جمعرات، 14 اگست، 2014

غامدی صاحب کے ایک بڑے ناقد

غامدی صاحب کے ایک بڑے ناقد

ایک طرف مدرسہ فراہی کا نظم قرآن ہے جو امین احسن اصلاحی سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچتا ہے تو دوسری طرف سید مودودی کا تحریکی مزاج جو اقامت دین کا متقاضی ہے ...

دور جدید میں ہمیں ہر دو مذکورہ بالا فکر سے متعلق دو افراد ملتے ہیں جنکی بابت خود ان کی طرف سے اور ان کے متبعین کی طرف سے یہ دعویٰ ہے کہ وہ فکر مودودی اور اصلاحی کے امین ہیں ..

یہ دو افراد کون ہیں
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور جاوید احمد غامدی
کچھ تذکرہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا بچپن سے انکا ذکر سنا ایک اپنے نانا مرحوم ظہور احمد خان کے حوالے سے اور اپنے دادا کے بڑے بھائی مولانا برکات احمد خان رح کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب اور میرے نانا مرحوم ہم مکتب تھے ضلع کنج پورہ حصار میں وہ نانا مرحوم کو ظہور بھائی کہا کرتے تھے ....

جب ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنی ڈاکٹری کی پریکٹس کے دوران جو منٹگمری ساہیوال میں تھی علوم دینیہ کی جانب متوجہ ہوے تو پہلا علمی استفادہ عربی اور فارسی کے حوالے سے مولانا برکات احمد خان رح سے کیا پھر آپ نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات گولڈ میڈل کیا ڈاکٹر صاحب مرحوم سے انکی وفات سے کچھ سال پھر قبل جب ملاقات ہوئی تو مختلف موضوعات پر سوالات کیے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے کہا کے مولانا محمود الحسن مجدد کبیر تھے اور اپنی تحریک کو تحریک ریشمی رومال کا تسلسل قرار دیا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب تک میں جماعت میں تھا میرے نزدیک اصحاب رسول کے بعد سب سے عظیم شخصیت سید مودودی مرحوم کی تھی جماعت سے نکلا تو دوسرے اہل علم سے تعارف ہوا غامدی صاحب کے تذکرے پر سخت الفاظ ادا فرماۓ اور محترم حامد کمال الدین صاحب کا ذکر آنے پر انکی توصیف کی ..

ڈاکٹر صاحب مرحوم وہ شخصیت تھے جنہوں نے ایک طرف تو امین احسن اصلاحی کی قرآنی فکر کو آگے بڑھایا تو دوسری طرف سید مودودی کی تحریک اقامت دین کو اپنے انداز سے پروان چڑھایا ہم کہ سکتے ہیں کہ آپ قرآنی فکر اصلاحی اور تحریکی فکر مودودی کے امین تھے ..

دوسری طرف آپ کو اہل علم کی جانب سے پذیرائی ملی ایک طرف ڈاکٹر حمید الله خان مرحوم تو دوسری طرف ابو الحسن علی ندوی رح کے توصیفی کلمات پھر آپ کو فکر اقبال کا سب سے بڑا شارح کہا جاوے تو غلط نہ ہوگا اور آپ میں نری ظاہریت ہی نہیں تھی بلکہ تصوف کا گہرا رنگ بھی موجود تھا جو مولانا داوود غزنوی رح سے تعلق کی بنیاد پر تھا.

دوسری طرف غامدی صاحب کی شخصیت ہے جنھیں معتبر علمی حلقوں میں چاہے وہ قدیمی ہوں یا جدید علوم سے وابستہ جیسے ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کی شخصیت پذیرائی نہیں مل سکی بلکہ ہر دو گروہ کے نزدیک انکی شخصیت متنازعہ ہی رہی ہے ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک ڈاکٹر اسرار مرحوم کو تو اپنا استاد کہتے ہیں لیکن غامدی صاحب کی طرف ذرا بھی التفات نہیں....

عجیب معاملہ یہ ہے کہ ایک ہی استاد کے دو شاگردوں یا شاگردی کا دعویٰ کرنے والوں میں شدید منافرت رہی ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ڈاکٹر اسرار مرحوم نے غامدی صاحب کو اپنی مسجد تک سے نکال دیا اور یہ وہ وقت تھا جب مدارس کے علما کو غامدی فکر سے واقفیت تک حاصل نہ تھی کیونکہ غامدی صاحب کو مشرف دور میں ہائپ ملی جیسے احمد جاوید ، عامر لیاقت ، زید زمان کو ملی .....

سوال یہ ہے کہ ہر دو حضرات جنکا تعلق ایک طرف تو تحریکی اعتبار سے سید مودودی سے تھا تو دوسری طرف فکری اعتبار سے امین احسن اصلاحی سے تھا اتنے مخالف کیوں کہ ڈاکٹر اسرار مرحوم برملا غامدی صاحب کو گمراہ کہتے انکے ادارے سے غامدی صاحب کے خلاف کتب تصنیف ہوتی ہیں اور انکی مسجد سے غامدی صاحب کو نکال دیا جاتا ہے کیا وجہ سے کہ ایک ہی فکر سے منسلک ہونے کا دعویٰ رکھنے والوں میں اتنا اختلاف .

دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ ڈاکٹر اسرار مرحوم کے درس قرآن اور سلسلہ تراویح کو وہ مقبولیت ملی جسکی نظیر ملنا مشکل ہے اور انکی تحریک عالمی سطح پر منظم ہوئی اور عموم کے قلوب میں انکی مقبولیت انکے جنازے میں دکھائی دی ....

کیا وجہ ہے کہ علما فکر غامدی سے نالاں ہیں کیا اس کو صرف تعصب کا نام دیکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور کیا وجہ ہے کہ فکر غامدی کے سب سے بڑے ناقد اصلاحی فکر قرآنی اور مودودی فکر اقامت دین کے امین ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ہی تھے .

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: