منگل، 15 اپریل، 2014

میرا وجود میرے ہم قدم نہیں ہوتا

غزل 

میرا وجود میرے ہم قدم نہیں ہوتا
میری حیات کا حاصل رقم نہیں ہوتا 

مزاج سنگ پرستی میں مبتلا لوگو
ہر ایک راہ کا پتھر صنم نہیں ہوتا

تمھارے شہر سے گزریں مگرخموشی سے 
اب اور دل پے یہ ہم سے ستم نہیں ہوتا 

نجانے کتنی بہاریں گزار دیں ہم نے
ملال تم سے بچھڑنے کا کم نہیں ہوتا

میں خود سےدورنکلنےکے فن سے واقف ہوں
میں اپنے آپ میں رہتا ہوں ضم نہیں ہوتا

سلوک عشق میں لازم تلاش ذات حسیب
بجز وجود پے طاری عدم نہیں ہوتا

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: