ہفتہ، 2 اگست، 2014

نیلام گھر سے انعام گھر تک

نیلام گھر سے انعام گھر تک !

دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے ....

یہ آواز بچپن سے کانوں میں سنائی دی 
انتہائی سنجیدہ گھمبیر زندگی سے بھرپور آواز ....

" نیلام گھر "

ایک مکمل گلدستہ تھا شعر شاعری شخصیات سے ملاقات معلومات عامہ کانوں کو بھانے والی موسیقی لیکن ڈھنگ تمیز اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ یہ کوئی دینی پروگرام نہ تھا لیکن تہذیبی اقدار کا خیال ضرور رکھا جاتا اسکے میزبان طارق عزیز کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کے نام کا لاحقہ نہیں لگا تھا لیکن وہ ایک بہترین اینکر ثابت ہوے ......
مجھے یاد ہے اسوقت اتنے چینلز کی یلغار نہیں تھی اور پورا گھر اس پروگرام کے دیکھنے کیلئے جمع ہو جاتا تھا اس میں مرد خواتین بوڑھے بچے جوان غرض ہر کسی کیلئے دلچسپی کا سامان موجود تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ خاندان کے تمام افراد بغیر کسی شرم کے ایک دوسرے سے نظریں چراۓ بغیر اس پروگرم کو دیکھ سکتے تھے .....

آج کا دور آزادی کا دور ہے یہ دور ہے " انعام گھر " کا اور ایک نام نہاد ڈاکٹر جس نے کسی اعلی تعلیمی ادارے کی شکل بھی نہ دیکھی ہو جو نام نہاد دینی شناخت رکھتا ہو اور جس نے پاکستانی میڈیا کی تاریخ کے گٹھیا ترین پروگرام کی بنیاد رکھ دی ہو .....

مذہب اخلاقیات بردباری متانت تہذیب کا جنازہ جیسے اب نکالا جا رہا ہے پہلے اس کا تصور بھی نہ تھا گھٹیا قسم کا پھکڑ پن جو کسی نچلے درجے کے سٹیج کو زیب دیتا ہے اب نام نہاد اسلامی اسکالر بننے والے پیش کر رہے ہیں .......

نیلام گھر سے انعام گھر تک کا سفر اور طارق عزیز سے عامر لیاقت تک کا سفر دراصل ہماری قومی ملی اور تہذیبی پستی کو ظاہر کرتا اور یہ کہے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ کوئی قوم گرتی ہے تو زندگی کے ہر شعبے میں اسکی ذلت واضح دکھائی دیتی ہے .

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: