جمعرات، 19 جنوری، 2017

" سوشل میڈیا اور الحاد ".

چورنگی نامہ

" سوشل میڈیا اور الحاد ".

مارک الیوٹ زکربرگ  {Mark Elliot Zuckerberg} سنہ ١٩٨٤ وہائیٹ پلینز نیویورک میں ڈینٹسٹ اڈورڈ زکربرگ اور سائیکی ایٹرسٹ کیرن کیمپنر کے گھر پیدا ہونے والا بچہ .

کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ مستقبل میں سوشل میڈیا کی دنیا میں ایک انقلاب بپا کر دے گا
{51.4 billion USD}
کے اثاثوں کا مالک مارک ذکر برگ، دنیا کا معروف ترین سافٹویر ڈیولپر پیدائشی طور پر ایک یہودی خانوادے سے تعلق رکھتا ہے
{bar mitzvah}
 کے مذہبی عمل سے گزارنے والے نوجوان نے جب شعور سنبھالا تو خود کو " لا مذھب " کہلوانا پسند کیا .

{the initiation ceremony of a Jewish boy who has reached the age of 13 and is regarded as ready to observe religious precepts and eligible to take part in public worship}

گو کہ جب بھی کبھی بنی اسرائیلیوں نے اپنی نسبت کسی مذھب فکر یا عقیدے ہی جانب موڑی ہے اس میں دھوکہ ہی ہوا ہے چاہے سینٹ پال کا قبول مسیحیت ہو یا عبدللہ ابن سبا کا قبول اسلام یا پھر زکربرگ کا
" مذھب لادینیت " کا قبول کرنا .

عجیب لطیفہ یہ ہے کہ موصوف آجکل بدھ مت کی جانب راغب دکھائی دیتے ہیں حضرت فرماتے ہیں کہ

{Zuckerberg is visiting Asia to promote Facebook — though the network is blocked in China. Zuckerberg’s wife, Priscilla Chan, is Buddhist. In his post, Zuckerberg wrote that he offered a prayer for his wife at the pagoda, and said that he’s interested in learning more about Buddhism.}

ویسے بیگم کے خوف سے خود کو بدھسٹ کہلوانا بھی کوئی برا سودا نہیں ہے گھر کا اور ذہن کا سکون آخر کسے درکار نہیں .

اگر غور کیا جاۓ تو مذھب بدھ ازم بھی لادینیت سے اتنا دور نہیں کیونکہ اس مذھب میں تصور خدا موجود نہیں ہے اور اس کی تعلیمات دراصل بودھ کی تعلیمات ہیں ناکہ وحی الہی .

سابقہ یہودی موجودہ " لادین " اور مائل بہ بودھ ازم مارک ذکر برگ کے سوشل میڈیا جن " کتاب رخ " {facebook} پر کس انداز میں لادینیت کو پروموٹ کیا جاتا ہے اسکی مثال ریبیکا سواستیو {Rebecca Savastio} کے کالم .

" Social Media Growing Atheism by the Millions "





میں ملتی ہے اپنے کالم میں موصوفہ ایک جگہ لکھتی ہیں .

" Even more notable than the jump in atheism is the increase in people who say they simply don’t adhere to any religion. A recent PEW study found that 20% of Americans now say they are “unaffiliated” with any specific faith or set of religious practices. 20% of Americans is a huge number: over 63 million people. Out of that number, roughly one third are atheist or agnostic. That’s over 21 million non-believing “heathens.”

Such a large number has undoubtedly been helped along by social media, especially Facebook. A search of the words “atheist,” “agnostic,” “skeptic,” “God” and “secular,” reveals close to 100 atheistic Facebook pages ranging in membership from a few thousand to a quarter million people. "

ذیل میں کچھ معروف سوشل میڈیا گروپس کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جنکا مقصود الحاد و دہریت کو پھیلانا ہے ،

1. The ExposingReligion Network
https://www.facebook.com/Top10AtheistPages/

2. We Fucking Love Atheism
https://www.facebook.com/WFLAtheism

3. Religion Poisons Everything
http://www.facebook.com/GodIsNotGreat

4. Atheist Republic
https://www.facebook.com/AtheistRepublic

5. Hammer the Gods
https://www.facebook.com/HammerTheGods

6. The Thinking Atheist
http://www.facebook.com/pages/The-Thinking-Atheist/302201620116

7. United Atheists of America
http://www.facebook.com/WEAREUAA

8. Working class atheists
http://www.facebook.com/workingclassatheists

9. The Atheist's Bible Commentary
http://www.facebook.com/TABCP

10. Atheism
http://www.facebook.com/AtheismFTW

ان تمام الحادی پیجز کے صارفین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور خاص طور پر انکا ٹارگیٹ نوجوان طبقہ ہے کہ جسے یہ دین سے برگشتہ کر کے لا دین بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں .

دوسری جانب اردو بولنے والے طبقے کیلئے زبان و بیان اور ادب کی آڑ میں متعدد  ایسے گروپس تشکیل دیے گۓ کہ جنکا مقصود پردوں میں لپٹ کر لا دینیت کی ترویج تھا .

رفیع رضا صاحب ایک جانے مانے ادیب ہیں کہ جو طویل عرصے سے الحاد و دہریت کیلیے کام کر رہے ہیں لوگ انکی ادبی حیثیت سے متاثر ہوکر انکی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور انکے لادینیت کا زہر لے اٹھتے ہیں .


http://www.rafiraza.com/

فری تھنکرز کے نام سے طویل عرصے تک ان صاحب کی زیر نگرانی ایک گروپ چلایا جاتا رہا کہ جسے دل آزار مواد کی وجہ سے متعدد بار رپورٹ بھی کیا گیا لیکن کہ مختلف نام بدل بدل کر سامنے آتے رہے .

ایک دوسرے صاحب کہ جو خود کو علامہ ایاز نظامی کہتے ہیں اور بقول انکے یہ سابقہ عالم دین اور موجودہ ملحد ہیں سوشل میڈیا اور خاص کر کتاب رخ پر انتہائی متحرک ہیں انکی برقی صفحہ " جرت تحقیق " کے نام سے زہر اگلتا ہے .

https://realisticapproach.org/author/nizami/

قریب کے دنوں میں ایک خاتون نسیم کوثر صاحبہ کا غلغلہ بھی اٹھا تھا کہ جنہوں نبی کریم صل علیہ وسلم کی شان میں کھلی گستاخی کی اور اسکیلئے اسی میڈیم کو استعمال کیا .

دوسری جانب بڑی دیر کے بعد جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس جانب متوجہ ہوا کہ اس الحادی فکر اور گروہ کا تعاقب کیا جاۓ

ایک گروپ

" آپریشن ارتقاء فہم و دانش " کے نام سے متحرک ہے  کہ جسکے ایک لاکھ



صارفین ہیں تو دوسری جانب ایک برقی صفحہ " الحاد جدید کا علمی محکمہ "



کے نام سے مصروف عمل ہے .

محترم دوست جناب زوہیب زیبی صاحب اپنے مضمون

 " سوشل میڈیا پر الحاد کے خلاف گزرے پانچ سال "


