منگل، 4 فروری، 2014

باب الاسلام سے "موئن جو دڙو" تک !

باب الاسلام سے "موئن جو دڙو" تک !

سندھی زبان میں "موئن" کا مطلب "مردے" اور "دڑو" کا مطلب "ٹیلہ" جبکہ "جو" "کا" کے لئے استعمال ہوتا ہے اس طرح لفظ بنتا ہے "مردوں کا ٹیلہ"

یہ سندھ کی قدیم ترین تہذیب ہے جو ٢٦٠٠ قبل از مسیح کا زمانہ ہے ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ ٣٠٠٠٠ ہزار کی آبادی والا یہ شہر جدید ڈسٹرکٹ لاڑکانہ میں واقع تھا ١٩٢٢ میں ایک ہندوستانی تاریخ دان اور محقق آر ڈی بنجیری (Rakhaldas Bandyopadhyay (Bengali: রাখালদাস বন্দোপাধ্যায়) نے دریافت کیا ......

ان کی تباہی کی کوئی معقول وجہ آج تک بیان نہیں کی جا سکی یہاں سے نکلنے والے مجسمے یہ بتاتے ہیں کہ یہ قوم بت پرست تھی اس قوم کی ایک خاص بات انکا آبپاشی کا نظام ہے
یہاں کنووں کا ایک باقائدہ نظام تھا موجود تھا جسکے ذریعہ پانی کو جمع کیا جاتا تھا عظیم حمام انکی خاص عبادت کا حصہ تھا جہاں مرد و عورت غسل کرتے تھے .
عظیم کنواں انکی خاص نشانی ہے (http://www.mohenjodaro.net/wellindus76.html) جو سینکڑوں چھوٹے کنووں تک پانی پہچانے کا بنیادی منبع تھا ...

قرآن کریم اور اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے ایک عجیب انکشاف ہوا کہ اسلامی مصادر میں بھی ایک قوم کا تذکرہ ملتا ہے جنکی خاص علامت کنواں ہی تھا یعنی " اصحاب الرس "
قال تعالى في سورة الفرقان :

(( وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَلِكَ كَثِيرًا )).

وقال تعالى في سورة ق:

(( كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ ))

قصص القرآن میں ایک عجیب واقعہ پڑھنے کو ملا

لغت میں رس کے معنی پرانے کنویں کے ہیں اور اصحاب الرس کے معنی ہوے کنوے والے

ابو بکر بن عمر بن حسن نقاش اور سہیلی کہتے ہیں اصحاب الرس کی بستی میں ایک بہت بڑا کنواں تھا جسکے پانی سے وہ پیتے اور اپنی کھیتیاں سیراب کرتے تھے اس بستی کا بادشاہ بہت عادل تھا اور لوگ اس سے بہت محبت کرتے تھے جب اس بادشاہ کا انتقال ہوا تو لوگ بہت غمگین ہوے ایک دن ایک سرکش شیطان اس بادشاہ کی شکل میں پہنچا اور کہنے لگا میں وقتی طور پر تم لوگوں سے دور ہوا تھا اور اب میں واپس آ گیا ہوں اور ہمیشہ زندہ رہونگا لوگ بہت خوش ہوے اور ایک عظیم جشن کا انتظام کیا اس فسٹیول کے بعد اس شیطان نے ان پر حکومت شروع کر دی اور ان لوگوں کو عیش و عشرت اور بت پرستی پر ڈال دیا .

کہتے ہیں ان لوگوں میں حنظلہ بن صفوان نامی نبی مبعوث کیے گۓ جنہوں نے ان لوگوں پر دین کی دعوت پیش کی لیکن وہ لوگ شیطان کی پیروی میں اندھے ہو چکے تھے اور انہوں نے اس پیغمبر کو قتل کر دیا اور ان پر الله کا عذاب نازل ہوا تفسیر ابن کثیر سوره فرقان (البدایہ و النہایہ ١)

کچھ اور روایات میں ملتا ہے کہ ان پیغمبر کو ایک بڑے کنویں میں قید کر دیا گیا تھا اسی طرح ابن ابی حاتم کی روایت میں آتا ہے کہ اس قوم نے اپنے نبی کو کنویں میں دفن کر دیا تھا ...

آج کوئی بھی مکمل استحقاق سے نہیں کہ سکتا کہ "موئن جو دڙو" والے کون لوگ تھے اسی طرح اصحاب الرس کی باقاعدہ شناخت بھی ممکن نہیں لیکن دونوں کے مشترکات بیشمار ہیں
عظیم کنووں کا نظام
بت پرستی
خوشحالی کے بعد اچانک تباہی

محققین کیلئے میدان کھلا ہے کہ مزید تحقیق کرکے معاملے کی حقیقت کو واضح کیا جاۓ

اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے قوم پرستی کا نعرہ سب سے پہلے عرب میں بلند کیا گیا اسکو
حضرت اقبال کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں

کرے یہ کافر ہندی بھی جُرأت گفتار
اگر نہ ہو اُمرائے عرب کی بے ادبی
یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس اُمت کو؟
وصال مُصطفویؐ، افتراق بُولہبی
نہیں وجود حدود و ثُغُور سے اس کا
محمدِؐ عربی سے ہے عالمِ عربی
(اُمرائے عرب سے)

عرب قوم پرستی کا شاخسانہ تھا کہ خلافت عثمانیہ کا زوال ہوا شریف مکّہ اور لارینس آف عربیہ جیسے کرداروں کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا گیا
لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس (16 اگست 1888ء – 19 مئی 1935ء)، جنہیں پیشہ ورانہ طور پر ٹی ای لارنس (T. E. Lawrence) کے طور پر جانا جاتا تھا، برطانوی افواج کے ایک معروف افسر تھے جنہیں پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں عرب علاقوں میں بغاوت کو منظم کرنے کے باعث عالمی شہرت ملی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں جنگ عظیم کے بعد عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کی دسترس سے نکل گئے۔
١٩١٤ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ اس جنگ میں عثمانی حکومت(٦) نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ جزیرہ نمائے عرب مکمل طور پر عثمانیوں کے قبضہ میں تھا۔ اتحادیوں ( برطانیہ ، روس ، فرانس ) نے کوشش کی کہ عثمانی سلطنت کو اندرونی طور پر کمزور کر کے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں۔ امیر مکہ ''شریف حسین'' اس کام کے لیے بہترین عنصر تھا۔ مصر میں برطانیہ کے نمائندہ ''ہنری میکموہن'' کو شریف حسین کے ساتھ مذاکرات کے لیے مامور کیا گیا۔ شریف حسین نے ان مذاکرات میں برطانیہ کے ساتھ تعاون اور عثمانی سلطنت کے خلاف قیام کو چند شرائط کے ساتھ قبول کرلیا۔ ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ برطانوی حکومت ایک وسیع علاقہ کو عربی مملکت کی حیثیت سے مان لے۔ یہ علاقہ شمال کی جانب ترکی میں ''مرسین اور افنیہ''، جنوب میں ''بحر ہند''، مغرب میں ''بحر روم'' اور مشرق میں ''خلیج بصرہ اور فارس'' پر مشتمل تھا۔
''میکموہن'' نے '' شریف حسین '' کی شرائط کے جواب میں چالاکی کے ساتھ کوشش کی کہ عربی خطہ کی بحث درمیان میں نہ آنے پائے لیکن شریف حسین کا اصرار جاری رہا۔ بالآخر اس نے شریف حسین کو پیغام دیا کہ عربوں کی درخواست کو قبول کرلیا گیا ہے۔
عربوں کو عثمانی ترکوں کے خلاف بھڑکانے کی برطانوی پالیسی کا نتیجہ جلد ہی نکل آیا۔
عربوں نے اس امید پر کہ جنگ کے بعد خود مختاری حاصل کرلیں گے اور عرب حکومت تشکیل دے سکیں گے، غریب اور مظلوم عوام کو جمع کیا اور عثمانی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کردیا اور اتحادی افواج کے تعاون سے علاقہ کے امن و امان کو اس طرح خطرے میں ڈال دیا کہ عثمانی حکومت کے لیے اس علاقہ پر کنٹرول قائم رکھنا ناممکن ہوگیا۔
عثمانی حکومت کے خاتمہ اور سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے میں اس خطہ کے عربوں کا کردار اتنا اہم تھا کہ عرب علاقہ میں برطانوی افواج کے سربراہ جنرل ''آلن بی '' نے جولائی ١٩١٨ء میں برطانیہ کی وزارت جنگ کو جو رپورٹ پیش کی اس میںوہ بڑی صراحت سے کہتا ہے کہ '' اس جنگ سے حاصل ہونے والے آخری نتائج میں عرب افواج کا بڑا حصہ ہے اور انہوں نے اس راہ میں مکمل تعاون کیا ہے۔ ''
عربوں نے اپنی پوری طاقت عثمانی حکومت کو کمزور کرنے میں صرف کردی اور وہ اس بات سے غافل رہے کہ برطانوی استعمار اور اس کے اتحادیوں نے درپردہ ان کے بارے میں کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
ایسی ہی کوشش مصر میں کی گئی نعرہ تھا اسلام نہیں بلکہ احرام مصر اور ابو الحول ہماری نشانی ہیں قدیم فرعونی تہذیب ہماری پہچان ہے
ترک جنگ آزادی پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد ترک قوم پرستوں کی ایک سیاسی و عسکری تحریک تھی، جس کے نتیجے میں جمہوریہ ترکیہ کا قیام عمل میں آیا۔
اس تحریک کا آغاز انقرہ میں ترک قوم پرستوں کی جانب سے مصطفیٰ کمال کی زیر قیادت مجلس کبیر ملی (Grand National Assembly) کے قیام سے ہوا۔ یونان کی جارحانہ کاروائیوں کے خلاف عسکری مہمات اور ترک-ارمنی اور ترک-فرانس جنگ کے بعد ترک انقلابیوں نے اتحادیوں کو مجبور کیا کہ وہ معاہدۂ سیورے کو کالعدم قرار دیں۔ جولائی 1923ء میں معاہدۂ لوزان طے پایا جس کے تحت ترکی کی سالمیت تسلیم کی گئی اور اکتوبر 1923ء میں اناطولیہ اور مشرقی تراقیا میں جمہوریہ ترکیہ کا قیام عمل میں آیا۔
اس جنگ کے نتیجے میں عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور مصطفیٰ کمال، جسے اتاترک یعنی 'ترکوں کے باپ' کا خطاب دیا گیا، نے اصلاحات کے بعد خلافت کا بھی خاتمہ کر دیا اور ایک جدید لادینی ریاست تشکیل دی

ایسی ہی کوششیں بر صغیر میں بھی جاری رکھی گئیں لارڈ میکالے کا نظام قوم پرستانہ مزاج اور عصبیت کو بیدار کرنے میں معاون ثابت ہوا اقبال اسکو اسطرح بیان کرتے ہیں

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے !

ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی

ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

یہ دین کے مزاج کے سراسر خلاف تھا اور آج بھی ہے

" اسلام مذھب کی حیثیت سے پہلے جنوبی ہند پہنچا- مسلمان تاجرو اور مبلغین ساتویں صدی عیسوی میں (یاد رہے کہ رسول اللہۖ کی وفات 632ء میں ہوئی تھی- یعنی آپ کی وفات کے بعد جلد ہی مسلمان) مالیبار اور جنوبی سواحل کے دیگر علاقوں میں آنے جانے لگے- مسلمان چونکہ بہترین اخلاق و کردار کے مالک اور کاروباری لین دین میں دیانتدار واقع ہوئے تھے- لہذا مالیبار کے راجاؤں، تاجروں اور عام لوگوں نے ان کے ساتھ رواداری کا سلوک روا رکھا- چنانچہ مسلمانوں نے بریصغیر پاک و ہند کے مغربی ساحلوں پر قطعی اراضی حاصل کرکے مسحدیں تعمیر کیں- (یاد رہے کہ اس وقت حانقاہوں کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا) اور اپنے دین کی تبلیغ میں مصروف ہوگئے- ہر مسلمان اپنے اخلاق اور عمل کے اعتبار سے اپنے دین کا مبلغ تھا نتیجہ عوام ان کے اخلاق و اعمال سے متاثر ہوتے چلے گئے- تجارت اور تبلیغ کا یہ سلسلہ ایک صدی تک جاری رہا یہاں تک کہ مالیبار میں اسلام کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا اور وہاں کا راجہ بھی مسلمان ہوگیا- جنوبی ہند میں فروغ اسلام کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں جنوبی ہند مذھبی کشمکش کا شکار تھا- ہندو دھرم کے پیروکار بدھ مت اور جین مت کے شدید محالف اور ان کی بیخ کنی میں مصروف تھے- ان حالات میں جب مبلغین اسلام نے توحید باری تعالی اور ذات پات اور چھوت چھات کی لا یعنی اور خلاف انسانیت قرار دیا، تو عوام جو ہزاروں سال سے تفرقات اور امتیازات کا شکار ہورہے تھے- بے اختیار اسلام کی طرف مائل ہونے لگے- چونکہ حکومت اور معاشرہ کی طرف سے تبدیلی مذھب پر کوئی پابندی نہیں تھی- لہذا ہزاروں غیر مسلم مسامان ہوگئے- (تاریخ پاک وہند، ص:390)

اب خاص سندھ میں اسلام کی آمد کو دیکھئے

1۔ دور فاروقی

دور فاروقی میں بحرین وعمان کے حاکم عثمان بن ابوالعاص ٹقفی نے 636ء-637ء میں (وفات رسول اللہ سے صرف 4 سال بعد) ایک فوجی مہم تھانہ نزد ممبئی میں بھیجی- پھر اس کی اطلاع حضرت عمر رض کو دی- آپ ناراض ہوئے اور لکھا" تم نے میری اجازت کے بغیر سواحل ہند پر فوج بھیجی- اگر ہمارے آدمی وہاں مارے جاتے تو میں تمہارے قبیلہ کے اتنے ہی آدمی قتل کرڈالتا" (تاریخ پاک وہند ص: 18)

2۔ عہد عثمانی

عہد عثمانی میں عراق کے حاکم عبداللہ بن عامر نے حکیم بن حبلہ کو بریصغیر سرحدی حالات کی تحقیق پر مامور کیا- واپسی پرانہوں نے حضرت عثمان رض کو اپنی رپورٹ میں بتلایا کہ " وہاں پانی کیمیاب ہے، پھل نکمے ہیں، ڈاکو بہت دلیر ہیں اگر قلیل التعداد فوج بھیجی تو ہلاک ہوجائے گی اور اگر زیادہ لشکر بھیجا گیا، تو بھوکوں مرجائے گا" اس رپورٹ کی بناء پر حضرت عثمان غنی رض نے مہم بھیجنے کا ارادہ ترک کردیا۔ (تاریخ پاک وہند ص: 19)

3۔ دور معاویہ

حضرت امیر معاویہ رض کے دور حکومت میں مشہور سپہ سالار مہلب بن ابی صفرہ نے برصغیر کی سرحد پر حملہ کیا اور لاھور تک بڑھ آیا- انہی ایام میں خلیفہ اسلام نے ایک اور شپہ سالار عبداللہ بن سوار عبدی کو سواحل برصغیر کے سرکش لوگوں کی گوشمالی کے لیے 4 ھزار کی عسکری جمیعت کے ساتھ بھیجا- اس نے قیقان کے باشندوں کو سخت شکست دی اور مال غنیمت لے کر واپس چلاگیا- ان نے حضرت امیر معاویہ رض کی خدمت میں قیقانی گھوڑے پیش کیے- لیکن کچھ مدت بعد عبداللہ بن سوار قیقان واپس آگیا، جہاں ترکوں نے یورش کرکے اسے قتل کردیا- (تاریخ پاک وہند ص:19)

4۔ عہد ولید بن مالک

بعد ازاں 712ء یعنی 93ھ میں ولید بن مالک کے زمانہ میں وہ واقعہ پیش آیا جس نے برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں بڑا موثر کردار ادا کیا یعنی محمد بن قاسم رح نے اس سال سندھ کے سارے علائقہ کو فتح کرلیا- اس حملہ ک ےاسباب و محرکات ہمارے موضوع سے خارج ہیں- ہم ت ویہ دیکھنا چاہتے ہیں اس مہم میں محمد بن قاسم نے دیبل، نیرون، سیوستان، سیسم، رادڑ، برہمن آباد، اوور، باتیہ (موجودہ بہاولپور کے قرب و جوار میں موجود تھا)، اور ملتان کو فتح کیا اور قنوج کی تسخیر کا ارادہ کررہا تھا کہ اسے واپس بلالیا گیا-

محمد بن قاسم رح کے جانے کے بعد فتوحات کا سلسلہ اچانک رک گیا- بہرحال عرب سندھ و ملتان پر 200 سال سے زیادہ عرصہ تک (یعنی 10 صدی عیسوی تک) قابض رہے، چوتھی صدی ہجری تک خلیفۃ المسلمین والیان سندھ کا تقرر کرتے رہا- اس کے سندھ میں عربوں کی دو نیم ریاستیں قائم ہوگئیں- ان میں سے ایک ملتان اور دوسری منصورہ تھی۔ (تاریخ پاک وہند ص: 35)

محمد بن قاسم کی ان فتوحات نے اشاعت اسلام کے سلسلہ میں کیا کردارادا کیا؟ وہ پروفیسر عبدالقادر و شجاع الدین کی زبان سے سنیے:

" فتح سندھ کے بعد بےشمار علماء، مبلغین، تاجر اور صناع عرب سے آکے سندھ میں آباد ہوئے۔ مقامی باشندوں میں اسلام رائج ہوا اور یہ سرزمین فرزندان توحید کا گہوارہ بن گئي- آج سندھ اسی طرح اسلامی خطہ ہے جس طرح عراق اور مصر- ہم عربوں کی فتح سندھ کی عظمت، اس کی تاریخی اہمیت اور اس کے نتائج کے منکر نہیں ہوسکتے" (تاریخ پاک وہند ص: 40)

حوالہ جات : مقالہ کا عنوان: صوفیوں کی برصغیر میں آمد
مقالہ نگار: عبد الرحمن کیلانی

سوال یہ ہے کہ کیا اسلام ایک بے تہذیب دین ہے جسکی اپنی کوئی معاشرت نہیں جسکا اپنا کوئی مزاج نہیں جسکا اپنا کوئی رنگ نہیں
کبھی مصر کے احرام تو کبھی مردوں کے ٹیلے
کیا یہی ہماری پہچان ہے کیا یہی ہماری تہذیب ہے
کبھی مغرب کی جانب سے ولین ٹائین کا غلغلہ تو کبھی کرسمس کا شور
کبھی بسنت پنچمی میں کٹتی بیگناہ اور معصوم گردنیں
تو کبھی ہولی دیوالی دسہرہ
اور ان سے دل نہ بھرے تو کسی مردہ سیاسی گھرانے کا بے بی بچہ ہزاروں سال پہلے کی تہذیب کی چوسنی منہ میں دباۓ پوری قوم کو میٹھی گولی دینے چلا آۓ

افسوس صد افسوس

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: