جمعرات، 14 اگست، 2014

حقیقی انقلاب یا کاسمیٹک انقلاب

حقیقی انقلاب یا کاسمیٹک انقلاب !

لفظ انقلاب عربی زبان سے سے اردو میں آیا ہے جسکا مصدر قلب ہے قلب درمیان کو بھی کہتے ہیں علم الابدان کے ماہرین کے نزدیک یہ ایک آلہ ہے جو جسم میں خون کی گردش کو رواں رکھنے اور گندے خون کو صاف کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے لیکن اسکے لغوی معنی تبدیلی یا پلٹ دینے یا ایک کیفیت سے دوسری کیفیت کی طرف منتقل ہونے کے ہیں ......

اسلامی فکر کے مطابق انقلاب صرف ظاہری حالات و واقعات کی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ ماہیت قلب کا نام ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے

یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ عَلٰی دِیْنِکَ
اے دِلوں کو پھیرنے والے !میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ (ترمذی)

یا ایک جگہ آتا ہے

یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ عَلٰی دِیْنِکَ
اے دِلوں کو پھیرنے والے !میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ (ترمذی)

اگر دین قلب میں جاگزیں ہو تو اس کے انقلاب سے پناہ مانگی گئی ہے

کیا خوب کہا ہے شاعر نے

باطن میں ابھر کر ضبط فغاں لے اپنی نظر سے کار زیاں
دل جوش میں لا فریاد نہ کر تاثیر دکھا تقریر نہ کر

اسلام مسلمان سے مکمل تبدیلی کا تقاضہ کرتا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے

اسلامی انقلاب صرف سیاسی تبدیلیوں کا نام نہیں بلکہ اسکی ابتداء عقائد سے ہوتی ہے اور انتہا ایک مکمل اسلامی معاشرت کا ظہور ہے اسی کو خلافت اسلامی ریاست یا حکومت الہیہ کہا جاتا ہے .

اسلامی انقلاب کا مکمل منشور جو اس کے اطراف و جوانب کا احاطہ کرتا ہے الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کا آخری خطبہ ہے

یہ ایک عجیب خطبہ ہے

آپﷺ نے اس کے لئے عجیب بلیغ انداز اختیار فرمایا، لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا … کچھ معلوم ہے کہ آج کونسا دن ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ خدا اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے، آپﷺ دیر تک خاموش رہے ، لوگ سمجھے کہ شاید آپﷺ اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے، دیر تک سکوت اختیار فرمایا اور پھرکہا ! کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا: ہاں بے شک ہے، پھر ارشاد ہوا : یہ کونسا مہینہ ہے؟ لوگوں نے پھر اسی طریقہ سے جواب دیا ، آپ ﷺ نے دیر تک سکوت اختیار کیا اور پھر فرمایا: کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں بے شک ہے ، پھر پوچھا : یہ کونسا شہر ہے؟ لوگوں نے بدستور جواب دیا، آپﷺ نے دیر تک سکوت کے بعد فرمایا : کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں بے شک ہے ، تب لوگوں کے دل میں یہ خیال پوری طرح جا گزیں ہو چکا کہ آج کا دن بھی ‘ مہینہ بھی اور خود شہر بھی محترم ہے یعنی اس دن اور اس مقام میں خوں ریزی جائز نہیں ، تب فرمایا :
" تو تمہارا خون ، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ( تاقیامت) اس طرح محترم ہے جس طرح یہ دن اس مہینہ میں اور شہر میں محترم ہے، " قوموں کی بربادی ہمیشہ آپس کے جنگ و جدال اور باہمی خوں ریزیوں کا نتیجہ رہی ہے ، وہ پیغمبر جو ایک لازوال قومیت کا بانی بن کر آیا تھا اس نے اپنے پیروؤں سے بہ آواز بلند کہا :
" ہاں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ خود ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو ، تم کو خدا کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس کرے گا "

" ہاں مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے ، باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور بیٹے کے جرم کا جواب دہ باپ نہیں"
عرب کی بد امنی اور نظام ملک کی بے ترتیبی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ ہر شخص اپنی خداوندی کا آپ مدعی تھا اور دوسرے کی ماتحتی او فرمانبرداری کو اپنے لئے ننگ و عار جانتا تھا، آپﷺ نے ارشاد فرمایا : " اگر کوئی حبشی بریدہ غلام بھی تمہارا امیر ہواور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو"

ہاں شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا تھا کہ اب تمہارے اس شہر میں اس کی پرستش قیامت تک نہ کی جائے گی، لیکن البتہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کی پیروی کروگے اور وہ اس پر خوش ہو گا"

اپنے پرودگار کو پوجو ، پانچوں وقت کی نماز پڑھو، ماہ رمضان کے روزے رکھو اور میرے احکام کی اطاعت کرو، خدا کی جنت میں داخل ہو جاؤگے "
یہ فرما کر آپﷺ نے مجمع کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : " کیوں میں نے پیغام خداوندی سنادیا" سب بول اٹھے ، بے شک بے شک آپﷺ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچادیا، آپﷺ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف جھکا کر تین بار فرمایا : " ائے اللہ تو بھی گواہ رہیو ، گواہ رہیو ، گواہ رہیو"
(سیرت النبی جلد اول)

اسلام کا مزاج خیر ہے دین کا مزاج سلامتی ہے الله کی زمین میں فساد الله کو پسند نہیں

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں

قریب کی انسانی تاریخ کا ایک عظیم انقلاب انقلاب فرانس تھا اس کی ایک تصویر ملاحظہ کیجئے

یہ انقلابی تحریک ۱۷۸۹ء میں شروع ہوئی اور یورپ پر غیر معمولی طور پر اثر انداز ہوئی۔ اس وقت رعایا کی حالت بالخصوص زرعی اضلاع میں بہت خراب تھی۔ نظام حکومت میں رشوت ستانی کا دور دورہ تھا۔ اقتدار بادشاہ اور امراء کے ہاتھوں میں مرکوز ہو گیا تھا اور اس پر کوئی مؤثر پابندیاں نہیںتھیں۔ اونچے طبقوں کے لوگ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے۔ نتیجتاً اس کا بار بڑی سختی کے ساتھ غریبوں پر پڑتا تھا۔ ملک کا مالیہ مایوس کن انتشار کا شکار تھا۔ اسی زمانہ میں والٹیر (Voltaire)روسو (Rousseau) اور دوسرے فلسفیوں نے عوام کو نئے خیالات سے روشناس کرایا جنہیں خاص مقبولیت شہروں میں حاصل ہوئی۔ والٹیر نے مذہبی اور دیگر روایتوں کو جن کی وجہ سے عوام اپنی زبوں حالی کو چپ چاپ مان لینے کے عادی ہو گئے تھے قابل تحقیر قرار دیا۔ روسو نے انسان کے فطری حقوق کی نشاندہی کی اور ایک ایسی سلھنت کا تصور پیش کیا جس میں عوام کی مرضی کو بالادستی حاصل ہو ۔ لوگوں نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ عدم مساوات ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اس کا نہ تو کوئی خدائی جواز تھا اور نہ انسانی۔ ایک طویل وقفہ کے بعد فرانس کی نمائندہ مجلس ۱۷۸۹ء میں اسٹیٹس جنرل (The States General)کو طلب کیاگیا۔ اس مجلس کے اجلاس میں عوامی نمائندوں نے قومی اسمبلی کو بلانے پر اصرار کیا۔ اس اثناء میں ۱۴؍ جولائی ۱۷۸۹ء کو لوگوں کے ایک ہجوم نے حملہ کرکے پیرس کے پرانے قلعہ باسٹیل (Bastille)کو جس میں شاہی مجرم قید کیے جاتے تھے مسمار کر دیا ۔ اور پورے ملک میں بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ سرخ سفید اور نیلے رنگ پر مشتمل ایک ترنگا (Tri Colour)جھنڈا انقلاب اور جمہوریت کی علامت بن گیا ۔ قومی اسمبلی نے ہی کیا کہ تمام طبقاتی مراعات ختم کردی جائیں۔ اسمبلی نے اپنے آپ کو مجلس قانون ساز میں تبدیل کر لیا۔ امراء کی بڑی تعداد انگلستان اور دوسرے ملکوں کی طرف بھاگ نکلی لیکن اب بھی بہت سے لوگ بادشاہ کے طرف دار تھے حالانکہ اس کی حیثیت ایک قیدی سے زیادہ نہ تھی۔ جون ۱۷۹۱ء میں بادشاہ نے پیرس سے راہ فرار اختیار کی لیکن وارن نس (Varennes)کے پاس اس کو روک کر واپس لایا گیا۔ مجلس نے یہ فیصلہ کیا کہ فرانس کو دستوری بادشاہت بنایا جائے ۔لیکن متعدد اسباب کی وجہ سے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ نہ سکا۔فرانس میں واقعات کی یہ رفتار دیکھ کر یورپ کے اکثر حکمراں اور ان کی رعایا بری طرح خوف زدہ ہو گئے۔ جلا وطن فرانسیسی امیروں نے یورپ کے حکمران کو فرانس میں مداخلت کرنے کے لیے اکسایا۔ ان حکمرانوں میں نمایاں مقام شہنشاہ آسٹریا کو حاصل تھا جو فرانسیسی بادشاہ لوئی شش دہم (Louis XVI)کی بیوی میری آنتوانت (Marie Antoinette)کا بھائی تھا۔ پرشیا (Prussia)کے بادشاہ کے ساتھ مل کر اس نے ایک اعلان جاری کیا اور مطالبہ کیا کہ فرانس لوئی شش دہم کو اس کے اصل رتبہ پر بحال کردیؤ انقلابی جماعت مضبوط ہوتی گئی۔ بیرونی مداخلت حاصل کرنے کی کوشش نے اس جماعت کے اثرورسوخ میں مزید اضافہ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مارچ ۱۷۹۲ء میں فرانس نے آسٹریا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ پرشیا نے آسٹریا کا ساتھ دیا۔ لیکن بغاوتوں اور بد نظمیوں کے باوجود فرانسیسی سپاہیوں نے والمی (Valmy)کے مقام پر پرشیائیوں (Prussians)کوشکست دے دی۔ اب ایک قومی مجلس (National Convention)نے معاملات کی باگ ڈور سنبھالی اور اس کے ساتھ ہی انقلاب کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ انتہا پسند پورے طور پر برسر اقتدار آ گئے۔ دانتان (Danton)رابس پیر (Robespierre)اور مارا (Marat)ان کے لیڈر تھے۔ ۲۱ جنوری ۱۷۹۳ء کو ایک جمہوریہ قائم کی گئی اور ابدشاہ پر مقدمہ چلا کر اس کی گردن مار دی گئی۔ بیرونی ممالک سے جو معاہدے ہوئے تھے وہ ختم کر دیے گئے۔ فرانس نے اعلان کر دیا کہ وہ یورپ کے عوام کو ان کے موروثی حکمرانوں کو خاتمہ کرنے میں مدد دے گا۔ ہزاروں لوگوں کو قید میں ڈال دیاگیا۔ اس دوران فرانسیسی فوجیں بین الاقوامی جنگوں میںکامیابی پر کامیابی حاصل کرتی جا رہی تھیں۔ ۱۷۹۳ء میں تحفظ عامہ کی کمیٹی (Committee of Public)کا قیام عمل میں آیا۔ رابس پری اس کمیٹی کا روح رواں تھا اس کمیٹی کے قیام کے ساتھ ہی دہشت کا دور (Reign of Terror)شروع ہوا سیکڑوں امراء اور سیاست دانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ ۱۶ ؍اکتوبر ۱۷۹۳ء کو فرانس کی ملکہ کی گردن اڑا دی گئی اور پھر یہ لوگ آپس میں لڑ پڑے۔ ۵ ؍ اپریل ۱۷۹۴ء کو رابس پیر نے دان تان کو قتل کروا دیا اور ۲۸ جولائی کو خود رابس پیر کا یہی حشر ہوا۔ دہشت کا یہ دور جلد ہی ختم ہو گیا۔ اکتوبر ۱۷۹۵ء میں ڈائریکٹری (The Directory)قائم ہوئی اور ساتھ ہی اس دور کا خاتمہ ہو گیا جس کو فرانسیسی انقلاب کہاجاتاہے۔

جدید استعماری دنیا جو اسلامی حکومتوں کے مقابر پر کھڑی ہے اور اس کا بنیادی مقصود دنیا میں حقیقی اسلامی انقلاب کو ابھرنے سے روکنا ہے ہر کبھی اسلامی دنیا میں کاسمیٹک انقلابات کھڑے کرتی رہتی ہے جسکی سب سے قریبی مثال عرب سپرنگ ہے

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوں میں طویل شخصی آمریتوں اور بادشاہتوں کے خلاف مقبول عوامی احتجاج کی لہر سے خطے کو پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔
جیو پولیسیٹی نامی ادارے نے مغرب میں ’عرب سپرنگ‘ کے نام سے مشہور ہونے والی اس عوامی تحریک کے بارے میں تحقیق کی ہے۔
تحقیق کے مطابق عوامی شورش کی سب سے زیادہ قیمت مصر، شام اور لیبیا کو ادا کرنا پڑی ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ خطے کے استحکام کے لیے عرب ریاستوں کی سربراہی میں اگر کوئی بین الاقوامی پروگرام نہیں بنا تو عرب سپرنگ کا الٹا اثر بھی ہوسکتا ہے۔
اقتصادی نقصان کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن موجود اعداد و شمار کے مطابق لیبیا کو چودہ اعشاریہ دو ارب ڈالر، شام کو ستائیس اعشاریہ تین اور مصر کو نو اعشاریہ سات نو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

ان انقلابات کو باسی کڑھی میں ابال کہا جا سکتا ہے اور ان کو اٹھانے کا مقصود عوام کو مصروف رکھنا ہے تاکہ حقیقی تبدیلی کا دوازہ بند کیا جا سکے .

یہ ایک اصولی حقیقت ہے کہ اسلامی ممالک میں کوئی بھی ایسا انقلاب جسکا راستہ اسلام کی ترقی کی طرف نہیں جاتا صرف اور صرف ایک دھوکے اور فریب سے زیادہ کچھ نہیں ہے ....

قدرت الله شہاب نے ٨٠ کی دھائی میں " شہاب نامہ " میں ایک باب پاکستان کا مستقبل میں لکھا تھا.

قومی سطح پر ہماری ہماری سیاسی قیادت کا ایک بڑا حصہ اپنی طبعی یا ہنگامی زندگی گزار کر دنیا سے اٹھ چکا ہے یا جمود کا شکار ہوکر غیر فعال ہو چکا ہے کچھ سیاسی پارٹیوں کے رہنما پیر تسمہ پا بن کر اپنی اپنی جماعتوں کی گردن پر زبردستی چڑھے بیٹھے ہیں ان میں سے چند نے کھلم کھلا یا درپردہ مارشل لا سے آکسیجن لیکر سسک سسک کر زندگی گزاری ہے ان نیم جان سیاسی ڈھانچوں میں نہ تو کوئی تعمیری سکت باقی ہے اور نہ ہی ان کو عوام کا پورا اعتماد حاصل ہے پرانی سیاست کی بساط الٹ چکی ہے ....

ایک اور جگہ لکھتے ہیں .

بہت سے لوگوں کے نزدیک پاکستان کی سلامتی و استحکام کا راز صرف اس بات میں مضمر ہے کہ حالات کے اتار چڑھاؤ میں انکے ذاتی اور انفرادی مفادات کا پیمانہ کس شرح سے گھٹتا و بڑھتا ہے . "

اصل کام یہ ہے کہ اس حنوط شدہ قومی لاشے میں کیسے جان ڈالی جاۓ کہ ایک جیتا جاگتا اسلامی وجود بیدار ہو سکے .

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: