اتوار، 15 جون، 2014

بریدہ دست تھے پرچم بلند کیا کرتے

٧، ٢ ، ٢٠١٤
غزل 

بریدہ دست تھے پرچم بلند کیا کرتے 
شکستہ روح تیرے ارجمند کیا کرتے 

وہیں مقیم تھےواعظ بھی شیخ بھی کل شب
تو میکدے کو سر شام بند کیا کرتے

لہو میں جن کے ہے لتھڑی ہوئی زبان انکی
وہ گرگ پرورش گوسفند کیا کرتے

وہ پیر تسمہ پا چمٹے ہوے تھے گردن سے
زمیں کے بوجھ تھے جو ، وہ ز قند کیا کرتے

جو مال و زر کے پجاری تھےمرتبوں کےغلام
کسی غریب کی بیٹی پسند کیا کرتے

بروج عشق فلک پر بلند تھے اتنے
کہ ہم زمین سے ان پر کمند کیا کرتے

بس انکی دید سے آنکھوں میں روشنی بھرتے
کہ مہتاب کو مٹھی میں بند کیا کرتے

شکست وریخت کےمارے ہوےتھےوہ خودبھی
تو ہم پے وار پھر انکے گزند کیا کرتے

تیری گلی سے گذرتے تجھے نہیں ملتے
اذیت غم ہجراں دو چند کیا کرتے

عجیب شعر کہے ہیں غزل میں تم نے حسیب
خیال خام کو اس سے بلند کیا کرتے

حسیب احمد حسیب

پیر، 9 جون، 2014

شوہر والیاں

شوہر والیاں !

یہ شوہر والیاں ہیں اپنے شوہروں سے محبت کرنے والیاں ان سے وفادار انکے دکھ درد کی ساتھی ہاں یہ کمزور ضرور ہیں کبھی کبھی شکوہ کناں بھی ہوتی ہیں کبھی زندگی کی مشقتوں کو جھیلتے ہوے جھنجلا بھی جاتی ہیں لیکن یہ اپنے شوہروں کو محبوب رکھنے والیاں ہیں انکے گھروں انکی عزتوں کی حفاظت کرنے والیاں یہ نعمت خدا وندی ہیں یہ رحمت الہی کی نشانیاں ہیں ......

ان میں جزبہ حریت بھی ہے اور چاہے جانے کی خواہش بھی اگر یہ چاہتی ہیں کہ انکے شوہر صرف انکے ہوں اور انکی اس محبت کی توحید میں کسی دوسری عورت کی شراکت نہ ہو تو کیا برائی ہے کون سا ظلم ہے جس کا رونا مرد روتا رہتا ہے .....

کیا یہ تم سے وفادار نہیں
کیا یہ اپنی حیاء کی حفاظت کرنے والیاں نہیں
کیا یہ تمھارے گھروں کی محافظ نہیں
کیا یہ تمہاری اولادوں کی جنت انکی تربیت گاہیں نہیں ........؟

کیا جواب ہے تمھارے پاس
یہ تو وہ ہیں کہ جب مشکل پڑے تو اپنے زیور بیچ کر تمہارا گھر چلاتی ہیں
یہ تو وہ ہیں جو کبھی دوسرے شہروں کو اور کبھی دوسرے ملکوں سے اپنے بابل کا گھر چھوڑ تمہاری چاہت میں سرشار چلی آتی ہیں

" میں تو بھول چلی بابل کا دیس
پیا کا گھر پیارا لگے "

تو اے ابن آدم تو کیوں بنت حوا سے شاکی رہتا ہے
بس اسلئے کہ وہ تجھے کسی دوسری عورت کے پاس جانے سے روکتی ہے صرف اسلئے کہ وہ اپنی محبت میں شراکت سے شاکی ہے .......

تو کیا یہ عین فطرت نہیں

اے ابن آدم

اگر تو اپنی محبت میں شراکت برداشت نہیں کر سکتا
اگر تو اسکی وفاداری میں کمی جھیل نہیں سکتا
اگر تو اسکی مکمل توجہ کا طالب ہے

تو کیا یہ مطالبہ اسکا حق نہیں
تو کیا اسکی یہ خواہش کوئی گناہ عظیم ہے

تسلیم کیا ان میں سے کچھ خود غرض ہیں
خود پسند ہیں 

صرف اور صرف اپنے مفادات کی محافظ ہیں
لیکن کیا
تم میں سے بھی بہت سے ایسے ہی نہیں ............؟

اے ابن آدم کبھی سوچا بھی ہے

یہ جو صبح سے شام تک تمہاری محبت میں سرشار
تمہارے گھر کی حفاظت میں مشغول
اپنی حیاء اپنی وفا کو سنبھالے ہوے
صرف اور صرف تمھارے نام پر اپنا گھر بار کو چھوڑ کر تمھارے گھر کو روشن کیے بیٹھی ہے
اگر اپنی محبت کی توحید میں کسی شراکت کو برداشت نہیں کرتی تو کیا تم اسکے اس جرم کو معاف کرنے کو تیار نہیں ....

یہ کوئی غیر نہیں تمہاری غمخوار ہے
تمہاری زندگی کی ساتھی ہے
تمہاری اولاد کی درسگاہ انکی جنت ہے

یہ شوہر والیاں تمہاری محبوب ہیں
سو

اے ابن آدم
بنت حوا کی محبتوں کی قدر کرو ......

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِ دروں
شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خا ک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کادر مکنوں!
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن!
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

حسیب احمد حسیب

ایک فیس بکی مجدد کے فکری مغالطے ،

ایک فیس بکی مجدد کے فکری مغالطے ،

میری عقل !

ایک بہت بنیادی رکاوٹ انسان اور ہدایت کے درمیان جب دیوار بنتی ہے کہ وہ معیار اپنی عقل یا ہواۓ نفس کو تسلیم کر لے پھر معاملہ اس سے آگے بڑھتا ہے اور انسان اپنی راۓ کو دوسروں کیلئے حجت سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور اگر بدقسمتی سے اسے کچھ پیچھے چلنے والے بھی میسر آ جائیں تو سمجھ لیجئے اسلام کے فرق و ملل میں ایک چھوٹی سی فرقی کی پیدائش ہونے جا رہی ہے .........

مسلمانوں کے دور غلامی اور خاص کر بر صغیر کے مسلمانوں کے دور غلامی نے مغربیت سے مغلوب طبقہ پیدہ کیا جنکے سرخیل سر سید تھے سر سید نے اپنی سیرت میں سے ہر وہ چیز نکال دی جو انکے نزدیک کسی بھی مغربی مفکر کی عقل میں نہیں آ سکتی تھی ......

دوسری طرف اسی زمانے میں اقبال مغرب کے سامنے پورے قد کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں بنیادی فرق مغربی علوم و افکار سے واقفیت کا ہے اقبال نے مغربی علوم میں دسترس حاصل کی اور انکا رد کیا جبکہ سر سید نے مغربی فکر سے متاثر ہوکر اسلام کی شکل ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی گو انکا یہ فعل اپنے تیں خلوص پر ہی مبنی کیوں نہ ہو ......

" میں " کی خرابی ایک بڑی خرابی ہے یہ خرابی ایک اچھے بھلے انسان کو بکری کر دیتی ہے اور وہ جگہ جگہ ٹکریں مارتا پھرتا ہے .........
میں میں سے نکل کر سوچنے کی صلاحیت اگر مفقود ہو جاوے تو انسان ممیاتا رہتا ہے .........

جہاں تحریر کا ٧٠% صرف اپنی تعریف اپنے علم و مرتبے کے بیان اور (self projection) پر مشتمل ہو وہاں کسی بھی دلیل کے جواب میں سامنے سے صرف ایک ہی دلیل آتی ہے
میں میں ......

حدیث نبوی پر پہلا اور سب سے کاری وار اہل استشراق نے کیا اور آج کے مسلمان منکیرین حدیث صرف ان مستشرقین کی بازگشت ہی کہلاے جانے کے قابل ہیں یہ اصیل لوگ نہیں بلکہ صرف مستعار لیے گے افکار کی بنیاد پر زندہ لوگ ہیں ......

اگر ان سے ان کے استشراقی ہتھیار چھین لیے جاویں تو انکے پاس کچھ نہیں بچتا ......

جیسا کہ عرض کیا اپنی عقل کو مدار ماننے والوں کیلئے دلیل صرف انکی عقل ہی ہوتی ہے چاہے وہ کتنی ہی ناقص کیوں نہ ہو انکا کوا ہمیشہ سفید ہوتا ہے انکو رات کے وقت دن دکھائی دیتا ہے دن کی کھلی روشنی میں انکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا رہتا ہے .....

ایک مثال پیش کرتا ہوں ایک صاحب نے حدیث پر پھبتی کسی ....

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح بخارى ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" موسى عليہ السلام بہت ہى شرميلے اور باپرد انسان تھے، شرميلا پن كى بنا پر ہى ان كى جلد كا كوئى حصہ بھى نہيں ديكھا جا سكتا تھا، چنانچہ بنى اسرائيل ميں سے كئى ايك نے انہيں اذيت پہنچائى اور يہ كہنے لگے:

يہ اپنا جسم صرف اس ليے چھپاتا ہے كہ اسے كوئى جلدى بيمارى ہے، يا تو برص كا شكار ہے، يا پھر خصيتين كى بيمارى ميں مبتلا ہے، يا كوئى اور آفت كا شكار ہے، اور اللہ تعالى نے ان كے اس قول سے موسى عليہ السلام كو برى كرنا چاہا، چنانچہ ايك روز موسى عليہ السلام اكيلے تھے تو انہوں نے اپنا لباس اتار كر ايك پتھر پر ركھا اور غسل كرنے لگے، اور جب غسل سے فارغ ہوئے اور اپنا لباس لينے كے ليے آگے بڑھے تو پتھر لباس لے كر بھاگ كھڑا ہوا چنانچہ موسى عليہ السلام نے اپنا لاٹھى پكڑى اور پتھر كے پيچھے بھاگتے ہوئے كہنے لگے: ارے پتھر ميرا لباس، اے پتھر ميرا لباس، حتى كہ بنى اسرائل كے رؤساء ميں سے كچھ كے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے انہيں ننگے اور بے لباس ديكھا تو اللہ كى مخلوق ميں سے بہترين اور حسن والے تھے، اس طرح اللہ تعالى نے ان كے قول سے موسى عليہ السلام كو برى كر ديا، اور پتھر وہاں رك گيا اور موسى عليہ السلام نے اپنا لباس لے كر پہن ليا، اور پتھر كو اپنى لاٹھى سے مارنے لگے.

اللہ كى قسم پتھر پر تين يا چار يا پانچ ضرب كے نشان پڑ گئے، اور اللہ تعالى كا قول يہى ہے:

اے ايمان والو تم ان لوگوں كى طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے موسى عليہ السلام كو اذيت سے دوچار كيا، چنانچہ اللہ تعالى نے انہيں اس سے برى كر ديا جو وہ كہتے تھے، اور وہ اللہ تعالى كے ہاں وجاہت كے مالك ہيں."

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3404 ).

سو وہ صاحب گویا ہوے
دیکھو دیکھو کیسا ظلم عظیم کر دیا ایک نبی کی شان میں اتنی عظیم گستاخی یہ تو جھوٹی حدیث ہے بلا بلا بلا

انکی بد قسمتی میں بھی اس محفل میں موجود تھا میں نے کچھ عرض کیا تو اسی طرح وہ ذاتیات پر اتر آۓ اور کہنے لگے کیا آپ اپنے لیے یہ معاملہ پسند کرتے ہیں جواب دیجئے اور یہ کہ کر فاتحانہ بغلیں بجانے لگے .....

میں نے پوچھا حضرت ترتیب وار اعتراض بیان کر دیجئے

کہنے لگے
١ ایک نبی کا برہنہ ہونا
٢ لوگوں کا دیکھ لینا
٣ اس غیر اخلاقی بات کا محفوظ کیا جانا اور اسکا بیان
٤ پتھر کا عمل جو خلاف عقل ہے

میں نے کہا حضرت کچھ غور کیجئے ایسا ہی ایک واقعہ قرآن کریم میں بھی بیان ہوا ہے اور یہی احتمالات وہاں بھی پیدہ ہوتے ہیں کم و بیش

فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِیَ لَهُمَا مَا وُوْرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ھٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّآ أَنْ تَكُوْنَا مَلَکَيْنِ أَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخَالِدِيْنَ(۲۰)وَقَاسَمَهُمَا إِنِّيْ لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِيْنَ(۲۱)

پس وسوسہ ڈالا شیطان نے ان کیلئے(ان کے دل میں)تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں انکے لئے ظاہر کردے اوربولا تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا مگر اس لئے کہ(کہیں)تم فرشتے ہوجاؤ یا ہوجاؤ ہمیشہ رہنے والوں سے۔(۲۰)

فَدَلَّاهُمَا بِغُرُوْرٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَآ أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِيْنٌ(۲۲)

پس ان کومائل کرلیا دھوکہ سے پس جب انہوں نے درخت چکھا توان کیلئے ان کی ستر کی چیزیں کھل گئیں اوروہ اپنے اوپر جوڑ جوڑ کررکھنے لگے(ستر چھپانے کیلئے)جنت کے پتے اور انکے رب نے انہیں پکارا کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اورکہا تھا تمہیں کہ بیشک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔(۲۲)

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ(۲۳)
ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا،اوراگر تونے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیاتو ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہوجائیں گے ۔(۲۳)

اب موصوف کافی پریشان ہوے
میں نے پھر عرض کی جناب جہاں تک بات ہے پتھر کے عمل کی تو جب سمندر راستہ دیتا ہے اور اسکا بیان قرآن میں آتا ہے تو آپ کو قبول یا جب چیونٹی گفتگو کرتی ہے تو آپ کو قبول تو پتھر کی حرکت کو بھی ایسے ہی تسلیم کر لیجئے .......

یہاں پھر دو گروہ پیدہ ہوتے ہیں

ایک قرآنی معجزات کا ہی انکار کر دیتا ہے دوسرا انکی باطل تاویلات شروع ک دیتا ہے تاکہ انکار حدیث کا بھرم قائم رہے ......

موصوف نے فرمایا کیا آپ اس سنت پر عمل کرنے کو تیار ہیں .....
ہم کہتے ہیں جی ہاں حضرت کیا آپ اپنی بیٹی دینے کو تیار ہیں ....

اگر علمی گفتگو میں دلیل صرف پھبتیاں اور جگتیں ہی ہیں تو دیجئے جواب مگر آپ کو شاید معلوم نہیں کہ مسجد کے منبر اور ڈرامے کے سٹیج میں فرق ہوتا ہے .....

علمی بات یہ ہے کہ اگر عمر عائشہ صدیقہ رض کے معاملے میں صحیح صریح متواتر روایات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں تو ہوگا کیا .......

کیا ہم یہ مانیں کہ حضرت عائشہ رض کی رخصتی ہجرت سے پہلے ہو چکی تھی اور اسوقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی ( کیونکہ اٹھارہ انکی عقل میں آتی ہے کل کو مغرب نے اسپر بھی اعتراض وارد کیا تو یہ اٹھائیس بھی کر دینگے )
اب سوال یہ پیدہ ہوتا ہے کہ کیا انکی شادی حضرت خدیجه رض کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی یا اگر ہجرت کے بعد ہوئی اور اسوقت آپ کی عمر ١٨ تھی تو کیا آپ کی تاریخ وفات غلط ہے غرض ایک تاریخ تبدیل کیجئے اور آپ کو تمام تاریخی واقعات کے تسلسل کو ہی تبدیل کرنا پڑے گا جو ایک غیر منطقی بات ہے .......

جیسے آپ کو الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کی گیارہ شادیاں قبول ہیں ویسے ہی اس بات کو بھی قبول کر لیجئے کوئی حرج نہیں ......
ورنہ آپ بھی گیارہ کر دکھائیں کہ سنت پر عمل ہو ........

دلیل کوئی بھی دے لیجئے یہ کوئی نیا اعتراض وارد کر دینگے اور جیت انہی کی ہوگی کیونکہ یہ پکے سچے دیوبندی حنفی سلفی غامدی عالم ہیں ہر جگہ سے اینٹیں چرا کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لینے والے .........

خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

حسیب احمد حسیب

اتوار، 1 جون، 2014

مرحوم بیگ صاحب

مرحوم بیگ صاحب !


بیگ صاحب مرحوم سے پرانا تعلق تھا بلکہ یوں کہیے وہ ہمارے گھر کا ایک جزو لازم تھے ہماری بیگم اگر دنیا میں کسی سے ڈرتی تھیں تو وہ بیگ صاحب ہی تھے بلکہ یوں کہیے جتنا ڈر ہمیں اپنی بیگم کا ہے اس سے زیادہ ہماری بیگم بیگ صاحب سےخوف کھاتی تھیں .....

بیگ صاحب بڑی پہنچ والے تھے گھر کا کچن ہو یا واشروم چھت ہو یا چمکتا ہوا فرش لکڑی کی الماری ہو یا شیشے کی میز بیگ صاحب ہر جگہ پہنچ جاتے تھے ایک دن تو مرحوم دادا جان کی شلوار سے بر آمد ہوے .....
اررر ے کسی غلط فہمی کا شکار مت ہوں بات ہو رہی ہے مرحوم لال بیگ صاحب کی جنھیں عرف عام میں کاکروچ کہا جاتا .......

حضرت کو شہید کرنے کی کئی تدبیریں کی گئیں طرح طرح کے منجن آزماۓ گۓ ہر روز کوئی نئی دوا ڈالی جا رہی ہے بعض دوائیں تو اتنی زہر آلود تھیں کہ گھر کے باقی لوگ قریب المرگ ہو گۓ لیکن مجال ہے جو بیگ صاحب کو کچھ ہوا ہو اور تو اور بے گم کی جھڑکیوں اور کوسنوں کا بھی موصوف پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا .......

دادا جی نے اپنی لاٹھی کے جوہر دکھانے کی کوشش کی ہماری پشاوری چپل اسی چکر میں ٹوٹی بیگم نے جھاڑو آزمائی ماسی نے گرم گرم پانی پھینک کر قتل کی ناکام کوشش کی لیکن موصوف ناجانے کس مٹی کے بنے ہوے تھے گھر کی بلی ہو یا باہر کا چوہا مرحوم کبھی بھی کسی دشمن کو خاطر میں نہ لاۓ......

خبروں کے بڑے شوقین تھے اکثر اخبار پر ٹہلتے ہوے پاۓ گۓ کیا شان بیان کی جاۓ حضرت کی طویل مونچھوں کی ابھی بھی سوچ کر بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے موصوف کو گرمی میں ٹھنڈی اور سردی میں گرم غذائیں کافی پسند تھیں سردیوں میں گرمی کا مزہ لینے اکثر چولہے کے نیچے سے نکلتے اور گرمیوں میں کئی مرتبہ فریج میں سے برآمد ہوے ......

موصوف کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ اکثر اپنی ازلی دشمن بی چھپکلی کی نظروں کے سامنے دندناتے ہوے گزر جاتے اور چھپکلی کو جرات تک نہ ہوتی ایک بار بی چھپکلی نے کوشش بھی کی تو حضرت نے آر دلائی .......

ذات دی کوڑھ کِلی، تے شہتیراں نوں جھپے

بیچاری چپکی ہو رہی
ایک بار سپارے والے قاری صاحب کی ریش مبارک میں سے نمودار ہوے اسکے بعد قاری صاحب بھی ہوشیار ہو گۓ انکا خیال تھا بیگ صاحب کی شکل میں کوئی جن ہے جو انپر حملہ اور ہوا تھا اس پڑوس کی ضعیف العتقاد خواتین تو کئی بار برکت کیلئے دعا کروانے بھی آئیں ......

بیگ صاحب کی پہنچ دور تک تھی ایک بار قادری صاحب تقریر کے عین دوران کہیں سے نمودار ہوے اور پوری تقریر انکے شانے پر بیٹھ کر سنی گو قادری صاحب اسکرین کے پیچھے تھے ......
خان صاحب پر مرحوم فدا تھے اکثر انکو ٹی وی پر دیکھ کر جوش میں آ جاتے اسکے اثرات کچھ یوں پڑے کہ گھر میں آنے والے فلمی رسالے انکی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے ......
ایک دن وینا جی کے گمشدہ آنچل میں چھید دیکھ کر ہمیں بڑا غصہ آیا پہلے سوچا یہ بیگم کی کارستانی ہے پھر معلوم کرنے پر معلوم ہوا یہ تو موے لال بیگ کی گھٹیا حرکت ہے ......

موصوف کی وفات کی صحیح وجہ تو معلوم نہ ہوسکی لیکن گمان غالب یہی ہے کہ بسیار خوری کا شکار ہوکر حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی .......

لاش کچن میں رکھے چاکلیٹ کیک سے برآمد ہوئی......

گو بیگم کا خیال تھا بیگ صاحب کے جسد خاکی کو کوڑے کے ڈبے کی زینت بنا دیا جاوے لیکن ہمارا دل نہ مانا اور جناب کو انکی شان کے مطابق فلش میں بہا دیا گیا .......

حسیب احمد حسیب

تجھے دیکھنے کے بعد ....

تازہ ہزل !

تجھے دیکھنے کے بعد ....

بوڑھا بھی کانپتا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
بچہ بھی رو رہا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

قوت ہے تیرے حسن میں اتنی بڑھی ہوئی
چھت سے وہ گر پڑا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

جوتوں سے تیری خوب مرمت کیا کروں 
گھر تھانہ بن گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

کہتے ہیں لوگ تجھ کو جو بھتنا صحیح تو ہے
اک شخص مرگیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

وہ فیل تن جوان جو طاقت میں تھا کمال 
بیمار پڑ گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

تن کر جو گھومتا تھا محلے میں بد قماش 
گھر میں چھپا ہوا ہے تجھے دیکھنے کے بعد 

واقف ہے تجھ سے جو تیرے طفلی کے عہد سے 
انجان بن رہا ہے تجھے دیکھنے کے بعد 

فرصت نہیں تھی جس کو کبھی کام کاج سے 
بے کار پھر رہا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

بنتا تھا برد بار جو میں محفل کل حسیب 
ٹھٹھے لگا رہا ہے تجھے دیکھنے کے بعد 

حسیب احمد حسیب