ہفتہ، 2 اگست، 2014

کیا قومی غیرت بھی

کیا قومی غیرت بھی ................!

قومی غیرت اور عصبیت ہمیشہ سے عرب قوم کا خاصہ رہی ہے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عرب دنیا اسلام کے رنگ میں رنگ گئی اور قومیت کے بت کی پرستش سے انہوں نے اپنی گردنوں کو چھڑوا لیا لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قومیت کے جن نے دوبارہ عرب کو اپنی لپیٹ میں لیا جس کا خمیازہ سقوط خلافت عثمانیہ کی شکل میں امت کو بھگتنا پڑا یہ ایک تکلیف دہ تاریخ ہے ......

ہجرت سے پہلے کی بات ہے اسلام کا ابتدائی دور تھا اور مسلمانوں کو شعب ابی طالب میں مقید کر دیا گیا تھا یہ عہد نامہ کعبہ میں اس اعلان کے ساتھ لٹکایا گیا کہ جب تک بنی ہاشم ‘ محمد بن عبداللہ کو قریش کے حوالے نہیں کریں گے یہ لٹکا رہے گا، ابو طالب مجبور ہو کر بنو ہاشم اور بنی مطلّب کی حفاظت کی خاطرپہلی محرم ۷ نبوی کی شب کو تمام خاندان بنی ہاشم کے ساتھ بجز ابولہب کے کوہ ابو قبیس میں واقع گھاٹی شعب ابی طالب میں پناہ گزیں ہو گئے ، گھاٹی کو عربی میں شعب کہتے ہیں، کوہ ابو قبیس میں کئی گھاٹیاں تھیں جیسے شعب المطلب ، شعب بنی ہاشم، شعب بنی اسد ، شعب بنی عامر ، شعب بنی کنانہ وغیرہ ، یہ شعب بنی ہاشم کی موروثی ملکیت تھی، اس وقت بنی ہاشم کے سردارابو طالب تھے اس لئے یہ گھاٹی ان ہی کے نام سے شعب ابی طالب کہلانے لگی، آج کل شعب ابی طالب مکہ کے بازار "سوق اللیل " کے مقابل ایک بستی ہے جو اطراف کی تین گھاٹیوں کے درمیان ہے، اسے محلۂ ہاشمی بھے کہتے ہیں، مولد النبی ، مولد علی اور دارِ خدیجہؓ اس شعب میں واقع ہیں، اسے شعب علی ؓیا شعب بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔
(تاریخ مکہ معظمہ - مصباح الدین شکیل - سیرت احمد مجتبیٰ)

غور کیجئے خاندان کے کافر افراد بھی صرف قومی عصبیت میں آپ کے ساتھ قید ہونے کو مشقتیں اٹھانے کو تیار پھر آسمان نے ایک اور منظر دیکھا

حُبّ رسول اور اسلام کی خاطر تمام محصورین یہ تکالیف برداشت کر رہے تھے، اُم المومنین حضرت خدیجہؓ نے جو ناز و نعم میں پلی بڑھی تھیں ؛لیکن ہرطرح کی مصیبت اور فقر و فاقہ برداشت کیا اور حضور ﷺ کی غم گساری کی اور مسلم خواتین کے لئے ایک بہترین مثال چھوڑ گیئں،محصوری کے دوران ابو طالب اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ جب لوگ اپنے بستروں پر سونے کے لئے دراز ہوجاتے تو رسول اﷲ ﷺ کو ایک بستر پر لیٹنے کے لئے کہتے تاکہ آپﷺ کے قتل و غارت کا ارادہ رکھنے والا دیکھ لے(کہ آپﷺ یہاں سو رہے ہیں) جب لوگ نیند میں مدہوش ہوجاتے تو اپنے کسی عزیز کو بیدار کرکے رسول اﷲﷺ کے بستر پر دراز ہونے کو کہتے اور رسول اﷲﷺ کو اس کے بستر پر لیٹ جانے کا اشارہ کرتے،محصورین صرف ایام حج میں ہی شعب سے باہر نکل سکتے تھے اور اس وقت بھی قریش یہ کرتے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو زائد قیمت پر خرید لیتے تا کہ محصورین کو کچھ نہ مل سکے جس کا منشاء صرف ان کاعرصۂ حیات تنگ کرنا تھا، بعض رحم دل انسانوں کو محصورین کی اس حالت پر ترس بھی آتا تو وہ چوری چھپے کچھ غلہ پہنچانے کی کوشش کرتے ؛لیکن کڑی نگرانی کے باعث انھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، ایک روزحکیم بن حزام نے جو حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے تھے راتوں میں چھپ چھپاتے ہوئے اپنے غلام کے ذریعہ کچھ گیہوں بھیجے تو راستہ میں ابو جہل نے دیکھا اور چھین لینا چاہا، اتفاق سے ابو البختری بن ہشام وہاں آگیا اور اس نے بیچ بچاؤ کیا، وہ اگرچہ کافر تھا؛ لیکن اس کو بھی رحم آیا اور کہا کہ ایک شخص اپنی پھوپھی کو کھانے کے لئے کچھ غلہ بھیجتا ہے تو کیوں روکتا ہے، لیکن ابوجہل نے سر کشی دکھائی تو ابو البختری نے قریب میں پڑی اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اس پر دے ماری اور خوب زد و کوب کیا،یہ منظر شعب سے حضرت حمزہؓ دیکھ رہے تھے۔
(مصباح الدین شکیل - سیرت احمد مجتبیٰ)

کوئی مجھے یہ سمجھا دے کہ صرف قومی غیرت و عصبیت ابو البختری جیسے کافر کو ابو جھل کا سر پھاڑنے پر مجبور دیتی ہے ایک کافر دوسرے کافر کو مار رہا ہے صرف خاندان اور قومیت کی محبت میں ........

کوئی مجھے یہ سمجھا دے کہ اسلامی عصبیت تو قصہ پارینہ ہوئی کہ وہ عرب جنھیں اپنی غیرت پر تفاخر تھا جنکی قومی عصبیت معروف تھی جو خلافت عثمانیہ کے خلاف باہم متحد تھے .......

کوئی مجھے یہ سمجھا دے کہ اسلام کی خاطر نہیں ایمان کی خاطر نہیں انصاف کی خاطر نہیں ....

کوئی مجھے یہ سمجھا دے کہ کیا قومی غیرت بھی ................؟

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: