ہفتہ، 29 مارچ، 2014

غزل !

غزل ! 

زندگی ہم تجھے گزار آے
بیڑیاں پیر کی اتار آے


کب سے ہم منتظر ہیں آنے کے 
موت آے تو ایک بار آے


روز جاتے ہیں انکی محفل میں 
کاش ہم پر بھی انکو پیار آے


مر رہا ہوں میں اس کو بتلا دو 
پھر وہ شاید دیوانہ وار آے


انکی ہو جاۓ غیر سے رنجش 
میرے دل کو بھی کچھ قرار آے


رونق میکدہ بحال کرو 
آے پھر کوئی بادہ خوار آے


موت آئ تھی جب حسیب تمہیں 
لوگ سنتے ہیں بے شمار آے

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: