جمعہ، 25 اپریل، 2014

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا !

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا !


گزشتہ دنوں جناب وسعت الله خان  صاحب نے اپنی  فکری الجھنیں ایک کالم میں رقم  کی تھیں  انکے اٹھاۓ گۓ   شبہات کا ازالہ کرنے کی کوشش  کی ہے  تاکہ جہاں تک بات پہنچ سکے وہاں تک لوگ ان وساوس سے محفوظ  رہ سکیں 

سوالات اٹھانا بہت آسان ہے لیکن سوالات کے جواب سننا اور پھر چاہے وہ ہماری نفسانی خواہشات سے میل نہ بھی کھاتے ہوں انکو قبول کرنا وسعت قلبی کا کام ہے ہم امید کرتے ہیں کے الله وسعت الله خان صاحب کو وسعت قلبی سے نوازے تاکہ وہ معاملے کو اسکے وسیع تناظر میں سمجھ سکیں ........

محترم نے جو سوالات کا پینڈورا بوکس کھولا ہے وہ اپنے الگ الگ عنوانات کے تحت مکمل جواب کے متقاضی ہیں ہر سوال کا تعلق مختلف امور سے ہے اور ہر امر کی الگ الگ اصل و فرع ہیں اگر مضمون کو الٹا پڑھا جاوے تو اصل مقصود سامنے آتا ہے 

کیا اجتہاد کا در آج بھی کھلا ہے ؟ اگر ہاں تو کون اجتہاد کرنے کا اہل ہے اور حدود و قیود کیا ہیں ؟۔

 اس سے پہلے کہ اس سوال کا  جواب دیا جاۓ کہ اجتہاد کا در کھلا ہے یا بند اس بات کا واضح ہونا بہت ضروری ہے کے یہ معلوم ہو کہ موصوف اجتہاد کن امور میں چاہتے ہیں ...

دین تین بنیادوں پر کھڑا ہے 
١ عقائد 
٢ عبادات
٣ معاملات 

عقائد میں اجتہاد کا سوال ایسا ہی ہے جیسے دین کو نۓ سرے سے تشکیل دینے کی بات ہو کیونکہ یہ منصوص من الله ہوتے ہیں 
عبادات چونکہ سنت رسول علیہ سلام سے ثابت شدہ ہیں اسلئے ان میں اجتہاد کی گنجائش موجود نہیں ہے

 اب بات آتی ہے معاملات کی .....

معاملات میں امور تجارت ، نکاح و طلاق ، تجارت ، عدالت و سیاست شرعی وغیرہ شامل ہیں 
یہاں بھی اصول واضح ہے جو بھی معاملات منصوص یعنی قرآن و سنت سے ثابت شدہ ہوں ان میں کسی اجتہاد کی گنجائش موجود نہیں ......
جیسے حدود الله یا پھر امور تجارت وغیرہ 
اب کسی بھی صورت کوئی اجتہاد سود کو حلال قرار نہیں دلا سکتا
 رہا یہ سوال کہ اجتہاد کون کر سکتا ہے .......
یہ عجیب بات ہے 
کسی  بھی عمارت کا نقشہ کون ڈیزائن کر سکتا ہے ( ایک مستند مہندس )
کوئی بھی جدید طبی تحقیق کون پیش کر سکتا ہے ( ایک طبیب )
کوئی نیا سافٹویر کون بنا سکتا ہے ( سوفٹویر انجینیر )

اور اتنا بھی کافی نہیں بلکہ جب تک ماہرین فن ان کو پرکھ نہ لیں یہ فنکشنل نہیں ہو سکتے 
یہ معاملہ دینی اجتہاد کا بھی ہے
 اجتہاد کی حدود و قیود کیا ہیں .....؟
قرآن و سنت اور امت کے اہل علم میں تلقی بی القبول

 دوسرا سب سے اہم سوال جو مضمون نگار نے اٹھایا وہ نکاح کی عمر سے متعلق ہے .........

پہلی بات تو یہ کہ نکاح کیلئے بالغ ہونا کوئی لازمی شرط نہیں ہے 

ملاحظہ کیجئے 
وَاللَّائِيْ يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآئِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَّاللَّائِيْ لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ أَمْرِهٖ يُسْرًا(۴) الطلاق .

اور جو (پیرانہ سالی کی وجہ سے) حیض سے ناامید ہو گئی ہوں تمہاری مطلقہ بیبیوں میں سے اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے، اور (کم سنی کی وجہ سے) جنہیں حیض نہیں آیا۔ اور حمل والیوں کی عدت ان کے وضع حمل (بچہ جننے تک) ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا تو وہ اس کے لئے اس کے کام میں آسانی کر دے گا۔(۴)

معروف روایت ہے کہ الله کے رسول علیہ سلام کا نکاح امی عائشہ رض سے چھے سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو سال کی عمر میں 

اب ایک ایسا معاملہ جس پر شریعت نے کوئی پابندی نہیں لگائی ہم کیسے لگا سکتے ہیں

 اصل میں ان چیزوں کو دین نے معاشروں کے عرف و رواج پر چھوڑا ہے ہر جگہ الگ الگ اصول الگ حالات و واقعات کے تحت موجود ہونگے ........
کہیں خاندانی نظام ہے تو کہیں قبائلی نظام 
اسی طرح علاقائی و جغرافیائی امور بھی مد نظر رکھے جاتے ہیں 
دین معاشرے کے عرف کے خلاف نہیں جاتا جب تک کہ وہ دین سے متصادم نہ ہو
 یہ مضمون چونکہ ایک مفروضے کے ماتحت لکھا گیا ہے اسلئے سوالات بھی اسی انداز میں تشکیل دیے گۓ ہیں کہ ایک مقدمہ قائم کیا جا سکے ......

ہمارے ہاں جو گھرانے ایک جائنٹ فیملی سسٹم میں رہ رہے ہیں یا برادری سسٹم کا حصہ ہیں وہاں موصوف کے تمام سوالات دم توڑتے نظر آتے ہیں .....
طبی اعتبار سے اس جدید سائنسی دور میں انسانی عمر کی میزان گھٹتی کی طرف ہے یعنی پہلے اگر ایک شخص کی اوسط عمر٧٥ سے ٨٠ تھی تو اب گھٹ کر ٥٥ سے ٦٠ رہ گئی ہے ....
اسی طرح خواتین کی بارآوری اور مردوں کی تخم ریزی کی صلاحیت کی عمر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے عام مشاہدہ ہے کہ زیادہ عمر میں شادیاں کرنے والوں کی اولاد یا تو کم ہوتی ہے یا ہوتی ہی نہیں .....
اکثر سفید بالوں والے افراد جب اپنے بچوں کے ساتھ محافل میں جاتے ہیں تو انکے دادا یا نانا سمجھے جاتے ہیں ..........
خاندانی یا برادری سسٹم میں رہنے والوں کا مسلہ مالی پریشانی نہیں ہوتا سو کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے اور باپ کے جوان ہوتے بچہ بھی جوان ہو جاتا ہے ایسے لوگ اکثر اپنی اگلی دو یا تین نسلیں دیکھ پاتے ہیں .....
 آگے حضرت نے نکاح ثانی کی قباحتیں بیان کی ہیں اور متعہ کا جواز تلاشنے کی بات کی ہے ......

متعہ کی حرمت اہل سنت کے نزدیک ایک اتفاقی امر ہے سو اس سے متعلق گفتگو کی شروعات کا مقصود فرقہ واریت کو ہوا دینے کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا جب اہل سنت کے نزدیک الله کے رسول علیہ سلام نے اسکی ممانعت فرما دی تو پھر اسکا دروازہ کھولنے کی بات سمجھ نہیں آتی 
شیعہ حضرات اپنے دائرہ کار میں اس پر عامل ہیں کیونکہ یہ انکے اصول کے مطابق جائز ہے ایسے مباحث کو اٹھانے کا مقصود معاشروں میں انتشار پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے

 جہاں تک بات ہے نکاح ثانی کی تو اسکی اجازت شریعت نے دی ہے سو کوئی بھی قانون اگر اسکی روک کرے گا تو وہ خلاف شریعت ہوگا 

ایک مثال تاریخ اسلامی سے پیش کرتا ہوں
حضرت عمر فاروق رض کے دور خلافت میں بطور خلیفہ آپ نے ایک حکم صادر کیا کہ اپ شادیوں میں مہر زیادہ رکھنے پر پابندی ہوگی تاکہ نکاح میں آسانی پیدہ کی جا سکے
انکی دلیل تھی
… ”حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: دیکھو! عورتوں کے مہر زیادہ نہ بڑھایا کرو، کیونکہ اگر یہ دُنیا میں عزّت کا موجب اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقویٰ کی چیز ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سے زیادہ اس کے مستحق تھے۔ مجھے علم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات میں سے کسی سے بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر پر نکاح کیا ہو، یا اپنی صاحب زادیوں میں سے کسی کا نکاح اس سے زیادہ مہر پر کیا ہو۔“ (مشکوٰة شریف)
اسوقت ایک خاتوں صحابیہ رض اعتراض وارد کیا کہ جس چیز پر الله کے رسول علیہ سلام نے پابندی نہیں لگائی اور خواتین کو زیادہ مہر طلب کرنے کا حق دیا ہے تو آپ اسے کیسے روک سکتے ہیں سو حضرت عمر رض کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا
یہاں دوسری شادی کا وہ اختیار جو شریعت نے دیا ہے اسے کوئی بھی ملکی قانون کیسے روک سکتا ہے
اب ملاحظہ کیا اسلام کی عدل کی شرط سو کوئی بھی یہ کیسے چیک کر سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی ہونے والی بیوی سے عدل نہیں کرے گا کیا کوئی ایسا آلہ ایجاد ہو چکا ہے جو کسی کو قبل از وقت
یہ بتا دے کہ یہ شخص عادل نہیں ہوگا
لازمی بات ہے یہ چیز نا ممکنات میں سے ہے سو عدل کرنا لازم ہے لیکی اس بنیاد پر دوسری شادی پر ہی پابندی عائد کر دینا کہ یہ عدل نہیں کرے گا غیر منطقی اور خلاف عقل ہے کیونکہ ایسا کوئی قرینہ ہی موجود نہیں جو آپ کو یہ بتا سکے کہ فلاں شخص دوسری شادی کے بعد غیر منصف ہو جاوے گا
اور پھر اگر عدل ہی شرط ٹھہرا تو ایک کثیر تعداد پہلی بیوی کے ساتھ بھی عدل نہیں کر پاتی تو کیا ان لوگوں پر سرے سے شادی پر ہی پابندی لگا دینی چاہئیے اور اگر ایسا ہو تو معاشرے پر جنسی آسودگی حاصل کرنے والے اس جائز میڈیم پر پابندی سے کون کون سے ناجائز راستے کھل جائینگے یہ کسی بھی صاحب نظر اور صاحب بصیرت کیلئے جان لینا مشکل نہیں
سو جس علت کی بنیاد پر دوسری شادی پر پابندی ہے وہی علت پہلی شادی میں بھی کار فرما ہوتی ہے

یہاں شاید اس مسلے کو اٹھانے کا مقصود بھی یہ نظر آتا ہے کہ جنسی بے راہروی کے در وا کیے جاویں

 الله کے رسول علیہ سلام اصحاب رض اور سلف میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا عمومی رواج تھا ان میں ہر طرح کی مالی حالت اور معاشرتی طبقے کے لوگ موجود تھے امیر غریب تمام اور ایک سے زیادہ شادیوں میں کبھی عدل کی بنیاد پر پہلی بیوی سے اجازت کی شق عائد نہیں کی گئی
ایک عورت قانون عدل کی بنیاد پر اپنے حقوق کا مطالبہ تو کر سکتی ہے لیکن صرف اس ڈر سے کہ دوسری شادی کے بعد شوہر عدل نہیں کرے گا پہلی بیوی سے اجازت کا کوئی جواز نہیں کیوں کہ شوہر دوسری شادی نہ کرنے کی صورت میں بھی غیر عادل ہو سکتا ہے ……
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام حسن رض پے درپے شادیاں کرتے اور طلاق دیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ اس حد تک جاری رہا کہ کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کوفہ کے عوام سے فرمایا: اے اہل کوفہ! اپنے بیٹیاں میرے بیٹے حسن سے مت بیاہو کیونکہ وہ بہت زیادہ طلاق دینے والے ہیں!
قبیلۂ ہمدان کے ایک فرد نے اٹھ کر کہا: ہم ان کو بیٹیاں دیں گے چاہے انہیں رکھ لیں چاہیں انہيں طلاق دیں۔ (كافى، ج 6، ص 56)

 جہاں تک بات ہے زنا بی الجبر پر حد نافذ کرنے کا سوال یا کسی بھی جرم پر حدود کا نفاز ......
تو جان لیجئے حدود وہ سزائیں ہیں جو انتہائی شدید ہیں تاکہ لوگوں کو عبرت ہو اسی لیے اسلام نے انکے نفاز کا نظام انتہائی مشکل رکھا ہے ......
دور رسول علیہ سلام اور خلافت راشدہ میں حدود کے نفاز کی چند ایک مثالیں ہی مل سکیںگی ........

ایک مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ اگر حد نافذ نہ ہو سکے تو مجرم کو چھوٹ ہے جبکہ ایسا نہیں اسلام میں تعزیر کی گنجائش موجود ہے اور ڈی این اے کی شہادت پر تعزیر کا نفاذ ہو سکتا ہے ......

ڈی این اے کی شہادت میں چند احتمالات موجود ہیں 
١ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ زنا بالرضا ہے یا بالجبر اسکا کوئی طریقہ سائنس کے پاس موجود نہیں 
٢ اگر ڈی این اے سیمپل تبدیل کر دیا جاۓ تو کسی بے گناہ کے سزا پانے کا قوی احتمال موجود ہے 
٣ پاکستانی معاشرے میں فرینزک لیبز کی عدم دستیابی اور رپورٹ کے پیسے لیکر تبدیل کیے جانے کا بھی امکان ہو سکتا ہے


 مسلہ اصل میں یہ ہے کہ اسطرح کے سوالات اٹھانے کا مقصود تحصیل علم نہیں بلکہ لوگوں کے ذہن میں انتشار پیدہ کرنا ہے تاکہ دین بیزاری کا جرثومہ انکے قلوب میں ڈالا جا سکے اور اس نقار خانے میں صرف سوالات اٹھانے والوں کی بات تو سنی جاتی ہے جوابات نہیں سنے جاتے .........

شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا


حسیب احمد حسیب 

1 تبصرہ:

گمنام کہا...

قرآن مجید نکاح کی شرط بلوغت قرار دیتا ھے ،لھزا نبی صلی علیہ وسلم قرآن کے حکم کی خلاف ورزی نھی کر سکتے کہ نعوز باللہ چھ سال کی بچی سے نکاح کر لیں-2 خود عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ھیں ۔کہ جب سورہ قمر نازل ھوئی ،میں مکہ کی گلیوں میں کھیلتی پھرتی تھی۔اور یہ آیات میں نے کھیلتے کھلتے یاد کر لی تھی اور قمر 4 نبوی میں نازل ھوئی۔اب وہ کم از کم 6 سال کی تو ھوں گی۔جو ان کو یہ بھی پتہ ھے کہ قران کی آیت ھے۔جبکہ آپ کی بات کو تسلیم کیا جائے ۔تو اس حساب سے تو سورہ قمر کے نزول کے وقت پیدا بھی نھی ھوئی تھی-3عمر رضی اللہ عنہ نے جب صحابہ کے وظائف مقرر کیے تو ان کا حصہ بدری صحابہ کے برابر لگایا مطلب وہ بدر میں شریک تھیں۔اور جنگ میں 14،15 سال سے کم والوں کو شرکت کی اجازت نھی تھی4-تمام محد ثین مؤرخین کا اتفاق ھے کہ ام المومنین اپنی بھن اسماء رضی اللہ عنھا سے دس سال چھوٹی تھیں۔اور اسماء رضی اللہ عنھا کا انتقال 73 ھجری میں اور ان کی عمر سو سال تھی یعنی ھجرت کے وقت ان کی عمر 27 سال بنی ۔ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کی عمر