ہفتہ، 2 اگست، 2014

تبرکات نبوی صل الله علیہ وسلم کا مسلہ

تبرکات نبوی صل الله علیہ وسلم کا مسلہ !

صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء :
۔۔۔ فإذا هي أرجوان فرجعت إلى أسماء فخبرتها فقالت هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج وفرجيها مكفوفين بالديباج فقالت هذه كانت عند عائشة حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها
ترجمہ:
حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم (ص) اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ تبرکات نبوی صل الله علیہ وسلم سے کوئی عقیدہ منسوب کرنا جائز نہیں لیکن انکی بابت استخفاف اور تضحیک کا ادنی سا پہلو بھی کسی صورت جائز نہیں ہے ..

شیخ البانی رح کتاب "التوسل انواعه واحكامه " میں لکھتے ہیں ہے:
وهو أن النبيصلى الله عليه وسلم وإن أقر الصحابة في غزوة الحديبية وغيرها على التبرك بآثاره والتمسح بها، وذلك لغرض مهم وخاصة في تلك المناسبة، وذلك الغرض هو إرهاب كفار قريش وإظهار مدى تعلق المسلمين بنبيهم، وحبهم له، وتفانيهم في خدمته وتعظيم شأنه، إلا أن الذي لا يجوز التغافل عنه ولا كتمانه أن النبي صلى الله عليه وسلم بعد تلك الغزوة رغّب المسلمين بأسلوب حكيم وطريقة لطيفة عن هذا التبرك، وصرفهم عنه، وأرشدهم إلى أعمال صالحة خير لهم منه عند الله عز وجل، وأجدى، وهذا ما يدل عليه الحديث الآتي:
عن عبد الرحمن بن أبي قراد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم توضأ بوماً، فجعل أصحابه يتمسحون بوضوئه، فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم: "ما يحملكم على هذا؟" قالوا: حب الله ورسوله. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "من سره أن يحب الله ورسوله، أو يحبه الله ورسوله فليصدق حديثه إذا حدث، وليؤد أمانته إذا اؤتمن، وليحسن جوار من جاوره"
ترجمہ:
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے حدیبیہ وغیرہ میں صحابہ کرام کو اپنے آثار سے تبرک حاصل کرنے میں رضامندی ظاہر کی تھی کیونکہ اس وقت اس کی سخت ضرورت تھی اور وہ ضرورت یہ تھی کہ آپ کفار قریش کو ڈرائیں اور اپنے نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و محبت ، تعظیم و تکریم اور خدمت کے جذبہ کو ظاہر کریں۔ لیکن اس کے بعد آپ نے نہایت حکیمانہ طور پر مسلمانوں کو اس تبرک سے پھیر دیا تھا اور ان کو اعمال صالحہ کی طرف رہنمائی کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ اعمال صالحہ اللہ کے نزدیک اس تبرک سے بہتر ہے۔

(اور پھر اسکی دلیل میں البانی یہ روایت پیش کرتے ہیں )
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو کیا تو آپ کے اصحاب آپ کے وضو کا پانی لے کر اپنے بدن پر ملنے لگے تو آپ نے فرمایا :تمہیں ایسا کرنے پر کون سی چیز آمادہ کر رہی ہے؟ ان لوگوں نے کہا : اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو یہ چاہتا ہے کہ الله اور الله کے رسول کا محبوب بن جاوے

جب وہ بات کرے تو سچی بات کرے
اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرے
اور جو اس کا پڑوسی ہو ، اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إنّی واﷲ ماسألته لألبسها، إنما سألته لتکون کفنی. قال سهل : فکانت کفنه.
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘

بخاری، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218
بخاری، الصحيح، 2 : 737، کتاب البيوع، رقم : 1987
بخاري، الصحيح، 5 : 2189، کتاب اللباس، رقم : 5473
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 5689
نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 480، رقم : 9659
بيهقي، السنن الکبریٰ، 3 : 404، رقم : 6489
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 462
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، 169، 200، رقم : 5785، 5887، 5997
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 6234
قرشي، مکارم الاخلاق، 1 : 114، رقم : 378
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 3555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : ٤٥٤

اخرج الینا انس رضی الله عنه نعلین جرداوین ، لهما قبالان ، فحدثنی ثابت البنانی بعد عن انس انهما نعلا النبی صلی الله علیه وسلم۔''سیدناانس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے ، ان کے دو تسمے تھے ، اس کے بعدمجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔''(صحیح بخاری : 438/1،ح؛3107)

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے پانی پیا تھا ، ابو حازم کہتے ہیں کہ سہل نے اسے نکالااور ہم نے اس میں پانی پیا، اس کے بعد امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ان سے مانگا ، انہوں نے ان کو تحفہ میں دے دیا۔
(صحیح بخاری 842/2 ح: 5437)

عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ، ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تھے ، جنہیں ہم نے سیدناانس یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا ، کہتے ہیں ، اگر میرے پاس آپ کا ایک بال ہو تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پیارا ہے۔
(صحیح بخاری : 29/1،ح:0 17 )

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اکرم ﷺ کے چند بال مبارک تھے ۔آپ خود فرماتے ہیں یہ ٹوپی جس غزوہ میں میرے پاس رہی مجھے اسکی برکت سے فتح حاصل ہوتی رہی ۔آپکی یہ ٹوپی کسی غزوہ میں گر گئی آپ نے اسے حاصل کرنے کے لئے سخت حملہ کیا جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے ۔صحابہ کرام نے اعتراض کیا کہ ایک ٹوپی کی خاطر آپ نے اتنے مسلمانوں کو شہید کرایا ہے تو انہوں نے جواب دیا یہ حملہ ٹوپی کے لئے نہیں کیا گیا بلکہ موئے مبارک کے لئے کیا تھا ۔جو ٹوپی میں تھے کہ مبادا انکی برکت میرے پاس سے جاتی رہے ۔

(البدایہ و النھایہ )

گزارش اتنی ہے کہ اس معاملے میں احتیاط و اعتدال ضروری ہے نہ تو شرک میں مبتلا ہونا مفید ہے اور نہ ہی توحید کی غلبے میں شان نبوت کے اس مظہر سے اکراہ ایمان کیلئے مفید ہے .

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: