ہفتہ، 29 مارچ، 2014

"مافیا "

"مافیا "




فطرت انسانی کی بوقلمونیاں عجیب و غریب ہیں یہ کمزور مخلوق ذرا سی طاقت حاصل ہونے کے بعد" میں خدا ہوں !! کا نعرہ لگانے سے گریز نہیں کرتی مسلسل فنا کی دہلیز پر کھڑی یہ ہستی جانتی ہے اگلا قدم موت کی وادی میں لیجا سکتا ہے لیکن اس کو کوئی پرواہ نہیں چند لمحے جو ادھار ملے ہیں ان میں صدیوں کی منصوبہ بندی انسان ہی کا کمال ہے ، گروہ بندی اور اجتماعیت اسکی بہترین معاشرتی قووتیں ہیں جنکی بنیاد پر تہذیب انسانی ارتقائی منازل تے کرتی ہے کسی بھی گروہ کو جوڑنے والے اور چلانے والے کئی محرک ہو سکتے ہیں قومی قبائلی نظریاتی یہ پھر مذہبی عنوانات مگر ان سب کا بنیادی جوہر باہمی مفاد یہ پھر مشترکہ مفادات ہیں ، مفادات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے کہیں خیر اور کہیں شر کے عنوانات واضح ہوتے ہیں اس خیر اور شر کے توازن کے لیے کچھ اصول مرتب کئے جاتے ہیں یا پھر فطری طور پر ہو جاتے ہیں تاکہ نظم اجتماعی قائم رہے ،،،یہ نظم اجتماعی بقاء باہمی کے لیے لازم ترین امر ہے اسکے بغیر بقاء باہمی نا ممکن ہے اگر یہ نظم اجتماعی نہ ہو تو ہر بڑی قوت چھوٹی قووتوں کو کھا جاۓ اور انسانی معاشرہ جانوروں کا معاشرہ بن کر رہ جاۓ ، یہ اصول اور قوانین مرتب کرنے والی قوت یا تو شعور انسانی ہے جسمیں غلطی کا احتمال انسانی کی فطرت کے تحت عین ممکن ہے یا پھر الله کا نازل کیا ہوا قانون !!!!!!وہ تمام معاشرے جو اپنی فطرت سلیم سے ہٹ جاتے ہیں اور کسی بھی قانون کی پاسداری وہاں موجود نہیں رہتی ان معاشروں میں اگر کوئی قانون باقی رہتا ہے تو وہ جنگل کا قانون کہلاتا ہے جسمیں بنیادی مقصود اپنی بقاء کی جنگ ہوتا ہے چاہے اسکیلئے دوسروں کو شکار ہی کیوں نہ کرنا پڑے ایسا معاشرہ ایک وحشی معاشرہ ہوتا ہے ، "مافیا" اطالوی زبان کا لفظ ہے جسکی جاۓ پیدائش سسلی ہے اسکا وجود اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں ہوا تھا سسلی کا یہ مافیا سب سے پہلے ایک لسانی تنظیم کے طور پر وجود میں آیا جو ہسپانوی نژاد باشندوں کے سیاسی اور معاشی اقتدار کے خلاف بنی۔ ان کی شروع شروع کی کاروائیاں خفیہ تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ایک سیاسی تنظیم کے طور پر پیش کیا جو سسلی کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہو۔ ان لوگوں نے اپنی صفوں میں ایسے غنڈے بھرتی کر رکے تھے جو حکومت، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف استعمال ہوتے۔ کیونکہ یہ لوگ ایک ایسے شہر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے جو تجارتی مرکز بھی تھا اور بحیرہ قلزم کی ایک اہم ترین بندرگاہ بھی۔ اس لئے انہیں حکومتوں کو دباؤ میں لانا بہت آسان تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اس علاقے میں انارکی، قانون کی عدم موجودگی اور حکومتی اختیار کی بے بسی نمایاں تھی۔١٨٤٨ سے ١٨٦٠ تک مافیا نے اپنے آپ کو سسلی کا بلاشرکت غیرے مالک بنائے رکھا، آج اس مافیا کلچر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون ہر جگہ لاگو ہے مفادات کی شراکت کے تحت بننے والے ہر گروہ کے ساتھ "مافیا" جڑا نظر آتا ہے پیٹرول مافیا ، بھتہ مافیا ، سیاسی مافیا ، سرکاری مافیا ، دودھ مافیا ، ذخیرہ اندوز مافیا اور تو اور اب تو ڈاکٹر اور وکیل مافیا بھی میدان میں آ گۓ ہیں افسوس تو یہ ہے کہ وہ معاشرے جو اسلامی کا لاحقہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں وہاں بھی "مافیا " اسی اب و تاب کے ساتھ پرورش پا رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جانے کہ انکی افزائش دو چند ہے تو غلط نہ ہوگا !


حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: