جمعرات، 14 اگست، 2014

مرد و عورت

مرد و عورت

اصل میں جسمانی قوت کے اعتبار سے بعض معاملات میں عورت مرد سے کمزور اور بعض میں قوی ہے ......

مشقت کے اٹھانے یا دوسرے تکلیف دہ امور کے سرانجام دینے میں مرد عورت پر فائق ہے لیکن یہی عورت ایک جان کو نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھ کر اپنے خون سے پروان چڑھاتی ہے مرد اس سے قاصر ہے ......

اسی طرح عورت و مرد کی ذہنی استعداد مختلف ہے عورت میں لطیف جذبات انسانی ہمدردی کی زیادتی ہے جبکہ مرد میں اسکے مقابل سخت اور بعض اوقات بے رحم فیصلے لینے کی صلاحیت ہے ......

ہر دو کا میدان عمل مختلف ہے .....
اسکو سمجھنا اسکا احترام کرنا اور ایک دوسرے کا معاون و مددگار بننا یہ زندگی کی ضرورت ہے .

اگر مرد و عورت کا موازنہ کیا جاوے تو
سائنس دان ، فلسفی ، انجینیر یا شاعر و ادیب کیوں بنتے ہیں کیا انھیں بنایا جاتا ہے یا یہ کوئی فطری رجحان اندرونی صلاحیت ہے جو انہیں اسطرف متوجہ کرتی ہے ......

اب ایک مفروضہ ہی سمجھ کر اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جاوے کہ یہ ایک فطری رجحان کے ماتحت ہوتا ہے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ فطری رجحان ہماری صلاحیتوں پر پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں ہم اپنی فطرت کے تابع ہوتے ہیں اور اسی افتاد طبع کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہمارے میدان مختلف ہوتے ہیں ...

اب یہاں سے گفتگو کو آگے بڑھاتا ہوں
کیا عورت میں مختلف میدانوں میں آگے بڑھنے اور عظیم بننے کی صلاحیت موجود نہیں ......
اگر ہم تاریخ کے اوراق کو کھنگالیں تو ہمیں ایسی بے شمار مثالیں مل جائینگی .....
چونکہ میرا میدان اسلامی تاریخ ہے اسلئے وہاں سے کچھ امثال پیش کرتا ہوں .....

حضرت خولہ بنت ازور رض کی بہادری معروف وہ جنگوں میں مردوں کے شانہ با شانہ شامل ہوتی تھیں .....
حضرت عائشہ صدیقہ رض کی فقاہت معروف ہے اور آپکا تقابل ابن مسعود رض سے کیا جا سکتا ہے اسی طرح علم حدیث میں آپ ابو ہریرہ رض کے ساتھ صف اول میں نظر آتی ہیں ......
حضرت خنساء رض کا شمار عرب کی ان شاعرات میں ہوتا ہے کہ جن کا تقابل اساتذہ سے ہو سکتا ہے ........
اور پھر قبول اسلام میں حضرت خدیجہ رض پر کسی بھی دوسری شخصیت کو فوقیت حاصل نہیں ہے ......

یہاں سے ایک بات معلوم ہوتی ہے کہ عورت کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے .....

اب آتے ہیں اس طرف کہ عملی دنیا میں ایسے مردوں کی تعداد کیوں زیادہ ہے اور خواتین کی انتہائی قلیل کیوں ......
ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ کسی اندیکھی سازش کے تحت خواتین کو ہمیشہ عملی میدانوں سے دور رکھا گیا انکو دبایا گیا .....
لیکن یہ سازش تھیوری مجھے تسلیم نہیں کہ پوری مرد جاتی ہی عورت جاتی کے خلاف کسی عالمی سازش میں مشغول رہی ہو یہ ایک بعید از عقل بات ہے .....

اصل وجہ وہی فطری مزاج اور الہی قانون ہے جو عورت کو اس میدان کی طرف متوجہ رکھتا ہے جو اسکی کی تخلیق کی عظیم ترین وجہ ہے .....
مجھے کہنے دیجئے کہ عورت نے ایک ایسے عہدے کی خاطر اپنی تمام خوبیوں اور صلاحیتوں میں کمی برداشت کر لی جسے " ماں " کا نام دیا جاتا ہے .....

میرے خیال میں ماں بننے کا تخلیقی عمل ہی ایک ایسا اعلی درجے کا کام ہے جسکا کوئی مقابل نہیں جس میں ماں کی اپنی جان اسٹیک پر ہوتی ہے اور پھر اس اولاد کی تعلیم و تربیت .......

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: