ہفتہ، 2 اگست، 2014

ہمیں وہ کج ادا بھولا ہوا ہے

تازہ غزل !

ہمیں وہ کج ادا بھولا ہوا ہے 
چلو جو بھی ہوا ا چھا ہوا ہے


سنبھل کر دیجئے مژگاں کو جنبش
کوئی پلکوں تلے بیٹھا ہوا ہے

یہ کس شیریں سخن کا ہےتبسم
اجالا دور تک پھیلا ہوا ہے

نظر کو اب کوئی بھاتا نہیں ہے
نگاہوں میں کوئی اترا ہوا ہے

کسی کی بےرخی کا غم ہے اسکو 
میری بانہوں میں جو بکھرا ہوا ہے

تیرے ہر اشک کی مجھکو خبر ہے 
میرے کاندھے پے سر رکھا ہوا ہے 

نہیں بدلا تیرے جانے سے کچھ بھی
مگر سینے میں کچھ ٹوٹا ہوا ہے 

چلو ساحل سے اٹھ کر گھر کو جائیں 
سمندر دیر سے ٹھہرا ہوا ہے 

منا لیتے ہیں چل کر ہم خدا کو
مجھے لگتا ہے وہ روٹھا ہوا ہے 

میں کیسے بھول سکتا ہوں وہ گلیاں 
جہاں بچپن میرا گزرا ہوا ہے 

کہیں چھن جاۓ نہ پھر سے محبت 
یہ دل میں خوف سا بیٹھا ہوا ہے 

فریب زندگی ہم نے بھی کھایا
تمھارے ساتھ بھی دھوکا ہوا ہے 

حسیب آؤ کہ اس سے مل کر آئیں
وہ ظالم شہر میں آیا ہوا ہے

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: