جمعرات، 14 نومبر، 2013

اک خواب جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے

اک خواب جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے
اک خواب جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے
انجمن اسلام پسند مصنفین
قرآن جو بیشک ہدایت کی راہ دکھاتا ہے اور بھٹکے ہووں کی رہنمائی کرتا ہے اور الله رب العزت کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے بیان سے بھی نہیں شرماتے ایک قصہ بیان ...کرتا ہے
چیونٹی ایک چھوٹی سی مخلوق جو اکثر ہمارے پیروں میں روندی جاتی ہے قرآن کی ایک سوره کا عنوان ہے

" النمل "
( وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿17﴾ حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿18﴾)
” اورسلیمان کے لیے (کسی مہم کے سلسلہ میں )اس کے جنوں،انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اوران کی جماعت بندی کر دی گئی تھی۔ یہاں تک جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی پر پہنچے تو ایک چیونٹی بول اٹھی ،”چیونٹیو!اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ایسانہ ہو کہ سلیمان اورا س کے لشکر تمہیں روند ڈالیں اورانہیں پتہ بھی نہ چلے.

چیونٹی کی اپنی قوم کے لیے فکر کرنا الله کو اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اپنے کلام میں محفوظ فرما دیا
کیا ہم چیونٹیوں سے بھی گۓ گیزرے ہو چکے ہیں
ہم جنھیں اشرف المخلوقات بیان کیا گیا ہے ہم جنکے بارے میں کہا گیا ہے

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿٤﴾
یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا

حدیث میں آتا ہے ہ اِنَ اللہ خَلَقَ آدَمَ عَلَٰی صُورَتِہِ ( مسلم ، کتاب البروالصلاۃ والاداب )“ اللہ تعالٰی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا “

لیکن ہمیں سفالت پسند ہے ثُمَّ رَ‌دَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ﴿٥﴾ پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا
سواۓ ان لوگوں کے جنکے بارے میں کہا گیا

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ‌ غَيْرُ‌ مَمْنُونٍ ﴿٦﴾
لیکن جو لوگ ایمان ﻻئے اور (پھر) نیک عمل کیے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا

ادب کیا ...............؟

کسی شے کا اس خوبی سے بیان کہ وہ سننے والے کی جمالیات اور فکریات دونوں کو یکساں متاثر کر سکے
بقلم حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ

غالبؔ کہتے ہیں:

فریاد کی کوئی لے نہیں ہے

نالہ پابندِ نے نہیں ہے

رونے اور ہنسنے کی کوئی قومیت یا وطنیت نہیں ہوتی، اور نہ اس کو فن چاہیے، بلکہ سچا ہنسنا اور سچا رونا وہ ہے جو فن سے عاری ہو، جس میں تصنع نہ ہو، کوئی روتا ہے تو درد سے بے قرار ہوکر، کوئی ہنستا ہے تو کسی مسرت کی بنا پر، یہ اندر کا جذبہ ہے، اس لیے رونے اور ہنسنے کے لیے اندر کا جذبہ ہونا چاہیے، اور وہ رونا رونا کہلانے کا مستحق نہیں جس کو ابھارنے والی اندر کی کوئی چیز نہ ہو، درد نہ ہو، کسک نہ ہو، اور وہ ہنسنا ہنسنے کا مصداق نہیں جو کسی کی فرمائش سے ہو۔

ادب کا معاملہ بھی یہی ہے کہ ادب کی نہ کوئی قومیت ہے، نہ وطنیت ہے، نہ جنسیت ہے، اور نہ وہ خاص اصطلاحات کا پابند ہے، نہ خاص ضوابط کا، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ خود ادیبوں نے جنھوں نے اپنی زندگیاں ادب کے لیے وقف کیں، اور اپنی بہترین صلاحیتیں اس کے لیے مخصوص کردیں، انھوں نے بھی ادب کے سمندر کو کسی آب جو میں تصور کیا۔

ادب ادب ہے، خواہ وہ کسی مذہبی انسان کی زبان سے نکلے، کسی پیغمبر کی زبان سے ادا ہو، کسی آسمانی صحیفہ میں ہو، اس کی شرط یہ ہے کہ بات اس انداز سے کہی جائے کہ دل پر اثر ہو، کہنے والا مطمئن ہو کہ میں نے بات اچھی طرح کہہ دی، سننے والا اس سے لطف اٹھائے، اور اس کو قبول کرے۔

حسن پسندی تو یہ ہے کہ حسن جس شکل میں ہو اسے پسند کیا جائے، بلبل کو آپ پابند نہیں کرسکتے کہ اس پھول پر بیٹھے ، اس پھول پر نہ بیٹھے، لیکن یہ کہاں کا حسن مذاق ہے اور یہ کہاں کی حق پسندی ہے کہ اگر گلاب کا پھول کسی مے خانے کے صحن میں اس کے زیر سایہ کھلے تو وہ گلاب ہے اور اس سے لطف اٹھایا جائے، اور اگر کسی مسجد کے چمن میں کھل جائے تو پھر اس میں کوئی حسن نہیں ! کیا یہ جرم ہے کہ اس نے اپنی نمود کے لیے مسجد کا سہارا لیا؟

حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے

ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟

ہمیں حسن بے پروا سے مطلب ہے کہ شہر و صحرا سے؟ تو ادب کے ساتھ معاملہ یہی کیا گیا، اجازت دیجیے تو فارسی کا بھی شعر پڑھ دوں:

دلِ عبث لب بہ شکوہ دانہ کند

شیشہ تا نہ شکند صدا نہ کند

اگر شیشے کی آواز سنیے تو سمجھیے کہ وہ ٹوٹا ہے، تو یہ ٹوٹے ہوئے دل اور ایک ٹوٹے ہوئے ساغر کی صدا ہے، صدائے احتجاج ہے کہ ادیبوں اور ادب کی بارگاہ میں یہ شرط کردی گئی کہ فلاں قسم کی وردی پہن کر آیئے، رسمیات سے سب سے زیادہ بے پروا ادب ہے، اس کو ہرگز یہ قبول نہیں کہ وہ فلاں وردی پہن کر آئے، اور فلاں زبان بولتا ہو، وہ جہاں بھی ہے ادب ہے، اگر وہ پھٹے پرانے کپڑے میں بھی ہے تو ادب ہے، اور شہ نشین پر بٹھانے اور ذہن نشین کرانے کے قابل ہے، اور وہ اگربادشاہوں کا لباس پہن کر آئے لیکن اس کو اپنے مطلب کو صحیح طرح سے ادا کرنے کا سلیقہ نہ ہو، تو وہ ادب نہیں ہے، ادب اس لیے ادب نہیں ہوجاتا کہ وہ کسی انگریزی داں نے ادا کیا، کسی ترقی پسند نے ادا کیا، شعبۂ اردو کے کسی چیرمین اور پروفیسر نے ادا کیا، صدر نے ادا کیا، وہ ادب ادب ہے خواہ اس کو آپ کسی سائل کی صدا میں سن لیں، کسی غریب کی فریاد میں سن لیں، کسی ماں کو اپنے بچے کو سلاتے ہوئے لوری سنانے میں سن لیں، کسی خدا شناس کے نالۂ نیم شبی میں سن لیں، جو صرف خدا ہی کو سنانا چاہتا ہے، اتفاق سے آپ نے سن لیا، اس لیے ادب جس شکل میں ہو، جس زبان میں ہو، اور جس شخص کی زبان سے ادا ہو، وہ ادب ہے۔

(دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں 1981ء میں منعقد مذاکرۂ ادبیات اسلامی کے اردو، فارسی ،انگریزی سیکشن کے اختتامی خطبہ سے ماخوذ)


بقول رسول الله صل الله علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے سمت مشرق سے دو مرد آئے۔ دونوں نے خطاب (گفتگو) کیا۔ لوگوں نے ان کا بیان پسند کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ مِنَ الْبِيَانِ لَسِحْرًا. (بخاری)

’’بلاشبہ کچھ بیان جادو کے سے ہوتے ہیں‘‘۔

اور ایک جگہ شاعری کو تخصیص سے ساتھ بیان فرمایا
بی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ان من الشعرحکمة.(بخاری)

’’بے شک کچھ اشعار حکمت سے پُر ہوتے ہیں‘‘۔

دور جدید میں اردو ادب کا مقام
اردو ادب پر مغربی اثرات انیسویں صدی کے آغاز سے ہی پڑنے لگے تھے۔ مگر ان کا فیصلہ کن اثر ۱۸۵۷ء کے بعد ہوا۔ فورٹ ولیم کالج کی سادہ نثر دہلی کالج میں درسی کتابوں کے لیے مفید مطلب اور واضح انداز بیان، ماسٹر رام چندر کے مضامین اور غالب کے خطوط میں یہ اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ شاعری کا تعلق روایت سے زیادہ ہوتاہے۔ اس لیے ۱۸۵۷ء سے پہلے کی شاعری میں صرف غالب کے یہاں تشکیک، ارضیت اور انفرادیت کے نقوش ایک ایسے ذہن کے آئینہ دار ہیں جو روایت کے ساتھ نئے امکانات اور میلانات پر بھی نظر رکھتا ہے۔ ادب سیاسی تبدیلیوں کا یکسر تابع نہیں ہوتا، نہ ادبی ارتقا کی منزلیں سیاسی بنیاد پر متعین کی جا سکتی ہیں۔ مگر زمانے اور مزاج کی تبدیلیوں کا اثر ادب پر بہرحال پڑتا ہے۔ اسی لیے ۱۸۵۷ء سے جب انگریزوں کے الفاظ میں غدر ہوا اور ہندوستانی مورخوں کے الفاظ میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی لڑی گئی ، اردو ادب کا ایک نیا دور شروع ہوتاہے۔ اس سے پہلے کے ادب کو سہولت کے لیے کلاسیکی اور اس کے بعد کے ادب کو جدید کہاجا سکتا ہے۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں لینا چاہئیں کہ ۱۸۵۷ء کے بعد کلاسیکی اثرات ختم ہو گئے۔ کلاسیکی یا روایتی ادب کا سلسلہ جاری رہا۔ مگر جدید فکرو فن جو پہلے تجربے کے طور پر شروع ہوا، رفتہ رفتہ اپنی جگہ بناتا گیا یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آخر تک نئے میلانات حاوی ہو گئے۔ ہمارا کلاسیکی ادب مجموعی طور پر ازمنہٰ وسطیٰ کی قدروں کا نمایندہ ہے۔ اس کی بنیا دہندوستانی ہے مگر اس میں عجم کے حسنِ طبیعت کے بہت سے رنگ شامل ہیں۔ اس میں نمایاں فکر تصوف سے آئی ہے۔ اور اس کے نقش و نگار اس مشترک تہذیب سے لیے گئے ہیں جو تاریخی اسباب کی بنا پر پروان چڑھ رہی تھی۔ اس کی شاعری میںتخیل کی پرواز ملتی ہے اور فطرت، تہذیب اور سماج کی مصوری بھی۔ صوفیوں کے اثر سے اس میں ایک انسان دوستی آئی اور دربار نے اسے ایک رنگینی اور صنّاعی سکھائی۔ اس دور میں نثر پر توجہ کم ہوئی اور زیادہ تر یہ راہِ نجات یاداستان سرائی کے لیے ہی استعمال ہوئی اور شاعری سے آرائش کے لیے زیور لیتی رہی۔ فورٹ ولیم کی جدید نثر تفریحاً نہیں فرمائش پر لکھی گئی تھی۔ اس میں قصے کہانیوں کا سرمایہ زیادہ تھا۔ دہلی کالج میں درسی ضروریات کے لیے علمی نثر بھی وجود میںآئی صحافت رفتہ رفتہ قدیم اسلوب سے آزاد ہوئی ا ور کار آمد اور عام فہم ہونے لگی۔ مغرب کے معلم، مشنری اور منتظم سب یورپ کے اٹھارویں صدی کے ادب سے متاثر تھے۔ اسی لیے مغربی اثرات شروع شروع میں وہاں کے نوکلاسیکی ادب کی قدروں کے مظہر تھے۔ انہیںکی رہنمائی میںہمارے یہاں جدید ادب حقیقت نگاری کا علم بردار بن کر سامنے آیا۔ ناول کی تاریخ میں نذیر احمد کے بعد رتن ناتھ سرشار کی اہمیت ہے (۱۸۴۶ئ۔ ۱۹۰۲ئ) سرشار کے یہاں رجب علی سرور کے فسانۂ عجائب کا رنگ بھی ہے اور مکالمات میں لکھنؤ کی بیگماتی زبان کی بے تکلفی بھی۔ سرشار کا فسانۂ آزاد سب سے پہلے قسط وار منشی نول کشور کے اودھ اخبار میں نکلا، بعد میںیہ کتابی صورت میں چھپا۔ فسانۂ آزاد میںاصل قصہ گویا ایک کھونٹی ہے جس پر ہزاروں واقعات ٹنگے ہوئے ہیں۔ سرشار ہندوستانی نشاۃ الثانیہ سے متاثر تھے اور نئے خیالات کے حامی تھے۔ مگر لکھنؤ کی تہذیب کے عاشق ۔ پہلی جلد کے آخرمیں انہوںنے لکھا ہے کہ ’’میاں آزا د کا ہر شہرو دیار میںجانا اور وہاں کی بری رسموں پر جھلّانا‘‘ ناول کا عمدہ پلاٹ ہے انہوںنے پرانے خیالات اور رسم و رواج پر اپنی شوخی و ظرافت سے خوب خوب وار کیے ہیں۔ ان کا ہیرو آزاد ایک مثالی کردار ہے جو مردانہ حسن کے ساتھ سپہ گری میں بھی طاق ہے اور علم و ادب کا رسیا بھی مگر ان کے طنزیہ کردار خوجی کی اپیل زیادہ ہے جس پر ڈان کخوٹے(Don Quixote)کا اثر صاف نمایاں ہے۔ ’’فسانۂ آزاد‘‘ چار ضخیم جلدوں میں ہے۔ مگر آج اس کی اپیل زیادہ تر بیگمات کے مکالموں یا خوجی کے کردار کی وجہ سے ہے۔ ’فسانۂ آزاد‘‘ کے علاوہ سرشار کا ’’سیر کہسار‘‘ بھی لکھنؤ کی نوابی معاشرت پر گہرا طنز ہے۔ سرشار کے دوسرے ناول چنداں اہمیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے ’’خدائی فوجدار‘‘ کے نام سے ڈان کخوٹے کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ سرشار کے یہاں ناہمواری ہے اور ضبط و نظم کی کمی ہے مگر ان کی خلاقی، ان کی مرقع نگاری، کرداروں اور کارٹونوں کی ایک دنیا ایک تندرست اورکہیں کہیں بے رحم ظرافت اور زبان پر قدرت کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اس دور میں اردو کی پہلی جامع لغت ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ کے نام سے لکھی گئی۔ مولوی سید احمد دہلوی (۱۸۴۶ء ۔ ۱۹۲۰ئ) نے چوبیس سال کی محنت کے بعد ۱۸۹۲ء میں چار جلدوں میں یہ لغت شائع کی جس میں اردو کی لغات کے معنی اردو میںدیئے گئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ ’’ارمغان دہلی‘‘ کے نام سے اس کا ایک حصہ شائع کرچکے تھے۔ اس لغت کی تیاری میںانہیں ڈاکٹر ایس ڈبلیو فیلن کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرنے کی وجہ سے خاصی مدد ملی۔ ڈاکٹر فیلن کی ’’ہندوستانی انگریزی لغت‘‘ ۱۸۷۹ء میں شائع ہوگئی تھی۔ فرہنگ آصفیہ میںاگرچہ جابجا مولف نے غیر ضروری باتیں بیان کی ہیں اور بعض غیر مصدقہ روایات پر تکیہ کیا ہے، پھر بھی یہ لغت اور بعد کی مولوی نورالحسن نیّر کا کوروی کی ’’نور اللغات‘‘ اب تک اردو کی سب سے اچھی لغات سمجھی جاتی ہیںگولغت نویسی (Lexicography) کے جدید معیار کے لحاظ سے دونوں میںخامیاں ہیں۔ امیر مینائی کی ’’امیر اللغات‘‘ اگر چہ صرف الف مقصورہ تک ہی ہے مگر قابلِ قدر ہے۔ ۱۸۵۷ ۔۱۹۱۴ کا دور ہر لحاظ سے اردو ادب کا زرّیں دور ہے۔ کلاسیکی طرز کی شاعری کے علاوہ اس دور میں نظمِ جدید کا آغاز ہوا اور اس نے نمایاں ترقی کی اور موضوعات اور ہئیت دونوں کے لحاظ سے اردو شاعری کا دامن وسیع ہوا۔ مگر دراصل یہ دور نثر کی ترقی اور وسعت کا دور ہے۔ سرسید کی تحریک کے اثر سے نثر علمی مضامین کے اظہار پر قادر ہوئی۔ اس کے علاوہ کئی نئی اصناف ، ناول ، سوانح عمری، مضمون نگاری (انشائیہ)، مختصر افسانہ تنقید کا آغاز ہوا اور ہر صنف میںقابلِ قدر نمونے سامنے آئے۔ ادب میںمقصد کی آنچ اور اخلاقی اور اصلاحی نقطۂ نظر کی تب و تاب آئی۔ مغربی شاہکاروں کے تراجم ہونے لگے۔ انیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب انگریزی تعلیم پھیلنے لگی تو مقصدی ادب کے علاوہ رومانی لے بھی شروع ہوئی جس نے بعد میں ادب کے ساتھ تخلیقی ادب بھی پیش کیا اور پڑھنے والوں کے مذاق کو متاثر کیا۔ ۱۹۱۴ء میںجب حالی اور شبلی کا انتقال ہوا تو شاعری کی بساط پر حسرت موہانی کے ساتھ اقبال کا نام لیا جانے لگا اور پریم چند نے اپنے افسانے لکھنے شروع کردیئے تھے۔ ابوالکلام آزاد کا ’’الہلال‘‘ افقِ صحافت پر طلوع ہوچکا تھا۔ سجاد حیدر کے ساتھ لطیف الدین احمد اکبر آبادی اور نیاز فتح پوری، ادب لطیف کی بنیادیں مضبوط کررہے تھے۔ اردو ادب اب اپنے پیرو پر کھڑا تھا اور اسے مذہبی یا سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت نہ رہی تھی۔ وہ مذہب اور سیاست سے کام لیتا تھا۔ مگر ان کا غلام نہ رہا تھا۔
( مستعار : قومی کونسل براۓ فروغ اردو )

ادبی وسائط کا فکری میدانوں میں باقاعدہ تحریکی انداز میں استعمال بر صغیر میں مخصوص سیکولر فکر کی ترویج میں خاص رہا ہے جسکی سب سے عظیم مثال ہے
ترقی پسند تحریک ہے

1917ءمیں روس میں انقلاب کا واقعہ ، تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ثابت ہوا ۔ اس واقعہ نے پوری دنیا پر اثرات مرتب کئے ۔ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی اس واقعہ کے گہرے اثرات پڑے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں تیزی آئی ۔ دوسری طرف ہندو مسلم اختلاف میں اضافہ ہوا ۔ ان حالات اور سیاسی کشمش کی بدولت مایوسی کی فضا چھانے لگی ، جس کی بنا پر حساس نوجوان طبقہ میں اشتراکی رجحانات فروغ پانے لگے ۔ شاعر اور ادیب طالسطائے کے برعکس لینن اور کارل مارکس کے اثر کو قبول کرنے لگے ۔ جبکہ روسی ادب کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ مذہب کی حیثیت افیون کی سی ہے۔ مذہب باطل تصور ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ معاش ہے۔ اس طرح اس ادب کی رو سے سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے اور ادب کا کام مذہب سے متنفر کر کے انسانیت میں اعتقاد پیدا کرنا ہے ۔ اس طرح یہ نظریات ترقی پسند تحریک کے آغاز کا سبب بنے۔
دوسری طرف 1923ء میں جرمنی میں ہٹلر کی سرکردگی میں فسطائیت نے سر اُٹھایا ، جس کی وجہ سے پورے یورپ کو ایک بحران سے گزرنا پڑا۔ ہٹلر نے جرمنی میں تہذیب و تمدن کی اعلیٰ اقدار پر حملہ کیا ۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادبیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان شعراء و ادباء میں آئن سٹائن اور ارنسٹ ووکر بھی شامل تھے۔ ہٹلر کے اس اقدام پر جولائی 1935ء میں پیرس میں بعض شہرہ آفاق شخصیتوں مثلاً رومن رولان ، ٹامس مان اور آندر مالرو نے ثقافت کے تحفظ کے لیے تمام دنیا کے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلالی ۔اس کانفرس کا نام تھا:
The world congress of the writers for the defence of culture.
ہندوستان سے اگر چہ کسی بڑے ادیب نے اس کانفرس میں شرکت نہیں کہ البتہ سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے ہندوستان کی نمائند گی کی ۔ اس طرح بعد میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے کچھ دیگر ہندوستانی طلبا کی مدد سے جو لندن میں مقیم تھے۔ ”انجمن ترقی پسند مصنفین“ کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن کا پہلا جلسہ لندن کے نانکنگ ریستوران میں ہوا۔ جہاں اس انجمن کا منشور یا اعلان مرتب کیا گیا ۔ اس اجلاس میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں سجاد ظہیر ، ملک راج آنند ، ڈاکٹر جیوتی گھوش اور ڈاکٹر دین محمد تاثیر وغیرہ شامل تھے۔ انجمن کا صدر ملک راج آنند کومنتخب کیا گیا ۔ اس طرح انجمن ترقی پسند مصنفین جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی وجود میں آئی ۔

ترقی پسندتحریک نے اپنے منشور کے ذریعے جن مقاصد کا بیان کیا وہ کچھ یوں ہیں:
فن اور ادب کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجات دلانا اور فنون لطیفہ کو عوام کے قریب لانا۔
ادب میں بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا۔
واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا۔ بے مقصد روحانیت اور بے روح تصوف پرستی سے پرہیز کرنا۔
ایسی ادبی تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائینٹیفک رجحانات کو فروغ دے۔
ماضی کی اقدار اور روایات کا ازسر نو جائزہ لے کر صر ف ان اقدار اور روایتوں کو اپنانا جو صحت مند ہوں اور زندگی کی تعمیر میں کام آسکتی ہوں۔
بیمار فرسودہ روایات جو سماج و ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ان کو ترک کرنا وغیرہ۔

وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک کے نظریات کو غور و تدبر کے بعد اپنی فکر ی تربیت کرکے اپنے احساس کا حصہ بنایا اور فنی خلوص کو مارکسی نظریہ کے لیے کام کرتے ہوئے بھی مد نظر رکھا ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ان لوگوں میں کرشن چندر، فراق، فیض، احسان دانش ،ندیم، ساحر وغیرہ شامل ہیں۔ دراصل یہ لوگ تحریک کے وجود سے پہلے بھی اچھے فنکار تھے اور تحریک کے خاتمے کے بعد بھی اچھے فنکار تھے۔

دور جدید کی مقتل گاہ میں
اردو میں اسلامی یا اسلام پسند ادب کی تاریخ قدیم ہے چاہے وہ صوفیانہ شاعری ہو یا اسلامی فکر و فلسفہ کا بیان
اقبال سے لے کر سید مودودی تک
نظم سے نثر تک
تاریخ تفسیر افسانہ یا ٹھیٹ فکری اور فلسفیانہ مضامین اسلامی ادب کی چھاپ ہر جگہ دکھائی دیگی
لیکن فعال انداز میں مسلکی جماعتی اور گروہی عصبیتوں سے ماوراء ہوکر کسی ایسے ادارے کا قیام جہاں اسلامی یا اسلام پسند ادیبوں کی کھیپ تیار ہو سکے ابھی تک تشنہ وجود ہے

گویا یہ ضرورت کے درجہ سے بڑھ کر فرض کفایہ بن چکی ہے جو پوری امت کے کچھ اہل علم پر لازم ہے
اور یہ کوئی ایسی سلف سے ہٹی ہوئی بات بھی نہیں کہ جسکو نظر انداز کر دیا جاۓ یہ تو آقا حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیہ وسلم کی سنت بھی ہے

1716 : ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی۔ پھر سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ پھر سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ جب سیدنا حسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آ گیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دم سے مارتا ہے ( یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں )۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔

اک خواب جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے
انجمن اسلام پسند مصنفین ایسا ہی ایک خواب ہے جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے جسکو فسانے کی دنیا سے نکل حقیقت بننا ہے گو بکری کی ذات چھوٹی ضرور ہے لیکن اسمیں دل کو لگنے کے تمام اوصاف بھی ضرور موجود ہیں
گو ادب کی اس بسیط دنیا میں ایک چیونٹی ہی سہی لیکن اسکا وجود تو ہے بس قبولیت کی ایک نظر ہی تو چاہئیے ......

رَبَّنَآ ءَاتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةًۭ وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًۭا
اے ہمارے رب ہم پر اپنی طرف سے رحمت نازل فرما اور ہمارے اس کام کے لیے کامیابی کا سامان کر دے
سورۃ الکہف
حسیب احمد حسیب

تنقید بر اقبال !

تنقید بر اقبال !


اہم ادبی شخصیات پر تنقید اپنے قد کو بڑھانے کی ناکام کوشش ہوتی ہے جو اکثر نو آموز محقق سر انجام دینے کی کوشش میں انجام پذیر ہو جاتے ہیں..ایسا ہی ایک عجوبہ ایک فورم میں دیکھنے کو ملا جب کلام اقبال کو چند مجھول اقتباسات کی بنیاد پر دریا برد کرنے کی ناکام کوشش کی گئی لیکن سمندر کو دریا برد کرنا ممکن ہے

...
لیجئے اقتباس ملاحظہ کیجے اور پھر اسکا تجزیہ
(٩) نومبر کے حوالے سے خصوصی تحریر _____________________ حضرت علامہ اقبال کی وہ مشہور شاعری جو حقیقت میں ان کی نہیں تھی مگر ہم سب اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہ ان کی ہے اور اس جھوٹ کو پاکستانی درسی کتب نے بھی بہت پھیلایا ______________________ اقبال کی نظم "پیام صبح" لانگ فیلو کی نظم" ڈے بریک" کا آزاد ترجمہ ھے اقبال کی نظم "ماں کا خواب " ولیم بارنس کی نظم کا ترجمہ ھے اقبال کی نظم "مکڑا اور مکھی" Mary Haworthکی نظم The Spider and The Fly کا آزاد ترجمہ ہے۔ اصل انگریزی نظم چالیس سطروں ﴿مصرعوں﴾ پر مشتمل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ اقبال کا منظوم ترجمہ ۲۴ اشعار پر مشتمل ہے اقبال کا منظوم ترجمہ " رخصت اے بزم جہاں" ایمرسن کی نظم Good Bye کا منظوم ترجمہ ہے اقبال کی نظم "بچے کی دعا" مٹیلڈا بینتھم ایڈورڈس کی نظم ۔ سے لی گئی ھے۔۔"لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا میری"۔۔۔ اقبال کی نظم "پرندہ اور جگنو" ﴿۳:۵۹﴾ ولیم کوپر کی نظم The Nightingale And The Glowworm ﴿ کا آزاد ترجمہ ہے۔ یہ ۱۹۰۵ء کے پہلے کی نظم ہے۔ اقبال نے اصل شاعر کا حوالہ نہیں دیا اور نہ دوسرے منظوم ترجموں کی طرح ماخوذ ہونے کی صراحت کی ہے ۔ البتہ مولوی عبدالرزاق نے کلیات اقبال میں لکھا ہے یہ نظم انگلستان کے ایک نازک خیال شاعر" ولیم کوپر" کی ایک مشہور و مقبول نظم " اے نائٹ اینگل اینڈ گلوورم" سے ماخوذ ہے۔ اقبال نے اپنی دونوں نظموں میں ولیم کوپر کی ایک ہی نظم کے خیال کو الگ الگ استعمال کیا ہے، ہمدردی کو ہم ماخوذ قرار دے سکتے ہیں جب کہ "ایک پرندہ اور جگنو" آزاد ترجمہ ہے۔ اس منظوم ترجمہ میں مفہوم کو باقی رکھتے ہوئے لفظی ترجمے سے اجتناب کیا گیا ہے اقبال سے پہلے بانکے بہاری لال نے " حکایت بلبل اور شب تاب کی " اور رحیم اللہ نے بلبل اور جگنو کی حکایت کے عنوان سے منظوم ترجمے کئے تھے۔ بہت شکریہ
اقبال کی دینی فکر ترقی پسندوں کی نگاہ میں کیوں کھٹکتی ہے اسکا جاننا مشکل نہیں اور اسکی وجوہات روز روشن کی طرح عیاں ہیں

حیرت جب ہوتی جب غیر ادیب جو ردیف کی " ر " اور قافیہ کی " ق " کا درک بھی نہ رکھتے ہوں اساتذہ پر تنقید کریں ایاز قدر خویش بہ شناس استفادہ سرقہ اور چربہ میں بنیادی فرق ہےاستفادہ ادب میں جائز ہے بلکہ بعض مقامات پر مستحسن بھی ہے اسی طرح خیال کا توارد ہو جانا بھی کچھ عجیب نہیں ہے

تمنّاؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
یہ شاعر خمریات ریاض خیر آبادی کا شعر ہے پروین نے اسے اسطرح باندھا ہے

کھلونے پا لیے ہیں میں نے لیکن
مرے اندر کا بچہ مر رہا ہے
اقبال کا کثیر فارسی کلام مولانا روم کے افکار کا ورود ثانی ہے جسمیں تصوف و تزکیہ کی وہی قدیم روح دکھائی دیتی ہے
ہند میں اب نور ہے باقی نہ سوز
اہل دل اس دیس میں ہیں تیرہ روز
تو پیر رومی رحمتہ اللہ علیہ یہ جواب عنائت فرماتے ہیں : کار ِ مرداں روشنی و گرمی است
کارِ دوناں حیلہ و بے شرمی است

لیکن اقبال کا حقیقی وصف اسکا تصور خودی ہے جو اقبال کا غالب کلام ہے اور مغربی ادب خودی کے عنوان سے ناواقف ہے اسی طرف عقل و دل کا موازنہ اقبال کا خاصہ ہے جس سے مغربی ادب جو مادیت پرست معاشروں کی پیدہ وار ہے کلی ناواقف ہے
اقبال کی مدح میں جدید دہریت پسندوں کا ایک بڑا آئ کون کچھ اسطرح رطب السان ہے
(۱۹۳۱
ء میں) گورنمنٹ کالج، لاہور میں منعقدہ ایک مشاعرے میں ’اقبال‘ کے عنوان پر انعامی مقابلے کے لیے فیض نے بھی ایک نظم لکھ کر اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ یہ نظم بعد ازاں گورنمنٹ کالج کے ادبی مجلے راوی میں ’اقبال‘ کے عنوان سے شائع ہوئی:
زمانہ تھا کہ ہر فرد انتظارِ موت کرتا تھا
عمل کی آرزو باقی نہ تھی بازوے انساں میں
بساطِ دہر پر گویا سکوتِ مرگ طاری تھا
صداے نوحہ خواں تک بھی نہ تھی اس بزمِ ویراں میں
رگِ مشرق میں خونِ زندگی تھم تھم کے چلتا تھا
خزاں کا رنگ تھا گلزارِ ملت کی بہاروں میں
فضا کی گود میں چپ تھے ستیز انگیز ہنگامے
شہیدوں کی صدائیں سو رہی تھیں کارزاروں میں
سنی واماندئہ منزل نے آوازِ درا آخر
تِرے نغموں نے آخر توڑ ڈالا سحرِ خاموشی
میِ غفلت کے ماتے خوابِ دیرینہ سے جاگ اٹھے
خود آگاہی سے بدلی قلب و جاں کی خودفراموشی
عروقِ مردئہ مشرق میں خونِ زندگی دَوڑا
فسردہ مشتِ خاکستر سے پھر لاکھوں شرر نکلے
زمیں سے نوریاں تک آسماں پرواز کرتے تھے
یہ خاکی زندہ تر ، پائندہ تر ، تابندہ تر نکلے
نبود و بود کے سب راز تو نے پھر سے بتلائے
ہر اک فطرت کو تو نے اس کے امکانات جتلائے
ہر ایک قطرے کو وسعت دے کے دریا کر دیا تو نے
ہر اک ذرّے کو ہمدوشِ ثریا کر دیا تو نے
فروغِ آرزو کی بستیاں آباد کر ڈالیں
زجاجِ زندگی کو آتشِ دوشیں سے بھر ڈالا
طلسم کن سے تیرا نغمۂ جاںسوز کیا کم ہے
کہ تو نے صد ہزار افیونیوں کو مرد کر ڈالا

اگر خیال خاطر احباب نہ ہو اور انیس کے آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا اندیشہ نہ ہو تو ترقی پسندوں کے ادبی سرقہ جات کی فہرست طویل ہے لیکن یہ شاید الزامی جواب یا جوابی الزام ہو جاۓ لیکن کیڑے نکالنے والوں کی تنقید پسندی دیکھتے ہوے کچھ ادبی سرقوں کے حوالے سے ایک مضمون کے کچھ اقتباسات پیش کروں
عصمت چغتائی .... عدالت خانم
یادش بخیر آج سے پندرہ بیس سال پہلے اُردو ادب میں نئے ادبی تجربے کئے جا رہے تھے، نئے اسالیب سامنے آرہے تھے اور مغربی اثرات کا غلبہ تھا۔ یورپ کے ادب کے ساتھ ترکی اور عربی ادب کی طرف بھی توجہ دی کی جا رہی تھی۔ اُس دو رمیں کئی ایسی چیزیں لکھی گئیں جن میں ایک نئی فضا تھی۔ مثال کے طور پر امتیاز علی تاج کا ”چچا چھکّن“۔ قاضی عبدالغفار کی کتاب ”لیلیٰ کے خطوط“ اور ”اُس نے کہا“۔ ان کے بعد محترمہ عصمت چغتائی کا ناولٹ ”ضدی“۔ اُردو کے عام پڑھنے والوں نے ان تمام فن پاروں کا خیر مقدم کیا اور انہیں ادب میں قیمتی اضافہ قرار دیا۔ لیکن چھان بین سے پتہ چلا کہ یہ کتابیں تخلیقی کارناموں کی جگہ ترجمہ تھیں۔ یا ان کا مرکزی خیال اور تمام تر جزئیات ماخوذ تھیں۔ مثلاً ”چچا چھکّن“ امتیاز علی تاج کا کارنامہ انگریزی زبان کے مشہور مصنف ”جے کے جے روم“ کا مکمل چربہ تھا۔ چچا چھکّن کا سلسلہ جب تک رسالوں میں شائع ہوتا رہا۔ تاج صاحب نے کہیں اس بات کی طرف اشارہ نہ کیا۔ لیکن جب یہ مضامین کتابی صورت میں شائع ہونے لگے تو تاج صاحب نے مناسب سمجھا کہ دبی زبان سے کہیں ”اصل مصنف“ کا تذکرہ کردیا جائے۔ اسی طرح ”لیلیٰ کے خطوط“ کی تازگی الیگزینڈر کوپرین کے گل تر سے لی گئی تھی۔ ”اُس نے کہا“ کی اشاعت نے قاضی صاحب کے ترجمہ کرنے اور اخذ کرنے کی صلاحیت کا شاندار ثبوت فراہم کیا۔ یہ کتاب ”خلیل جبران“ کی مرہون منت تھی۔ جس کے قاضی صاحب بقول خود ”خوشہ چیں“ تھے مگر انہوں نے ترجمے کو ترجمہ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ ”خوشہ چینی“ کا جدید مفہوم ہے!عصمت چغتائی اُردو کے جدید افسانہ کے معماروں میں سے ایک ہیں! ان کے افسانوی نقوش ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں! اور اُردو ادب کی تایخ میں عصمت اپنے لئے ممتاز جگہ بنا چکی ہیں۔ ”کلیاں“ اور ”چوٹیں“ کے بعد آج سے بارہ تیرہ سال پہلے عصمت کا ناولٹ ”ضدّی“ شائع ہوا تھا۔ اس ناولٹ کو عصمت کی فنی عظمت کا ثبوت قرار دیا گیا تھا۔ اُس زمانے میں ادبی سراغرساں نے ”ضدّی“ کو بڑے ذوق وشوق سے پڑھا تھا۔ لیکن پڑھ کر اُسے بے حد صدمہ ہوا تھا کیونکہ یہ ناولٹ ترکی کی ناول ”ہاجرہ“ کا مکمل چربہ تھا اور ادبی سراغرساں نے اکتوبر 1943ءکے ”ماہنامہ معاصر“ پٹنہ میں ”ضدّی“ کے متعلق اس انکشاف کو پیش کیا تھا۔ مدتوں بعد پاکستان کے ایک نیم ادبی اور نیم مذہبی رسالے نے ”ضدّی“ سے متعلق اس تحریر کو بغیر کسی حوالے کے شائع کردیا یہ گویا ”انکشافِ جُرم کی دستاویز“ پر ڈاکہ تھا۔ مہر نیمروز 56ءکے پہلے شمارے میں، انتصار حسین صاحب کے بارے میں اسی عنوان کے تحت جو مضمون شائع ہواتو اسکے بارے میں ہمیں بہت خطوط موصول ہوئے۔ ڈاکٹر اعجاز حسین وغیرہ نے اسے ”قابل قدر کام“ قرار دیا۔ ایک محترمہ کا ارشاد ہے کہ ”آپ غریب اور معمولی ادیبوں کے پیچھے کیوں پڑنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ میں اخلاقی جرات ہے تو بڑے بڑے مصنفین کے بارے میں لکھئے“....
علی اکبر قاصد
حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی ادبی عظمت و جلالت میں گذرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اسلئے ناقدین اقبال کی کمزور صف سے محبان اقبال کی مضبوط دیوار زیادہ بہتر ہے

حسیب احمد حسیب
قبیلہ ربیعہ کا مسلمان !

دور صدیق اکبر رض اپنے مشکل ترین حالات کو دیکھ رہا تھا ایک جانب منکرین زکات کی سرکشی تو دوسری طرف سجا ع اور مسیلمہ کی جھوٹی نبوتیں الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کا سانحہ ارتحال ہی کیا کچھ کم تھا تاریخ اسلام کی سب سے عظیم ترین شخصیت نے جسطرح اس بار عظیم کو سنبھالا وہ قیامت تک رہنے والے انسانوں پر احسان عظیم ہے ...

عرب دو بڑے قبائلی گروہوں میں منقسم تھا مضر اور ربیعہ قریش کا تعلق مضر سے تھا ربیعہ قبائل وسط عرب میں آباد تھے مسیلمہ کا تعلق ربیعہ سے ہی تھا مورخ لکھتا ہے کہ جب اسلامی افواج گمراہ مدعی نبوت کی افواج کے سامنے ہوئیں تو ایک شام عجیب واقعہ ہوا جسنے انسانی نفسیات اور اسلامی نفسیات دونوں کی پرتوں کو کھول کر رکھ دیا .....
دن بھر کی جنگ کے بعد جب دو متحارب کیمپ آمنے سامنے موجود تھے کچھ اصحاب رسول صلعم چہل قدمی کو نکلے کہ مرتد افواج کے کچھ سپاہیوں سے سامنا ہوا یہاں ایک عجیب مکالمے کا احوال ملتا ہے .......
ایک صحابی رض نے مسیلمہ کی فوج کے ایک شخص کو دیکھا اور پوچھا
اے فلاں کیا تمہارا نام یہ ہے ؟
اس نے کہا جی درست پہچانا یہ ہی ہے
کیا تم وہ نہیں جو بنی حنیفہ کے ٨٠ رکنی وفد میں مدینہ اے تھے ؟
جی میں انہی میں سے ہوں .
کیا تم ایمان نہیں لاۓ تھے ؟
بیشک لایا تھا
کیا تم الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کو سچا نبی مانتے ہو ؟
جی بلکل مانتا ہوں
کیا مسیلمہ جھوٹا نبی ہے یہ جانتے ہو ؟
جی ہاں بخوبی جانتا ہوں
صحابی رض نے حیرت سے سوال کیا
اے بندہ خدا پھر یہ کیا عجب معاملہ ہے تم کفر کے لشکر میں کیسے ؟
اس سوال کے جواب میں اسنے جو کچھ کہا بہت عجیب تھا
کہنے لگا " خدا کی قسم ربیعہ کا جھوٹا مجھے مضر کے سچے سے زیادہ محبوب ہے "

آج مجھے ہر طرف ربیعہ کے مسلمان دکھائی دیتے ہیں جو خدا کو مانتے ہیں خدا کے محبوب صلعم پر ایمان رکھتے ہیں کفر کا کفر جانتے ہوے کفر کو کفر ہی سمجھتے ہیں لیکن کیا کیجئے وطنی اور علاقائی عصبیت کیا خوب کہا ہے اقبال مرحوم نے

اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے

حسیب احمد حسیب

مرنجاں مرنج (خاکہ)

مرنجاں مرنج (خاکہ) ۔ ۔ حسیب احمد حسیب
انحراف ایڈمن انحراف
موصوف کو دیکھتے ہی کسی بھی بھلے مانس کو پہلا مغالطہ یہ لگتا ہے کہ بڑی ہی
"مرنجاں مرنج " شخصیت کے مالک ہونگے لیکن بعد ازاں انکی جانب سے رنج ملنے
شروع ہوتے ہیں تو مرنے کو جی چاہتا ہے ..........
موصوف آپکی زندگی میں باد نسیم کی طرح داخل ہوتے ہیں اور چند ہی دنوں میں باد سموم کا مزہ دیتے ہیں .
انکی
خوبی یہ ہے کہ جتنے زمین کے اوپر ہیں اتنے ہی زمین کے اندر بھی ہیں یہ ان
چند لوگوں میں سے ہیں جنکی زندگی میں ہی لوگ انکی مغفرت کی د عا مانگتے
ہیں کافی پر اعتماد شخصیت پائی ہے اپنے تئیں بہترین افسانہ نگار ہیں لیکن
حقیقت یہ ہے کہ ان جیسے دنیا میں بیشمار ہیں انکی صحت کا یہ عالم ہے کہ
تصویر کھینچو تو ایکسرے آتا ہے ڈاکٹروں کے مطابق انکی ایکسپائری ڈیٹ کب کی
ختم ہو چکی یہ کسی بغیر وارنٹی والے غیر معروف کمپنی کے موبائل کی طرح ہیں
.....
جب یہ کپڑے پہنتے ہیں تو خود کو خوبصورت سمجھتے ہیں ماشا الله
جسمانی ہیت اتنی دلکش ہے کہ کپڑوں میں ہینگر معلوم ہوتے ہیں صوم وصلاة کے
انتہائی پابند ہیں پابندی سے چھوڑتے ہیں .
انکا تعلق شوبز سے ہے اسلئے
شو آف کے بہت شوقین ہیں خوبصورت خواتین کے درمیان ہوں تو نظر بٹو کا کام
دیتے ہیں یہ چشماٹو ہیں آنکھیں بچپن میں ہی کمزور ہو گئیں تھیں وجوہات
قابل بیان نہیں ......
موصوف خواتین کے حقوق کے بہت قائل ہیں انہیں گھر
والی کے علاوہ ہر عورت خوبصورت نظر آتی ہے انہیں شریعت سے بہت لگاؤ ہے
منکرات کے تذکرے پر وجد میں آ جاتے ہیں انکی ایک اور خوبی خود کو ہر فن
مولیٰ سمجھنے کی ہے پہلی بار موٹر سائکل چلانی سیکھی تو نکل پڑے دنیا سیاحت
پر کچھ دیر بعد معلوم پڑا بریک لگانے سے تو واقف ہی نہیں سیدھے قبرستان جا
پوھنچے مہاورتاً نہیں حقیقت میں اور وہاں جاکر پریشان ہو گۓ اور فرمانے
لگے "ارے یہ اتنے سارے سپیڈ بریکر کہاں سے آ گۓ "
موصوف کو دوسروں کی
کڑاہی میں اپنے پکوڑے تلنے کا بہت شوق ہے جہاں چند افراد کو سیخیں بھونتے
دیکھا اپنا بھٹا لیکر پوھنچ جائینگے اور مصر ہونگے اسے بھی بھونا جاۓ.
انکا خاکہ لکھنا خاک اڑانے کے مترادف ہی ہے تو کافی خاک اڑائ جا چکی اب تو بس خاک ڈالنے کی آرزو ہے

" تعریف کی بھوک "

انشائیے پر انحراف کے تخلیقی و تنقیدی پروگرام کے سلسلے میں موصول ہو نے والا محترم حسیب احمد حسیب کا انشائیہ
انحراف ایڈمن انحراف
" تعریف کی بھوک "


انسان پیدائشی بھوکا ہے دنیا میں آتے ہی رو رو کر لوگوں کو متوجہ کرتا ہے " میں بھوکا ہوں ، میں بھوکا ہوں " اسکے اس رونے کو سن کر ماں کی مامتا کو جوش آتا ہے اور اسکی چھاتیوں میں موجود آب حیات کے چشمے ابلنے شروع ہو جاتے ہیں جیسے کوئی اسماعیل (علیہ سلام ) زمین پر ایڑیاں رگڑے اور زمین اپنے بہترین خزانے کو اوپر لا پھینکے اور پھر زم زم ( رک جا ) کی صدائیں بلند کرنا پڑیں ..


جب انسان بلوغت کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو ایک اور بھوک سے آشنا ہوتا ہے " جنس کی بھوک " پھر روتا ہے چلاتا ہے حیلے بہانے کرتا ہے آس پاس کے لوگوں کو احساس ہوتا ہے تلاش و تگ و دو شروع ہوتی ہے اور ایک عدد " بر " کا انتظام کیا جاتا ہے اور " ویر میرا گھوڑی چڑھیا " یا " بابلا وے " کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ......


اور ایک ہے تعریف کی بھوک اس بھوکے کی بھوک مٹانے کا انتظام کرنے کو کوئی تیار نہیں بلکہ بھوکا بھی اپنی بھوک سے واقف نہیں ہے اور واقف کیا ہو شاید اسے بھوک تسلیم کیا ہی نہیں جاتا .....


تعریف ایک ایسی غذا ہے جو بچپن سے کسی بھی شخص کو ملتی تو ضرور ہے لیکن ناواقفیت کی وجہ سے کہیں بہت زیادہ اور کہیں بہت کم .....


کوئی تعریف سن سن کر بدہضمی کا شکار ہوا پڑا ہے تنقید کو ایسے اگل دیتا ہے جیسے لقمے میں بوٹی کی بجاۓ کوئی چھیچڑا آ جاتے اور کوئی اتنی قلت کا شکار ہے کہ اسے بھولے سے یہ غذا دے دی جاۓ تو ایسے الٹ دے گا جیسے بچے کو پہلی بار اوپر کا دودھ دیا جاۓ تو الٹ دیتا ہے ..


تعریف کی بھوک انسان کے اندر کے ان جذبات کو ابھارتی ہے جو ایندھن کا کام دیتے ہیں انسان کی خوابیدہ صلاحیتیں اپنی توصیف کو سننے کے لیے تخلیق کی طرف مائل ہوتی ہیں شاعر،ادیب ،مصنف ، اداکار غرض کوئی بھی ہو یہ تعریف کی بھوک ہی تو ہے جو اسے تخلیق پر مجبور کرتی ہے ...


کسی مشاعرے میں واہ واہ کی صداؤں میں شاعر کے دوران خون کی بڑھتی ہوئی رفتار اور اسکے نتیجہ میں پیدہ ہونے والی حرکی توانائی سے بننے والی حرارت کا اثر اسکے چہرے کے آئینے پر واضح دیکھا جا سکتا ہے ........


الحمرا میں سٹیج پر کھڑا ہوا فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوے لوگوں کی طرف متوجہ تعریف کے چند بولوں کے انتظار میں اتنا ہی بیتاب ہوتا ہے جتنی کوئلوں کے چولہے پر روٹی پکاتی ایک دیہاتن چند جملوں کی منتظر ہوتی ہے تالیوں کی فلک شگاف گونج یا " آج تو صواد آ گیا " کے چند جادو اثر الفاظ اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہر دو افراد کی تشفی کر سکتے ہیں......


تعریف جنس ارزاں نہیں کہ لوگوں پر نچھاور کرنی شروع کر دی جاۓ اور نہ ہی جنس نایاب کے کسی گودام میں ذخیرہ کرکے سڑنے کو چھوڑ دی جاۓ ...


یہ غذا کب دینی ہے کس کو دینی ہے کتنی دینی ہے اسکا جاننا ضروری ہے اور کہیں اسکی زیادتی ہو جاۓ تو تنقید کے چورن کی ایک خاص مقدار کہ کہیں زیادتی کی وجہ سے معدہ کا نظام متغیر نہ ہو جاۓ .....


تعریف کی ٹنکی پر خود آگاہی کی گھنٹی ضرور لگی ہو تاکہ اوور فلو ہونے سے پہلے اپنے اپنے ظرف کا اندازہ ہو سکے ..


ہاں ایسا نہ ہو کہ یہ بارٹر ( جنس کے بدلے جنس ) کا کاروبار بن جاۓ اور دسترخوان پر بیٹھے ہر دو افراد برابر کے لقمے بنا بنا کر ایک دوسرے کے منہ میں دیتے چلے جائیں اور کسی کا بھی پیٹ نہ بھرے ..


تعریف کی دعوت ، دعوت عام ہے یہ ہر مدعو کا حق تو ہے کہ اسے اپنے جثے کے مطابق چند لقمے یا پورا خوان ہی مل جاۓ لیکن اسکا خیال بھی ضروری ہے کہ کہیں چند بو الہوسوں کی وجہ سے کچھ ضرورت مند بھوکے نہ رہ جائیں اور کچھ کم ظرفوں کے معدہ کی گرانی باقی لوگوں کے " تنفس " پر بار نہ بن جاۓ ..


تعریف ہمیشہ میٹھی ہوتی ہے یہ پیٹ بھرنے کی چیز نہیں بلکہ زبان کی نوک پر رکھ کر لطف لینے کا معاملہ ہے یہ مٹھاس ہر بار مختلف ہوتی ہے کبھی کسی محفل میں کھائی جانے والی آرٹیفیشل فلیور آئس کریم کی طرح اور کبھی اپنے گھر کے آنگن میں ماں کے ہاتھوں کھلائی جانے والی چوری کی طرح جو ماں کی مامتا کے ساتھ جزو بدن بن جاۓ اور جسم میں خون کے اضافے کا سبب ہو ہاں کبھی کبھی منہ کا ذائقہ تبدیل کرنا بھی اچھا ہے .....


تعریف کی مٹھاس اتنی زیادہ نہ ہو جاۓ کہ " شکر " کا مرض لاحق ہو جاۓ اور پھر اسکی بڑھتی ہوئی زیادتی بطن کے گھلنے کے عمل کا موجب ہو جسکا انجام وجود کی موت ہے ...


یہ ہمیشہ کھانے کی ہی چیز نہیں کھلانے کی چیز بھی ہے کرنے سے کم نہیں ہوتی بانٹنے سے ختم نہیں ہوتی اگر طبیعت میں خساست اور مزاج میں بخیلی نہ ہو تو دوسروں کو بھی شریک کرلینا نظر بد سے بچا سکتا ہے .....


اگر تعریف کا لڈو درکار ہے اور جسم اسکی کمی محسوس کر رہا ہے تو جان لیجئے یہ ایسے نہیں ملنے والا اسکیلئے تخلیق کی اجرت درکار ہے .


حسیب احمد حسیب