ہفتہ، 29 مارچ، 2014

ایک دعائیہ " نعت "

ایک دعائیہ " نعت " 

صل الله علیہ وسلم

پورے میں کروں مدحت آقا کے تقاضے
یا رب مجھے آداب غلامی کے بتا دے 

صل الله علیہ وسلم 

دولت ہے بڑی شان رسالت کا بیاں بھی
آقا کی اطاعت کا سلیقہ بھی سکھا دے 

صل الله علیہ وسلم 

ہر دم ہوں میرے پیش نظر اسوہ احمد
احکام نبوت پے عمل مجھ سے کرا دے

صل الله علیہ وسلم

جاؤں تومگرجاؤں میں کس منہ سے مدینے
دامن پے میرے داغ بہت حرص و ہوا کے 

صل الله علیہ وسلم

اصحاب محمد کی میرے دل میں ہو عزت
تشکیک کے جالوں کو میرے دل سے ہٹا دے

صل الله علیہ وسلم

ہر دم یونہی ہوتی رہے انوار کی بارش
تذکار محمّد سے میرے گھر کو سجا دے

صل الله علیہ وسلم

ہو آل محمّد کی غلامی مجھے منظور
الله ! مجھے اسکی بھی توفیق ذرا دے 

صل الله علیہ وسلم

بھٹکا میں پھروں شہر محمّد میں پریشاں
رخصت کے ہر اک گام پے دیوار اٹھا دے

صل الله علیہ وسلم

ناموس رسالت کے لیے کٹ مروں اک دن
یا رب میرے ایمان کو مقبول بنا دے

صل الله علیہ وسلم

اک روز چلا جاؤں اچانک میں مدینے
مولا مجھے اس خواب کی تعبیر دکھا دے

صل الله علیہ وسلم

مطلوب ہے کوثر کی ضیافت سر محشر
ہے لطف اگر ہاتھ سے ساقی کے پلا دے



حسیب احمد حسیب

کہاں ہیں ثنا خوان تقدیس مغرب !

کہاں ہیں ثنا خوان تقدیس مغرب !



اقبال کی روح سے معذرت کے ساتھ ،

کھول آنکھ فلک دیکھ زمین دیکھ فضا دیکھ
"مغرب" سے ابھرتے ہوے سورج کو ذرا دیکھ

میرا مشاہدہ یہ ہے کہ سب سے بدترین جدت پسند مسلمانوں کے ہیں ہندو سکھ یا بودھ بھی جدت پسند ہو سکتا ہے لیکن اسکے افکار کی عمارت اپنی تہذیب کی قبر پر نہیں ہوتی فکر اس چیز کی ہے کہ ایسے اہل علم اس فطری امیون سسٹم کے خلاف ہی کام کر رہے ہیں جو تہذیبوں کا محافظ ہوتا ہے انکو مغربی ثقافت کی یلغار دکھائی نہیں دیتی بس مشورے خودسپردگی کے ہیں تمام سوالات و اشکالات ان اذہان میں پیدہ ہوتے ہیں جنھیں عقل کل ہونے کا زعم ہوتا ہے جنکی جڑیں اپنی مٹی میں مضبوط نہیں ہوتیں اور جنکا کا مقصود ہر چڑھتے سورج کی پوجا ہے اسکے غروب تک! تہذیبوں کا یکسر تبدیل ہو جانا زندگی کے رنگ ڈھنگ بدل جانا صدیوں پر محیط فطری عمل ہے لیکن جسطرح گزشتہ صدی میں برانڈنگ نے اور ہر شے کو کمو ڈٹی سمجھ کر قابل فروخت سمجھنے والوں نے لوگوں کی زندگیوں میں دخیل ہوکر معاشروں کو تبدیل کرنے کی مہم چلا رکھی ہے اور اپنی تہذیب و ثقافت پر شرمندہ طبقہ جیسے خود سپردگی کا شکار ہے اسے حیرت ہوتی ہے کہ ریزسٹ کرنے والے کیوں سر با سجود نہیں ہیں !


شاید تاریخ کے شبستانوں میں سفر کرتے کرتے جنسی بھوک جنون میں بدل چکی ہے قصاب کی دکان پر لٹکا ننگا گوشت یہ موسیقی پر تھرکتی ننگی عورت اور ساتھ میں انگور کا رس لیکن میرے خالق نے اور بہت کچھ بھی تو بنایا ہے کس طرح طبیعتیں احسن تقسیم سے اسفلا سافلین کی طرف سفر کرتی ہیں یہ بھی عجیب ہے !


کلچر کہیں رکا ہے کیا! لیکن احباب اسکا رخ غیر فطری انداز میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اپنی شرمندگی اور پسماندگی چھپانے کے لیے


آج ہندو سکھ عیسائی یا مختلف اقوام جو اس خطے میں موجود ہیں اپنی ثقافت کو محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہیں آخر کیوں ایسا پہلے کیوں نہ تھا مغربی تہذیب اور اسکے گماشتے وہ کلچر رائج کرنے کے خواہش مند ہیں جو یہاں کا تھا ہی نہیں ! لبرل اپنی سی کوشش ضرور کر رہے ہیں لیکن بیچارے مغرب میں تیسرے درجے کے شہری اور مشرق میں اچھوت ہی بن سکے ہیں مسلہ یہ ہے کہ دین کو قبول نہ کر سکے اور اپنی تہذیب پر شرمندہ مغرب کی چکا چوند کے اندھے وہ کہتے ہیں نا ساون کے اندھے کو سب ہرا دکھائی دیتا ہےانکا لباس ،انکے کھانے انکا رہن سہن کا انداز انکے تیوہار کس کس کے لیے راستے ہموار کرینگے !اصل میں ہمار ایک مخصوص طبقہ جو ہماری ثقافت کا حصہ ہی نہیں ہے جسکی پیدائش ہی مغرب کی کوکھ سے ہوئی ہے ہمیں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ہماری بقا انکی ثقافت کو اپنا لینے میں ہی ہے ! شدید احساس کمتری کا شکار ہے یہ طبقہ اپنے آپ پر شرمندہ اور اپنے لوگوں پر غصّہ اور مغربی ثقافت سے ذہنی طور پر مغلوب


جب انسے کہو کہ مغرب کی تہذیب کا ازدہا مشرق کو نگلنے ہی والا ہے تو کہتے ہیں یہ تو ملا کا مغالطہ ہے ،کیا انکی آنکھیں اندھی اور انکے دل بے بصیرت ہو چکے ہیں ،آپ کوئی بھی اشتہاری مہم اٹھا لیجئے کہیں ری شیپنگ لائف کی بات ہوتا ہے کہیں کھل کے جینے کا درس دیا جا رہا ہوتا ہے کہیں حدود کو توڑنے کی بات ہوتی ہے کہیں محبّت کی پینگیں بڑھانے کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ، کیا با قاعدہ اشتہاری مہم کتابی اور میڈیائی یلغار اور کراۓ کے گماشتوں کے ذریعے اپنی تہذیب کو غالب جانتے ہوے دوسری تہذیبوں کو معدوم کرنے کی کوشش فطری طریقہ ہے ،،،،،،،، مسلہ یہ ہے کہ اپنی تہذیب سے بانڈ نہیں رہا یہ اس سے واسطہ نہیں پڑا اسی لیے فرق دکھائی نہیں دے رہا اگر توجہ دلائی جاۓ او اپنی تہذیب و ثقافت کی بقا کی جانب اشارہ کیا جاۓ تو پھبتیاں کسی جاتی ہیں ،،،،،،


" ہم دھوتی کے ساتھ میدان جنگ جا تو سکتے ہیں لیکن آنے کی کوئ گارنٹی نہیں جتنی ملٹی پرپز دھوتی استعمال ہوتی اوپر اوڑھ لو لنگوٹ کی شکل دے دو چھوٹی موٹی بلندی سے پیرا شوٹ بنا کر کود بھی سکتے پانی میں سے اس کو حسب زائقہ اٹھاتے ہوئے گیلا کئے بغیر گزر بھی سکتے لیکن دفاتر میں لڑائ میں کارخانوں میں اس کے کام کرتے مشکل ہو گی "


کس نے کہا کہ لنگوٹ باندھ کر جہاز اڑانے چل پڑیں دھوتی باندھ کر موٹر سائکل کی سواری فرمائیں سر پر پگھ باندھ کر سوئمنگ کے لیے تشریف لے جائیں شیروانی میں ملبوس ہوکر فٹبال کھیلنے جا پھنچھیں اور زرہ بکتر باندھ کر حجلہ عروسی میں داخل ہو جائیں !


تشکیک پیدہ کرنا اور معاشرے کا گند چن کر اسے ہی ثقافت قرار دینا اور پھر اس سے بھی غلیظ تر شے کو اپنا لینے کی دعوت کہاں کا انصاف ہے ،اپنی ثقافت و تہذیب کی ڈوبتی ہی ناؤ کو پڑ لگانے کی کوشش کی جاۓ تو وہ لگ جو نوح کے بیٹے کی طرح پہاڑ پڑ چڑھ کے جان بچا لینے کے کے زعم میں تھے کشتی میں سوراخ کر رہے ہیں بدقسمتی یہی ہے کہ جو ہماری آل ہی نہ تھے انھیں بھی اس کشتی کا سوار جان لیا گیا ہے ،مغرب کی برانڈڈ یہ کاپی کیٹس بھی بہت بری وجہ ہیں یہ ایک ایسے دیمک ہیں جو کسی بھی تہذیب کی کھوکھلا کرنے میں اپنی بھرپور کردار ادا کرتے ہیں ،،،،،،


حسیب احمد حسیب 

"شاعری کی ایک جدید صنعت "

"شاعری کی ایک جدید صنعت "



شاعری میں صنعتوں کا استعمال یا صنعتوں میں شاعری یا پھر شاعر کا صنعت میں پایا جانا 
بہر صورت معاملہ پیچیدہ ضرور ہو جاتا ہے .
پہلے پہل جب شاعری کی صنعتوں یا صنعتی شاعری سے کچھ واقفیت ہوئی تو اپنی نا واقفیت کا علم ہوا ایک جغادری قسم کے استاد کے پاس پوھنچے انہوں نے خشمگیں نگاہوں سے ہمیں دیکھا ایک آہ بھری اور گویا ہوے ....
میاں 
کیوں آے ہو 
ہم نے کہا 
یا استاد "کچھ صنعتیں " سکھا دیں
بولے کچھ ابتدائی تعرف ہے
ہم نے کہا جی ہاں
انہوں نے استفسار کیا
صنعت حسن تعلیل کو جانتے ہو
جی جی
ہم نے سر ہلایا
کیا ہے ادھر سے سوال آیا ........؟
وہ حسین جو حالات سے مجبور ہوکر کسی صنعت میں ملازمت اختیار کرے اور علیل ہو جاوے ......
پھر وہاں سے جو کچھ آیا اس سے نا ہمیں کوئی دلچسپی ہے اور نا آپ کو ہونی چاہئیے .
اسکے بعد
"صنعتِ لزوم مالایلزم " جسے ہم عادی ملزم سمجھتے رہے
"صنعتِ طباق" جسنے ہمارے چودہ طبق روشن کر دئیے
"صنعتِ ذوقافیتین و ذو القوافی" اور ہماری زبان میں معمر قذافی
لیکن "صنعتِ سیاقۃ اعداد" پر ہماری بس ہوگئی اور ہم نے توبہ کی
لیکن جناب چونکہ صنعتی ترقی کا دور ہے اور صنعتوں سے چھٹکارا ممکن نہیں یہ بڑی ڈھیٹ ثابت ہوئی ہیں بجلی کے بحران کے باوجود بھی قائم و دائم ہیں ہمیں ایک جدید "صنعت " سے واسطہ پڑا اور ایسا سبق حاصل ہوا کہ اگر شاعری سے ہٹ کر بھی اس صنعت کا استعمال ہو تو تمام مسائل حل ہوجائیں ...
گو اب ہم اپنے آپ کو استاد استاد سمجھنے لگے ہیں اور لوگ ہماری شکل دیکھ کر ہی کہتے ہیں "میاں بڑے استاد ہو
ایک لٹکو قسم کے نوجوان شاعر سے ملاقات ہوئی جو سادہ کاغذ پر اصلاح لینے کے قائل تھے انسے ہمارا معاہدہ ہو گیا
جب تک ہماری سگریٹ کی ڈبیا اور چاۓ کی پیالی بھری رہے گی انکو سادہ کاغذ پر اصلاح ملتی رہے گی ...
پہلے پہل شاگرد تھے اور نئی نئی استادی تھی کچھ زیادہ سکھا دیا چند ہی دنوں میں موصوف اس مقام پر آ گۓ کہ ہم اپنے آپ کو استاد سے زیادہ شاگرد سمجھنے لگے دوریاں بڑھنے لگیں اور سگریٹ کی ڈبی اور چاۓ کی پیالی خالی رہنے لگی .
قصہ مختصر مرغا حلال ہونے سے پہلے ہی حرامی نکلا بعد میں معلوم ہوا کسی اور مخنچو کے ہتھے چڑھ گۓ ہیں جناب ...
تو ہماری گفتگو شروع ہوئی تھی "شاعری کی ایک جدید صنعت " کے حوالے سے
ایک دن موصوف سے ایک مشاعرے میں ملاقات ہو گئی مسکرا کر ملے ہم بھی کچھ ہچکچا کر ملے
پوچھا کیوں جی شاعری ہو رہی ہے
بولے جی حضور "ٹاپوں ٹاپ" جاری ہے
ہم نے پوچھا کچھ تازہ کہا
کہنے لگے جی جی کئی غزلیں کہ ڈالی ہیں
ہمارے منہ سے نکلا ،اوہ
وہ بولے اوہو
ہم نے کہا کچھ سنائیے
انہوں نے ایک عجیب و غریب "شتر گربہ" قسم کی چیز سنائی جو بحور و اوزان کی حدود و قیود سے یکسر آزاد تھی ...
ہم نے پوچھا یہ کیا
بولے الله کا کرم ہے بس
ہم نے کہا کس کے ہتھے چڑھ گۓ یہ کوئی شاعری ہے
کہنے لگے ہمارے استاد بہت پوھنچی ہوئی شے ہیں آپ ابھی ناواقف ہیں یہ "شاعری کی جدید صنعت " ہے
ہم نے کہا ہیں جی
وہ بولے ہانجی
ہم پوچھا وہ کیا
وہ بولے "پونکا "
حسیب احمد حسیب

غزل !

غزل ! 

زندگی ہم تجھے گزار آے
بیڑیاں پیر کی اتار آے


کب سے ہم منتظر ہیں آنے کے 
موت آے تو ایک بار آے


روز جاتے ہیں انکی محفل میں 
کاش ہم پر بھی انکو پیار آے


مر رہا ہوں میں اس کو بتلا دو 
پھر وہ شاید دیوانہ وار آے


انکی ہو جاۓ غیر سے رنجش 
میرے دل کو بھی کچھ قرار آے


رونق میکدہ بحال کرو 
آے پھر کوئی بادہ خوار آے


موت آئ تھی جب حسیب تمہیں 
لوگ سنتے ہیں بے شمار آے

حسیب احمد حسیب

دیتے ہیں یہ فیس بکرز دھوکا کھلا..

دیتے ہیں یہ فیس بکرز دھوکا کھلا..


کافی عرصہ پہلے ایک فلم دیکھی تھی surrogates جسمیں ایک ایسا زمانہ دکھایا گیا تھا جب لوگ عملی زندگی گزارنا ختم کر دیتے ہیں اور انکے "متبادل " دنیا میں چلتے پھرتے ہیں اور اصل بندہ اپنے گھر سے بیٹھا کمپیوٹر کے ذریعہ اپنے "سروگیٹ " کو کنٹرول کرتا ہے ..یہ ١٦ سالہ حسینہ ہے لیکن اسکے پیچھے کوئی اسی سالہ بڑھیا.یہ ایک ورزشی بدن کا نو جوان لیکن اصل میں کھڑوس بڈھا.....یہ ایک حسین دوشیزہ لیکن اصل میں کالی مائی ...یہ یہ یہ یہ .......


ایسی ہی کہانی ہمارے فیس بک کی بھی ہے دنیا کا سب سے معروف سوشل میڈیا سب سے زیادہ بہروپیا اور دھوکے باز بھی ہے ......خوبصورت آئ ڈیز کے دھوکے میں نہ آئیں پردہ کے پیچھے کوئی بھی ہو سکتا یا سکتی ہے ....یا پھر اوئی الله ہاۓ الله آئٹم کا ہونا بھی ممکن ہے


"ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ"انتہائی ثقہ قسم کے واعظ کوئی کلین شیو کوٹ پتلون بھی ہو سکتے ہیں اور اچھل پڈو قسم کے جوان کے پیچھے نستعلیق و باریش صوفی صاحب بھی نمودار ہو سکتے ہیں ..یہ فیس بک کی حسینہ عالم ہے ممکن ہےیہ کوئی دو من کی بھینس نکلے .ملکی سطح کے سیاسی فیصلے فرمانے والے بشیر چپراسی ہوں یہ بھی غیر ممکن نہیں .


فیک آئ ڈی آخر بنائی ہی کیوں جاتی ہے ....کسی کے لیے پردہ یا کسی کا پردہ . کسی بہروپ کے پیچھے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں .......پہلے وہ جو کچھ چھپانا چاہتے ہیں کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں یا شاید دھوکہ دیتے ہیں کبھی خود کو کبھی دوسروں کو .......دوسرے وہ جو لوگوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں کسی محرومی یا احساس کمتری کی وجہ سے ......دو مختلف قسم کے لوگوں کے لیے ..مختلف رویہ ہونا چاہئیے ...لیکن یہ پہچان ہے کسی کے پاس .............شاید نہیں .


مختلف گروپس کے اڈمن حضرات بھی فیک آئ ڈیز کے پیچھے چھپے دکھائی دینگے ...آپ کا گروپ ہے آپ کے دوست ایڈ ہیں پھر یہ پردہ کیوں شاید یہ پردہ اس لحاظ سے اچھا ہے کہ دوستیاں خراب کئے بغیر دوستوں کے خلاف کاروائی کی جا سکتی ہےوجہ کوئی بھی ہو اس فیس بک کی دنیا میں فیک آئ ڈیز کی بہتات ہے ......لیکن ان ہی جھوٹے چہروں کے پیچھے کچھ اچھے لوگ بھی چھپے بیٹھے ہیں بس ڈھونڈنے کی دیر ہے .


حسیب احمد حسیب

10 جون, 2013 آج کی بات .

10 جون, 2013
آج کی بات .

دوستیاں ،دعوتیں ،ڈکیتیاں ....

کل پھر احباب چورنگی کا ملاپ ہوا منزل مقصود پھر سے زنگر تھا درمیان میں "حکیم کی ورکشاپ " بھی آئ دو تین مریضوں کی ڈینٹنگ پینٹنگ ہو رہی تھی اس سے پہلے کہ ہم دواے دل مانگ لیں "وہ دکان اپنی بڑھا گۓ"نیلے کا انتظار کرتے ہوے جب ہم لوگ نیلوں نیل ہو گۓ تو پھر "عازم زنگر " ہونے کا فیصلہ کیا گیا اب کی بار عباس حسین بھائی کی جیب پر بار پڑنے والا تھا ......

"یونائیٹڈ کوئین" یہ فاسٹ فوڈ شاپ کا نام ہے جہاں دو کنوارے اور ایک شدہ یونائٹ ہوے تھے دو کو کوئین کی آرزو تھی اور ایک کو انتھونی کوئین کی ...

دوستیاں بھی عجیب ہیں دوست ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں پھر کچھ نۓ دوست بن جاتے ہیں لیکن ایسے چند ہی دوست ہوتے ہیں جنھیں دوست کہا جا سکے ....."دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا "

دوستوں کی ہر محفل نئی تازگی لاتی ہے .....دوست اچھا لگتا ہے اور اگر دعوت دے تو زیادہ اچھا لگتا ...

بحر حال کھایا "زنگر " اور پیا ایک دوسرے کا دماغ .

اب آپ سوچینگے ڈکیتیاں کہاں سے آ گئیں.....

تو جناب ایک ڈکیت ضرور آیا اور اس کے ساتھ اسکی ڈکیتیاں بھی تھیں اسکی بدقسمتی اور متوقع لٹنے والے کی خوش قسمتی جو بہادری کے ساتھ ہی آتی ہے .ڈکیت قابو آ گیا اور موب جسٹس جو ہمارے ہاں چیف جسٹس کے بعد دوسرا مشہور جسٹس ہے کی عدالت میں قابل گردن زدنی قرار پایا اور سزا پر فوری عمل در آمد بھی ہوا ......گو بعد میں اسکے بھائی بند بلکہ پیٹی بند اسکی مدد کو آ گے تھے لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ روح نے قفس عنصری کو چھوڑ کر پرواز کی یا نہیں ......

تو جناب قصہ المختصر .......زنگر کھایا ڈاکو کی پٹائی دیکھی بعد میں آئسکریم بھی کھائی اور کچھ خوشگوار یادوں کے ساتھ یہ محفل اختتام پذیر ہوئی.....با وجود کوشش شدید نیلے صاحب نہ پوھنچ سکے (اب انپر جرمانہ ڈیو ہے ) اور ہم نے انکی یادوں سے کام چلایا .......اگلی ملاقات کے احوال تک ...حافظ خدا تمہارا

حسیب احمد حسیب

"مافیا "

"مافیا "




فطرت انسانی کی بوقلمونیاں عجیب و غریب ہیں یہ کمزور مخلوق ذرا سی طاقت حاصل ہونے کے بعد" میں خدا ہوں !! کا نعرہ لگانے سے گریز نہیں کرتی مسلسل فنا کی دہلیز پر کھڑی یہ ہستی جانتی ہے اگلا قدم موت کی وادی میں لیجا سکتا ہے لیکن اس کو کوئی پرواہ نہیں چند لمحے جو ادھار ملے ہیں ان میں صدیوں کی منصوبہ بندی انسان ہی کا کمال ہے ، گروہ بندی اور اجتماعیت اسکی بہترین معاشرتی قووتیں ہیں جنکی بنیاد پر تہذیب انسانی ارتقائی منازل تے کرتی ہے کسی بھی گروہ کو جوڑنے والے اور چلانے والے کئی محرک ہو سکتے ہیں قومی قبائلی نظریاتی یہ پھر مذہبی عنوانات مگر ان سب کا بنیادی جوہر باہمی مفاد یہ پھر مشترکہ مفادات ہیں ، مفادات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے کہیں خیر اور کہیں شر کے عنوانات واضح ہوتے ہیں اس خیر اور شر کے توازن کے لیے کچھ اصول مرتب کئے جاتے ہیں یا پھر فطری طور پر ہو جاتے ہیں تاکہ نظم اجتماعی قائم رہے ،،،یہ نظم اجتماعی بقاء باہمی کے لیے لازم ترین امر ہے اسکے بغیر بقاء باہمی نا ممکن ہے اگر یہ نظم اجتماعی نہ ہو تو ہر بڑی قوت چھوٹی قووتوں کو کھا جاۓ اور انسانی معاشرہ جانوروں کا معاشرہ بن کر رہ جاۓ ، یہ اصول اور قوانین مرتب کرنے والی قوت یا تو شعور انسانی ہے جسمیں غلطی کا احتمال انسانی کی فطرت کے تحت عین ممکن ہے یا پھر الله کا نازل کیا ہوا قانون !!!!!!وہ تمام معاشرے جو اپنی فطرت سلیم سے ہٹ جاتے ہیں اور کسی بھی قانون کی پاسداری وہاں موجود نہیں رہتی ان معاشروں میں اگر کوئی قانون باقی رہتا ہے تو وہ جنگل کا قانون کہلاتا ہے جسمیں بنیادی مقصود اپنی بقاء کی جنگ ہوتا ہے چاہے اسکیلئے دوسروں کو شکار ہی کیوں نہ کرنا پڑے ایسا معاشرہ ایک وحشی معاشرہ ہوتا ہے ، "مافیا" اطالوی زبان کا لفظ ہے جسکی جاۓ پیدائش سسلی ہے اسکا وجود اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں ہوا تھا سسلی کا یہ مافیا سب سے پہلے ایک لسانی تنظیم کے طور پر وجود میں آیا جو ہسپانوی نژاد باشندوں کے سیاسی اور معاشی اقتدار کے خلاف بنی۔ ان کی شروع شروع کی کاروائیاں خفیہ تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ایک سیاسی تنظیم کے طور پر پیش کیا جو سسلی کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہو۔ ان لوگوں نے اپنی صفوں میں ایسے غنڈے بھرتی کر رکے تھے جو حکومت، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف استعمال ہوتے۔ کیونکہ یہ لوگ ایک ایسے شہر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے جو تجارتی مرکز بھی تھا اور بحیرہ قلزم کی ایک اہم ترین بندرگاہ بھی۔ اس لئے انہیں حکومتوں کو دباؤ میں لانا بہت آسان تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اس علاقے میں انارکی، قانون کی عدم موجودگی اور حکومتی اختیار کی بے بسی نمایاں تھی۔١٨٤٨ سے ١٨٦٠ تک مافیا نے اپنے آپ کو سسلی کا بلاشرکت غیرے مالک بنائے رکھا، آج اس مافیا کلچر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون ہر جگہ لاگو ہے مفادات کی شراکت کے تحت بننے والے ہر گروہ کے ساتھ "مافیا" جڑا نظر آتا ہے پیٹرول مافیا ، بھتہ مافیا ، سیاسی مافیا ، سرکاری مافیا ، دودھ مافیا ، ذخیرہ اندوز مافیا اور تو اور اب تو ڈاکٹر اور وکیل مافیا بھی میدان میں آ گۓ ہیں افسوس تو یہ ہے کہ وہ معاشرے جو اسلامی کا لاحقہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں وہاں بھی "مافیا " اسی اب و تاب کے ساتھ پرورش پا رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جانے کہ انکی افزائش دو چند ہے تو غلط نہ ہوگا !


حسیب احمد حسیب

"نوکری پیشہ "

"نوکری پیشہ "


دور جدید کے اہم ترین پیشوں میں ایک پیشہ "نوکری " بھی ہے پہلے یہ غلام ہوا کرتے تھے اب تو کہیں کہیں یہ حال بھی ہے کہ مالک غلام دکھائی دیتا ہے ...ویسے نوکر اور مالک کا تصور اب ختم ہو چلا ہے اب امپلویر اور امپلویے کا دور ہے آپ اپنی محنت کی تنخواہ لیتے ہیں کسی کے باپ کا احسان نہیں.....

نوکری پیشوں کا پورا مہینہ سیلری اور پورا سال بونس کے انتظار میں گزر جاتا ہے ....یہ دو قسم کے ہوتے ہیں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں میں بنیادی فرق سرکار کا ہوتا ہے .سرکاریوں کی تنخواہیں کم اور سہولیات زیادہ ہوتی ہیں اور غیر سرکاریوں کی سہولیات کم اور تنخواہیں زیادہ ہوتی ہے .......نوکری پیشوں کا سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ صنعتی ملازمین کا ہے جہاں صنعت کار جسے عرف عام میں سیٹھ کہا جاتا ہے ملازمین کے خون کا پیاسا ہوتا ہے کم پیسوں پر زیادہ سے زیادہ محنت لینا سیٹھ کمپنیوں کا مزاج ہے .......کہتے ہیں کہ صنعتی سیٹھ یہودی صفات کے مالک ہوتے ہیں اور مردے سے بھی مشقت کروا لینے کی مہارت رکھتے ہیں .......نوکری سے متعلق مختلف محاوروں نے بھی جنم لیا ہے جن میں سب سے مشھور "نوکری کی تے نخرہ کی ہے"

نوکری نہ ملے تو مصیبت اور ملجاۓ تو مصیبت گو ملنے کے بعد کی مصیبت صرف نوکری کرنے والے کو ہی ہوتی ہے لواحقین سکون سے ہوتے ہیں ....نوکریاں مختلف رنگوں مزاجوں شکلوں کی ہو سکتی ہیں جو نوکری پیشہ کے رنگ مزاج اور شکل پر خاطر خواہ اثر ڈالتی ہیں .....زیادہ تر لوگوں کو گوریوں اور گوروں کی نوکریوں (ملٹی نیشنل ) میں کام کی آرزو ہوتی ہے یہاں کام کرنے والے کالے بھی گورے ہو جاتے ہیں ....قوم کو مبارک ہو آپ کا موجودہ حاکم بھی ایک سیٹھ ہے اور پوری قوم اسکی نوکر اور یہ سیٹھ گورا نہیں ہے اور نہ ہی یہ نیشن نیشنل ہے .........

حسیب احمد حسیب

" ڈرون بڑا بے غیرت ہے "

" ڈرون بڑا بے غیرت ہے "


وہ ایک چھوٹی سی معصوم سی بچی کی تصویر تھی جسکی آنکھوں میں حیرانی تھی خوف تھا آسمان سے اترنے والی بلاؤں کا اسکی آنکھیں کچھ پوچھتی تھیں یہ انجانا خوف کیوں یہ آسمان سے آگ کیوں برستی ہے یہ بلائیں کہاں سے آتی ہیں .........با با کیا میں باہر کھیلنے جاؤں ......نہیں میرے جان کے ٹکڑے ....پر کیوں با با .......بیٹا ڈرون آ جاۓ گا .....

ہر روز معصوم لبوں پر یہی سوال اور پھر ایک روز سامنے والے مکان پر ڈرون آ گیا .......

یہ ڈرون بھی بڑا بےغیرت ہے یہ نہیں دیکھتا شادی بیاہ ہے یا پھر غم کی ماتمی فضا ......گھر کے دروازے کھلے ہیں یا بند یہ تو بس منہ اٹھاۓ چلا آتا ہے بغیر کسی پرواہ کے .یہ نہیں دیکھتا بستر مرگ پر پڑا بوڑھا ہے یا جوانی کے جذبات سے سرشار دوشیزہ کوئی نئی نویلی دلہن ہے یا پھر ممتا سے بھری ماں کی محبت و شفقت قوت والی جوانی ہے یا حکمت والی ادھیڑ عمرییا پھر ہنستا کھیلتا معصوم بچپن یہ تو بس چلا آتا ہے اپنے جلو میں موت لیے سب کے لیے یکساں یہ کسی کو نہیں چھوڑتا ....میری بچی تم مت ڈرو جاؤ چند سانسیں کھلی فضا میں لے لو کچھ دیر جی لو کیونکہ بیٹا ! ڈرون بڑا بےغیرت ہے یہ گھر پر بھی آ جاتا ہے

حسیب احمد حسیب

"ہڑتال"

"ہڑتال" 


کل پھر ہڑتال دکانیں بند بازار بند مزدور کی روزی روٹی بند ہسپتال بند تعلیمی ادارے بند ہاں قبرستان ضرور کھلے ہیں کیونکہ ہڑتال کامیاب بھی تو کرنی ہے نا معلوم افراد نے نا معلوم مقام سے آکر نامعلوم دکانیں بند کروا دیں جسکی وجہ سے نامعلوم مزدور ایک دن کی دیہاڑی سے محروم رہانا معلوم بچے اسکول نہ جا سکے نامعلوم شخص علاج نہ ہونے کی وجہ سے چل بسا نا معلوم امتحانات ملتوی ہو گۓ

بندہ میرا مرا ہے گستاخی میرے لیڈر کی شان میں ہوئی ہے تکلیف مجھے ہے لیکن میرا بندہ آپ کا بھی ہے میرا لیڈر آپ کا بھی ہے میری تکلیف آپ کی بھی ہے ورنہ ایسا نہ ہو میری بوری آپ کو فٹ آ جاۓ

تمام لوگوں نے پر امن طریقے سے بغیر کسی احتجاج کے رضاکارانہ طور پر گن پائنٹ پر دوکانیں بند رکھیں ہڑتال کی کامیابی کا اندازہ گرنے والی لاشوں جلنے والی بسوں اور لٹنے والی دکانوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے

ہڑتال ایک ایسا مرض ہے جو لوگوں اداروں اور پوری قوم پر یکساں نازل ہے میری ہڑتال میرا حق اور آپ پر ظلم اور آپ کی ہڑتال آپ کا حق اور مجھ پر ظلم اگر لاٹھی میرے پاس ہے تو آپ کی بھینس مری بھینس ورنہ میری بھی آپ کی

حسیب احمد حسیب

" بچوں کا ادب "

" بچوں کا ادب "


کہتے ہیں ہر آدمی کے اندر ایک بچہ ہوتا ہے کچھ کے اندر کا بچہ گھٹ کر مر جاتا ہے اور کچھ کا فرار ہو جاتا ہے یہ بچہ زندگی کی علامت ہے یہ بہت حساس ہوتا ہے اسے زندہ رکھنا ہے تو اس سے دوستی کرلیجئے لیکن اسکے لیے آپ کو اپنا بچپن یاد رکھنا ہوگا ...

بڑوں کا بچوں سے تعلق ختم ہو گیا ہے یا بچپن سے تعلق ختم ہوگیا ہے انہوں نے خواہشات کے کھلونے تو خرید لیے ہیں لیکن انکے اندر کا بچپن مرجھا چکا ہے ....

کھلونے پا لیے ہیں میں نے لیکنمرے اندر کا بچہ مر رہا ہے

آج کے بڑے بچوں سے بہت شاکی ہیں انکو اپنے بچوں سے شکایات ہیں انکے کچھ تحفظات ہیں .................لوگ کہتے ہیں بچوں میں ادب کا بہت فقدان ہو گیا ہے جناب اگر بچے بھی ادب آداب کے چکر میں پڑ جائیں تو وہ بچے کہاں رہینگے بچہ تو نام ہی ہے مستی کا شرارت کا اگر بچہ شرارت نہ کرے تو سمجھیں وہ بڑا ہو گیا ہے .......نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے ان بڑوں کو جنکے گھروں کے بچے شرارت نہیں کرتے بچوں میں سنجیدگی بیماری ہے جسکا واحد علاج ہے مستی بچہ جتنی مستی کرے گا اتنا ہی صحت مند قرار دیا جاۓ گا .......

یہ نیا دور ہے اور اس دور کے بچے سمجھدار ہیں کیا خوب کہا تھا پروین شاکر نے

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریںبچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

بچوں کو ادب سکھانے سے زیادہ مفید کام ہے بچوں کا ادب تخلیق کیا جاۓ بچے خود ادب سیکھ جائینگے کسی دور میں حکیم سعید ہوتے تھے پھر لوگوں نے انکو شہید کر دیا پچھلی اور اس سے پچھلی نسل کی تربیت میں انکے "نونہال " کا ہاتھ بھی ہے ...سعید سیاح کے سفر نامے، جاگو جگاؤ اور پھر انکی ٹیم مسعود احمد برکاتی ، تورا کینہ قاضی اور خاص الخاص اشتیاق احمد ....کون ہے جو انسپکٹر جمشید سے واقف نہیں پھر بڑے بچے ٹین ایجرز جو عمران اور فریدی کے عشق میں مبتلا تھے ..بیشمار گمنام اور نامور لکھنے والے جنکے بیشمار نامور اور گمنام شہکار و کردار بچوں کے ادب کی آبیاری کرتے رہے ...اب جب سے جدید آئ ٹی کا دور آیا ہے نہ بچوں کا ادب باقی رہا ہے اور نہ ہی بچوں میں ادب باقی رہا ہے بلکہ بچے اب بچے نہیں دکھائی دیتے ....سوشل میڈیا ایک جن ہے جو بوتل سے باہر آ چکا ہے اور بوتل ٹوٹ چکی ہے اب یہ جانے والا نہیں لوگوں نے اسکو اپنی اپنی افتاد طبع خیالات اور نظریات کے تحت استعمال کرنا شروع کر دیا ہے .

ایک تجزیہ کے مطابق سات سے انیس سال کے بچے یعنی ٹین ایجرز تک سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں انکے لیے بچوں کے ادب کی تخلیق ادیبوں پر بچوں بلکہ انکے بچپن کا قرض ہے

عمرو عیار ، طلسم ہوشربا ، داستان امیر حمزہ ، چلوسک ملوسک ، ٹوٹ بٹوٹ ، الف لیلیٰ اور ایسی ہی ایک طویل فہرست جس نے بچوں کو ادب ہی نہیں زبان و بیان سے بھی متعرف کرایا آج بھی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کے ادیب اس قرض کو جو سود کے ساتھ انپر چڑھتا چلا جا رہا ہے ادا کرنے کی کوشش بلکہ اس کوشش کی کوشش کریں ...

کیا کوئی ہے اس نقار خانے میں .....

حسیب احمد حسیب

گندی بلی !

گندی بلی !


پچھلے دنوں ایک معروف مولانا نے ایک ایسی اداکارہ سے ملاقات کی جسکا نام فحاشی اور بے حیائی کی علامت ہے جسکے برہنہ حسن کے نظارے ایک دنیا کر چکی ہے اور جسکا اپنی غلط حرکتوں پر جرات اور ڈھٹائی سے دفاع اسکی فطرت کی خرابی کی طرف اشارہ کرتا ہے ......
میں ان مولانا کی بہت عزت کرتا تھا میرے دل میں انکا بڑا احترام تھا انکے رقت آمیز بیانات سن کر میرے ایمان میں اضافہ ہو جاتا تھا
لیکن
کیا کروں اس دن کے بعد سے دل مولانا سے متنفر سا رہنے لگا ایک افسوس سا تھا
یہ مولانا نے کیا کیا
اپنی محنت
اپنی جماعت
اپنے مقام
سب کو داؤ پر لگا دیا
آخر کیوں
اگر اس عورت کی توبہ جھوٹی نکلی
اگر یہ سب بھی اسکا دھوکہ اور فریب ہوا
اگر اس سب کے اندر بھی اسکی مخصوص ڈرامے بازی ہوئی
تو ، تو کیا ہوگا
دین داروں کیلئے ایک اور سبکی ایک اور شرمندگی کا مقام
میں سوچتا رہا سوچتا رہا ......
**********^^^^^^^^^^^^^^**********^^^^^^^^^^**********

ہمارے گھر میں بلی نے ایک بچہ دیا تھا چھوٹا سا پیارا سا اسکا نام ہم نے " پاپو " رکھا پاپو ہماری زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہمارے ایک فیملی ممبر کی طرح اسکی ماں نے اسے جلد ہی چھوڑ دیا سو وہ مستقل ہمارے ہی ساتھ رہنے لگا اسکی عادات و اتوار کسی لاڈلے بچے کی طرح ہو گۓ......

ایک دن ایک عجیب بات ہوئی پاپو اپنے کچھ فطری تقاضے پورے کرنے باہر بھی جاتا تھا علاقے کی کچھ خوبصورت اور نوجوان بلیاں پاپو پر فدا بھی تھیں اور کچھ رقیب رو سیاہ بلے پاپو کے دشمن بھی
ہوا یہ کہ پاپو ایک پورا دن نہیں آیا ...
بڑی ڈھونڈ مچی بہت پریشانی ہوئی سب اداس تھے آخر پاپو گیا کہاں
پورے چوبیس گھنٹوں کے بعد کیا دیکھا
ایک سیاہ چیز چلتی چلی آ رہی ہے
ارے
یہ تو اپنا پاپو ہے
گندی بلی

ہوا کچھ یوں کہ پاپو صاحب کسی بلی کے پیچھے کہیں دور نکل گۓ تھے اور شاید اپنے کسی رقیب مد مقابل سے دو بدو مبازرت میں کسی برساتی نالے میں گر کر بھیگی ہوئی بلی بنے ہوے تشریف لاۓ
بدبو دار سیاہ گندے پانی میں بھیگی ہوئی " گندی بلی "

لیکن کیا کریں محبتیں یہ سب نہیں دیکھتیں
اپنوں کا گند دکھائی نہیں دیتا انکی کمیوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے
انکی کمزوریوں کا دفاع کیا جاتا ہے
کیونکہ وہ اپنے ہوتے ہیں
یہ گندی بلی بھی تو اپنی ہی تھی
پھر اسے نہلایا دھلایا چمکایا
لیکن ........
کچھ دن گزرے تو پھر ایسے ہی ہوا
کوئی بات نہیں بلی گندی سہی اپنی ہے

**********^^^^^^^^^^^^^^**********^^^^^^^^^^**********
جی ہاں بلی گندی ہے مگر اپنی ہے
آج مجھے معلوم ہوا مولانا کی کیا سوچ تھی
انھیں اسکا ڈر نہیں کہ یہ پھر بھٹک جاۓ گی
یہ پھر گند میں منہ مارے گی

انھیں اس کا ڈر نہیں کہ انکی عزت و مقام کا پھر کیا ہوگا
لوگ کیا کہیںگے
کیا سوچینگے
وہ اپنی محبت سے مجبور ہیں

بلی گندی سہی اپنی تو ہے

حسیب احمد حسیب

جب بلی کھا گئی مور !

جب بلی کھا گئی مور !


ہم نے تو سنا تھا " چور کو پڑ گۓ مور " لیکن جناب یہ نیا دور ہے اب مور چور کو نہیں پڑتے کیوں نہیں پڑتے اجی اپنی عزت سب کو عزیز ہوتی ہے بلکہ یوں کہیے زندگی سب کو عزیز ہوتی ہے ....
شاہوں کے شوق بھی عجیب ہوتے ہیں اب کیا کہیں اور ہر شاہ کے کچھ پالتو بھی ہوتے ہیں اور یہ شاہ بھی تو کئی اقسام کے ہوتے ہیں اصلی شاہ ، نقلی شاہ ، سنگل شاہ ، ڈبل شاہ ، جمہوری شاہ اور غیر جمہوری شاہ لیکن ہم تو شاہوں کی ایک اور قسم کے ماننے والوں میں سے ہیں 
بلھے شاہ 
پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی

اب رب کیسے راضی ہو کوئی آسان بات ہے رب کی ماننا جو پڑتی ہے ہاں ایسے شاہ بھی گزرے ہیں جو کہتے تھے ہماری خلافت میں کتا بھی بھوکا مر جاوے تو ہم سے سوال ہوگا.....

ہمارے حکمران بھی بڑے شریف ہیں جو ذرا دھمکاتا ہے اس سے مزاکرات شروع کر دیتے ہیں ان کا عزم و ہمت لاجواب ہے غلیل سے ڈرون گرانے کی بات کرتے ہیں 

دل جلانے کی بات کرتے ہیں 

تو گفتگو ہو رہی تھی پالنے کی اور آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں سو کیوں نہ مور ہی پالا جاوے تاکہ قصہ ہی ختم ہو لیکن کیا کیجئے ان بھوکے بلوں کا سب کچھ ہڑپ کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں ......

ارے او گلی کے آوارہ بلے تیری کیا اوقات چلا تھا شاہی کھانا کھانے بلکہ شاہی مور کھانے تجھے کچھ شرم نہ آئ اور پورا ہڑپ کر گیا ایک پر بھی نہ چھوڑا......
غضب خدا کا دن دھاڑے شاہی مور کوئی بلا ہڑپ کر جاوے داغ ہے داغ اس ملک کی قومی سلامتی پر معطل کرو داروغہ کو اندھیر ہے اندھیر اب تو طالبان بھی مزاکرات کر رہے ہیں پھر یہ کہاں سے آ گیا تکفیری بلا خارجی ہے خارجی ...........

میں چار دن کا بھوکا تھا کیا کرتا مجھے مور کے کچے گوشت کی اشتہاء نے مجبور کر دیا ....
فائرنگ اسکواڈ کے سامنے بلے نے روتے ہوے اپنے آخری الفاظ ادا کئے .....

یہ بلا اشتہاری تھا کئی قتل ، ریپ ، اور ڈکیتیوں میں مطلوب تھا سنا ہے اسکا ہاتھ دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی تھا ، سرکاری ترجمان ...

سنا ہے عالمی این جی اوز کے پیٹ میں مروڑ اٹھا ہے 
مروڑ تو بلے کے پیٹ میں بھی اٹھا تھا خالی ہونے کی وجہ 
سو اسکا پیٹ ہی خالی کر دیا گیا 
لیکن افسوس صد افسوس بلے کے پیٹ سے مور بر آمد نہ ہو سکا .....

جتنا جی میں آوے تم خوب لگا لو زور 
اب کا کروگے بابو جب بلی کھا گئی مور 

حسیب احمد حسیب

آثار سحر کھوج !

تصوير

بت مغرب !

بت مغرب !


اے بت مغرب تجھے یہ راز سمجھاۓ گا کون 
کسلئیے بے چین ہیں اقوام مسلم کے قلوب 

تو کے ناواقف مقام مصطفیٰ سے ہے ابھی 
جن کی عظمت کا کبھی ہوتا نہیں سورج غروب 

تیری ہستی اس سعی میں جلد ہی مٹ جاۓ گی 
کھل رہے ہیں آج عالم میں تیرے سارے عیوب

محسن عالم پے تیری انگلیاں اٹھنے لگیں
بے شرم ہے تو بڑا جا کر کسی نالے میں ڈوب 

تیری خلقت ہے کسی گمنام نطفے کا کمال
جانتا ہوں راز تیری بے حیائی کے میں خوب 

آسماں بے چین ہے بے تاب ہے فرش زمیں 
تجھ سے مجرم کیلئے تیار ہیں کتنے عقوب 

غور سے سن لے زمانہ تجھ سے اب بیزار ہے 
تیرا روشن دن شب ظلمت میں ہوتا ہے غروب

حسیب احمد حسیب

غزل !

غزل 


خیال خام سر شام آۓ ہیں کیا کیا
دیار فکر میں نکتے اٹھاۓ ہیں کیا کیا 

میرے خدا تیری دنیا میں سنگ زادوں نے 
بتان کفر کے معبد بناۓ ہیں کیا کیا 

دیار حسن کی وادی میں عشق زادوں نے 
زبان شعر سے دریا بہاۓ ہیں کیا کیا 

تخیلات کی کانوں سے کھود کر ہم نے
زمین شعر پے موتی سجاۓ ہیں کیا کیا

خمار ذات کی مستی میں قید اے ظالم 
تیرے مزاج نے فتنے اٹھاۓ ہیں کیا کیا 

بس ایک جرات دل ہے جو ہم ضعیفوں نے
سپاہ ظلم کے چھکے چھڑا ۓ ہیں کیا کیا 

سکوت شب میں اندھیرےکےخوف سے ہم نے
تمہاری یاد کے جگنو سجاۓ ہیں کیا کیا 

تفکرات کے گھیرے میں معرفت نے ہمیں
حصول خیر کے رستے دکھاۓ ہیں کیا کیا 

تلاش ذات میں اپنی انا کے کوہ گراں
خودی کی ضرب سے ہم نے گراۓ ہیں کیا کیا 

حسیب تم کو یقیں ہے تمہاری چاہت میں
کسی نے راہ میں تارے بچھائے ہیں کیا کیا 

حسیب احمد حسیب

آپ کون سے راہب ہیں.........؟

آپ کون سے راہب ہیں.........؟


افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ زمینی حقائق سے شاید نا واقف ہیں اور آج کی امّت میں صحابہ رض کے دور کو تلاش کر رہے ہیں ! کیا اپ لوگوں کو حاطب بن ابی بلتعہ رض ،حضرت ابو لبابہ رض ،ابو محجن ثقفی رض یاد ہیں یہ نبی کے دور کے لوگ تھے !
آج امّت تنزل کا شکار ہے یہ اک غیر تربیت یافتہ قوم ہے اوپر سے نیچے تک خرابیاں بھی موجود ہیں لیکن نبی صلعم کی محبّت انکے قلوب میں ضرور کہیں موجود ہے !

ایک آدمی زانی ہے شرابی ہے بد کردار ہے لیکن اگر اسکے باپ کو کوئی سرے عام گالی دے اسکی تذلیل کرے تو وہ بھڑک اٹھے گا اور اپنے جذبات کا اظہار کرے گا یہ انسانی فطرت ہے اسی طرح ہم جتنے بھی گناہگار سہی جب ہمارے نبی صلعم کی شان میں کوئی گستاخی کی کوشش کرتا ہے ہمارا خون کھول اٹھتا ہے !اب کوئی جدید مفتی فتویٰ لگاۓ ارے او زانی شرابی جھوٹے رشوت خور منافق تجھے کوئی حق نہیں نبی کی ناموس کی خاطر آواز اٹھانے کا اسکا ٹھیکہ تو ہم نے لے رکھا تو جا اور جا کر سو جا مگر جناب وہ کہاں سنے گا مسلہ اسکی غیرت کا ہے اپ لاکھ تلقین کیجئے ہزار فتوے تھوپئیے وہ اپنے فہم کے مطابق احتجاج کرے گا اور ضرور کرے گا !
ویسے مجھے نہیں معلوم ہمیں یہ خدائی اختیارات کب مل گۓ کے ہم معاشروں کے ایمان اور کفر کے فیصلے کرنے لگے!حضرت ابوسعید بن مالک بن سنان خدری رضی اﷲ عنہ روای ہیں کہ نبی کریمۖ نے فرمایا تم سے پہلے گذرنے والی اقوام میں کسی شخص نے نناوے (99) آدمی قتل کئے ، اور لوگوں سے پوچھا اس زمانے میں روئے گیتی پر کون بہت بڑا عالم فاضل ہے؟ لوگوں نے ایک راہب کے متعلق بتایا وہ اس کے پاس گیا اور پوچھا کہ میں نناوے آدمی قتل کرچکا ہوں کیا میرے لئے توبہ کی گنجائش ہے؟ راہب نے کہا نہیں! اس نے راہب کو بھی قتل کردیا اور تعداد پوری سو (100) ہوگئی پھر پوچھا کہ روئے زمین پر اب کون عالم ہے ؟ تو اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا وہ ان کے پاس گیا اور کہا کہ میں سو افراد کا قتل کرچکا ہوں کیا میری توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ عالم نے کہا کیوں نہیں!تمہارے اور تمہاری توبہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں. تم فلاں جگہ چلے جاؤ ! وہاں اﷲ کے کچھ بندے ہیں جو اﷲ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں . تم بھی ان کے ساتھ اﷲ کی عبادت میں مصروف ہوجاؤ اور اپنے وطن لوٹنے کا خیال دل سے نکال دو کہ وہ سرزمین بدی کا گہوارہ ہے ! وہ شخص بتائے ہوئے پتہ پر روانہ ہوگیا. راہ ہی میں تھا کہ موت آگئی. اب رحمت و عذاب کے فرشتوں میں باہم تنازع ہوا کہ اس کی روح کو ن قبض کرے . ملائکہ رحمت کا کہنا تھا کہ یہ دل سے توبہ کرکے اور اﷲ سے لو لگا کر آرہاتھا . مگر فرشتہ عذاب کہہ رہے تھے کہ اس نے تو زندگی بھر نام کی کوئی نیکی نہیںکی. اس تنازعہ کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک فرشتہ بصورت آدمی ان کے پاس آیا. جس کو انہوں نے ثالث مان لیا. تو اس نے کہا زمین کی پیمائش کر لو،جس زمین کے یہ قریب ہو انہیں میں شمار کرلو،زمین کی پیمائش کی گئی تو نیک لوگوں سے اس کا فاصلہ قریب نکلا لہٰذا فرشتہ رحمت اس کی روح لے گئے.( بخاری 3283 مسلم2766 )ویسے آپ راہب ہیں پہلے یا دوسرے ؟

حسیب احمد حسیب

پیر، 24 مارچ، 2014

روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر

روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر


" جدید " اسلامی اسکالر براۓ فروخت !


جی ہاں حیران ہونے کی ضرورت نہیں یہ جدید تجارتی منڈیوں کی کامیاب ترین جنس ہے جلد تیار ہوتی ہے اور اچھی قیمت میں بکتی ہے الہادی مارکیٹ کا یہ مقبول ترین آئٹم ہے سنا ہے پہلے مغرب سے مہنگے داموں اسکالر در آمد کرنے پڑتے تھے اب آسانی سے کم قیمت پر لوکل منڈیوں میں دستیاب ہیں ......

ایسے ہی ایک " اسلامی " اسکالر فروش سے جب سوال کیا گیا کہ مارکیٹ میں اس تجارت کی ترقی کا راز کیا ہے تو اس نے فی سبیل الشیطان جو کچھ بیان کیا ملاحظہ کیجئے ......

دیکھیں جناب پہلے مغرب سے مہنگے داموں اسلامی اسکالر درآمد کرنے پڑتے تھے انکو مستشرق کہا جاتا تھا یہودی اسکالر خاص کر اصیل ہوتے تھے لیکن بھائی معاشرے میں بڑھتی ہوئی ذلالت کی وجہ سے انکی مانگ بڑھتی گئی اور ملکی سطح پر انکی فراہمی کیلئے مقامی صنعتوں کا قیام عمل میں لایا گیا....

یہ اسکالر آتے کہاں سے ہیں جب یہ سوال پوچھا تو کچھ یہ جواب ملا..

دیکھئے پہلے تو یہ کوشش کی گئی کہ مقامی دینی درس گاہوں کے فرقہ پرست مولویوں کو خریدا جاوے اور انکو تھوڑی بہت مرمت کے بعد استعمال میں لایا جاوے لیکن کچھ خرابیوں کا سامنا کرنا پڑا...

یہ جلدی خراب ہو جاتے ہیں
ان کا اسلام اتنی آسانی سے نہیں مرتا
ان کو کتنا ہی خراب کر دیجئے نبی کی شان میں ذرا سی گستاخی پر بھڑک اٹھتے ہیں
اسلامی ہیت اتنی آسانی سے نہیں چھوڑتے
اور ان میں بے غیرتی اور ذلالت دیر سے پیدہ ہوتی ہے
سو اتنی محنت سے بہتر سے کوئی ریڈی میڈ اسکالر حاصل کر کے اسکو تیار کیا جاۓ.

ایک اچھا اور جدید اسلامی اسکالر کیسے تیار ہوتا ہے
اس سوال کا جواب کچھ یوں ملا

دیکھئے حضرت شیطان کی کرپا سے آج کی جدید میڈیای منڈی میں ایسے اسکالرز کی بہت مانگ ہے سو جتنے لوگ فراہم ہو سکیں اتنا ہی اچھا ہے افادہ عام کیلئے کچھ اوصاف بیان کرتا ہوں شیطان ذلالت دے .....

کمینگی اور بےغیرتی تو بنیادی اوصاف ہیں لیکن ابتداء سے انتہاء تک کچھ بنیادی مراحل سے گزرنا ضروری
ہے ..

سب سے پہلے مولویوں کو گالی دینے کی عادت ڈالیں جتنا آپ مولویوں کو گالی دینگے اتنی ہی مشق ہوتی جاۓ گی اور مشق انتہائی ضروری ہے ایسی باتیں کہنے کی صلاحیت پیدہ کریں جن کے دہرے معنی ہوں اگر آپ کو دجل و تلبیس سے کام لینا آ جاوے تو سونے پر سہاگہ ہوگا ....
خوبصورت اور ماڈرن عورتوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں تاکہ آپ کی پبلک ڈیمانڈ میں اضافہ ہو انتہائی ڈھٹائی اور دوسرے کی انتہائی معقول بات بھی نہ سننا انتہائی ضروری ہے سو ان تمام انتہاؤں کا انتہائی خیال رکھیں ......
شروع شروع میں تمام مولویوں کو شدید فرقہ پرست قرار دیں اور جب لوگ آپ کی باتوں سے مولویوں سے متنفر ہونا شروع ہو جائیں تو اگلے سٹیپ کی تیاری کیجئے ....
ایک بات کا خیال رہے جھوٹ ، مکر ، فریب اور دھوکے کا معیار کبھی نیچے نہ آنے پاۓ یہ آپ کے بنیادی ہتھیار ہیں بلکہ یہ آپ کی چار ٹانگیں ہیں .....

مسلمانوں کے قدیم اختلافی مسائل کو خوب ہوا دیں ایک بار اگر آئمہ کبار اور سلف صالحین سے آپ لوگوں کا اعتماد اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں توسمجھئے آپ کو اسلامی اسکالر شپ کی بنیادی ڈگری حاصل ہو گئی .......
یاد رکھئے انکار حدیث آپ کا بنیادی ہتھیار ہے اسکے بغیر آپ کبھی بھی اعلی معیار کے اسلامی اسکالر نہیں بن سکتے اسکی خاص تربیت حاصل کیجئے
" سر جید " سے " علامہ آمدی " تک تمام کا اچھی طرح مطالعہ کیجئے کہیں کھل کر کہیں چھپ کہیں واضح اور کہیں پردوں میں انکار حدیث کرتے رہیں.....

فقہ و حدیث کے بعد اب باری ہے قرآن کی اب آپ کے سامنے ایک کھلا میدان ہے رجم کا انکار کیجئے یا حجاب کی دھجیاں بکھیر دیجئے ننگے مرد و زن معاشرے میں آزادانہ نقل و حرکت کریں یہ آپ کے فن (FUN) کی معراج ہوگی .....
موسیقی پر زور دیں کوشش کریں اسکو حلال ہی نہیں عبادت سمجھا جاوے چند پر کٹی گانے والیاں اور چند سر کھلے گانے والے اپنے ارد گرد جمع رکھیں ....
آپ کا بنیادی ٹارگٹ جدید طبقے کے بے ریش عورت نما نو جوان ہیں جو منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بول سکیں ریشمی لباس میں ملبوس یہ مخلوق آسانی سے گھیرے میں آتی ہے......
اور انکو گھیرے میں رکھنے کیلئے چست لباس جینز بردار کولہے مٹکاتی حسین بچیاں آپ کا سرمایا ہیں .......
چند کھوسٹ قسم کے الحاد پرست ادیب اور چند اپنے دین پر شرمسار گنوار نو دولتیے آپ کی مشہوری کیلئے ضروری ہیں .......

اب آپ بلکل تیار ہیں آپ ہیں ایک
" جدید اسلامی اسکالر " براۓ فروخت

اب اپنے برانڈ بنانے کیلئے کوئی اچھوتا کوئی انوکھا کوئی نرالا حیران کر دینے والا شوشہ چھوڑ دیجئے

یاد رہے
رجم کا انکار
حدیث سے برات
معجزات کی انوکھی تاویلات
حجاب سے گلوخلاصی
نماز ، روزہ ، حج ، زکات ، سب کا تاویلات فاسدہ سے انکار ہو چکا
قربانی کار لاحاصل ٹھہری

کچھ اور کچھ نیا پیش کیجئے
اپنا دماغ لڑائیں
اپنا ذہن لگائیں
سوچیے سوچیے
اور جب شیطان کچھ القاء کرے
تو جان لیں
آپ کا دھندہ چالو ہے

حسیب احمد حسیب

جمعرات، 20 مارچ، 2014

کہاں راجہ بھوج !

کہاں راجہ بھوج !

ایک کہاوت بچپن سے سنتے اۓ ہیں "ایاز حد خود بشناس، کہاں راجہ بھوج کہاں ننوا تیلی.......
ایک صاحب نے ایک فورم میں فرمایا !
غامدی صاحب کام پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی طرز کا کام ھے،،جو ریفیرینس کے طور پر آنے والی صدیوں میں استعمال ھو گا،تب تک ھم عصروں کی فطری اور تاریخی چپقلش بھی دم توڑ چکی ھو گی دوسرا وہ قدیم ھو کر مقدس بھی ھو چکے ھوں گے اور متقدمین کلب کے ممبر بھی بن چکے ھونگے ! یہ کام کم ازکم موجودہ حالات میں عوام میں کبھی بھی پذیرائی نہیں پا سکے گا،،اس کام کو جتنا عوامی کیا جائے گا،،مخالفت اور پروپیگنڈے کی شدت میں اضافہ ھو گا !! یہ بات جناب استاذ غامدی صاحب پورے شعور کے ساتھ سمجھتے ھیں !!
ایک ایسی شخصیت جسکا کا مقام محقق کا ہے اور ایک ایسی شخصیت جو صرف اشکالات اٹھانا جانتی ہے دونوں کا موازنہ کہاں کا انصاف ہے ......
اگر جدید تعلیمی تقابل ہی کیا جاوے تو ایک صاحب سادہ بی اے دوسرے پی ایچ ڈی ایک کی پہچان چند جدید اشکالات دوسرے کا عظیم تحقیقی و علمی کام .......
کہاں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کا نامور سپوت مناظر احسن گیلانی جیسے عظیم محقق کا شاگرد پیرس میں لاکھوں لوگوں کو اسلام کی طرف لانے والا .....
اور کہاں ......
ڈاکٹر اسرار کا نام لیتے ذاکر نائیک کی بات کرتے ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک مرحوم کا تذکره ہوتا یا ڈاکٹر محمود احمد غازی کی بات ہوتی جسٹس تقی عثمانی کا ذکر ہوتا کوئی علمی مناسبت تو ہوتی جناب .
ایک جگہ پڑھا تھا
" اسلامی تاریخ کے طالبعلموں کے لئے ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے کہ جن کی تحقیقی اور دعوت دین کے لئے کی جانے والی خدمات کا مقابل عصر حاضرمیں شاید ہی کوئی مل پائے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد جرمنی کی بون یونیورسٹی سے اسلام کے بین الاقومی قانون پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں فرانس کی سوبورن یونیورسٹی پیرس سے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف لیٹرز کی سند پائی۔ جامعہ عثمانیہ کے علاوہ جرمنی اور فرانس کی جامعات میں درس و تدریس کے فرایض انجام دینے کے بعد ڈاکٹر حمیداللہ فرانس کے نیشنل سینٹر آف ساینٹفک ریسرچ سے تقریبا بیس سال تک وابستہ رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن ، اور اطالوی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ کی کتابوں اور مقالات کی تعداد سینکڑوں میں ہے جس میں فرانسیسی زبان میں آپ کا ترجمہ قران ، اور اسی زبان میں‌دو جلدوں میں سیرت پاک ، قران کی بیبلیوگرافی ‘القران فی کل اللسان’ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی پر محققانہ تصانیف ‘بیٹل فیلڈز محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ، ‘مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ’ اور ‘فرسٹ رٹن کانسٹیٹیوشن’ خاص طور پر قابل ذکر ہیں "
اب اگر غامدی صاحب کا موازنہ کیا جاۓ تو معاملہ ہی دوسرا دکھائی دیتا ہے
انتہائی معذرت کے ساتھ کہیں ابگینوں کو ٹھیس نہ لگے کوئی مجھے یہ بھی بتا دے کہ کون سا فکری کام غامدی صاحب کر رہے ہیں......
چونکہ آپ احباب کا معذرت کے ساتھ مطالعہ نہیں ہے اور جن کا ہے انپر مجھے ضرور حیرت ہے کہ وہ غامدی صاحب کو ڈاکٹر حمید الله خان یا سید مودودی کی صف میں کھڑا کر رہے ہیں آنکھوں نے یہ بھی پڑھنا تھا کبھی سوچا نہ تھا .......
غامدی صاحب کی کوئی بھی تحقیق اپنی نہیں ہے انتہائی معذرت کے ساتھ زیادہ تر چیزیں انہوں نے اپنے استاد امین احسن اصلاحی مرحوم سے مستعار لی ہیں اصلاحی صاحب حقیقت میں بڑے عالم تھے گو انکے بے شمار تفردات بھی ہیں جن سے مجھے اختلاف ہے انکے حقیقی شاگرد ڈاکٹر اسرار مرحوم تھے .....
دوسری شخصیت وحید الدین خان صاحب کی ہے خان صاحب ایک صاحب طرز ادیب ہیں غامدی صاحب نے بہت کچھ خان صاحب سے لیا ہے لیکن وہ اعلی ادبی معیار اور زبان و بیان کی ندرت برقرار نہیں رکھ سکے جو خان صاحب کے ہاں موجود ہے ......
روایات کے حوالے سے پیشتر دلائل غامدی صاحب نے مولانا حبیب الرحمان کاندھلوی صاحب سے مستعار لیے ہیں کافی دلائل من و عن " مذہبی داستانیں اور انکی حقیقت " سے اٹھاۓ گۓ ہیں شاید تحریر میں وہ کاپی رائٹ کے قائل نہیں ہیں .......
اور سب سے عجیب تر بات خاص کر نزول مسیح کے موضوع پر غامدی صاحب کے تمام دلائل غلام احمد قادیانی سے مستعار ہیں کوئی بھی صاحب علم موازنہ کر سکتا ہے ......
معجزات میں غامدی صاحب سر سید کی تفسیر سے استفادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں .......
جناب من اگر اسی کو فکری کام کہتے ہیں تو کچھ مشکل نہیں آپ لکھنا جانتے ہیں تو قدیم و جدید اہل علم کی کتابوں سے مواد لیجئے اور اپنے نام سے پیل دیجئے آپ بھی مجدد دوراں اور فقیہ وقت بن جائینگے.....
ایک اور صاحب نے فرمایا !
میرے خیال میں ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم کا زیادہ کام فکری نوعیت کا نہیں ہے - ان کا بنیادی کام تاریخ و حدیث پہ ہے - انھوں نے کوئی نئی تشریحات نہیں کی نہ کوئی نیا زاویہ فکر دیا - غامدی صاحب مسلم امت کے مذھبی فکر کی تشکیل نو کر رہے ہیں ..جس کے اثرات بہت وسیع و عمیق ہونگے انشا الله -
لیجئے یہاں کچھ غامدی فکر و تحقیق کے شاہکار ملاحظہ کیجئے
(١) قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرأتیں عجم کا فتنہ ہیں (میزان ص 32,26,25، طبع دوم اپریل 2002)
(٢) سنت قرآن سے مقدم ہے (میزان ص 52، طبع دوم اپریل 2002)
(٣) سنت صرف افعال کا نام ہے، اس کی ابتدا حضرت محمدﷺ سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے (میزان ص 10،65، طبع دوم)
(٤) سنت صرف 27 اعمال کا نام ہے (میزان ص 10، طبع دوم)
(٥) حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا (میزان ص 64 طبع دوم)
(٦) دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف ہیں (میزان ص 48 طبع دوم)
(٧) دین میں معروف و منکر کا تعین فطرت انسانی کرتی ہے (میزان ص 49)
(٨) نبیﷺ کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا (ماہنامہ اشراق، دسمبر 2000، ص 55,54)
(٩) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے (قانون عبادات، ص 119)
(١٠) اسلام میں موت کی سزا صرف دوجہ ائم (قتل نض، اور فساد فی الارض) پردی جاسکتی ہے (برہان، ص 143، طبع چہارم، جون2006)
غامدی صاحب کے نزدیک مرتد اور شاتم رسول کی سزا موت نہیں ہے
(١١) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا (برہان ص 19,18، طبع چہارم)
(١٢) شادی شدہ اور کنواری ماں زانی دونوں کے لئے ایک ہی سزا 100 کوڑے ہیں (میزان ص 299، 300 طبع دوم)
(١٣) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے (برہان ص 138، طبع چہارم)
(١٤) غیر مسلم بھی مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں (میزان ص 171، طبع دوم اپریل 2002)
(١٥) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے (ماہنامہ اشراق، اکتوبر 1998ء ص 79)
(١٦) عورت کے لئے دوپٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں (ماہنامہ اشراق، مئی 2002ص 47)
(١٧) بعض انبیاء کرام قتل ہوئے ہیں مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا (میزان حصہ اول، ص 21، طبع 1985)
(١٨) حضرت عیسٰی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں (میزان حصہ اول، 24,23,22 طبع 1985)
(١٩) یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں (ماہنامہ اشراق، جنوری 1996ء ص 61)
(یاد رہے کہ یاجوج ماجوج اور دجال قرب قیامت کی نشانیاں ہیں اور یہ دونوں الگ الگ ہیں) جبکہ دجال احادیث کی رو سے یہودی شخص ہے جو بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر (ک،ف،ر) لکھا ہوگا جوکہ ہر مومن شخص پڑھ کر اس کو پہچان لے گا
(٢٠) جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے (ادارہ الحورد کی کتاب ’’تصویر کا مسئلہ‘‘ ص 30)
(٢١) موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے (ماہنامہ اشراق، مارچ 2004 ص 19,8)
(٢٢) عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق، مئی 2005، ص 35تا 46)
(٢٣) اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے (میزان، ص 264، طبع دوم، اپریل 2002)
(٢٤) کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں (میزان ص 270، طبع دوم اپریل 2002)
(٢٥)۔ مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا نہیں، اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے (اشراق جولائی 2003، اور اشراق مئی، جون 2004ئ)
اتنا کچھ کافی ہے یہ معلوم کرنے کیلئے کہ غامدی صاحب کون سی تحقیق فرما رہے ہیں اور انکا مقصود کیا ہے ......
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
حسیب احمد حسیب