منگل، 29 اپریل، 2014

و ے " لا " چورنگیا

و ے " لا " چورنگیا
پنجابی کا " وے " معروف ہے یہ ایک ایسا صوتی تاثر ہے ہے جو پکارنے والے کی آواز کے ساتھ اپنے معانی تبدیل کرتا ہے جیسے
رج گلاں نہ کیتیاں میں ماھی تیرے نال وے
دیویں نہ وچھوڑا مینوں، کریں نہ بے حال وے
پیندے نیں وچھوڑے جدوں، دل ٹٹ جاندے
اکھیاں دے ہنجو ڈھلے، ہتھ نہیوں آندے
چھڈ کے نہ جاویں ڈولا، لے جاویں نال وے
یا
پچھے پچھے اوندا میری چال وے نا آئی
چیرے والیا ویکھدا آئی وے میرا لونگ گواچا
نگاہ ماردا آئی وے میرا لونگ گواچا
ویسے پچھلے دنوں موٹر وے کا غلغلہ بھی رہا ہم کراچی والے راہ تکتے رہ گۓ مگر موٹر وے یہاں تک نہ آ سکی .....
سو جیسے پنجابی کا " وے " عجیب ہے
ایسے ہی عربی کا " لا " بھی عجیب ہے
اس لا سے اثبات کے در بھی وا ہوتے ہیں اور یہ لا ہر اثبات کی نفی بھی کر سکتا ہے اور اگر کوئی زیادہ گلے پڑے تو
لاحول ولا قوه الله بالله
کہ کر اٹھ آنا بھی کافی کار آمد ثابت ہوتا ہے
اب اگر پنجابی کا وے اور عربی کا لا باہم متصل ہو جاویں تو بنتا ہے
ویلا
اس بیچارے ویلے پر کبھی اچھا ویلہ نہیں آتا
ویلے کی تو نماز کا بھی اعتبار نہیں
وہ کیا کہتے ہیں
" ویلے دی نماز، کویلے دیاں ٹکراں "
اب چورنگی کی سنیے
ایک ایسی جگہ جہاں چہار اطراف سے لوگ نمور دار ہوکر گزر جائیں اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ
درد کچھ معلوم ہے يہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے
اب چونکہ آپ لوگ " وے "
لا
ویلے اور چورنگی کے تعلق سے کماحقہ واقف ہو چکے ہونگے سو
چورنگی کے ویلے کی کہانی سنیے....
یہ چورنگی کا ویلا ہے
اور اس ویلے کا کوئی حال نہیں
بلکہ اسکا کوئی ماضی و مستقبل بھی نہیں
یہ رہتا زمین پر ہے لیکن باتیں آسمان کی کرتا ہے
سارے زمانے کے غم اسنے اپنے سر لے رکھے ہیں اور خود کسی چیز کا غم نہیں کرتا
دوسروں کے معاملات میں تانگ پھنسانا اور ناک گھسانا اسکا محبوب مشغلہ
یہ کسی کی بات نہیں سنتا اور اگر سنتا ہے تو سمجھتا نہیں اور اگر غلطی سے سمجھ جاۓ
تو ہمیشہ غلط سمجھتا ہے
دوسروں کو .......
اسکی شخصیت بہت اہم ہے اسلئے اسے کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں
اسکا ویلا پن ہی اسکی مصروفیت ہے اور یہ اپنی مصروفیات کے ویلے میں ہمیشہ ویلا بیٹھا نظر آۓ گا
اسکی زندگی چورنگی ہے
اور اسکی فطرت دو رنگی ہے
لیکن مزاج کا یہ پورا فرنگی ہے
یہ گوشت کچہ کھانا پسند کرتا ہے
اور دال گلی ہوئی
لیکن اسکی دال کبھی اور کہیں نہیں گلتی
لوگوں کی دال میں کچھ کالا ہوتا ہے اور اسکی پوری دال ہی کالی ہے
یہ چورنگی کا چوکیدار ہے
اور مسلسل بیمار ہے
لیکن پورا فنکار ہے
امید ہے چورنگی کے باسی اسے پہچان جائینگے
تو جو پہچان گۓ ہیں
وہ جان لیں
وہ بھی نہیں پہچانے
اور جو نہیں پہچانے
وہ جانتے ضرور ہونگے
مگر جو جانتے ہیں
وہ کبھی بھی نہیں کہینگے
کہ ہم پہچانتے ہیں
کیا آپ پہچانے ............؟
حسیب احمد حسیب

لا پتہ انسانیت !


غم دوراں بھلانے کو غم جاناں کو روتے ہیں


جمعہ، 25 اپریل، 2014

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا !

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا !


گزشتہ دنوں جناب وسعت الله خان  صاحب نے اپنی  فکری الجھنیں ایک کالم میں رقم  کی تھیں  انکے اٹھاۓ گۓ   شبہات کا ازالہ کرنے کی کوشش  کی ہے  تاکہ جہاں تک بات پہنچ سکے وہاں تک لوگ ان وساوس سے محفوظ  رہ سکیں 

سوالات اٹھانا بہت آسان ہے لیکن سوالات کے جواب سننا اور پھر چاہے وہ ہماری نفسانی خواہشات سے میل نہ بھی کھاتے ہوں انکو قبول کرنا وسعت قلبی کا کام ہے ہم امید کرتے ہیں کے الله وسعت الله خان صاحب کو وسعت قلبی سے نوازے تاکہ وہ معاملے کو اسکے وسیع تناظر میں سمجھ سکیں ........

محترم نے جو سوالات کا پینڈورا بوکس کھولا ہے وہ اپنے الگ الگ عنوانات کے تحت مکمل جواب کے متقاضی ہیں ہر سوال کا تعلق مختلف امور سے ہے اور ہر امر کی الگ الگ اصل و فرع ہیں اگر مضمون کو الٹا پڑھا جاوے تو اصل مقصود سامنے آتا ہے 

کیا اجتہاد کا در آج بھی کھلا ہے ؟ اگر ہاں تو کون اجتہاد کرنے کا اہل ہے اور حدود و قیود کیا ہیں ؟۔

 اس سے پہلے کہ اس سوال کا  جواب دیا جاۓ کہ اجتہاد کا در کھلا ہے یا بند اس بات کا واضح ہونا بہت ضروری ہے کے یہ معلوم ہو کہ موصوف اجتہاد کن امور میں چاہتے ہیں ...

دین تین بنیادوں پر کھڑا ہے 
١ عقائد 
٢ عبادات
٣ معاملات 

عقائد میں اجتہاد کا سوال ایسا ہی ہے جیسے دین کو نۓ سرے سے تشکیل دینے کی بات ہو کیونکہ یہ منصوص من الله ہوتے ہیں 
عبادات چونکہ سنت رسول علیہ سلام سے ثابت شدہ ہیں اسلئے ان میں اجتہاد کی گنجائش موجود نہیں ہے

 اب بات آتی ہے معاملات کی .....

معاملات میں امور تجارت ، نکاح و طلاق ، تجارت ، عدالت و سیاست شرعی وغیرہ شامل ہیں 
یہاں بھی اصول واضح ہے جو بھی معاملات منصوص یعنی قرآن و سنت سے ثابت شدہ ہوں ان میں کسی اجتہاد کی گنجائش موجود نہیں ......
جیسے حدود الله یا پھر امور تجارت وغیرہ 
اب کسی بھی صورت کوئی اجتہاد سود کو حلال قرار نہیں دلا سکتا
 رہا یہ سوال کہ اجتہاد کون کر سکتا ہے .......
یہ عجیب بات ہے 
کسی  بھی عمارت کا نقشہ کون ڈیزائن کر سکتا ہے ( ایک مستند مہندس )
کوئی بھی جدید طبی تحقیق کون پیش کر سکتا ہے ( ایک طبیب )
کوئی نیا سافٹویر کون بنا سکتا ہے ( سوفٹویر انجینیر )

اور اتنا بھی کافی نہیں بلکہ جب تک ماہرین فن ان کو پرکھ نہ لیں یہ فنکشنل نہیں ہو سکتے 
یہ معاملہ دینی اجتہاد کا بھی ہے
 اجتہاد کی حدود و قیود کیا ہیں .....؟
قرآن و سنت اور امت کے اہل علم میں تلقی بی القبول

 دوسرا سب سے اہم سوال جو مضمون نگار نے اٹھایا وہ نکاح کی عمر سے متعلق ہے .........

پہلی بات تو یہ کہ نکاح کیلئے بالغ ہونا کوئی لازمی شرط نہیں ہے 

ملاحظہ کیجئے 
وَاللَّائِيْ يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآئِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَّاللَّائِيْ لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ أَمْرِهٖ يُسْرًا(۴) الطلاق .

اور جو (پیرانہ سالی کی وجہ سے) حیض سے ناامید ہو گئی ہوں تمہاری مطلقہ بیبیوں میں سے اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے، اور (کم سنی کی وجہ سے) جنہیں حیض نہیں آیا۔ اور حمل والیوں کی عدت ان کے وضع حمل (بچہ جننے تک) ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا تو وہ اس کے لئے اس کے کام میں آسانی کر دے گا۔(۴)

معروف روایت ہے کہ الله کے رسول علیہ سلام کا نکاح امی عائشہ رض سے چھے سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو سال کی عمر میں 

اب ایک ایسا معاملہ جس پر شریعت نے کوئی پابندی نہیں لگائی ہم کیسے لگا سکتے ہیں

 اصل میں ان چیزوں کو دین نے معاشروں کے عرف و رواج پر چھوڑا ہے ہر جگہ الگ الگ اصول الگ حالات و واقعات کے تحت موجود ہونگے ........
کہیں خاندانی نظام ہے تو کہیں قبائلی نظام 
اسی طرح علاقائی و جغرافیائی امور بھی مد نظر رکھے جاتے ہیں 
دین معاشرے کے عرف کے خلاف نہیں جاتا جب تک کہ وہ دین سے متصادم نہ ہو
 یہ مضمون چونکہ ایک مفروضے کے ماتحت لکھا گیا ہے اسلئے سوالات بھی اسی انداز میں تشکیل دیے گۓ ہیں کہ ایک مقدمہ قائم کیا جا سکے ......

ہمارے ہاں جو گھرانے ایک جائنٹ فیملی سسٹم میں رہ رہے ہیں یا برادری سسٹم کا حصہ ہیں وہاں موصوف کے تمام سوالات دم توڑتے نظر آتے ہیں .....
طبی اعتبار سے اس جدید سائنسی دور میں انسانی عمر کی میزان گھٹتی کی طرف ہے یعنی پہلے اگر ایک شخص کی اوسط عمر٧٥ سے ٨٠ تھی تو اب گھٹ کر ٥٥ سے ٦٠ رہ گئی ہے ....
اسی طرح خواتین کی بارآوری اور مردوں کی تخم ریزی کی صلاحیت کی عمر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے عام مشاہدہ ہے کہ زیادہ عمر میں شادیاں کرنے والوں کی اولاد یا تو کم ہوتی ہے یا ہوتی ہی نہیں .....
اکثر سفید بالوں والے افراد جب اپنے بچوں کے ساتھ محافل میں جاتے ہیں تو انکے دادا یا نانا سمجھے جاتے ہیں ..........
خاندانی یا برادری سسٹم میں رہنے والوں کا مسلہ مالی پریشانی نہیں ہوتا سو کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے اور باپ کے جوان ہوتے بچہ بھی جوان ہو جاتا ہے ایسے لوگ اکثر اپنی اگلی دو یا تین نسلیں دیکھ پاتے ہیں .....
 آگے حضرت نے نکاح ثانی کی قباحتیں بیان کی ہیں اور متعہ کا جواز تلاشنے کی بات کی ہے ......

متعہ کی حرمت اہل سنت کے نزدیک ایک اتفاقی امر ہے سو اس سے متعلق گفتگو کی شروعات کا مقصود فرقہ واریت کو ہوا دینے کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا جب اہل سنت کے نزدیک الله کے رسول علیہ سلام نے اسکی ممانعت فرما دی تو پھر اسکا دروازہ کھولنے کی بات سمجھ نہیں آتی 
شیعہ حضرات اپنے دائرہ کار میں اس پر عامل ہیں کیونکہ یہ انکے اصول کے مطابق جائز ہے ایسے مباحث کو اٹھانے کا مقصود معاشروں میں انتشار پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے

 جہاں تک بات ہے نکاح ثانی کی تو اسکی اجازت شریعت نے دی ہے سو کوئی بھی قانون اگر اسکی روک کرے گا تو وہ خلاف شریعت ہوگا 

ایک مثال تاریخ اسلامی سے پیش کرتا ہوں
حضرت عمر فاروق رض کے دور خلافت میں بطور خلیفہ آپ نے ایک حکم صادر کیا کہ اپ شادیوں میں مہر زیادہ رکھنے پر پابندی ہوگی تاکہ نکاح میں آسانی پیدہ کی جا سکے
انکی دلیل تھی
… ”حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: دیکھو! عورتوں کے مہر زیادہ نہ بڑھایا کرو، کیونکہ اگر یہ دُنیا میں عزّت کا موجب اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقویٰ کی چیز ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سے زیادہ اس کے مستحق تھے۔ مجھے علم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات میں سے کسی سے بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر پر نکاح کیا ہو، یا اپنی صاحب زادیوں میں سے کسی کا نکاح اس سے زیادہ مہر پر کیا ہو۔“ (مشکوٰة شریف)
اسوقت ایک خاتوں صحابیہ رض اعتراض وارد کیا کہ جس چیز پر الله کے رسول علیہ سلام نے پابندی نہیں لگائی اور خواتین کو زیادہ مہر طلب کرنے کا حق دیا ہے تو آپ اسے کیسے روک سکتے ہیں سو حضرت عمر رض کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا
یہاں دوسری شادی کا وہ اختیار جو شریعت نے دیا ہے اسے کوئی بھی ملکی قانون کیسے روک سکتا ہے
اب ملاحظہ کیا اسلام کی عدل کی شرط سو کوئی بھی یہ کیسے چیک کر سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی ہونے والی بیوی سے عدل نہیں کرے گا کیا کوئی ایسا آلہ ایجاد ہو چکا ہے جو کسی کو قبل از وقت
یہ بتا دے کہ یہ شخص عادل نہیں ہوگا
لازمی بات ہے یہ چیز نا ممکنات میں سے ہے سو عدل کرنا لازم ہے لیکی اس بنیاد پر دوسری شادی پر ہی پابندی عائد کر دینا کہ یہ عدل نہیں کرے گا غیر منطقی اور خلاف عقل ہے کیونکہ ایسا کوئی قرینہ ہی موجود نہیں جو آپ کو یہ بتا سکے کہ فلاں شخص دوسری شادی کے بعد غیر منصف ہو جاوے گا
اور پھر اگر عدل ہی شرط ٹھہرا تو ایک کثیر تعداد پہلی بیوی کے ساتھ بھی عدل نہیں کر پاتی تو کیا ان لوگوں پر سرے سے شادی پر ہی پابندی لگا دینی چاہئیے اور اگر ایسا ہو تو معاشرے پر جنسی آسودگی حاصل کرنے والے اس جائز میڈیم پر پابندی سے کون کون سے ناجائز راستے کھل جائینگے یہ کسی بھی صاحب نظر اور صاحب بصیرت کیلئے جان لینا مشکل نہیں
سو جس علت کی بنیاد پر دوسری شادی پر پابندی ہے وہی علت پہلی شادی میں بھی کار فرما ہوتی ہے

یہاں شاید اس مسلے کو اٹھانے کا مقصود بھی یہ نظر آتا ہے کہ جنسی بے راہروی کے در وا کیے جاویں

 الله کے رسول علیہ سلام اصحاب رض اور سلف میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا عمومی رواج تھا ان میں ہر طرح کی مالی حالت اور معاشرتی طبقے کے لوگ موجود تھے امیر غریب تمام اور ایک سے زیادہ شادیوں میں کبھی عدل کی بنیاد پر پہلی بیوی سے اجازت کی شق عائد نہیں کی گئی
ایک عورت قانون عدل کی بنیاد پر اپنے حقوق کا مطالبہ تو کر سکتی ہے لیکن صرف اس ڈر سے کہ دوسری شادی کے بعد شوہر عدل نہیں کرے گا پہلی بیوی سے اجازت کا کوئی جواز نہیں کیوں کہ شوہر دوسری شادی نہ کرنے کی صورت میں بھی غیر عادل ہو سکتا ہے ……
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام حسن رض پے درپے شادیاں کرتے اور طلاق دیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ اس حد تک جاری رہا کہ کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کوفہ کے عوام سے فرمایا: اے اہل کوفہ! اپنے بیٹیاں میرے بیٹے حسن سے مت بیاہو کیونکہ وہ بہت زیادہ طلاق دینے والے ہیں!
قبیلۂ ہمدان کے ایک فرد نے اٹھ کر کہا: ہم ان کو بیٹیاں دیں گے چاہے انہیں رکھ لیں چاہیں انہيں طلاق دیں۔ (كافى، ج 6، ص 56)

 جہاں تک بات ہے زنا بی الجبر پر حد نافذ کرنے کا سوال یا کسی بھی جرم پر حدود کا نفاز ......
تو جان لیجئے حدود وہ سزائیں ہیں جو انتہائی شدید ہیں تاکہ لوگوں کو عبرت ہو اسی لیے اسلام نے انکے نفاز کا نظام انتہائی مشکل رکھا ہے ......
دور رسول علیہ سلام اور خلافت راشدہ میں حدود کے نفاز کی چند ایک مثالیں ہی مل سکیںگی ........

ایک مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ اگر حد نافذ نہ ہو سکے تو مجرم کو چھوٹ ہے جبکہ ایسا نہیں اسلام میں تعزیر کی گنجائش موجود ہے اور ڈی این اے کی شہادت پر تعزیر کا نفاذ ہو سکتا ہے ......

ڈی این اے کی شہادت میں چند احتمالات موجود ہیں 
١ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ زنا بالرضا ہے یا بالجبر اسکا کوئی طریقہ سائنس کے پاس موجود نہیں 
٢ اگر ڈی این اے سیمپل تبدیل کر دیا جاۓ تو کسی بے گناہ کے سزا پانے کا قوی احتمال موجود ہے 
٣ پاکستانی معاشرے میں فرینزک لیبز کی عدم دستیابی اور رپورٹ کے پیسے لیکر تبدیل کیے جانے کا بھی امکان ہو سکتا ہے


 مسلہ اصل میں یہ ہے کہ اسطرح کے سوالات اٹھانے کا مقصود تحصیل علم نہیں بلکہ لوگوں کے ذہن میں انتشار پیدہ کرنا ہے تاکہ دین بیزاری کا جرثومہ انکے قلوب میں ڈالا جا سکے اور اس نقار خانے میں صرف سوالات اٹھانے والوں کی بات تو سنی جاتی ہے جوابات نہیں سنے جاتے .........

شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا


حسیب احمد حسیب 

بدھ، 16 اپریل، 2014

اور پانی آ گیا !

اور پانی آ گیا !


ہماری قوم کو پانی کی وقعت کا اس وقت اندازہ ہوتا ہے جب پانی کی قلت سے واسطہ پڑے خوب مزے اڑائیں روز دو بار چھے چھے بالٹیوں سے نہائیں اور پڑوس کے صحرا میں لوگ پیاس سے مرتے چلے جائیں مگر آپ کو کیا ہاں دو دن پانی غائب رہے تو پھر احساس جاگتا ہے اسراف سے متعلق روایات یاد آتی ہیں اور جیسے ہی پانی کی فراہمی شروع ہوتی ہے پھر وہی معمول ......
کبھی تو پانی کی یہ قلت حقیقی ہوتی ہے اور کبھی غیر حقیقی تاکہ منرل واٹر اور پانی کے ٹینکر والوں کا بجنس بھی چلتا رہے ورنہ کہیں واٹر بورڈ والوں کا ناطقہ بند نہ ہو جاوے یہاں نفس " ناطقہ " کا تذکرہ ہو رہا ہے .

ہمارے کراچی میں بھی پانی کی کوئی کل سیدھی نہیں سب الٹی ہی ہیں اکثر علاقوں میں اس شیطان کی آنت کی طرح پھیلے شہر میں پانی کی لائنیں ہی موجود نہیں سو دھرتی ماں کی چھاتی سے آب حیات کشید کرنا پڑتا ہے اور یہ آب حیات شیریں نہیں تلخ ہوتا ہے ....
اس کھاری پانی کے کئی مفید اثرات ہیں سب سے بڑھ کر قاتل خشکی ہے ٹنڈ نمودار ہونے میں معاون ہے اور کم استعمال کیا جاتا ہے ......
ویسے یہ شیطان کی آنت بھی بڑی مقدس ہے بڑھتی ہی جا رہی ہے جیسے پانچ دریاؤں کی سر زمین کا تقدس اور سندھ کے آقاؤں کے مقابر کا تقدس کوئی بھی انتظامی اعتبار سے تقسیم کرنے کو تیار نہیں ہاں ملی اعتبار سے سب منقسم ہیں ....

بات ہو رہی تھی پانی کی یہ پانی بھی عجیب چیز ہے کبھی آنکھوں میں آ جاتا ہے تو کبھی دیدوں سے مر جاتا ہے شرم ہو تو چلو بھر کافی ہے ورنہ سمندر بھی کم ہے اور کبھی کبھی پتے میں پانی بھر بھی آتا ہے اور پتہ مارنا بھی پڑ جاتا ہے
ویسے امید تو نہیں کہ قلندر کی باتیں کسی کو پانی پانی کر سکیں
کیونکہ نہ تن اپنا نہ من

ہمارے واٹر بورڈ والے بھی کرامتی لوگ ہیں گٹر کا بدبو دار پانی بھی آپ کو تقدس کے ساتھ پینے پر مجبور کر دیں کہ جان ایک مقدس امانت ہے اور جان تو بچانی ہے اور آجکل کون مقتل کو یہ کہتا ہوا جاتا ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے

یہاں تو لوگ آتی جاتی کو جان کہنے کے قائل ہیں
ویسے ہم نے تو یہ بھی سنا ہے ووٹ ایک مقدس امانت ہے
جو ٹکے ٹکے پر بکتا ہے
اور ہم نے تو آدھا ملک ٹکے ٹکے میں بیچ دیا

یہ پانی بھی نا ! اپنے ساتھ بہاۓ لیے چلا جاتا ہے
ہمارے ہاں زمین دوز پانی کے ٹینک رکھنے کا رواج ہے اور اس ذخیرہ اندوزی کو ہر کوئی جائز سمجھتا ہے
پھر ایک ٹنکی چھتوں پر بھی ہوتی ہے جو کسی بچے کی ناک
اور کسی محبوبہ کی آنکھ کی طرح بہتی رہتی ہے
اکثر بے چارے مظلوم و مقہور شوہروں کو بھی اپنی بیویوں سے فریاد کرتے ہوے دیکھا گیا ہے
تم تو پیسہ پانی کی طرح بہاتی ہو
اب کیا کریں یہ انکے ہاتھ کا میل جو ٹھہرا
گو آپ کا خون پسینہ اس میں شامل ہو

برا ہو اس لن ترانی کی عادت کا
چلو پانی آگیا
نہانے کو چلیں

وہ کیا کہا تھا جون نے

عشق پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے
کیاری میں پانی ٹھہرا ہے دیواروں پر کائی ہے

حسیب احمد حسیب

منگل، 15 اپریل، 2014

فیس بک کا لائک

فیس بک کا لائک 



جہاں فیس بک کی اور بہت سے باتیں عجیب ہیں وہیں اس لائک  کا معاملہ بھی عجائبات فیس بک میں سے ایک ہے ہم کہ سکتے ہیں

فیس بک رے فیس بک
تیرا کون سا لائک سیدھا ...
 مزید دیکھیں
فیس بک کا لائک 

جہاں فیس بک کی اور بہت سے باتیں عجیب ہیں وہیں اس لائک  کا معاملہ بھی عجائبات فیس بک میں سے ایک ہے ہم کہ سکتے ہیں

فیس بک رے فیس بک
تیرا کون سا لائک سیدھا 

ویسے جہاں پسند کیے جانے کی اجازت ہے وہیں ناپسندیدگی کی اجازت بھی ہونی چاہئیے ورنہ کہیں لوگ خاموشی نیم رضامندی والی شق نہ لاگو کر دیں
یعنی جتنے لوگوں نے لائک  نہیں کیا انکی طرف سے ناپسندیدہ اور لائک  نہ کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے
خدا ہی بہتر جانتا ہے

گفتگو ہو رہی تھی فیس بک لائک  آپشن کی

میں بیمار ہوں لائک 
میں اچھا ہوں لائک 
میں امتحان میں کامیاب ہو گیا لائک 
میں بری طرح فیل ہو گیا لائک 

انتہاء تو یہ ہے کہ انتقال پر ملال پر بھی لائکس    کی بھرمار دیکھنے کو ملتی ہے
کسی بیچارے کو دعا کروانی ہے پھر وہی 
کیا عجیب ڈرامہ ہے

یہ فیس بک لائک بھی ہماری زندگیوں پر عجیب انداز میں اثر انداز ہو رہا ہے اب رشتے داروں سے ملنے جانے کی ضرورت نہیں انکی پوسٹ پر لائک  کر دیجئے کافی ہے
کسی کو مبارک باد دینی ہے کون وقت صرف کرے ایک لائک  فیس بک پر کافی ہے

شاعر بے چارے نے خون جگر جلا کر شعر کہا اور آپ کی طرف سے آیا فقط ایک لائک 
یہ مجاہد اعظم کا بیان ہے یہ کسی داعی کی دعوت یہ کسی عالم کی علمی موشگافیاں اور یہ کسی صحافی کی تحقیقی رپورٹ
اور آپ کی طرف سے صرف ایک لائک 

بعض احباب تو پوسٹ پڑھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے بس اگر آپ انکے جاننے والے ہیں تو خیر ہے آپ کی اچھی بری ڈھنگی و بےڈھنگی ہر پوسٹ
آنکھیں بند کر کے لائک 

لیکن کبھی کبھی یہ لائکس مشکل میں بھی ڈال دیتے ہیں اگر میاں بیوی فیس بک پر بھی ایک دوسرے سے واقف ہوں والدین اپنے بچوں کی پوسٹس ملاحظہ کر رہے ہوں یا ایک لڑکی / لڑکے کو جل دینے والے ایک دوسرے کی نظروں میں آ جائیں
سو سنبھل کر جناب کہیں یہ لائک  گلے نہ پڑ جاوے

ویسے اس تحریر کو لائک  کرنا مت بھولیے گا

حسیب احمد حسیب

میرا وجود میرے ہم قدم نہیں ہوتا

غزل 

میرا وجود میرے ہم قدم نہیں ہوتا
میری حیات کا حاصل رقم نہیں ہوتا 

مزاج سنگ پرستی میں مبتلا لوگو
ہر ایک راہ کا پتھر صنم نہیں ہوتا

تمھارے شہر سے گزریں مگرخموشی سے 
اب اور دل پے یہ ہم سے ستم نہیں ہوتا 

نجانے کتنی بہاریں گزار دیں ہم نے
ملال تم سے بچھڑنے کا کم نہیں ہوتا

میں خود سےدورنکلنےکے فن سے واقف ہوں
میں اپنے آپ میں رہتا ہوں ضم نہیں ہوتا

سلوک عشق میں لازم تلاش ذات حسیب
بجز وجود پے طاری عدم نہیں ہوتا

حسیب احمد حسیب

جمعہ، 11 اپریل، 2014

دنگل سجنے کو ہے !

دنگل سجنے کو ہے !


سرکس میکسیمس (The Circus Maximus (Latin for greatest or largest circus, in Italian Circo Massimo) ایک عظیم کھیلوں کی آماجگاہ جو قدیم روم کی عجیب داستان سناتی ہے جب شاہوں کی عیاشی اور عوام کو مسحور کردینے والی فکری درماندگی نے اونچے محلات کی فصیلوں کو قائم رکھا ہوا تھا ....

لوڈی (Ludi (Latin plural) were public games held for the benefit and entertainment of the Roman people (populus Romanus). Ludi were held in conjunction with, or sometimes as the major feature of, Roman religious festivals, and were also presented as part of the cult of state.)

یہاں عوامی کھیل سجاۓ جاتے تھے میدان لگتے تھے عیاشی کا پورا سامان موجود ہوتا تھا یہ لوڈی ہے رومیوں کی عیاشیوں کی قدیم نشانی ........

یہ سرکس میکسیمس کیوں تھا اس لوڈی کے پیچھے کیا کہانی تھی آئیں مزید کھوجتے ہیں

" روٹی اور تماشہ " ("Bread and circuses")
جوینل (Decimus Iunius Iuvenalis, known in English as Juvenal) قدیم رومی شاعر جسنے بریڈ اور سرکس کی اصطلاح ایجاد کی جو لے پالک تھا ایک کم درجے کے رومی کا وہ کہانی سناتا ہے رومی استعمار کی
(Juvenal here makes reference to the Roman practice of providing free wheat to Roman citizens as well as costly circus games and other forms of entertainment as a means of gaining political power. The Annona (grain dole) was begun under the instigation of the popularis politician Gaius Sempronius Gracchus in 123 B.C.; it remained an object of political contention until it was taken under the control of the autocratic Roman emperors.)

عوام کو قابو رکھنے کے حربے
استعمار قدیم ہو یا جدید انکے حربے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں روشن چمکیلے توجہ کو کھینچ لینے والے اور انکی بنیادی ہوتی ہے پسی ہوئی غربت کے گاڑھے سرخ تازہ تازہ خون سے

یہ کولیسیم (Coliseum) ہے موت کا اکھاڑہ دو جنگجو آمنے سامنے ہیں تلواریں تانے اور ارد گرد اندھوں کا ہجوم ہے دونوں جانتے ہیں انھیں موت کا کھیل کھیلنا ہے تاکہ بھوکی عوام انکے بہتے ہوے خون کو دیکھ کر اپنا بہتا ہوا خون بھول جاوے

رومی کھیلوں کا سب سے شاندار مظاہرہ
(The Romans continued the practice, holding games roughly 10 to 12 times in an average year. Paid for by the emperor, the games were used to keep the poor and unemployed entertained and occupied. The emperor hoped to distract the poor from their poverty in the hopes that they would not revolt.)

اب آپ کو ملاتے ہیں رومی سرکس مکسیمس کی ایک جدید شکل سے

(Indian Premier League (IPL) is a Twenty20 cricket tournament where different franchise teams participate for the title. The tournament started in 2008 and from then it usually takes place every year in the months of April - June. It is currently supervised by BCCI Vice-President Ranjib Biswal, who serves as the League's Chairman and Commissioner.[1]

IPL is the most-watched Twenty20 cricket league in the world and also known for its commercial success. During the sixth IPL season (2013) its brand value was estimated to be around US$3.03 billion)

اس انڈین کا دنگل کا مقصود بھی کچھ مختلف تو نہیں گو یہاں لڑنے والے جنگجوؤں کا خون نہیں بہت بلکہ انکا بدن نیلام ہوتا ہے جی ہاں باقائدہ نیلام ہوتا ہے یہ نیلامی قدیم رومی غلاموں کی نیلامی سے کچھ الگ تو نہیں

اس سے پہلے کہ اسکو مزید کریدا جاۓ ذرا کروڑوں اربوں روپے کا دنگل سجانے والی اس قوم کی حالت بھی ملاحظہ کیجئے

عالمی اخبار مانیٹرنگ یونٹ
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے وضع کردہ پیمانے کے مطابق بھارت کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت میں زندگی گزارتی ہے جبکہ افریقہ کے علاوہ دنیا کی سب سے زیادہ غریب ایشیائی ممالک بھارت ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں رہتے ہیں ۔

عالمی ادارے نے انسانی ترقی پر اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں اکسٹھ کروڑ لوگ غریب ہیں۔ یہ تعداد بھارتی حکومت کے تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے۔بھارت میں یو این ڈی پی کی ڈائریکٹر کیٹلن وائزن کا کہنا ہے کہ انیس سو اسی اور دو ہزار گیارہ کے درمیان بھارت میں انسانی ترقی کے انڈیکس میں انسٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن ترقی کا فائدہ سب کو برابر نہ پہنچنے اور ماحولیات کی تباہی کی وجہ سے یہ رفتار متاثر ہوسکتی ہے۔

بھارت میں غریبوں کی اصل تعداد پر کافی عرصے سے بحث جاری ہے جس میں حال ہی میں اس وقت شدت پیدا ہوگئی تھی جب منصوبہ بندی کمیشن نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ جو لوگ بتیس روپے یومیہ خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں انتہائی غریب ہونے کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔خود حکومت کی تشکیل کردہ ٹینڈولکر کمیٹی نے پنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ملک کی آبادی کا سینتیس فیصد حصہ انتہائی غربت کے زمرے میں آتا ہے لیکن یو این ڈی پی نے غریبوں کا تعین کرنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ ٹینڈولکر کمیٹی اور منصوبہ بندی کمیشن کے طریقوں سے مختلف ہے۔

ادارے نے آمدنی کے علاوہ حفظان صحت، تعلیم اور معیار زندگی کو بھی مد نظر رکھا ہے اور اس بنیاد پر غربت کا کثیر جہتی اشاریہ تیار کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس انڈیکس سے ملک میں غربت کی ایک واضح تصویر ابھر کرسامنے آتی ہے جو صرف آمدنی کی بنیاد پر ممکن نہیں ہے۔اس اشاریہ کے مطابق دنیا کے دس سب سے غریب ممالک تو افریقہ میں ہیں لیکن اگر کسی ایک ملک میں کل تعداد کی بات کی جائے تو دنیا کے سب سے زیادہ غریب جنوب ایشیائی ممالک(بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش) میں رہتے ہیں۔

جی ہاں کروڑوں روپے کا دنگل سجانے والی یہ قوم دنیا کی غریب ترین قوموں میں سے ایک
اور یہ بیماری اس ایشیائی مگرمچھ تک محدود نہیں جسکو عالمی استعمار کی اشیرباد حاصل ہے بلکہ اس نے پورے ایشیاء کو اپنی لپیٹ میں لےلیا ہے

اور لطف کی بات یہ کے یہ نورا کشتیاں بھی کرپشن سے پاک نہیں

لیجئے انڈیا کی سب سے بڑی کھیلوں کی سائٹ کی زبانی سنیے

(The IPL is no stranger to controversy, but on May 16 it met arguably its biggest crisis when Delhi Police arrested three Rajasthan Royals players - Sreesanth, Ajit Chandila and Ankeet Chavan - soon after their match in Mumbai for spot-fixing. Eleven bookies were also arrested at that time, including one - Amit Singh - who was a former Royals player. Royals later suspended their players and the BCCI set up an inquiry, headed by its ACSU chief Ravi Sawani, into the allegations. The board also announced enhanced anti-corruption measures, including two more security personnel with each team. The arrests kicked off a nation-wide search and arrest of bookmakers - betting is illegal in India. One of those picked up in Mumbai was a small-time actor, Virender "Vindoo" Dara Singh, arrested on charges of links with bookmakers. His testimony led the police to arrest, on May 24, Meiyappan Gurunath, a top official of Chennai Super Kings and son-in-law of BCCI president N Srinivasan. Delhi Police eventually chargesheeted the players, among 39 persons, under sections of the Indian Penal Code and the Maharashtra Control of Organised Crime Act, while the BCCI handed out life bans to Sreesanth and Chavan after Sawani's probe found them guilty of fixing. )

تفصیل کیلئے ملاحظہ کریں
(http://www.espncricinfo.com/indian-premier-league-2013/content/story/636375.html)

اس عالمی سطح پر سجنے والی دنگل کیلئے خریدے جانے والے کھلاڑی کیا اپنے ملک سے مخلص رہتے ہیں یا انکا بکاؤ ہونا انکو اپنے ملک کی عزت بیچنے پر بھی مجبور کرتا ہے اس بات کا جان لینا اہل نظر کیلئے مشکل نہیں

حسیب احمد حسیب

اے ملحد اسلام !

اے ملحد اسلام !


گو احباب کو دھچکا ضرور لگے کا کہ یہ کیسا عنوان ہے لیکن کیا کیجئے معاملہ ہی کچھ ایسے ہے اب اصلی و خالص اسلام کیسے قبول کیا جاۓ اگر اصلی اسلام کی بات کی جاوے تو الحاد پسندوں کو اچھو لگ جاتا ہے اسلامی پر پھبتی کسنا کچھ مشکل تو نہیں بس کاٹ دار لہجے اور کچھ جھوٹ کی مہارت کے ساتھ آمیزش تو چاہئیے ہوتی ہے .........

آجکل ایسی شاعری کا خوب رواج ہے اور لوگوں کی طرف سے خوب پزیرائی بھی ملتی ہے ایسا ہی ایک شہکار پڑھا تھا 

جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے
ہمارا جبر یہ ہنس کر نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ انساں کو مذاہب سے پرکھنے کا مخالف ہے
یہ نفرت کے قبیلوں میں نہیں رہتا، یہ کافرہے

بہت بے شرم ہے یہ ماں جو مزدوری کو نکلی ہے
یہ بچہ بھوک اک دن کی نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ بادل ایک رستے پر نہیں چلتے یہ باغی ہیں
یہ دریا اس طرف کو کیوں نہیں بہتا، یہ کافر ہے

ہیں مشرک یہ ہوائیں روز یہ قبلہ بدلتی ہیں
گھنا جنگل انہیں کچھ بھی نہیں کہتا، یہ کافر ہے

یہ تتلی فاحشہ ہے پھول کے بستر پہ سوتی ہے
یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافرہے

شریعاً تو کسی کا گنگنانا بھی نہیں جائز
یہ بھنورا کیوں بھلا پھر چپ نہیں رہتا یہ کافر ہے

پھر خیال آیا کیوں نہ ہم بھی اس میدان میں کودیں اور طبع آزمائی کریں سو کود پڑے 

تمام ملحدان اسلام کی نظر 


آؤ کے لکھیں ہم نۓ جدت کے ترانے
ڈھم ڈھم ڈھما ڈھم ڈھم ڈھما ڈھم ڈھول بجانے 

ہر شخص مسلمان ہے کوئی نہیں کافر 
اب بند کرو ہر گھڑی دوزخ کے فسانے 

لازم ہے کسی کو نہ کہو تم کبھی کافر 
ان کو بھی بنایا ہے میرے پیارے خدا نے 

ڈنڈوت کرو رام کو بھگوان کو پوجو
گاتے چلو ہر دم یونہی چاہت کے ترانے 

اسلام کو آزاد کریں قید سے نکلیں
آؤ کے چلیں دین میں الحاد ملانے 

یا رب تو ذرا بھیج دے " اکبر " کو دوبارہ 
جدت کے تقاضوں پے نیا دین بنانے

ملا و فقیہ صوفی و زاہد سے نہ ملنا
پاگل ہیں یہ مجنون ہیں عاشق ہیں دیوانے 

اس دور میں اسلام کی تبلیغ کا سودا 
اے رند جواں مرد چلو جام لنڈھانے 

گو کفر کی یلغار ہے اسلام پے ہر روز 
ترکی کے لگا دے کوئی ممنوع فسانے 

فرقوں میں ہے اسلام یا اسلام میں فرقے
چھوڑو کے چلیں میکدے ایمان بچانے 

اے ملحد اسلام ذرا سیکھ لے تو بھی 
اسلام میں الحاد کے طوفان اٹھانے 

حسیب احمد حسیب
تصویر: ‏اے     ملحد    اسلام !

گو احباب کو دھچکا ضرور لگے کا کہ یہ کیسا عنوان ہے لیکن کیا کیجئے معاملہ ہی کچھ ایسے ہے اب اصلی و خالص اسلام کیسے قبول کیا جاۓ اگر اصلی اسلام کی بات کی جاوے تو الحاد پسندوں کو اچھو لگ جاتا ہے اسلامی پر پھبتی کسنا کچھ مشکل تو نہیں بس کاٹ دار لہجے اور کچھ جھوٹ کی مہارت کے ساتھ آمیزش تو چاہئیے ہوتی ہے .........

آجکل ایسی شاعری کا خوب  رواج ہے اور لوگوں کی طرف سے خوب پزیرائی بھی ملتی ہے ایسا ہی ایک شہکار پڑھا تھا 

جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے
ہمارا جبر یہ ہنس کر نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ انساں کو مذاہب سے پرکھنے کا مخالف ہے
یہ نفرت کے قبیلوں میں نہیں رہتا، یہ کافرہے

بہت بے شرم ہے یہ ماں جو مزدوری کو نکلی ہے
یہ بچہ بھوک اک دن کی نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ بادل ایک رستے پر نہیں چلتے یہ باغی ہیں
یہ دریا اس طرف کو کیوں نہیں بہتا، یہ کافر ہے

ہیں مشرک یہ ہوائیں روز یہ قبلہ بدلتی ہیں
گھنا جنگل انہیں کچھ بھی نہیں کہتا، یہ کافر ہے

یہ تتلی فاحشہ ہے پھول کے بستر پہ سوتی ہے
یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافرہے

شریعاً تو کسی کا گنگنانا بھی نہیں جائز
یہ بھنورا کیوں بھلا پھر چپ نہیں رہتا یہ کافر ہے

پھر خیال آیا کیوں نہ ہم بھی اس میدان میں کودیں اور طبع آزمائی کریں  سو کود پڑے 

 تمام ملحدان اسلام کی نظر 


آؤ     کے     لکھیں   ہم نۓ جدت کے ترانے
ڈھم ڈھم ڈھما ڈھم ڈھم ڈھما ڈھم   ڈھول بجانے    

ہر     شخص     مسلمان ہے کوئی نہیں   کافر 
اب     بند     کرو ہر گھڑی دوزخ کے فسانے  

لازم     ہے    کسی    کو نہ کہو تم کبھی  کافر 
ان    کو   بھی بنایا ہے میرے پیارے خدا  نے 

ڈنڈوت      کرو  رام    کو     بھگوان کو   پوجو
گاتے    چلو    ہر دم  یونہی چاہت  کے    ترانے   

اسلام        کو     آزاد      کریں  قید  سے  نکلیں
آؤ      کے    چلیں       دین    میں  الحاد   ملانے   

یا    رب      تو ذرا بھیج دے  " اکبر " کو دوبارہ 
جدت       کے       تقاضوں   پے   نیا دین  بنانے

ملا    و    فقیہ     صوفی    و  زاہد   سے  نہ ملنا
پاگل    ہیں   یہ    مجنون ہیں  عاشق  ہیں  دیوانے    

اس        دور    میں    اسلام   کی   تبلیغ کا  سودا  
اے       رند      جواں    مرد   چلو   جام  لنڈھانے 

گو     کفر     کی     یلغار   ہے اسلام پے ہر  روز 
 ترکی     کے    لگا   دے   کوئی  ممنوع    فسانے 

فرقوں     میں   ہے   اسلام  یا اسلام       میں فرقے
چھوڑو     کے   چلیں      میکدے   ایمان     بچانے  

اے     ملحد  اسلام      ذرا   سیکھ      لے   تو  بھی 
اسلام      میں      الحاد    کے     طوفان       اٹھانے 

حسیب احمد حسیب‏

بدھ، 9 اپریل، 2014

روشنی !

آواز فورم میں تصویر کہانی کیلئے لکھا گیا افسانہ !
https://www.facebook.com/groups/aahang/permalink/809408719089024/

روشنی !


سرخ جیکٹ میں ملبوس لال ٹوپی پہنے چینی نقوش والی وہ معصوم بچی اچانک ہی تو اسکی نگاہوں کے سامنے آ گئی تھی جو روشن چراغوں کے درمیان بیٹھی ایسی لگ رہی تھی جیسے " روشنی "
روشنی ہاں یہی ہمارے آنگن کی روشنی بن سکتی ہے احمر دل ہی دل میں میں فیصلہ کر چکا تھا ......
کبھی کبھی زندگی آپ کو خوب نوازتی ہے لیکن کوئی ایک کمی ایسی ہوتی ہے جس کی کسک دوسری تمام خوشیوں کو کھا جاتی ہے
ایسا ہی کچھ احمر اور صوفیاء کے ساتھ بھی ہوا تھا اس خوبصورت اور نوجوان جوڑے کے پاس کیا کچھ نہیں تھا دو اعلی خاندانوں کا ملاپ دولت جنکے گھر کی لونڈی تھی اور دو محبت کرنے والے دل محبت نے جنکی زندگی کو اپنے خوبصورت دائرے میں لے رکھا تھا
سبھی کچھ تو تھا
مگر
یہ مگر بھی عجیب ہے کسی بھی جملے کے آخر میں لگا دیجئے نتیجے کو صفر کر دیتا ہے یہ ایک چھوٹا سا مگر
احمر اور صوفی کی زندگی کا " مگر " وہ تھا جب ڈاکٹر نے کہا
آپ ماں نہیں بن سکتیں
صوفی کی ایسا لگا جیسے اسکی زندگی میں کسی نے فل سٹاپ لگا دیا ہو
ماں نہیں بن سکتی
میں ماں نہیں بن سکتی
مگر کیوں
اس مگر اور کیوں کا بھی عجیب رشتہ یہ کیوں کبھی بھی اس مگر کے سوال کا جواب نہیں ہو سکتا جب بھی مگر اور کیوں ملتے ہیں تو تشنگی جنم لیتی ہے
ماں چھوٹا سا لفظ جو ایک عورت کی تکمیل کر دیتا ہے اور تکمیل کس عورت کی خواہش نہیں اور صوفی بھی تو ایک عورت تھی
صوفیاء ابراہیم سن لو میں نے تم شدید محبت کی ہے میں دوسری شادی نہیں کرونگا
احمر کا انداز دو ٹوک اور واضح تھا جب بھی وہ صوفیاء کہتا تو صوفی سمجھ جاتی کہ اب احمر کا فیصلہ تبدیل ہونا ممکن نہیں
میں نے تو صرف یہ سوچا تھا کہ تمہیں اولاد کی خوشی نصیب ہو سکے صوفی نے نم آنکھوں اور دکھے ہوے دل سے سوچا ...
کبھی کبھی آپ کا مال آپکی دولت آپ کا خاندان آپ کا علم آپ کی سمجھ کچھ بھی تو کام نہیں آتا جب آپ کی قسمت آپ کے ساتھ نہ ہو
ایک دن احمر گھر لوٹا تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ تھی
صوفی صوفی
کیا ہے کیوں شور کر رہے
ادھر تو آؤ تم سے کچھ بات کرنی ہے
لگتا تھا احمر کوئی فیصلہ کر کے آیا ہے
نہیں نہیں میں کسی دوسرے کے بچے کو نہیں پال سکتی صوفی نے روتے ہوے کہا
کیوں نہیں آخر کیوں نہیں
دیکھو ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں اور اسی طرح ہم زندگی کی یہ اہم خوشی حاصل کر سکتے ہیں
کتنے ہی دن گزر گۓ سوچیں سوچیں مزید سوچیں
اور پھر فیصلہ
ٹھیک ہے ہم بچہ اڈاپٹ کرینگے صوفی نے فیصلہ کیا
سرخ جیکٹ میں ملبوس لال ٹوپی پہنے چینی نقوش والی وہ معصوم بچی اچانک ہی تو اسکی نگاہوں کے سامنے آ گئی تھی جو روشن چراغوں کے درمیان بیٹھی ایسی لگ رہی تھی جیسے " روشنی "
روشنی ہاں یہی ہمارے آنگن کی روشنی بن سکتی ہے احمر دل ہی دل میں میں فیصلہ کر چکا تھا ......
چلڈرن ہوم کے انچارج سے جب صوفی اور احمر نے بات کی تو اسکی آنکھوں میں اداسی اور ہونٹوں پر عجیب سی مسکان نمودار ہوئی
سوری آپ یہ بچی اڈاپٹ نہیں کر سکتے
کیوں صوفی اور احمر نے ایک ساتھ حیرانگی سے پوچھا
دیکھئے ایسی کوئی بات نہیں کہ آپ لوگوں میں کوئی خرابی ہے
تو
مسلہ بچی کے ساتھ ہے
کیا کیا
مسلہ ہے احمر نے بیتابی سے پوچھا
یہ بچی کینسر پیشنٹ ہے
کک کیا
صوفی کی آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہو گۓ
اور احمر ضبط کر رہا تھا
پھر احمر کی آنکھوں میں عزم نمودار ہوا
کوئی بات نہیں ہم یہ بچی اڈاپٹ کرینگے یہ ہماری " روشنی " ہے
چاہے کچھ بھی ہو ہم ضرور یہ بچی اڈاپٹ کرینگے
نہیں نہیں میں یہ نہیں کر سکتی اتنی بڑی ذمے داری اتنا بڑا امتحان
اس سے تو محرومی ہی اچھی ہے کسی کو پاکر کھو دینے سے کسی کی کمی کو برداشت کر لینا زیادہ آسان ہے
دیکھو صوفی اگر ہماری اپنی اولاد ہوتی اور اس کے ساتھ یہ سانحہ ہوتا تو تم کیا کرتیں بولو
کیا اسے چھوڑ دیتیں بتاو اگر یہ امتحان ہے تو امتحان ہی سہی
اور پھر " روشنی " انکی زندگی میں آ گئی ایسا لگا جیسے انکی زندگی روشن ہو گئی ہو
کبھی کبھی خوشیاں بھی غم کی چادر میں لپٹ کر ملتی ہیں
لوگوں نے باتیں بنائیں
ارے یہ کیا کیا
یہ بھی کوئی سمجھداری والی بات ہے
صوفی اور احمر کے خاندان والے کتنے ہی دن ناراض رہے
لیکی پھر " روشنی " کی روشنی نے پورے خاندان کو روشن کر دیا
وہ تھی ہی اتنی پیاری بچی معصوم تتلی کی طرح
یا اندھیری رات میں کسی جگنی کی طرح جو اپنی ننھی سی " روشنی " سے تاریک سیاہ رات کو منور کر دے .......
ایک رات جب روشنی صوفی اور احمر کے درمیان گھر کے لان میں لیٹی ہوئی تھی اور نیچے سبزے کی چادر اور اوپر آسمان پر چاند روشن تھا تو " روشنی " نے کہا
ماما بابا میرا کوئی بھائی کیوں نہیں
بیٹا آپ ہی اتنی اچھی ہو ہماری فیملی مکمل ہے
نہیں بابا بتائیں نہ میرا کوئی بھائی کیوں نہیں
صوفی کی آنکھیں نجانے کیوں گیلی ہو گئیں احمر بڑی دیر معصوم روشنی کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ........
پھر پتا نہیں کیوں روشنی کو یہ رٹ لگ گئی
تمہاری ماما ماں نہیں بن سکتیں
ایک دن صوفی جھنجلا کر چلا اٹھی
سنا تم نے تمہاری ماما ماں نہیں بن سکتیں
روشنی بیچاری سہم گئی
دولت پانی کی طرح بہانے کے باوجود روشنی مرجھا رہی تھی
اسکی دھیمی دھیمی لو دن با دن مدھم پڑ رہی تھی
اب زیادہ وقت نہیں ڈاکٹر نے کہا
اوہ اوہ میرے مالک آج احمر کا ضبط بھی جواب دے گیا تھا
لیکن اب صوفی کا حوصلہ بلند تھا
احمر ہم نے روشنی کے باقی وقت کو یادگار بنانا ہے
اگر یہ امتحان ہے تو ہم ضرور اس میں کامیاب ہونگے
پھر ہسپتال کے سفید بستر پر روشنی نے کافی دنوں کے بعد
صوفی سے پوچھا ماما بابا
آپ لوگ میرے بھائی کا نام کیا رکھو گے
تم ہی بتاؤ روشنی صوفی نے بھیگے ہوے لہجے میں پوچھا
" روشن " وہ روشن ہوگا نا .........
#****************************#***************#*************#******
آج روشنی کی سالگرہ تھی اور ایک سال گزرا تھا اسے بچھڑے ہوے روشنی کیا گئی زندگی میں
روشنی باقی نہیں رہی تھی ہاں
مگر
اسکی یادوں کے چند جگنو
صوفی اور احمر نے پھر کوئی بچہ اڈاپٹ نہیں کیا
ہاں اپ چلڈرن ہوم انہوں نے اپنی زیر کفالت لےلیا تھا
ننھے منھے معصوم ستاروں کے درمیان کیک کاٹتے ہوے
اچانک صوفی کی طبیعت خراب ہوائی ایسا لگا جیسے اسکا دم گھٹ رہا ہو
وہ تیزی سے واشروم کی طرف گئی اور پھر اسے اچانک ایک الٹی آئی
احمر پریشانی میں اسے ڈاکٹر کے پاس لیکر گیا
ٹیسٹ کروانے ہونگے ڈاکٹر نے فکرمند انداز میں کہا
اور پھر
جب وہ ٹیسٹ رپورٹس لینے گۓ تو
لیڈی ڈاکٹر نے ان سے کہا
مبارک ہو
یو آر پریگننٹ
#****************************#***************#*************#******
اوپر کہیں جنتوں میں روشنی مسکرا رہی تھی اپنی سرخ جیکٹ میں ملبوس لال ٹوپی پہنے ہوے
روشن چراغوں کے درمیان
اور احمر اور صوفی کی زندگی " روشن " ہونے والی تھی
وہ دونوں امتحان میں کامیاب اترے تھے
حسیب احمد حسیب 

پیر، 7 اپریل، 2014

خیام قادری مرحوم کا غیر مطبوعہ مضمون جو طنز و مزاح کی اعلی مثال ہے

خیام قادری مرحوم کا غیر مطبوعہ مضمون جو طنز و مزاح کی اعلی مثال ہے 

مرے ہسپتال جا کر ! 


اکبر الہ بادی نے کہا تھا 

ہوے اسقدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا 
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے ہسپتال جاکر 

ہسپتال اور ہوٹلز سے جب تہذیب کا یہ رشتہ دریافت ہوا تھا ان وقتوں میں صرف گورا صاحب یا اسکا پروردہ کالا صاحب ہی ہوٹل میں زندگی گزارنے کی استطاعت یا استقامت رکھتے تھے ہما شما غریب غرباء کا تو یہ حال تھا کہ سیکنڈوں میں حکیم صاحب کو نبض دکھائی منٹوں میں مرض کی تشخیص ہوئی چند گھنٹے معجون و مرکبات چاٹے اور رات سے پہلے پہلے گھر ہی سے جنت مکانی ہو گۓ -

عام لوگوں کے ہسپتال سے دور رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی امراض قلب ، کینسر شوگر اور وی ڈی
بڑے لوگوں کی بیماریاں سمجھی جاتی تھیں اور تھیں بھی یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے کراچی میں عوام کیلئے امراض قلب کا پہلا مرکز قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تو لوگوں نے اسے دیوانہ کہا کہ یہ شخص غریبوں کیلئے امیروں کی بیماری کا ہسپتال بنانا چاہتا ہے مگر وہ مرد دانا اپنی باطنی آنکھ سے آنے والے کرنسی نوٹوں کے سیلاب اور اسکے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے قلب کے امراض دیکھ رہا تھا سو اس نے یہ کام کر گزرنا ہی مناسب سمجھا اور اچھا ہی کیا کیونکہ ہمارے حکمرانوں کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ ہسپتال کالجز اور مفاد عامہ کے معمولی معمولی کاموں پر ضایع کرے وہ تو بہبود آبادی کیلئے بڑے بڑے فوجی سودے کرنے جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ڈیم بنانے اور سرمایہ داروں جاگیرداروں اراکین اسمبلی اور منظور نظر افراد کو بڑے بڑے قرضے دینے اور ان قرضوں کی وصولی کیلئے مزید قرضے دینے میں رات دن جتی ہوئی ہے وزراء کو سر کھجانے کی فرصت نہیں شاید اسی لیے یہ لوگ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران اطمنان سے بیٹھ کر کبھی اپنا اور کبھی دوسروں کا سر کھجاتے ہیں-

دیکھا جاۓ تو حکومت بہت نیکی کا کام کر رہی ہے کیونکہ الله مقروض کے تمام گناہ معاف فرما دیگا سواۓ قرض کے سو ان بیچارے مقروضوں کی اس دنیا میں ہی داد رسی نہایت ضروری ہے اور بیمار کا کیا وہ تو اپنی بیماری کے سبب ویسے ہی تمام گناہوں سے پاک ہو گیا ہے اب اسے اس دنیا میں رہنے کی کیا ضرورت بلکہ ایسے شخص کی دنیا کو بھی کوئی ضرورت نہیں پھر اس طرح ہسپتال میں علاج کروانے سے جان سے زیادہ مال کے زیاں کا بھی اندیشہ ہے مطلب کہ جان مریض کی اور مال لواحقین کا کیونکہ انکو وراثت میں ملنے والا ترکہ تو راتوں رات ہسپتال کی انتظامیہ کے بنک اکاونٹ میں منتقل ہو جاتا ہے اور لواحقین کو مرحوم کا سوئم دسواں اور چہلم نہایت دھوم دھام سے قرض لیکر کرنا پڑتا ہے تاکہ مرحوم کی امارت کا جو سکہ مرحوم کی زندگی میں قائم تھا مرنے کے بعد بھی قائم رہے البتہ ہمیں ضمنی فائدہ یہ نظر آیا ہے کہ جب ورثا کو وراثت میں کچھ ملے گا ہی نہیں تو آپس میں اختلاف بھی نہیں ہونگے اور نہ ہی نوبت قطع تعلق تک پہنچے گی کہ یہ گناہ کبیرہ ہے -

بھلے وقتوں میں گھروں میں عمر عزیز کے علاوہ بھی ایک چیز کھاتے پیتے گھرانوں میں کورے مٹکے پر سرخ کپڑا ڈال کر بینڈ باجے کے ساتھ اور کم آمدنی والے گھروں میں ٹین کے اونچے صندوق پر مبارک سلامت کے شور میں جراح کی وساطت سے کٹ جاتی تھی اب وہ بھی ہسپتال میں جاکر کٹتی ہے اور بسا اوقات ہسپتال سے کٹ کر ہی گھر آتی ہے-

گوروں کے ہسپتال آج بھی اٹھارویں صدی کے لگتے ہیں ہسپتال میں صرف مریضوں اور ان کے معالجین کو ہی داخلے کی اجازت ہے ہسپتال پر مکمل خاموشی طاری ہے حتی کہ پرندوں کی آوازوں کے خوف سے اونچے اونچے درخت لگانے سے بھی گریز کیا جاتا ہے ہسپتال کے کاریڈور کسی آسیب زدہ ویران حویلی کے برآمدے لگتے ہیں عملے کے افراد بھی اتنی خاموشی سے گزر جاتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ انسان تھا کہ کوئی روح کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ بہت ساری روحیں جو کہ شاید اسی ہسپتال کے ڈاکٹرز کی مدد سے اپنے اپنے اجسام سے آزاد ہوئی تھیں جمع ہو گئی ہیں اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کر رہی ہیں لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ زندگی کی قید سے تو آزاد ہو گئیں لیکن ابھی تک ہسپتال کے سحر میں گرفتار ہیں

مغرب میں مریض کو ہسپتال میں داخل کروا دینے کے بعد لواحقین معاملات ڈاکٹر پر چھوڑ دیتے ہیں یا پھر خدا پر مریضوں سے ملنے کے اوقات میں پھولوں کا کاروبار کرنے والی فرم کے نمائندے مریض کو گلدستے اور لواحقین کی نیک خواہشات پر مبنی کارڈز پہنچا دیتے ہیں ..
گل پاشی کے دو وقفوں کے دوران آنجہانی ہونے والے مریضوں کے پھول اسکی قبر پر رکھ دئیے جاتے ہیں ایک تبدیلی کے ساتھ کہ اب کہ اب گلدستے کے ساتھ نتھی کارڈ پر نیک خواہشات کی بجاۓ چند دعا یہ کلمات لکھے ہوتے ہیں .....

ہم نہ تو اسطرح علاج کرانے والے ہیں اور نہ ہی اتنی خاموشی سے مرنے والے ہیں یہاں تو مرنے والے کے بیٹوں اور پوتوں کو بھی اس چارپائی کے گرد جگہ نہیں ملتی کیونکہ وہاں ان رشتے داروں کا قبضہ ہوتا ہے جن سے رخصت ہونے والے کے تمام عمر جھگڑے اور تنازعات چلتے رہے بیٹیاں پوتیاں دور ہی سے دم نکلنے کی منتظر رہتی ہیں کہ اپنے حلق کی پوری قوت سے اپنے غم کا اظہار کر سکیں ......

ہمارے یہاں تو کوئی ہسپتال کے نزدیک سے بھی گزر جاۓ تو یقین آ جاتا ہے کہ یہ ہسپتال ہی ہے ہسپتال کی چار دیواری کے ساتھ فٹ پاتھ پر دور دراز سے آے ہوے مریضوں کے تیمار داروں کا قبضہ ہوتا ہے رنگین دریاں ہاتھ کی بنی ہوئی نفیس چٹا ئیاں کروشیے کے کام سے مزین تکیے رنگین کپڑوں کو جوڑ کر انتہائی مہارت سے تیار کی گئی رلیاں بچھی ہوتی ہیں جنپر شوخ رنگوں کے میلے کپڑے پہنے شہروں کی خود غرض دنیا سے دور رہنے والے لوگ ہاتھ سے شیشے کے کام والے دستی پنکھے جھلتے ہوے اپنے اپنے مریضوں کی ہسپتال سے واپسی کے منتظر ہیں .....

ہسپتال کا مین گیٹ کراس کر کے اگر خوش قسمتی سے لان ہے تو اسمیں اتنے مچھر نہیں ہونگے جتنے لوگ علاحدہ علاحدہ ٹولیوں میں بیٹھے ہونگے سواۓ مریض کے دنیا کا ہر موضوع زیر بحث ہوگا آپس کے تنازعات طے ہو رہے ہیں نۓ رشتوں پر غور ہو رہا ہے خاندان میں آئندہ ماہ آنے والے بچے کا نام منظوری کیلئے پیش کیا جاۓ گا اس دوران ٹین کی چادروں چٹا یوں اور بانس کی مدد سے بنے ہوے قریبی ہوٹل سے چاۓ ٹھنڈے مشروبات اور گرم گرم تازہ تلے ہوے سموسے بھی آ رہے ہونگے تھوڑے فاصلے پر ایک چھوٹے درخت پر کسی شیر خوار کے پوتڑے بھی سوکھ رہے ہونگے ......

مریضوں سے ملاقات کے اوقات میں بجاۓ پھولوں کے پھلوں سے لدے ملاقاتی چلے آ رہے ہیں مریض کا بستر پھلوں کی دکان بن گیا ہے تیمار دار پریشان ہیں انہیں کہاں رکھیں مریض الجھن میں کہ اتنے ڈھیر سارے پھل میں کیسے کھاؤںگا اور لانے والا الگ شرمندہ کہ وہ لے کر ہی کیوں آیا ........

مریضوں سے ملاقات کا وقت ختم ہونے تک ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ایک جاتا نہیں کہ دوسرا آ جاتا ہے ملاقات کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی ملاقاتی جانے کا نام نہیں لیتے چوکیدار بار بار آکر تنبیہ کرتا ہے کہ ملاقات کا وقت ختم ہوے بہت دیر ہو گئی ہے خدا خدا کر کے عیادت کیلئے آے ہوے لوگ رخصت ہوے لیکن اب بھی کافی تعداد میں لوگ وارڈ کے باہر برآمدوں میں نظر آ رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو جو باہر لان میں رہنا پسند نہیں کرتے لحاظہ انہوں نے عملے کے افراد کو کچھ دے دلا کر برآمدوں میں رکنے کا انتظام کر لیا ہے ........

آپ ہسپتال کے ایک ایک کمرے میں جھانکتے چلے جائیں ہر کمرے میں ایک نئی دنیا آپ کی منتظر ہوگی .....
اس کمرے میں پنجاب سے آۓ ہوے ایک مریض کے تیماردار مقیم ہیں کمرے سے تازہ تازہ مرغ روسٹ اور گرم گرم تندوری نان کی خوشبو پنجاب کے مخصوص جلترن لہجے کی آوازوں کے ساتھ آ رہی ہے ٹھنڈے مشروبات کے کریٹ کینٹین والا خود ہی پہنچا دیتا ہے صبح یہی کمرہ پاۓ کی خوشبو سے مہک جاتا ہے ........
ایک کمرے سے (TV) کی آوازیں آ رہی ہیں ساتھ والے کمرے میں ایک عورت اور ایک مرد براجمان ہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ عورت بیمار ہے یا مرد بیمار ہے لیکن اگر یہ لوگ یہاں موجود ہیں تو ضرور کوئی نہ کوئی بیمار ہوگا .......

یہ پریویٹ کمروں کا علاقہ تھا اگر آپ جنرل وارڈ میں چلے جائیں تو شک ہونے لگے گا کہ یہ کسی ہسپتال کا جنرل وارڈ ہے یا پھر کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں لگایا جانے والا میڈیکل ریلیف کیمپ ، وارڈ کے ایک ایک بیڈ پر مریض موجود ہیں ہسپتال کے تمام اکسٹرا بیڈز برآمدوں اور کونے کھانچوں میں لگا دیے گۓ ہیں
حتی کہ راہداریوں میں فرش پر وہ مریض بھی لیٹے ہوتے ہیں جنکو مرض کی شدت کی وجہ سے داخل تو کر لیا گیا ہے مگر آئندہ دو تین ہفتوں میں بیڈ ملنے کا امکان نہیں ہے .........

شہر میں کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑے تو صورت حال اور بھی ناگفتہ بہ ہو جاتی ہے ایک ایک بیڈ پر دو دو تین تین مریض لیٹے ہیں علاج کے نام پر تسلی کیلئے ہر مریض کو گلوکوز کی بوتل لگا دی جاتی ہے بوتل سے جسم تک محلول کی ترسیل پر معمور نلکیاں آپس میں الجھی ہوئی ہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ نرس ابھی کس بوتل کی رفتار تیز اور کس کی کم کر کے گئی ہے اکثر مریض شک کرنے لگتے ہیں کہ انکی بوتل سے آب حیات بیڈ پر موجود کسی اور شخص کے جسم میں منتقل ہورہاہے .........

ایسے میں آپ اپنے مریض کی عیادت کیلئے چلے جائیں جس کا بیڈ نمبر آپ کو معلوم نہ ہو تو اس کو تلاش کرنا جوے شیر لانے کے مترادف ہوگا اول تو مریضوں کے غول میں نرس کو تلاش کرنا اور اگر خوش نصیبی سے نرس مل جاۓ اور مزید خوش نصیبی سے وہ آپ کی بات سننے پر راضی بھی ہو جاۓ تو جواب ملے گا دیکھ لیں یہیں کہیں ہوگا آپ کا مریض بھی .............

پریویٹ ہسپتالوں میں ایسی صورت حال سے بچنے کیلئے عام طور سے نوٹس بورڈ نما چیز لگا دی جاتی ہے جسپر مریضوں کے نام بیڈ نمبر کے ساتھ لکھ دیے جاتے ہیں تاکہ عیادت کیلئے آنے والوں کو تلاش کرنے میں زحمت نہ ہو مگر ہمیں اس کا بھی کوئی اچھا تجربہ نہ ہوا ......

ہوا کچھ یوں کہ ہم اپنے ایک دوست کی عیادت کیلئے ایک پریویٹ ہسپتال پہنچے نوٹس بورڈ پر اپنے دوست کو تلاش کرنا شروع کیا لیکن ساتویں نمبر پر پہنچ کر ہم ٹھٹکے یہاں جو محترمہ زیر علاج تھیں انکا نام انگریزی میں مسنر ایشیاء لکھا ہوا تھا ( Mrs. Asia) ہم بہت حیران ہوے مس ایشیاء تو سنا تھا مسٹر ایشیاء بھی ہوتے ہیں مگر یہ کیا ماجرا ہے چونکہ ہماری انگریزی اچھی نہیں ہے اسلئے ہجے کرکے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ یہ مسنر آسیہ ہوگا اگر کوئی گورا یہ نوٹس بورڈ پڑھ لیتا تو یقینا غش کھا کر گر پڑتا کہ دنیا کی دو تہائی آبادی ایشیاء میں ہے اور ان سب کی مسنر یہاں مقیم ہیں ......

گائنی ورڈ کا الگ سماں ہے لیبر روم کے سامنے بہت ساری خواتین اور مرد بھی فکر مند چہروں کے ساتھ کھڑے یا بیٹھے ہیں نظریں بار بار لیبر روم کے دروازے پر جاکر مایوس لوٹ آتی ہیں لیکن جیسے ہی نومولود کے تولد ہونے کی خبر ملتی ہے موبائل فونز باہر آ جاتے ہیں ڈائل پر انگلیاں تیزی سے چلنا شروع ہو جاتی ہیں منٹوں میں یہ خبر ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور نتیجے میں طرح طرح کی رنگ ٹونز بجنی شروع ہو جاتی ہیں .....

مبارک سلامت کا شور ہے کہ تھمنے می ہی نہیں آ رہا گلے مل مل کر مبارک باد دی اور وصولی جا رہی ہے

کوئی بھاگم بھاگ جاکر مٹھائی کے ڈبے لے آیا ہے اور پورے وارڈ میں اصلی گھی کی بنی مٹھائی کی سوندھی سوندھی خوشبو پھیل گئی ہے ......

بعض خاندانوں میں نومولود کی ولادت پر بے انتہا خوشی کا اظہار دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ شاید خاندان کی پچھلی سات پشتوں میں کوئی ولادت نہیں ہوئی کبھی کبھی ایسے موقع پر خوشی سے زیادہ حیرت بھی نظر آئ....

کراچی کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کے سرجیکل وارڈ میں ہمیں اپنی بیگم کی بیماری کی وجہ سے بطور تیماردار کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا سرجیکل وارڈ کی عمارت (U) شیپ میں تعمیر کی گئی تھی جسکے اندرونی تین اطراف میں چھوٹی چھوٹی کیاریاں بنا دی گئی تھیں جن میں سر و سمن کی بجاۓ خود رو جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں درمیان کے پورے علاقے پر پختہ فرش بچھا دیا گیا تھا جسپر رات کو تیمار دار سوتے جاگتے تھے شام ہوتے ہی ہسپتال کے اندر اور شاید باہر سے بھی نوجوان جوڑے آکر سر و کمر جوڑ کر بیٹھ جاتے اور رات دیر تک بیٹھے رہتے رش اتنا ہوتا کہ بہت سے جوڑے کھڑے کھڑے وقت گزار کر چلے جاتے
کئی جوڑوں کو ہم نے بھی جگہ نہ ملنے کی وجہ سے مایوس لوٹتے دیکھا ........

" ہمیں اس بات پر یقین ہو گیا کہ ہمارے ہسپتال چھوٹے اور ہماری ضرورت زیادہ ہے "

اسی پختہ فرش پر ہم نے بھی کئی راتیں گزاریں اور ہسپتال کے ایک نۓ مصرف سے آگاہ ہوے ....

قصہ کچھ یوں ہے ......

پہلی ہی رات دو نو جوانوں سے دوستی ہو گئی ہم نے انکے اور انہوں نے ہمارے مریض کا حال احوال پوچھا صبح ہوتے ہی دونوں بوریا بستر سمیٹ ایسے رفو چکر ہوے کہ رات کی خبر لاۓ دو چار روز یہی معمول دیکھا پھر مزید دوستی بڑھنے اور اعتماد ہو جانے پر راز یوں کھلا ہے دونوں دوسرے شہر سے مزدوری کیلئے آۓ تھے رہائش مہنگی ہونے کی وجہ سے رات یہاں گزارتے کھانا پینا ہوٹل سے اور ہنگامی حالات یعنی آندھی طوفان اور بارش کیلئے ہسپتال کے احاطے میں موجود مسجد کے پیش امام سے دوستی گانٹھ رکھی تھی اور مسجد میں سونے کی جگہ مل جاتی تھی اس دن سے ہم انسانی ذہن کی جودت طبع کے قائل ہو گۓ........................

اس پختہ فرش پر ایک رات ہم پر بڑی کڑی گزری اور ہم پر ہی کیا وارڈ میں موجود تمام مریضوں اور انکے تیمار داروں پر بھی ہم حسب معمول عشاء کے بعد پختہ فرش پر آ گۓ ابھی اطمنان سے بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ وارڈ سے آہ و بکا کا شور بلند ہوا فرش پر موجود تمام چہرے ملول ہو گۓ کوئی مریض چل بسا تھا ........

یہ ہسپتال تھا یہاں ایسے واقعات معمول کا حصہ تھے ہم میت و لواحقین کو رخصت کر کے سونے کی کوشش کر رہے تھے کہ یکایک وارڈ سے دوبارہ شور بلند ہوا ایک اور بیڈ خالی ہو گیا تھا اور پھر اس رات تواتر کے ساتھ وقفے وقفے سے بیڈز خالی ہوتے رہے معلوم ہوتا تھا کہ آج عزرا ئیل کو اسی وارڈ پر معمور کر دیا گیا ہے .........

ہم ساری رات لرزتے رہے کہ نہ جانے اب کس کی باری ہے اندر ہماری اہلیہ تھیں اور باہر ہم ہمیں دونوں ہی صورتوں میں نقصان تھا مگر جب اس طویل رات کی صبح ہوئی تو ہمارا یقین اور پختہ ہو گیا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ اپنے وقت پر آۓ گی اسکیلئے کسی ہسپتال کے بیڈ یا دالان میں موجودگی شرط نہیں .....

خیام قادری (مرحوم )