میں لکھتے ہیں


" ان فتنہ پرور لوگوں کے بدنیت ہونے کی تیسری علامت ان کا خود کو سابق مسلمان کہہ کر عام مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے۔ یہ مسلمانوں والے نام کی آئی ڈی بناتے، جب اعتراض ہوتا کہ’’ آپ لوگ غیر مسلم ہو کر مسلمان کیوں بن رہے ہیں؟‘‘ تو ان کا جواب ہوتا کہ ’’ہم پیدائشی مسلمان ہیں، البتہ بعد میں تحقیق کرکے اسلام کو غلط پایا اور پھر اسلام و خدا کو چھوڑ دیا‘‘۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے آٹے میں نمک کے برابر بھی ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو حقیقتاً پیدائشی مسلمان تو دور کی بات ہے، کبھی مسلمان بھی رہے ہوں۔ وگرنہ ہم نے تو یہی دیکھا کہ جب کبھی ایسے پیدائشی مسلمانوں سے بطور امتحان چھوٹے موٹے اسلامی سوال کیے جاتے تو یہ لوگ جواب دینے میں ہمیشہ نہ صرف ناکام رہے بلکہ بہانے بھی بنائے کہ ہم کوئی بہت اچھے مسلمان نہیں تھے وغیرہ۔ مثلاً ایک فیس بکی ملحد سے پوچھا کہ ’’تہجد کی کتنی رکعات ہوتی ہیں؟‘‘ تو جواب ملا ’’ہمارے تو کبھی فرائض بھی پورے نہیں ہوئے، تہجد کا کیا معلوم!‘‘ ایک سے انتہائی بچگانہ سوال پوچھا کہ ’’ قرآن کی کتنی منزلیں ہیں؟‘‘ تو جواب دیا ’’میں بہت زیادہ باعلم مسلمان نہیں تھا، میں کیا جانوں‘‘۔ ذرا غور تو کیجیے کہ جو شخص ’’اپنی تحقیق‘‘ کے مطابق قرآن میں عربی کی غلطیاں اور سائنسی خامیاں بیان کر رہا ہے، وہ یہ نہیں جانتا کہ قرآن میں منزلیں کتنی ہوتی ہیں۔ ایک صاحب نے تو حد ہی کردی، نام تھا ان کا ’یزید حسین‘۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ حافظ قرآن تھے اور تراویح بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اگر تراویح کی ایک رکعت نکل جائے تو اسے کیسے پورا کرتے ہیں؟ تو موصوف کا انتہائی مضحکہ خیز جواب تھا ’’چونکہ اسلام چھوڑے کئی سال ہوگئے ہیں، اس لیے اب میں بھول چکا ہوں‘‘۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ایک شخص انڈیا کا پیدائشی مسلمان ہو کر انڈیا میں ہی درس نظامی یعنی 8 سالہ عالم دین کورس کرنے کا مدعی ہو لیکن اسے اردو زبان نہ آئے؟ جبکہ اس کی آئی ڈی کا نام تھا ’’منصور حلّاج‘‘۔ جب مکمل تحقیق کے بعد اسلام چھوڑا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ انتہائی سادہ و بچگانہ اسلامی باتیں بھی نہ جانتے ہوں " ؟.

 گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسّلہ انتہائی گھمبیرتا اختیار کرتا جا رہا ہے


" Attacks by Islamic extremists in Bangladesh "

کے نام سے تلاش کیجئے سنہ ٢٠١٣ سے صرف بنگلہ دیش میں متعدد سوشل میڈیا لادینوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جسکی تفصیل اس وکیپیڈیا کالم میں پڑھی جا سکتی ہے .





انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا روایتی دینی طبقہ کہ جو اب انتہائی بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر موجود ہے اس طوفان کے آگے پل باندھنے سے قاصر تو کجا اس میدان سے بھی ناواقف ہے .

مدارس میں تقابل ادیان کے نام پر " مسالک کا تقابل "
اور رد عقائد باطلہ کے نام پر " مخالف مسلک کے اعتقادات کا رد "
تک محدود مواد پڑھایا جاتا ہے .

مسیحیت یا ہندو مت کے تقابل سے متلعق مواد شاید جدید جامعات میں ضرور میسر آ خالص دینی جماعت میں شاید چند ایک میں ہی اس سے متعلق مواد موجود ہو .

دوسری جانب الحاد کے حوالے سے ہمارا دامن بلکل خالی ہے اور سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر ہونے والا کام خالص ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ جو پختہ دینی مراجع سے اتنے ہی دور ہیں کہ جتنے خالص دینی طبقات جدید مراجع سے ہیں  اگر اس اہم ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوۓ کام نہ کیا گیا تو کل ہمارا وہی حال ہوگا کہ جسکی جانب شاعر نے کیا خوب اشارہ کیا ہے .


اٹھو ، وگرنہ حشر بپا ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا



حسیب احمد حسیب