہوتی جسٹس تقی عثمانی کا ذکر ہوتا کوئی علمی مناسبت تو ہوتی جناب .
ایک جگہ پڑھا تھا
" اسلامی تاریخ کے طالبعلموں کے لئے ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے کہ جن کی تحقیقی اور دعوت دین کے لئے کی جانے والی خدمات کا مقابل عصر حاضرمیں شاید ہی کوئی مل پائے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد جرمنی کی بون یونیورسٹی سے اسلام کے بین الاقومی قانون پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں فرانس کی سوبورن یونیورسٹی پیرس سے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف لیٹرز کی سند پائی۔ جامعہ عثمانیہ کے علاوہ جرمنی اور فرانس کی جامعات میں درس و تدریس کے فرایض انجام دینے کے بعد ڈاکٹر حمیداللہ فرانس کے نیشنل سینٹر آف ساینٹفک ریسرچ سے تقریبا بیس سال تک وابستہ رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن ، اور اطالوی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ کی کتابوں اور مقالات کی تعداد سینکڑوں میں ہے جس میں فرانسیسی زبان میں آپ کا ترجمہ قران ، اور اسی زبان میں‌دو جلدوں میں سیرت پاک ، قران کی بیبلیوگرافی ‘القران فی کل اللسان’ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی پر محققانہ تصانیف ‘بیٹل فیلڈز محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ، ‘مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ’ اور ‘فرسٹ رٹن کانسٹیٹیوشن’ خاص طور پر قابل ذکر ہیں "
اب اگر غامدی صاحب کا موازنہ کیا جاۓ تو معاملہ ہی دوسرا دکھائی دیتا ہے
انتہائی معذرت کے ساتھ کہیں ابگینوں کو ٹھیس نہ لگے کوئی مجھے یہ بھی بتا دے کہ کون سا فکری کام غامدی صاحب کر رہے ہیں......
چونکہ آپ احباب کا معذرت کے ساتھ مطالعہ نہیں ہے اور جن کا ہے انپر مجھے ضرور حیرت ہے کہ وہ غامدی صاحب کو ڈاکٹر حمید الله خان یا سید مودودی کی صف میں کھڑا کر رہے ہیں آنکھوں نے یہ بھی پڑھنا تھا کبھی سوچا نہ تھا .......
غامدی صاحب کی کوئی بھی تحقیق اپنی نہیں ہے انتہائی معذرت کے ساتھ زیادہ تر چیزیں انہوں نے اپنے استاد امین احسن اصلاحی مرحوم سے مستعار لی ہیں اصلاحی صاحب حقیقت میں بڑے عالم تھے گو انکے بے شمار تفردات بھی ہیں جن سے مجھے اختلاف ہے انکے حقیقی شاگرد ڈاکٹر اسرار مرحوم تھے .....
دوسری شخصیت وحید الدین خان صاحب کی ہے خان صاحب ایک صاحب طرز ادیب ہیں غامدی صاحب نے بہت کچھ خان صاحب سے لیا ہے لیکن وہ اعلی ادبی معیار اور زبان و بیان کی ندرت برقرار نہیں رکھ سکے جو خان صاحب کے ہاں موجود ہے ......
روایات کے حوالے سے پیشتر دلائل غامدی صاحب نے مولانا حبیب الرحمان کاندھلوی صاحب سے مستعار لیے ہیں کافی دلائل من و عن " مذہبی داستانیں اور انکی حقیقت " سے اٹھاۓ گۓ ہیں شاید تحریر میں وہ کاپی رائٹ کے قائل نہیں ہیں .......
اور سب سے عجیب تر بات خاص کر نزول مسیح کے موضوع پر غامدی صاحب کے تمام دلائل غلام احمد قادیانی سے مستعار ہیں کوئی بھی صاحب علم موازنہ کر سکتا ہے ......
معجزات میں غامدی صاحب سر سید کی تفسیر سے استفادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں .......
جناب من اگر اسی کو فکری کام کہتے ہیں تو کچھ مشکل نہیں آپ لکھنا جانتے ہیں تو قدیم و جدید اہل علم کی کتابوں سے مواد لیجئے اور اپنے نام سے پیل دیجئے آپ بھی مجدد دوراں اور فقیہ وقت بن جائینگے.....
ایک اور صاحب نے فرمایا !
میرے خیال میں ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم کا زیادہ کام فکری نوعیت کا نہیں ہے - ان کا بنیادی کام تاریخ و حدیث پہ ہے - انھوں نے کوئی نئی تشریحات نہیں کی نہ کوئی نیا زاویہ فکر دیا - غامدی صاحب مسلم امت کے مذھبی فکر کی تشکیل نو کر رہے ہیں ..جس کے اثرات بہت وسیع و عمیق ہونگے انشا الله -
لیجئے یہاں کچھ غامدی فکر و تحقیق کے شاہکار ملاحظہ کیجئے
(١) قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرأتیں عجم کا فتنہ ہیں (میزان ص 32,26,25، طبع دوم اپریل 2002)
(٢) سنت قرآن سے مقدم ہے (میزان ص 52، طبع دوم اپریل 2002)
(٣) سنت صرف افعال کا نام ہے، اس کی ابتدا حضرت محمدﷺ سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے (میزان ص 10،65، طبع دوم)
(٤) سنت صرف 27 اعمال کا نام ہے (میزان ص 10، طبع دوم)
(٥) حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا (میزان ص 64 طبع دوم)
(٦) دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف ہیں (میزان ص 48 طبع دوم)
(٧) دین میں معروف و منکر کا تعین فطرت انسانی کرتی ہے (میزان ص 49)
(٨) نبیﷺ کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا (ماہنامہ اشراق، دسمبر 2000، ص 55,54)
(٩) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے (قانون عبادات، ص 119)
(١٠) اسلام میں موت کی سزا صرف دوجہ ائم (قتل نض، اور فساد فی الارض) پردی جاسکتی ہے (برہان، ص 143، طبع چہارم، جون2006)
غامدی صاحب کے نزدیک مرتد اور شاتم رسول کی سزا موت نہیں ہے
(١١) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا (برہان ص 19,18، طبع چہارم)
(١٢) شادی شدہ اور کنواری ماں زانی دونوں کے لئے ایک ہی سزا 100 کوڑے ہیں (میزان ص 299، 300 طبع دوم)
(١٣) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے (برہان ص 138، طبع چہارم)
(١٤) غیر مسلم بھی مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں (میزان ص 171، طبع دوم اپریل 2002)
(١٥) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے (ماہنامہ اشراق، اکتوبر 1998ء ص 79)
(١٦) عورت کے لئے دوپٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں (ماہنامہ اشراق، مئی 2002ص 47)
(١٧) بعض انبیاء کرام قتل ہوئے ہیں مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا (میزان حصہ اول، ص 21، طبع 1985)
(١٨) حضرت عیسٰی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں (میزان حصہ اول، 24,23,22 طبع 1985)
(١٩) یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں (ماہنامہ اشراق، جنوری 1996ء ص 61)
(یاد رہے کہ یاجوج ماجوج اور دجال قرب قیامت کی نشانیاں ہیں اور یہ دونوں الگ الگ ہیں) جبکہ دجال احادیث کی رو سے یہودی شخص ہے جو بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر (ک،ف،ر) لکھا ہوگا جوکہ ہر مومن شخص پڑھ کر اس کو پہچان لے گا
(٢٠) جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے (ادارہ الحورد کی کتاب ’’تصویر کا مسئلہ‘‘ ص 30)
(٢١) موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے (ماہنامہ اشراق، مارچ 2004 ص 19,8)
(٢٢) عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق، مئی 2005، ص 35تا 46)
(٢٣) اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے (میزان، ص 264، طبع دوم، اپریل 2002)
(٢٤) کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں (میزان ص 270، طبع دوم اپریل 2002)
(٢٥)۔ مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا نہیں، اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے (اشراق جولائی 2003، اور اشراق مئی، جون 2004ئ)
اتنا کچھ کافی ہے یہ معلوم کرنے کیلئے کہ غامدی صاحب کون سی تحقیق فرما رہے ہیں اور انکا مقصود کیا ہے ......
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
حسیب احمد حسیب
 

کوئی تبصرے نہیں: