ہفتہ، 2 اگست، 2014

میٹھی عید پر نمکین غزل

میٹھی عید پر نمکین غزل !

کیسے کہیں کہ آج ہوئی ہے ہماری عید 
و اللہ جب تلک نہیں ہوگی تمہاری دید 


جھگڑا ہلال عید کا بیکار تو نہیں
کل جو نہ کر سکا وہ منا لے گا آج عید 

پیہم رہے یہ سلسلہ خُورْد و نوش یوں
خالی ہو ایک خوان تو آۓ پھر اک مزید

ہم نے سنا ہے آۓ ہیں یورپ سےماموجان
عیدی ملے گی یورو میں اس بار ہے نوید

بچے تھے اسکے چار تو اسکے سپوت تین 
عیدی کے لین دین پے جھگڑا ہوا شدید

دعوت میں آکے ٹھونس گیا ہے وہ سب اناج
معدے میں تہہ لگائی حلق تک بھری ورید

بیگم نے وہ اندھیر مچایا براۓ عید
روتا ہے پائی پائی کو بیٹھا وہ زن مرید

خوشیوں میں مست قوم سے پوچھےکوئی سوال
کتنے ہوے شہید غزہ میں ؟ ہے کچھ شنید ! 

اپنی انا کی قید میں جکڑا رہا حسیب 
ماہ صیام قفل انا کی تھا شاہ کلید 

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: