پیر، 7 اپریل، 2014

آن لائن ڈیٹا سرچنگ !

آن لائن ڈیٹا سرچنگ !
سب سے پہلے تو اس بات کا جان لینا ضروری ہے کہ انٹرنیٹ کی اس دنیا میں علوم کا ایک سمندر ہے جو چہار طرف بکھرا ہوا اس میں ایک جزیرہ اسلامی مواد کا بھی ہے اور اس جزیرے میں ایک درخت اردو میں موجود اسلامی مواد پر مشتمل ہے ...
ڈیٹا سرچنگ میں سب سے بنیادی چیز آپ کی اپنی معلومات ہیں جتنا علم آپ کو ہوگا اتنا ہی ڈیٹا حاصل کرنا آپ کیلئے آسان ہوگا ایک بار مطلوبہ لنک حاصل ہو جانے کے بعد اسے محفوظ یعنی بکمارک کر لیجئے تاکہ پوری محنت دوبارہ نہ کرنی پڑے .....
انٹرنیٹ کی دنیا میں انتہائی اہم کام بلاگ رائٹرز سر انجام دے رہے ہیں سو ان بلاگز سے منسلک رہیں تاکہ ایک ہی عنوان پر نۓ سرے سے تحقیقی کام کرنے کی بجاۓ پہلے سے موجود تحقیق کو آگے بڑھایا جا سکے ...
سرچ انجن آپٹی مایزیشن ایک ایسا ٹول ہے جسکے استعمال سے ایسی سائٹس اوپر آ جاتی جن میں معیاری مواد موجود نہیں ہوتا یہ خیال سرے سے غلط ہے کہ سب سے زیادہ وزٹ ہونے والی سائٹ سب سے اوپر
شو ہوتی ہے اسلئے گہری کھدائی کیجئے ابتدائی ہاتھ دس لنکس سے آگے بڑھ کر دیکھئے .....
سرچ انجن پورے پورے عنوانات یا جملوں کو سرچ نہیں کرتے بلکہ کی ورڈز کو پکڑتے ہیں اسکی سرچنگ کا انداز کچھ ایسے ہوتا ہے
اسلام + پاکستان + جمہوریت
اپنی سرچنگ سائنٹفک بنیادوں پر کیجئے تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مواد حاصل کیا جا سکے .
کوشش کریں مواد مستند سائٹس سے حاصل کیا جاوے کیونکہ بے شمار غیر مستند اور تحریف شدہ مواد موجود ہے اسلئے ضروری ہے کہ ایک لسٹ مستند سائٹس کی تشکیل دے لیں تاکہ ہر مرتبہ دوبارہ مشقت سے بچا جا سکے .....
بہت سا مواد اہل علم نے اردو میں فراہم کر دیا ہے کتب یونی کوڈ میں دستیاب ہیں سو رومن کی بجانے سرچنگ کیلئے اردو زبان کا استعمال مفید ثابت ہوگا اسطرح جلد اور آسانی کے ساتھ مواد تک پہنچا جا سکتا ہے ....
وکی پیڈیا پر بہت سا مواد موجود ہے لیکن یہ مکمل طور پر قابل بھروسہ نہیں اگر یہاں سے مواد اٹھائیں تو اسکی دوسرے ذرا یع سے تصدیق کر لیجئے ......
بہت سے مواد کی سرچنگ کیلئے مختلف سرچ انجنز استعمال کیجئے کیونکہ ایک سرچ انجن آپ کی سرچ ہسٹری یاد رکھتا ہے اور اسی کے مطابق مواد پیش کرتا ہے
(Many search engines such as Google and Bing provide customized results based on the user's activity history. This leads to an effect that has been called a filter bubble. The term describes a phenomenon in which websites use algorithms to selectively guess what information a user would like to see, based on information about the user (such as location, past click behaviour and search history). As a result, websites tend to show only information that agrees with the user's past viewpoint, effectively isolating the user in a bubble that tends to exclude contrary information. Prime examples are Google's personalized search results and Facebook's personalized news stream. According to Eli Pariser, who coined the term, users get less exposure to conflicting viewpoints and are isolated intellectually in their own informational bubble. Pariser related an example in which one user searched Google for "BP" and got investment news about British Petroleum while another searcher got information about the Deepwater Horizon oil spill and that the two search results pages were "strikingly different". The bubble effect may have negative implications for civic discourse, according to Pariser)
یہ چند ابتدائی معروضات ہیں ان شاء الله آئندہ مزید معلومات پیش کرنے کی کوشش کرونگا
حسیب احمد حسیب


کوئی تبصرے نہیں: