جمعرات، 28 جولائی، 2016

کراۓ دارن کی چیں چیں ...!

چورنگی نامہ

کراۓ دارن کی چیں چیں ...!

کراۓ دار ایک ایسی مخلوق ہے کہ جو سر پہ چھت قائم رکھنے کیلئے سالوں رقوم ادا کرتے ہیں اور پھر بھی چھت انکی نہیں ہوتی ..

پاکستان کی ایک بڑی اکثریت اپنا گھر نہ ہونے کی وجہ سے کراۓ دار ہے یہ ایک معاشرتی مسلے سے زیادہ  ایک المیہ بنتا جا رہا ہے لوگ کروڑوں اربوں روپیہ ہر ماہ کراۓ کی مد میں دیتے ہیں اور یہ ایک بڑی معاشی حرکت بن چکی ہے ..

ایک طرف تو کراۓ دار مجبور ہوتا ہے کہ کراۓ کہ مکان میں رہے تو دوسری طرف  اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنا مکان کراۓ پر ضرورت کے تحت اٹھاتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں نے اسے ایک منافع بخش کاروبار بنا لیا ہے اگر کسی کے پاس پیسے ہوں تو وہ متعدد مکان بنا کر کراۓ پر چڑھا دیتا ہے اور خوب نفع کماتا ہے دوسری جانب ایک بڑی رقم ایڈوانس کے نام پر رکھ لی جاتی ہے اس کاروبار سے نفع اٹھانے والے کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں دیتے اور ایک منافع بخش معاشی حرکت کا ریاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا..

کراۓ داروں کے مسائل بے شمار ہیں اور ان میں ایک بڑا حصہ قانون کی غیر موجودگی اور اسٹیٹ اجنٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے کہ جو آسان پیسہ کمانے کے چکر میں کراۓ کی قیمت بڑھواتے چلے جاتے ہیں .

اگر آپ کے دو بچے ہیں اور چھوٹی فیملی ہے تو مکان آسانی سے مل جاوے گا لیکن اگر آپ کی بڑی فیملی ہے تو مکان کا ملنا جوۓ شیر لانے سے زیادہ کٹھن ہو جاتا ہے .

ہر سال زمین کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ مکان کے کراۓ بھی بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں دوسری طرف کوئی بھی مالک مکان سال بھر سے زیادہ کسی کو رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوتا ..
وجہ .. ہر سال نیا اگریمنٹ اضافی کرایہ اور زیادہ اڈوانس ...

پہلے لوگ اپنا مکان انتہائی ضرورت کے تحت صرف شریف لوگوں کو کراۓ پر دیا کرتے تھے لیکن اب مقصود صرف زیادہ سے زیادہ پیسوں کا حصول ہے .

دوسری جانب اسٹیٹ اجنٹس مالک مکان سے تو کچھ وصول نہیں کرتے لیکن کراۓ دار سے ایک کرایہ وصول کر لیتے ہیں اس حوالے سے بھی حکومت کی جانب سے کوئی قانون سازی نہیں ہے .

اسی گز کے مکان کا کرایہ پندرہ ہزار
ایک سو بیس گز کا مکان بیس ہزار
دو سو گز تیس ہزار .......

دوسری جانب مکان مالک اور کراۓ دار کی ایک بڑی تقسیم نے دو الگ الگ معاشرتی طبقات پیدا کر دیے ہیں اور ان معاشرتی طبقات کے درمیان پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل کس انداز میں معاشرے کو متاثر کر رہے ہیں معاشرے کی توجہ بھی اس جانب نہیں جاتی .

مجھے یاد ہے کہ لیاقت آباد میں ایک مکان ہم نے کراۓ پر لیا تھا مالک مکان فیملی بہت اچھے اور معقول لوگوں کی تھی اس فیملی میں ایک بزرگ خاتون تھیں جنہیں میری والدہ سے بہت تعلق ہو گیا تھا اور ہمارے گھر کے لوگ بھی انہیں اماں کہنے لگے تھے اکثر وہ ہمارے ہاں آتیں اور والدہ کے ساتھ وقت گزارتیں.

مالک مکان پہلی منزل پر براجمان تھے اور ہم گراؤنڈ فلور پر گو کہ کرایہ دار اور مالک مکان ایک بزنس ڈیل کے دو فریق ہوتے ہیں لیکن مالکان مکان کے اذہان میں ایک نفسیاتی فوقیت ضرور ہوتی ہے اور منہ مانگی قیمت وصول کرنے کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے کراۓ داروں پر کوئی احسان عظیم فرما رہے ہوں اور اس احسان کے بدلے اضافی ذمہ داریاں کہ جو ہر دو فریق کے ذمے ہونی چاہیئں صرف کراۓ داروں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہیں ...

ایسی ہی ایک ذمہ داری رات رات بھر جاگ کر پانی کا ٹینک بھرنا اور گیلری وغیرہ کی صفائی بھی تھی جبکہ گیلری مشترکہ تھی اور اس میں مالک مکان کی موٹر سائکل وغیرہ بھی کھڑی ہوتی تھی ..

ایک مرتبہ باہر سے کسی جانور نے آکر مشترکہ  گیلری  میں غلاظت پھیلا دی جس کی وجہ سے سخت تعفن پھیل گیا والدہ کو صفائی کرنے میں کراہیت محسوس ہوئی اور انہوں نے مالک مکان خاتون سے  صفائی کروانے کیلئے کہا جس پر انکی کچھ تلخ کلامی بھی ہو گئی بعد میں اسی تلخی کی وجہ سے ہمیں گھر بھی تبدیل کرنا پڑا..

لطف کی بات یہ کے مالکان مکان کی بزرگ خاتون  اس دوران بھی ہمارے ہاں آتی رہیں

الله انکی مغرفت فرماۓ انتہائی عبادت گزار اور پاکیزہ خاتون تھیں

لیکن والدہ سے بات نہیں کرتی تھیں اور بس انکی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا تھا ...

کراۓ دارن کی چیں چیں کبھی ختم نہیں ہوتی "

گو کہ بعد میں بھی والدہ کا ان سے تعلق قائم رہا اور وہ ہمیں بلاتی رہیں کہ تم لوگ دوبارہ یہیں آجاؤ لیکن والدہ ہمیشہ انہیں طرح دے جاتی تھیں کہ ایک بار جو در چھوڑ دیا سو چھوڑ دیا ...

اسی طرح ایک مکان مالک کا لونڈا تیز آواز میں موسیقی سننے کا شوقین تھا اور ان دنوں والد صاحب کی نائٹ ڈیوٹیاں ہوا کرتی تھیں وہ صبح صبح تیز آواز میں   موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا شوقین اور والد محترم کے سونے کا وقت اکثر ہم بھائیوں کو غصہ آتا اور اسے سبق سکھانے کا ارادہ کرتے لیکن والد صاحب کی تنبیہ نہیں جھگڑا نہیں کرنا ..

یہ صرف  چند ایک مثالیں ہیں کہ جن سے اس معاشرتی مسلے کی جانب اشارہ ہوتا معلوم نہیں ارباب اختیار کبھی اس حوالے سے کوئی قدم اٹھائینگے یا نہیں لیکن بطور مالک مکان پڑھنے والوں کو ضرور دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے کیونکہ جس مکان کے وہ مالک ہیں وہ مکان عارضی ہے .


حسیب احمد حسیب

ادب کے میدان میں دو نظریات کی جنگ ... !

چورنگی نامہادب کے میدان میں دو نظریات کی جنگ ... !

ادب ایک ایسا میدان ہے کہ جس میں نظریات پلتے ہیں پھلتے ہیں پھولتے ہیں اور پھر اپنا رنگ دوسروں پر چڑھاتے جاتے ہیں اردو آدم میں نظریاتی ادب کی تخلیق کے حوالے سے بڑے نام " اقبال " اور  " فیض" کے ہیں ..

ہر دو شخصیات کا ادب گل و بلبل کا لایعنی ادب نہ تھا بلکہ خالص نظریاتی ادب تھا اور ہر دو شخصیات نے اپنی ادبی صلاحیت اپنے اپنے نظریات کی ترویج کیلئے وقف کی .

خادم کا ہر دو حضرات کا مداح ہے گو کہ " اقبال " کی نظریاتی فکر کا پیرو اور " فیض " کی نظریاتی فکر کا ناقد ہے لیکن ہر دو حضرت کی ادبی صلاحیت اور اپنے نظریات سے خالص مناسبت کی تعریف کرتا ہے معاملہ دراصل یہ ہے کہ انسان بغیر نظریات کی کچھ بھی نہیں یا تو وہ کوئی نظریہ رکھتا ہے یا کسی نظریے کا تابع ہوتا ہے اسلئے یہ کہ دینا کہ نظریاتی ادب کوئی شے نہیں ایک انتہائی مجھول بات ہے .

گزشتہ دنوں معروف شاعر نغمہ نگار اور ادیب راجہ مہدی علی خان کی ایک نظم نگاہ سے گزری

" میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے "

نظم خاص اشارات و علامات سے بھری ہوئی تھی اگر اسے سادگی و پرکاری کا شاہکار کہا جاوے تو کچھ غلط نہ ہوگا خادم نے اپنی بساط اور اپنے نظریے کے مطابق جواب آں نظم لکھنے کی ٹھانی اور لکھی بھی نظم کو پسندیدگی اور نا پسندیدگی کی یکساں خوراک حاصل ہوئی لیکن قارئین کے تبصرے دیکھ کر بھر سی چیزوں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے اسلئے درج ذیل چند لکیریں گھسیٹنے کی جسارت کی ہے ...

 چونکہ خادم کا  تھوڑا بہت تعلق فلسفے سے رہا ہے اسلئے علامات کی  تھوڑی بہت سمجھ ضرور ہے اب اگر اصل نظم میں موجود علامات ملاحظہ کیجئے تو جن معانی کا ظہور ہوتا ہے انکے پیچھے کیا کہانی ہے یہ ایک مخالف نظریہ رکھنے والا ہی جان سکتا ہے کہ چوٹ کہاں ماری جا رہی ہے ...

اگر علامات کا بیان بزبان ادب ہو تو ایک طرف معنویت میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری جانب تہ داری اور پیچیدگی کہیں زیادہ بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہے بظاھر سیدھے اور آسان سے الفاظ علامت بن جاتے ہیں گفتگو اصطلاحات میں چھپ کر ہوتی ہے اور مضمون سامنے ہونے کے باوجود کہیں پوشیدہ رہتا ہے ...

اصل نظم کا عنوان ہے

" میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے "

اور جوابی نظم ہے

" میں نے اور جبریل نے دیکھا "

یہاں دو علامات کا ٹکراؤ ہے اسے خالص فلسفہ دین اور فلسفہ لا دینیت کے تناظر میں ملاحظہ کیجئے یعنی یہ ایک فلسفیانہ بحث ہے کہ جو علامات کے پیچھے چھپ کر لڑی گئی ہے ...

عجیب بات ہے کہ اعتراض وہاں پر بھی ہوا کہ جہاں بنتا نہیں

نظم میں " میں " سے نہ تو مہدی علی خاں مراد ہیں
اور نہ ہی جواب آں نظم میں حسیب احمد حسیب اور یہ کافی سامنے کی بات ہے

" میں " فرق ہے دو نظریات کا ایک جانب لبرل کی آنکھ ہے اور دوسری جانب صوفی کی نگاہ

اب " جبریل " کہ جو علامت ہے ہدایت کی
اور شیطان کہ جو علامت ہے گمراہی کی .......

ہر دو مقابل ہیں ....

جبریل کا دیکھنا اور جبریل کی آنکھ سے صوفی کا دیکھنا معرفت کا معاملہ
شیطان کا دیکھنا اور اسکی آنکھ سے لبرل کا دیکھنا دھوکے کا منظر ہے ..

آگے چلیے

پہلا بند

جنت کی دیوار پہ چڑھ کر
میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے
جو نہ کبھی ہم نے دیکھا تھا
ہو کر حیراں دیکھ رہے تھے

جوابی بند

دوزخ کی دیوار پہ چڑھ کر
میں نے اور جبریل نے دیکھا
جو نہ کبھی سوچا تھا میں نے
حیراں حیراں دیکھ رہا تھا

یہاں دوزخ یا جنت کے مناظر کا حیران کن ہونا کوئی اختلافی امر نہیں
" میں " کی وضاحت اوپر آ چکی
لازمی امر ہے کہ جب مہدی علی خان " جنت " کا مقدمہ اٹھاتے ہیں تو
جواب میں دوزخ کا منظر ہی دکھایا جاوے گا ......

دوسری طرف مبصر ہیں " جبریل "
اور
شیطان .......

اب ہم دوسرے بند پر آتے ہیں

وادیِ جنت کے باغوں میں
اف توبہ اک حشر بپا تھا
شیطاں کے ہونٹوں پہ ہنسی تھی
میرا کلیجہ کانپ رہا تھا

جواب

وزخ کی گھاٹی میں ہر سو
وحشت تھی اک حشر بپا تھا
ایسا منظر کیا بتلاؤں
میرا کلیجہ کانپ رہا تھا

عجیب بات ہے کہ وادی جنت کے باغوں میں حشر کا بپا ہونا تو قرآن سنت تو کیا فلسفیانہ استدلال کے بھی یکسر منافی ہے غور کیجئے " جنت " علامت ہے سکون و اطمنان کی جنت جا ہے نعمتوں کی خوشیوں کی راحت کی جنت سے مراد ہے انسانی ذہن اور روح کی کامل تسکین کی .....

اس عجیب و غریب بیان کو تو ادب شمار کیا جاوے اور جب خادم کہے دراصل دوزخ کی گھاٹی میں حشر بپا تھا وحشت تھی عجیب دل دھلا دینے والا منظر تھا تو ہلچل مچ جاوے .....

اب تیسرا بند ملاحظہ کیجئے

میں نہ کبھی بھولوں گا توبہ
میں نے دیکھا جو نظّارا
لعنت لعنت بول رہا تھا
جنت کا ہر منظر پیارا

جواب

میں نہ کبھی بھولوں گا توبہ
میں نے دیکھا جو نظّارا
لعنت لعنت بول رہا تھا
دوزخ کا ہر منظر گندا

یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں کہ لعنت کی مناسبت کس سے ہے دوزخ سے یا جنت سے ..

چوتھے بند پر نظر ڈالیں

موٹی موٹی توندوں والے
بدصورت بد ہیت ملا
خوف زدہ حوروں کے پیچھے
بھاگ رہے تھے کہہ کے "ہا ہا"

جواب


ننگی ننگی ٹانگوں والے
بدصورت بد ہیت لبرل
خوف زدہ زنخوں کے پیچھے
بھاگ رہے تھے کہہ کے " ھررا "

محترم اگر مولوی صحت مند ہو تو بد ہیت اور اگر لاغر ہو تو مفلوک الحال بے چارہ جائے تو جائے کہاں
اور بدصورتی کیا ہے کیا مولوی کی داڑھی اسکی ٹوپی اسکے سرپر سجی دستار یا اسکا مکمل لباس بدصورتی ہے ۔۔۔ ؟ سبحان الله .....

اور ہم جواب میں کہیں کہ لبرل کی برہنگی اور غیر فطری جنسی رویے بدصورتی ہیں تو ہمیں مورد الزام ٹھہرایا جاوے ....

صاحب نظم جب جنت کی اور حوروں کی توہین فرماتے ہیں تو گویا انکا مقصود دین کی اور خالق کی توہین ہے جواب میں خادم اسی فلسفے کا رد بطریق فلسفہ علامات کی شکل میں کرتا ہے ......

موصوف کا مقصود یہ ہے کہ دین و مذھب خواتین کے حقوق کا غاصب ہے انہیں بندھن میں باندھتا ہے ہاں اگر آزاد روی و بے حیائی کے کھلے مواقع ہوں اور جنسی تعلقات میں قیود نہ ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں

خادم کہتا ہے اجی آپ آزاد جنسی تعلقات پر کہاں رکنے والے بلکہ آپ تو غیر فطری جنسی تعلقات کے خواہاں ہیں " ہم جنس پرستی " آج لبرلز کا خصوصی شعار ہے ....

پانچواں بند

"بچ کے کہاں جاؤ گی؟" کہہ کے
وہ دیوانے ناچتے گاتے
چاروں طرف سے گھیر کے ان کو
ہنستے، کدکتے، شور مچاتے

جواب آں بند

"بچ کے کہاں جاؤ گے ؟" کہہ کے
وہ دیوانے ناچتے گاتے
چاروں طرف سے گھیر کے ان کو
ہنستے، کدکتے، شور مچاتے

یہاں صرف منظر کشی ہے بظاھر کوئی فرق نہیں ایک صاحب دوزخ دکھلا رہے ہیں تو دوسرے جنت یہ اور بات ہے کہ جنت و دوزخ حقیقی نہیں علامتی ہیں ........

چھٹا بند


ڈر کے چیخیں مار رہی تھیں
حوریں ریشمیں ساڑھیوں والی
ان کے دل دھک دھک کرتے تھے
دیکھ کے شکلیں داڑھیوں والی

جوابی بند

ڈر کے چیخیں مار رہے تھے
زنخے ریشمی کپڑوں والے
ان کے دل دھک دھک کرتے تھے
دیکھ کے لبرل ننگے پنگے

موصوف چونکہ ساکن ہندوستان تھے اور شاید ساڑھیوں والی لبرل خواتین (ماروی سرمد صاحبہ یاد آ گئیں)
سے کافی متاثر اور شاید انہی کو حوریں سمجھتے ہوں مسلمانو کے نظریہ جہاد سے منسلک مال غنیمت اور خواتین کے بطور ملک یمین ہاتھ آنے کو ہدف تنقید بناتے ہیں .......

تاریخ اسلامی کے مناظر ذہن میں تازہ کیجئے
معرکہ بدر و حنین
اسلامی جنگوں میں ہاتھ آنے والی لونڈیاں اور ان سے متعلق قرآن و سنّت کے میں موجود احکامات اور ہاں یہاں ولن ہیں داڑھیوں والے مجاہد .....

جواب میں خادم نے توجہ دلائی ہے کہ جناب من ہمارے ہاں تو لونڈیوں کے بھی متعین حقوق ہیں آپ کے ہاں تو کسی بھی عورت یا مرد سے فائدہ اٹھایا اور رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوا ...

ساتواں اور آخری بند

میں اور شیطاں لب بہ دعا تھے
اے الله بچانا ان کو
اپنی رحمت کے پردے میں
اے معبود چھپانا ان کو

جوابی بند

میں نے اور جبریل نے بولا
اپنے قہر کی آگ میں انکو
دوزخ کی اس تیز تپش میں
اے معبود جلانا
تو ، تو.!

لیجئے یہاں صاحب نظم مولوی یا مذہبی کو بطور ولن پیش کر کے حوروں کی حفاظت کی دعا الله سے مانگ رہے ہیں اور دعا میں شریک دعا حضرت شیطان ہیں .....

دراصل ہیں منطقی سوال یہ ہو ہو سکتا تھا کہ کیا خالق حقیقی مالک کائنات اس قدر بے بس بھی ہو سکتا ہے کہ اسکی بنائی ہو جنت میں وحشت زدہ مولوی بڑھی ہوئی داڑھیوں کے ساتھ گھس جائیں اور دند مچاتے پھریں ......
لیکن اگر گہرائی سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پور نظم ہیں " شیطان " علامت ہے بغاوت کی

فلسفہ یہ کہتا ہے کہ بھی شیطان بھی ایک لبرل ہوگا کہ سجدے سے انکاری ہوا سر اسکی حریت فکر نے اسکی انا اور اسکی خود داری نے اسے کسی خدا کے آگے جھکنے پر مجبور نہ ہونے دیا ..

ہاں جبریل علامت ہے تسلیم و رضا کی حکم کے سامنے سر جھکا دینے کی .....

اور جہاں تک بات ہے عذاب کس کی قسمت ہوگا اور راحت کس کی تو اس اسکی وضاحت آسمانی صحیفوں میں واضح موجود ہے ہاں مگر وہ کہ جو ایمان نے لائے .

حسیب احمد حسیب

جمعہ، 1 جولائی، 2016

کیری نیشن Carrie Nation سے اوریانیت Decency تک .

چورنگی نامہ





کیری نیشن Carrie Nation  سے اوریانیت Decency  تک .

جو سوال ہمارے سامنے لا کھڑا کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہم سب اوریا ہیں ... ؟

اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں ایک سفر کرنا پڑے گا تاریخی حقائق دنیا کے چلتے ہوۓ نظام کے جھوٹ اور جدید اشتہاری طلسمات میں پھنسی قوم کی نفسیات کو جاننے کا سفر .
مادام Carrie Amelia Moore Nation  کیری امیلی مور نیشن یہ صرف ایک نام نہیں یہ علامت ہے حق گوئی و بے باکی کا  یہ نام جزبہ حریت اور صداقت پر قائم رہنے کا سبق سکھلاتا ہے یہ نام ایک داستان ہے سچائی کی جو انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد سے عبارت  ہے.
یہ اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل کی کہانی ہے کہ جب امریکہ اس حد تک متمدن نہ ہوا تھا کہ جتنا آج دکھائی دیتی ہے شراب میں ڈوبی امریکی قوم کسی مسیحا کی راہ تک رہی تھی کہ کوئی آۓ اور انہیں اس ذلالت سے نکالے ایسے مشکل حالات میں خدائی پیغام ایک خاتون کے دل پر القاء کیا گیا ہمیں نہیں معلوم کہ اس کی کیا حقیقت ہے مگر مادام خود کہتی ہیں

The next morning I was awakened by a voice which seemed to me speaking in my heart, these words, "GO TO KIOWA," and my hands were lifted and thrown down and the words, "I'LL STAND BY YOU." The words, "Go to Kiowa," were spoken in a murmuring, musical tone, low and soft, but "I'll stand by you," was very clear, positive and emphatic. I was impressed with a great inspiration, the interpretation was very plain, it was this: "Take something in your hands, and throw at these places in Kiowa and smash them."
 "Carry's Inspiration for Smashing".
 Kansas State Historical Society.  Archived from the original on 2006-12-22. Retrieved 2007-01-13.

یہاں سے کہانی شروع ہوتی ہے کیری نیشن کی جو بعد میں مثال بنی بدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی یہ وہ دور تھا کہ جب امریکہ میں شراب کی تجارت عروج پر تھی اور اس شرابیت میں شرابور قوم کے اکثر مرد اپنے بی وی بچوں سے ہی نہیں بلکہ اپنی جان سے بھی غافل  تھے اور ہر  سال لاتعداد لوگ موت کے منہ میں صرف اور صرف اس ام الخبا  ُ ث کے استعمال کی وجہ سے چلے جاتے تھے ان حالات میں ایک چھ فٹ طویل قامت کی حامل ایک سو پچہتر پونڈ وزنی خاتون نے علم جہاد بلند کیا اور شراب پرستوں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیا جسکی پاداش میں انہیں تیس بار جیل یاترا کرنا پڑی ہاتھ میں کلہاڑی سنبھالے شراب خانوں کو تہس نہس کر دینے والی خاتون کہ اس جہاد کو "Hatchetations" کا نام دیا گیا مادام کیری نیشن کو اپنے اس جہاد کی وجہ سے صرف ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالمی شہرت حاصل ہوئی.
ایسا ہی ایک جہاد پاکستان میں اوریا مقبول جان صاحب نے شروع کیا ہے کہ جسکی پاداش میں انہیں
 " اوریانیت " کی پھبتی کا سامنا کرنا پڑا اور انکی مخالفت میں ایک طوفان بد تمیزی کھڑا کر دیا گیا کہ جس کی چند مثالیں ہم اپ کے سامنے پیش کرتے ہیں .
ایک صاحب نے اسے " اوریانیت کا ناسور " کے نام سے موسوم کیا موصوف لکھتے ہیں

" اس اشتہار پر ”عریاں“ ردعمل سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ فحاشی کا تعلق دیکھنے والے کی نیت اور دماغی فتور سے زیادہ ہوتا ہے۔ "

تو دوسرے صاحب مزاح نگاری کی مشق فرماتے دکھائی دیتے ہیں .
(بقول مصنف رتن ناتھ سرشار کے ناول فسانہ آزاد کے کردار میاں خوجی کا تذکرہ یہاں اتفاقی ہے مقصود اوریا مقبول جان صاحب کی تضحیک نہیں اور موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہاں وہ صرف ادب کی خدمت فرما رہے ہیں)
" میاں خوجی فحاشی پکڑتے ہیں "

موصوف اوریا مقبول جان صاحب کے فرضی کردار کو جاہل گنواروں سے الجھتے مجمع میں مذاق بنتے اور ایک رانڈ کے ہاتھ مار کھانےکی منظر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں خوبصورت الفاظ کا گلدستہ ملاحظہ کیجئے .

" کسان کی جورو تو تو ٹھونک ٹھانک، اور پیٹ پاٹ کر چل دی، آپ نے پکارنا شروع کر دیا۔ قسم بابا جان کی جو کہیں قرولی پاس ہوتی تو ان دونوں کی لاش اس وقت پھڑکتی ہوتی۔ وہ تو کہیے خدا کو اچھا کرنا منظور تھا کہ میں اپنے زعم میں آپ نیچے آ رہا ورنہ اتنی قرولیاں بھونکتا کہ عمر بھر یاد کرتے۔ ہات ترے کی۔ نابکار لعین۔ کھڑا تو رہ او گیدی دوزخی۔

اس پر گاؤں والوں نے خوب قہقہہ اڑایا اور اتنا بنایا کہ میاں خوجی سب کو گالیاں دینے لگے۔ او گیدی تم سب پر میں بھاری ہوں، پرے کے پرے صاف کر دوں، وہ تو کہیے قرولی نہ ہوئی۔ ایک نے پوچھا کیوں میاں صاحب، قرولی ہوتی تو کیا بھونک کر مر جاتے، یا اپنے پیٹ میں لگاتے، آخر نتیجہ کیا ہوتا؟ کیوں ایک رانڈ سے مار کھائی؟ "

مزید لکھتے ہیں

" خواجہ بدیع الزماں کے نام سے تو آپ خوب واقف ہیں۔ بے تکلف دوست اور راہ چلتے انہیں خوجی کے نام سے پکارتے ہیں۔ ٹینی مرغے کے برابر قد پایا ہے"

اجی اب اگر کوئی آپ کی جسمانی ہیت کے حوالے سے معیوب قسم کی کوئی پھبتی کس دیوے کہ جو آپکے کسی عیب کی جانب اشارہ کرتی ہو تو کیا کچھ غلط نہ ہووے گا ... ؟

آگے فرماتے ہیں " اس نے قہقہہ اڑا کر کہا کہ ‘اب ہٹو بھی آئے وہاں سے بڑے اقبال مند ہو کر۔ واہ کیا اقبال ہے۔ صورت سے تو پھٹکار برستی ہے، اقبال والے بنے ہیں’۔ خوجی دانت پیس کر رہ گئے اور بولے کہ ‘بس اب چلی جاؤ۔ نہ ہوئی جوانی ورنہ کھود کر اسی جگہ دفنا دیتا’۔

میاں کسی کی صورت پر پھٹکار برسوا دینا بھی شاید ادب عالیہ اور مزاح نگاری کی عالی شان مثال ہوگا اب اگر ہم اسے پھکڑ پن کہیں تو کیا کچھ غلط ہو جاوے گا .

اجی نفس مضمون پر بھی کچھ گفتگو فرما لیتے کہ جدید میڈیائی دنگل میں کون کون سے اوچھے ہتھیار آزماۓ جاوے ہیں اور کس کس انداز میں صارف کو چونا لگایا جاتا ہے اور کس خوبصورتی سے اس خوبصورت عمل میں مستورات کو مکشوفات میں تبدیل کر دیا جاتا ہے ضرور ملاحظہ کیجئے ..
(حضرت کا فرمان ہے کہ آپ کو اردو ادب کے کلاسیک میں پھکڑ پن اور تضحیک دکھائی دینے لگی نہیں جناب من اگر کوئی آپ سے کہے  قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ تو کیا یہ مناسب بات ہووے گی یا مذہبی شدت پسندی کیونکہ اس آیت کا انطباق یہاں درست نہیں ایسے ہی جس انداز میں آپ نے اس کردار کو منطبق کیا ہے وہ بھی درست نہیں )
ویسے اوریا کو چند سیکنڈ کی بے حجابی میں عریانیت دکھائی دی

اور نبی کریم صل الله علیہ وسلم دوسری نظر کو حرام فرما رہے کچھ غور کیجئے .
ایک صاحبہ فرماتی ہیں

" اوریا ہم کو کہے کافر، اللہ کی مرضی ہے "

خوبصورت الفاظ ملاحظہ کیجئے

" عاشق ہویوں رب دا، تینوں ہوئی ملامت لاکھ

تینوں کافر کافر آکھدے، توں آہو آہو آکھ

اردو کی ایک کہاوت ہے “تھوتھا چنا، باجے گھنا”۔ کچھ چنے ایسے ہوتے ہیں جو جتنے خراب ہوتے ہیں اتنا ہی زیادہ بجتے ہیں۔ نہ صرف زیادہ بجتے ہیں بلکہ بے سرا بجتے ہیں۔ صحافت کا ایسا ہی ایک چنا ہیں اوریا مقبول جان صاحب۔ "

عجیب معاملہ یہ ہے کہ ایک چال شیطان کی اور ایک چال ہے رحمان کی اور رحمان کی چال ہی غالب آنے والی ہے اوریا مقبول جان پر طنز کے ڈونگرے برسانے والے اس فطری قانون اور الہی نظام سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں آج اوریا ایک تحریک بن چکا ہے اور " اوریانیت " ایک علامت .
اشتہارات کی اس اشتہاری دنیا میں رہنے والے لوگوں کا جو استحصال یہ اشتہاری کرتے ہیں عموم اکثر ان چالوں سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں .
٢٠١٢ میں بننے والی رشین امیرکن مووی اس راز کو افشا کرتی ہے کہ کس طرح  جدید بازارکاری اور اشتہاری نوٹنکیون سے لوگوں کو بے وقوف بنا کر انکا مال گھسیٹا جاتا ہے اس فلم میں ٢٠١٧ کا ماسکو دکھلایا گیا ہے کہ مختلف برانڈز نے لوگوں کی زندگیوں کو جکڑ رکھا ہے اور کس انداز میں انہیں اپنے مطابق چلایا جاتا ہے اس مووی کا نام ہے " برانڈڈ " اسکے ایک سین میں مارکیٹنگ  گرو کہتا ہے

Marketing Guru: How far are you willing to go... to change the world?

ایسا ہی جملہ   آپ کو ایک پے فون کمپنی کے اشتہار میں سننے کو ملا ہوگا ...

 Reshaping lives

یہ کون لوگ ہیں یہ کیوں ہماری زندگیوں کو تبدیل کر دینا چاہتے ہیں انکی انتہا کیا ہے انکے مقاصد کون سے ہیں لیکن کیا کیجئے ہماری آنکھیں بند اور زبانیں خاموش ہیں .

١٩٧٥ میں ایک انگریز صحافی Vance Packard  نے اپنے تحقیقی مقالے کو  "hidden persuaders,"  کا نام دیا ہے یہ وہ خفیہ محرکات ہیں کہ جو ہمیں مائل کرتے ہیں ان  چیزوں کی جانب کہ جن کی ہمارے مذہب ہمارے معاشرے اور ہماری عملی زندگی میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی .

معروف امریکی فلسفی پروفیسر نوم چومسکی لکھتے ہیں

 "The public relations industry, which essentially runs the elections, is applying certain principles to undermine democracy which are the same as the principles that applies to undermine markets. The last thing that business wants is markets in the sense of economic theory. Take a course in economics, they tell you a market is based on informed consumers making rational choices. Anyone who’s ever looked at a TV ad knows that’s not true. In fact if we had a market system an ad say for General Motors would be a brief statement of the characteristics of the products for next year. That’s not what you see. You see some movie actress or a football hero or somebody driving a car up a mountain or something like that. And that’s true of all advertising. The goal is to undermine markets by creating uninformed consumers who will make irrational choices and the business world spends huge efforts on that. The same is true when the same industry, the PR industry, turns to undermining democracy. It wants to construct elections in which uninformed voters will make irrational choices. It’s pretty reasonable and it’s so evident you can hardly miss it."

From lecture titled "The State-Corporate Complex :A Threat to Freedom and Survival," at The  University of Toronto, April 7, 2011

پروفیسر فرماتے ہیں کہ کس انداز میں حقائق سے نا بلد صارف کو گمراہ کیا جاتا ہے مارکیٹ سازی کیلئے اپنی چیز کی حقیقی خوبیوں اور خامیوں کو بتانے کی بجاۓ شخصیت پرست کی ماری کند ذہن دنیا کو ایک ہیرو دیا جاتا ہے کوئی فٹبال پلیر ، ہاکی کا کوئی کھلاڑی یا کوئی معروف ادکار کہ جو اپنی شخصیت بیچ کر آپکی چیز فروخت کرتا ہے ..

کیو موبائل کی سارا عورت کی نسوانیت بیچتی دکھائی دیتی ہے نسوانیت جنسی کشش کے معنوں میں نہیں بلکہ عورت سے ہمدردی کے عنصر کو کہ جو معاشرے میں موجود ہے استعمال کرنے کے معنوں میں پھر قومی جنوں کرکٹ کا استعمال اور نتیجہ کیا پندرہ سو سے پچیس ہزار تک کے موبائل کی فروخت ..

مگر کس قیمت پر

جی  ہاں مذہبی روایات اور معاشرتی اقدار کی قیمت پر ..

اور اس سب کے راستے میں کھڑی ایک قوت کہ جسے اوریانیت کا نام دے کر گرانے کی کوشش کی جاتی ہے .

لیکن اس سب سے ہٹ کر ہم سے وعدہ کیا گیا ہے خیر کثیر " کوثر " کا اور ہمارا دشمن ہی بے نام و نشان " ابتر " رہنے والا ہے .
ہاں مگر اس سے پہلے ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا

" کیا ہم سب اوریا ہیں  ... ؟

اور ہمارا جواب ہے ... !

جی ہاں ہم سب اوریا ہیں.


حسیب احمد حسیب