ہفتہ، 29 مارچ، 2014

غزل !

غزل 


خیال خام سر شام آۓ ہیں کیا کیا
دیار فکر میں نکتے اٹھاۓ ہیں کیا کیا 

میرے خدا تیری دنیا میں سنگ زادوں نے 
بتان کفر کے معبد بناۓ ہیں کیا کیا 

دیار حسن کی وادی میں عشق زادوں نے 
زبان شعر سے دریا بہاۓ ہیں کیا کیا 

تخیلات کی کانوں سے کھود کر ہم نے
زمین شعر پے موتی سجاۓ ہیں کیا کیا

خمار ذات کی مستی میں قید اے ظالم 
تیرے مزاج نے فتنے اٹھاۓ ہیں کیا کیا 

بس ایک جرات دل ہے جو ہم ضعیفوں نے
سپاہ ظلم کے چھکے چھڑا ۓ ہیں کیا کیا 

سکوت شب میں اندھیرےکےخوف سے ہم نے
تمہاری یاد کے جگنو سجاۓ ہیں کیا کیا 

تفکرات کے گھیرے میں معرفت نے ہمیں
حصول خیر کے رستے دکھاۓ ہیں کیا کیا 

تلاش ذات میں اپنی انا کے کوہ گراں
خودی کی ضرب سے ہم نے گراۓ ہیں کیا کیا 

حسیب تم کو یقیں ہے تمہاری چاہت میں
کسی نے راہ میں تارے بچھائے ہیں کیا کیا 

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: