بدھ، 26 فروری، 2014

غزل !

غزل !

تیرے جمال سے ہے انجمن میں آگ لگی
فضاء میں روشنی پھیلی زمن میں آگ لگی 

جلا کے رکھے تھے ہم نے تو روشنی کے لیے 
یہ کس چراغ سے میرے چمن میں آگ لگی

کسی کے حسن کا سورج طلوع ہوا ہے کہیں 
دیار عشق میں کوہ و دمن میں آگ لگی

کچھ اس ادا سے وہ محفل میں آج آۓ ہیں
ہے انگ انگ میں بھڑکی بدن میں آگ لگی

نجانے کیسی یہ تلخی در آ ئی لہجے میں
ہے بات بات میں سوزش سخن میں آگ لگی

میرے خدا میرے مالک تو بھیج ابر کرم
بجھا دے اے میرے مولیٰ وطن میں آگ لگی

یہ اسکا جسم ہے شعلہ ہے آگ ہے یا شرار
جو دھوۓ پیر تو اس نے ، لگن میں آگ لگی

یہ کس کی گرمی گفتار کی وجہ سے حسیب
ہر ایک شیریں سخن کے دھن میں آگ لگی

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: