جمعہ، 9 ستمبر، 2016

سیاست شرعی ، سیکولر سوالات اور اسلام پسندوں کی غلط فہمیاں ... ! پہلی قسط

سیاست شرعی ، سیکولر سوالات اور اسلام پسندوں کی غلط فہمیاں  ... !

ابن خلدون مقدمے میں ریاست کی تین اقسام بیان کرتا ہے

١.ملوکیت
٢.سیاست عقلی
٣. خلافت

" ملوکیت " کا تعلق براہ راست عصبیت کے جذبے   کے ساتھ  ہے اور بغیر عصبیت ملوکیت کا چلنا ممکن نہیں یہ عصبیت ہی دراصل وہ قوت فراہم کرتی ہے کہ جو ملوکیت کا ایندھن قرار دی جا سکتی ہے .

" سیاست عقلی "  کا سراغ ابن خلدون نے اس دور میں لگایا تھا کہ جب جدید جمہوریت کا تصور اپنے واضح خد و خال کے ساتھ نہیں ابھرا تھا ایک ایسا نظام کہ جس میں لوگوں کے منتخب نمائندے اپنی عقل کے مطابق اتفاق راۓ سے ایک سیاسی نظام تشکیل دیں کہ جس کی بنیاد دین پر نہ ہو .

" خلافت " کی بحث کرتے ہوۓ علامہ فرماتے ہیں کہ ..

نری بادشاہت جو عصبیت کی طاقتوں کے زریعے  زندہ ہو تو وہ اسلئے غلط ہے اور جور و عدوان کے مترادف ہے کہ اس میں خواہشات انسانی کی روک تھام کیلئے کوئی اہتمام نہیں کیا گیا .

سیاست عقلی میں یہ قباحت ہے کہ اس میں وہ روشنی ہی مفقود ہے جو دین مہیا کرتا ہے اسلئے قدرتی طور پر اس کے دوائر میں محدود دنیا ہی کے مفادات آ سکتے ہیں عقبی کے تقاضوں کو سمجھنا اس کے بس کا روگ نہیں ہے .

رہا سیاست دین کا مسلہ تو وہ نظام سامنے آتا ہے کہ جس میں صلاح دنیا کے ساتھ ساتھ صلاح
آخرت   کا اہتمام  بھی موجود  ہو  اسی نظام کو انبیا علیہم السلام چلاتے ہیں اور ان کے بعد انکے خلفاء انکی قائم مقامی کرتے ہیں .

فی معنی الخلافتہ والا امامتہ

دور جدید میں جب سیکولر حضرات کی جانب سے سوالات سامنے آتے ہیں تو اسلام پسندوں کے پاس بودی تاویلات کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا انکے اس معذرت خواہانہ رویے کی وجہ سے ہی ایک جانب تو اسلام کی حقیقی تصویر دوسروں تک نہیں پہنچ پاتی اور دوسری جانب انکی مدافعت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ شرمساری کی شکل اختیار کر لیتی ہے آج ہم اس دور میں کھڑے ہیں کہ اسلام کے " احیاء " کا سوال ہی ایک مغالطہ لگتا ہے کیوں کہ جو کچھ استعمار اپنی باقیات کے طور پر پیچھے چھوڑ گیا ہم نے اسے اسلام کی قباء پہنا کر مسلمان کر دیا .

کیا خوب کہا تھا حضرت اقبال نے ...

ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد


وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو
آتی نہیں‌ کچھ کام یہاں عقل خداداد

اے مردِ خدا ... ! تجھ کو وہ قوت نہیں‌ حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں‌ اللہ کو کر یاد

مسکینی و محکومی و نومیدیء جاوید
جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد


اور اسی مضمون کو اقبال سے پہلے غالب خوب باندھ گۓ ہیں


مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے

(Colonial period) دور استعمار میں اسلام پسندوں خاص کر بر صغیر کے مسلمانوں نے خوب ہاتھ مارے کہ انکی حمیت و غیرت غلامی قبولنے کو تیار نہ تھی

آئیے تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں


اگر یہ کہا جاوے کہ شاہ ولی الله دھلوی رح کی فکر کے جانشین یہ فکر وہابیہ کے علمبردار ہی ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ شاہ صاحب مرحوم کی ایما پر ہی احمد شاہ ابدالی افغانستان سے ہندوستان آیا تھا اور اس نے مرہٹہ قوت کو پانی پت کی میدان میں تاراج کیا تھا ......

سید احمد شہید اور شاہ اسمعیل شہید رح کی تحریک جہاد کو کون فراموش کر سکتا ہے اور پھر اسی کا تسلسل تیتو میر کی تحریک حریت اورحاجی شریعت اللہ اور ان کے بیٹے محمد محسن عرف دودھو میاں کی فرائضی تحریک 1819 ء پھر ١٨٥٧ کی جنگ آزادی اسکے بعد مولانا محمود الحسن کی قیات میں تحریک ریشمی رومال مولانا آزاد کی تحریک خلافت اور مولانا عطا الله شاہ بخاری رح کی احرار غرض اگر کوئی فعال طبقہ تھا تو یہی تھا ..........

پہلی بار اسلام کا یہ فعال طبقہ تقسیم کا شکار ہو تو جب ہوا کہ اس نے حریت کے راستے کو چھوڑ کر  جمہوریت کا راستہ اختیار کیا ...


دیوبند جیسی عظیم قوت کا دو دھڑوں میں تقسیم ہو جانا اور اپنی سیاسی فکر کو مستقبل میں مسلم لیگ اور کانگریس کے حوالے کر  دینا در اصل اس بات کا اعلان تھا کہ اب مستقبل کی سیاست سے مولوی بے دخل ہو چکا ہے اور مستقبل میں وہ جو بھی کردار ادا کرے بر صغیر پاک و ہند کے سیاسی منظر نامے میں اس کی حیثیت ثانوی ہی رہے گی ..

اپنے ارد گرد سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں صاف دکھائی دے گا کہ اسلام پسند سیاسی جماعتوں کی ذاتی حیثیت کچھ بھی نہیں انہیں سیاسی اتحاد کیلئے آج بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب دیکھنا پڑتا ہے اور اب  اس میں ایک نئی قوت تحریک انصاف شامل ہو چکی ہے ...

مذہبی طبقے کی یہ تقسیم اتنی گہری ہے کہ متحدہ مجلس عمل جیسے تجربات بھی اسے پاٹنے میں ناکام رہے ہیں ..

اب اگر بنظر غائر دیکھا جاوے تو مذہبی طبقے کی اس تقسیم کی بنیاد دراصل " تقسیم " کا واقعہ ہی تھا کہ جب آپ نے اپنی حریت فکر اور انقلابی روح کو " جمہوریت " کے حوالے کر دیا اور پھر آپ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے چلے گۓ ..


حسیب  احمد حسیب 


جاری ہے ...

جمعرات، 28 جولائی، 2016

کراۓ دارن کی چیں چیں ...!

چورنگی نامہ

کراۓ دارن کی چیں چیں ...!

کراۓ دار ایک ایسی مخلوق ہے کہ جو سر پہ چھت قائم رکھنے کیلئے سالوں رقوم ادا کرتے ہیں اور پھر بھی چھت انکی نہیں ہوتی ..

پاکستان کی ایک بڑی اکثریت اپنا گھر نہ ہونے کی وجہ سے کراۓ دار ہے یہ ایک معاشرتی مسلے سے زیادہ  ایک المیہ بنتا جا رہا ہے لوگ کروڑوں اربوں روپیہ ہر ماہ کراۓ کی مد میں دیتے ہیں اور یہ ایک بڑی معاشی حرکت بن چکی ہے ..

ایک طرف تو کراۓ دار مجبور ہوتا ہے کہ کراۓ کہ مکان میں رہے تو دوسری طرف  اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنا مکان کراۓ پر ضرورت کے تحت اٹھاتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں نے اسے ایک منافع بخش کاروبار بنا لیا ہے اگر کسی کے پاس پیسے ہوں تو وہ متعدد مکان بنا کر کراۓ پر چڑھا دیتا ہے اور خوب نفع کماتا ہے دوسری جانب ایک بڑی رقم ایڈوانس کے نام پر رکھ لی جاتی ہے اس کاروبار سے نفع اٹھانے والے کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں دیتے اور ایک منافع بخش معاشی حرکت کا ریاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا..

کراۓ داروں کے مسائل بے شمار ہیں اور ان میں ایک بڑا حصہ قانون کی غیر موجودگی اور اسٹیٹ اجنٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے کہ جو آسان پیسہ کمانے کے چکر میں کراۓ کی قیمت بڑھواتے چلے جاتے ہیں .

اگر آپ کے دو بچے ہیں اور چھوٹی فیملی ہے تو مکان آسانی سے مل جاوے گا لیکن اگر آپ کی بڑی فیملی ہے تو مکان کا ملنا جوۓ شیر لانے سے زیادہ کٹھن ہو جاتا ہے .

ہر سال زمین کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ مکان کے کراۓ بھی بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں دوسری طرف کوئی بھی مالک مکان سال بھر سے زیادہ کسی کو رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوتا ..
وجہ .. ہر سال نیا اگریمنٹ اضافی کرایہ اور زیادہ اڈوانس ...

پہلے لوگ اپنا مکان انتہائی ضرورت کے تحت صرف شریف لوگوں کو کراۓ پر دیا کرتے تھے لیکن اب مقصود صرف زیادہ سے زیادہ پیسوں کا حصول ہے .

دوسری جانب اسٹیٹ اجنٹس مالک مکان سے تو کچھ وصول نہیں کرتے لیکن کراۓ دار سے ایک کرایہ وصول کر لیتے ہیں اس حوالے سے بھی حکومت کی جانب سے کوئی قانون سازی نہیں ہے .

اسی گز کے مکان کا کرایہ پندرہ ہزار
ایک سو بیس گز کا مکان بیس ہزار
دو سو گز تیس ہزار .......

دوسری جانب مکان مالک اور کراۓ دار کی ایک بڑی تقسیم نے دو الگ الگ معاشرتی طبقات پیدا کر دیے ہیں اور ان معاشرتی طبقات کے درمیان پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل کس انداز میں معاشرے کو متاثر کر رہے ہیں معاشرے کی توجہ بھی اس جانب نہیں جاتی .

مجھے یاد ہے کہ لیاقت آباد میں ایک مکان ہم نے کراۓ پر لیا تھا مالک مکان فیملی بہت اچھے اور معقول لوگوں کی تھی اس فیملی میں ایک بزرگ خاتون تھیں جنہیں میری والدہ سے بہت تعلق ہو گیا تھا اور ہمارے گھر کے لوگ بھی انہیں اماں کہنے لگے تھے اکثر وہ ہمارے ہاں آتیں اور والدہ کے ساتھ وقت گزارتیں.

مالک مکان پہلی منزل پر براجمان تھے اور ہم گراؤنڈ فلور پر گو کہ کرایہ دار اور مالک مکان ایک بزنس ڈیل کے دو فریق ہوتے ہیں لیکن مالکان مکان کے اذہان میں ایک نفسیاتی فوقیت ضرور ہوتی ہے اور منہ مانگی قیمت وصول کرنے کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے کراۓ داروں پر کوئی احسان عظیم فرما رہے ہوں اور اس احسان کے بدلے اضافی ذمہ داریاں کہ جو ہر دو فریق کے ذمے ہونی چاہیئں صرف کراۓ داروں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہیں ...

ایسی ہی ایک ذمہ داری رات رات بھر جاگ کر پانی کا ٹینک بھرنا اور گیلری وغیرہ کی صفائی بھی تھی جبکہ گیلری مشترکہ تھی اور اس میں مالک مکان کی موٹر سائکل وغیرہ بھی کھڑی ہوتی تھی ..

ایک مرتبہ باہر سے کسی جانور نے آکر مشترکہ  گیلری  میں غلاظت پھیلا دی جس کی وجہ سے سخت تعفن پھیل گیا والدہ کو صفائی کرنے میں کراہیت محسوس ہوئی اور انہوں نے مالک مکان خاتون سے  صفائی کروانے کیلئے کہا جس پر انکی کچھ تلخ کلامی بھی ہو گئی بعد میں اسی تلخی کی وجہ سے ہمیں گھر بھی تبدیل کرنا پڑا..

لطف کی بات یہ کے مالکان مکان کی بزرگ خاتون  اس دوران بھی ہمارے ہاں آتی رہیں

الله انکی مغرفت فرماۓ انتہائی عبادت گزار اور پاکیزہ خاتون تھیں

لیکن والدہ سے بات نہیں کرتی تھیں اور بس انکی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا تھا ...

کراۓ دارن کی چیں چیں کبھی ختم نہیں ہوتی "

گو کہ بعد میں بھی والدہ کا ان سے تعلق قائم رہا اور وہ ہمیں بلاتی رہیں کہ تم لوگ دوبارہ یہیں آجاؤ لیکن والدہ ہمیشہ انہیں طرح دے جاتی تھیں کہ ایک بار جو در چھوڑ دیا سو چھوڑ دیا ...

اسی طرح ایک مکان مالک کا لونڈا تیز آواز میں موسیقی سننے کا شوقین تھا اور ان دنوں والد صاحب کی نائٹ ڈیوٹیاں ہوا کرتی تھیں وہ صبح صبح تیز آواز میں   موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا شوقین اور والد محترم کے سونے کا وقت اکثر ہم بھائیوں کو غصہ آتا اور اسے سبق سکھانے کا ارادہ کرتے لیکن والد صاحب کی تنبیہ نہیں جھگڑا نہیں کرنا ..

یہ صرف  چند ایک مثالیں ہیں کہ جن سے اس معاشرتی مسلے کی جانب اشارہ ہوتا معلوم نہیں ارباب اختیار کبھی اس حوالے سے کوئی قدم اٹھائینگے یا نہیں لیکن بطور مالک مکان پڑھنے والوں کو ضرور دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے کیونکہ جس مکان کے وہ مالک ہیں وہ مکان عارضی ہے .


حسیب احمد حسیب

ادب کے میدان میں دو نظریات کی جنگ ... !

چورنگی نامہادب کے میدان میں دو نظریات کی جنگ ... !

ادب ایک ایسا میدان ہے کہ جس میں نظریات پلتے ہیں پھلتے ہیں پھولتے ہیں اور پھر اپنا رنگ دوسروں پر چڑھاتے جاتے ہیں اردو آدم میں نظریاتی ادب کی تخلیق کے حوالے سے بڑے نام " اقبال " اور  " فیض" کے ہیں ..

ہر دو شخصیات کا ادب گل و بلبل کا لایعنی ادب نہ تھا بلکہ خالص نظریاتی ادب تھا اور ہر دو شخصیات نے اپنی ادبی صلاحیت اپنے اپنے نظریات کی ترویج کیلئے وقف کی .

خادم کا ہر دو حضرات کا مداح ہے گو کہ " اقبال " کی نظریاتی فکر کا پیرو اور " فیض " کی نظریاتی فکر کا ناقد ہے لیکن ہر دو حضرت کی ادبی صلاحیت اور اپنے نظریات سے خالص مناسبت کی تعریف کرتا ہے معاملہ دراصل یہ ہے کہ انسان بغیر نظریات کی کچھ بھی نہیں یا تو وہ کوئی نظریہ رکھتا ہے یا کسی نظریے کا تابع ہوتا ہے اسلئے یہ کہ دینا کہ نظریاتی ادب کوئی شے نہیں ایک انتہائی مجھول بات ہے .

گزشتہ دنوں معروف شاعر نغمہ نگار اور ادیب راجہ مہدی علی خان کی ایک نظم نگاہ سے گزری

" میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے "

نظم خاص اشارات و علامات سے بھری ہوئی تھی اگر اسے سادگی و پرکاری کا شاہکار کہا جاوے تو کچھ غلط نہ ہوگا خادم نے اپنی بساط اور اپنے نظریے کے مطابق جواب آں نظم لکھنے کی ٹھانی اور لکھی بھی نظم کو پسندیدگی اور نا پسندیدگی کی یکساں خوراک حاصل ہوئی لیکن قارئین کے تبصرے دیکھ کر بھر سی چیزوں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے اسلئے درج ذیل چند لکیریں گھسیٹنے کی جسارت کی ہے ...

 چونکہ خادم کا  تھوڑا بہت تعلق فلسفے سے رہا ہے اسلئے علامات کی  تھوڑی بہت سمجھ ضرور ہے اب اگر اصل نظم میں موجود علامات ملاحظہ کیجئے تو جن معانی کا ظہور ہوتا ہے انکے پیچھے کیا کہانی ہے یہ ایک مخالف نظریہ رکھنے والا ہی جان سکتا ہے کہ چوٹ کہاں ماری جا رہی ہے ...

اگر علامات کا بیان بزبان ادب ہو تو ایک طرف معنویت میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری جانب تہ داری اور پیچیدگی کہیں زیادہ بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہے بظاھر سیدھے اور آسان سے الفاظ علامت بن جاتے ہیں گفتگو اصطلاحات میں چھپ کر ہوتی ہے اور مضمون سامنے ہونے کے باوجود کہیں پوشیدہ رہتا ہے ...

اصل نظم کا عنوان ہے

" میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے "

اور جوابی نظم ہے

" میں نے اور جبریل نے دیکھا "

یہاں دو علامات کا ٹکراؤ ہے اسے خالص فلسفہ دین اور فلسفہ لا دینیت کے تناظر میں ملاحظہ کیجئے یعنی یہ ایک فلسفیانہ بحث ہے کہ جو علامات کے پیچھے چھپ کر لڑی گئی ہے ...

عجیب بات ہے کہ اعتراض وہاں پر بھی ہوا کہ جہاں بنتا نہیں

نظم میں " میں " سے نہ تو مہدی علی خاں مراد ہیں
اور نہ ہی جواب آں نظم میں حسیب احمد حسیب اور یہ کافی سامنے کی بات ہے

" میں " فرق ہے دو نظریات کا ایک جانب لبرل کی آنکھ ہے اور دوسری جانب صوفی کی نگاہ

اب " جبریل " کہ جو علامت ہے ہدایت کی
اور شیطان کہ جو علامت ہے گمراہی کی .......

ہر دو مقابل ہیں ....

جبریل کا دیکھنا اور جبریل کی آنکھ سے صوفی کا دیکھنا معرفت کا معاملہ
شیطان کا دیکھنا اور اسکی آنکھ سے لبرل کا دیکھنا دھوکے کا منظر ہے ..

آگے چلیے

پہلا بند

جنت کی دیوار پہ چڑھ کر
میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے
جو نہ کبھی ہم نے دیکھا تھا
ہو کر حیراں دیکھ رہے تھے

جوابی بند

دوزخ کی دیوار پہ چڑھ کر
میں نے اور جبریل نے دیکھا
جو نہ کبھی سوچا تھا میں نے
حیراں حیراں دیکھ رہا تھا

یہاں دوزخ یا جنت کے مناظر کا حیران کن ہونا کوئی اختلافی امر نہیں
" میں " کی وضاحت اوپر آ چکی
لازمی امر ہے کہ جب مہدی علی خان " جنت " کا مقدمہ اٹھاتے ہیں تو
جواب میں دوزخ کا منظر ہی دکھایا جاوے گا ......

دوسری طرف مبصر ہیں " جبریل "
اور
شیطان .......

اب ہم دوسرے بند پر آتے ہیں

وادیِ جنت کے باغوں میں
اف توبہ اک حشر بپا تھا
شیطاں کے ہونٹوں پہ ہنسی تھی
میرا کلیجہ کانپ رہا تھا

جواب

وزخ کی گھاٹی میں ہر سو
وحشت تھی اک حشر بپا تھا
ایسا منظر کیا بتلاؤں
میرا کلیجہ کانپ رہا تھا

عجیب بات ہے کہ وادی جنت کے باغوں میں حشر کا بپا ہونا تو قرآن سنت تو کیا فلسفیانہ استدلال کے بھی یکسر منافی ہے غور کیجئے " جنت " علامت ہے سکون و اطمنان کی جنت جا ہے نعمتوں کی خوشیوں کی راحت کی جنت سے مراد ہے انسانی ذہن اور روح کی کامل تسکین کی .....

اس عجیب و غریب بیان کو تو ادب شمار کیا جاوے اور جب خادم کہے دراصل دوزخ کی گھاٹی میں حشر بپا تھا وحشت تھی عجیب دل دھلا دینے والا منظر تھا تو ہلچل مچ جاوے .....

اب تیسرا بند ملاحظہ کیجئے

میں نہ کبھی بھولوں گا توبہ
میں نے دیکھا جو نظّارا
لعنت لعنت بول رہا تھا
جنت کا ہر منظر پیارا

جواب

میں نہ کبھی بھولوں گا توبہ
میں نے دیکھا جو نظّارا
لعنت لعنت بول رہا تھا
دوزخ کا ہر منظر گندا

یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں کہ لعنت کی مناسبت کس سے ہے دوزخ سے یا جنت سے ..

چوتھے بند پر نظر ڈالیں

موٹی موٹی توندوں والے
بدصورت بد ہیت ملا
خوف زدہ حوروں کے پیچھے
بھاگ رہے تھے کہہ کے "ہا ہا"

جواب


ننگی ننگی ٹانگوں والے
بدصورت بد ہیت لبرل
خوف زدہ زنخوں کے پیچھے
بھاگ رہے تھے کہہ کے " ھررا "

محترم اگر مولوی صحت مند ہو تو بد ہیت اور اگر لاغر ہو تو مفلوک الحال بے چارہ جائے تو جائے کہاں
اور بدصورتی کیا ہے کیا مولوی کی داڑھی اسکی ٹوپی اسکے سرپر سجی دستار یا اسکا مکمل لباس بدصورتی ہے ۔۔۔ ؟ سبحان الله .....

اور ہم جواب میں کہیں کہ لبرل کی برہنگی اور غیر فطری جنسی رویے بدصورتی ہیں تو ہمیں مورد الزام ٹھہرایا جاوے ....

صاحب نظم جب جنت کی اور حوروں کی توہین فرماتے ہیں تو گویا انکا مقصود دین کی اور خالق کی توہین ہے جواب میں خادم اسی فلسفے کا رد بطریق فلسفہ علامات کی شکل میں کرتا ہے ......

موصوف کا مقصود یہ ہے کہ دین و مذھب خواتین کے حقوق کا غاصب ہے انہیں بندھن میں باندھتا ہے ہاں اگر آزاد روی و بے حیائی کے کھلے مواقع ہوں اور جنسی تعلقات میں قیود نہ ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں

خادم کہتا ہے اجی آپ آزاد جنسی تعلقات پر کہاں رکنے والے بلکہ آپ تو غیر فطری جنسی تعلقات کے خواہاں ہیں " ہم جنس پرستی " آج لبرلز کا خصوصی شعار ہے ....

پانچواں بند

"بچ کے کہاں جاؤ گی؟" کہہ کے
وہ دیوانے ناچتے گاتے
چاروں طرف سے گھیر کے ان کو
ہنستے، کدکتے، شور مچاتے

جواب آں بند

"بچ کے کہاں جاؤ گے ؟" کہہ کے
وہ دیوانے ناچتے گاتے
چاروں طرف سے گھیر کے ان کو
ہنستے، کدکتے، شور مچاتے

یہاں صرف منظر کشی ہے بظاھر کوئی فرق نہیں ایک صاحب دوزخ دکھلا رہے ہیں تو دوسرے جنت یہ اور بات ہے کہ جنت و دوزخ حقیقی نہیں علامتی ہیں ........

چھٹا بند


ڈر کے چیخیں مار رہی تھیں
حوریں ریشمیں ساڑھیوں والی
ان کے دل دھک دھک کرتے تھے
دیکھ کے شکلیں داڑھیوں والی

جوابی بند

ڈر کے چیخیں مار رہے تھے
زنخے ریشمی کپڑوں والے
ان کے دل دھک دھک کرتے تھے
دیکھ کے لبرل ننگے پنگے

موصوف چونکہ ساکن ہندوستان تھے اور شاید ساڑھیوں والی لبرل خواتین (ماروی سرمد صاحبہ یاد آ گئیں)
سے کافی متاثر اور شاید انہی کو حوریں سمجھتے ہوں مسلمانو کے نظریہ جہاد سے منسلک مال غنیمت اور خواتین کے بطور ملک یمین ہاتھ آنے کو ہدف تنقید بناتے ہیں .......

تاریخ اسلامی کے مناظر ذہن میں تازہ کیجئے
معرکہ بدر و حنین
اسلامی جنگوں میں ہاتھ آنے والی لونڈیاں اور ان سے متعلق قرآن و سنّت کے میں موجود احکامات اور ہاں یہاں ولن ہیں داڑھیوں والے مجاہد .....

جواب میں خادم نے توجہ دلائی ہے کہ جناب من ہمارے ہاں تو لونڈیوں کے بھی متعین حقوق ہیں آپ کے ہاں تو کسی بھی عورت یا مرد سے فائدہ اٹھایا اور رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوا ...

ساتواں اور آخری بند

میں اور شیطاں لب بہ دعا تھے
اے الله بچانا ان کو
اپنی رحمت کے پردے میں
اے معبود چھپانا ان کو

جوابی بند

میں نے اور جبریل نے بولا
اپنے قہر کی آگ میں انکو
دوزخ کی اس تیز تپش میں
اے معبود جلانا
تو ، تو.!

لیجئے یہاں صاحب نظم مولوی یا مذہبی کو بطور ولن پیش کر کے حوروں کی حفاظت کی دعا الله سے مانگ رہے ہیں اور دعا میں شریک دعا حضرت شیطان ہیں .....

دراصل ہیں منطقی سوال یہ ہو ہو سکتا تھا کہ کیا خالق حقیقی مالک کائنات اس قدر بے بس بھی ہو سکتا ہے کہ اسکی بنائی ہو جنت میں وحشت زدہ مولوی بڑھی ہوئی داڑھیوں کے ساتھ گھس جائیں اور دند مچاتے پھریں ......
لیکن اگر گہرائی سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پور نظم ہیں " شیطان " علامت ہے بغاوت کی

فلسفہ یہ کہتا ہے کہ بھی شیطان بھی ایک لبرل ہوگا کہ سجدے سے انکاری ہوا سر اسکی حریت فکر نے اسکی انا اور اسکی خود داری نے اسے کسی خدا کے آگے جھکنے پر مجبور نہ ہونے دیا ..

ہاں جبریل علامت ہے تسلیم و رضا کی حکم کے سامنے سر جھکا دینے کی .....

اور جہاں تک بات ہے عذاب کس کی قسمت ہوگا اور راحت کس کی تو اس اسکی وضاحت آسمانی صحیفوں میں واضح موجود ہے ہاں مگر وہ کہ جو ایمان نے لائے .

حسیب احمد حسیب