پیر، 15 فروری، 2016

اسلامی " جماعتیں " یا جماعتوں میں : اسلام


امت سے امت کا تصور نکلتا جا رہا ہے اور جو گروہ امت کی سطح پر جماعتوں کی شکل میں دین کا کام کر رہے ہیں ان کا المیہ یہ ہے کہ وہ انتہائی خلوص سے خدمت تو دین کی کر رہے ہوتے ہیں لیکن یہ خدمت انکی جماعتی فکر اور مفادات کے تناظر میں ہوتی ہے ........
آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ"(مشکوٰۃ:۳۱)
ترجمہ:جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔
ایک جگہ ارشاد ہے: "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةِ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً"۔ (مصنف عبدالرزاق، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة، حدیث نمبر:۳۷۷۹)
ترجمہ:جو جماعت سے الگ ہوجائے تواس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی۔
مذکورہ بالا احادیث کا جتنا بے دریغ استعمال دینی جماعتوں کے ہاتھوں ہوا ہے اسکی دوسری مثال ملنی مشکل ہے ہر جماعت خود کو دین کی واحد جماعت سمجھتی ہے اور صرف اپنی جماعت کے اندر ہی دین کو مقید جانتی ہے ایک جگہ مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا ایک قول سنا تھا کہ جماعتیں بنتی ہیں دین کی خدمت کیلیے لیکن پھر ان جماعتوں سے منسلک افراد دین کو ان جماعتوں کے اندر ہی جاننے لگتے ہیں ....
احادیث مبارکہ میں جہاں جہاں جماعتوں کی بات کی گئی ہے مقصود مسلمانوں کی جماعت (السواد الاعظم ) ہے نا کہ مسلمانوں میں موجود کوئی مخصوص جماعت ...
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لا يجمع الله هذه الامة علی الضلالة ابدا وقال : يدالله علی الجماعة فاتبعوا السواد الاعظم فانه من شذ شذ فی النار.
"اللہ تعالی اس امت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایا : اللہ تعالی کا دست قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے"
حاکم، المستدرک، 1 : 199، رقم : 391
ابن ابی عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80، مکتبة العلوم والحکم، مدينة منوره، سعودی عرب
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان أمتی لا تجتمع علی ضلالة فاذا رأيتم اختلافا فعليکم بالسواد الاعظم.
"بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اختیار کرو"۔
ابن ماجه، السنن، 4 : 367، رقم : 3950 دارالکتب العلمية، بيروت، لبنان
طبرانی، معجم الکبير، 12 : 447، رقم : 13623، مکتبة ابن تيمية قاهره
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان بنی اسرائيل افترقت علی أحد وسبعين فرقة. وان أمتی ستفترق علی ثنتين وسبعين فرقة. کلها فی النار، الا واحدة. وهی الجماعة.
یقینا بنی اسرائیل اکتہر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت یقینا بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ وہ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے"۔
ابن ماجه، السنن، 2 : 1322، رقم : 3991
أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 145، رقم : 12501
مذکورہ بالا روایات سے تصریح ہوتی ہے کہ جوڑ کا حکم ایک بڑی جماعت سے ہے چھوٹے چھوٹے گروہوں سے نہیں ......
جس طرح فرقہ وارانہ تقسیم مذموم ہے ویسے ہی جماعتی عصبیت بھی کم بری شے نہیں ..
گو کہ امت کی سطح پر دین کے احیاء کی مختلف شعبہ جاتی تحاریک اپنے اپنے دائروں میں احسن انداز میں دین کی خدمت کر رہی ہیں لیکن جہاں بھی یہ سوچ پیدا ہو جاوے کہ دین تو میری ہی جماعت نے سمجھا ہے اور اصل دین کا کام صرف میری ہی جماعت کر رہی ہے اور اگر دنیا میں دین آیا تو میری جماعت سے ہی آوے گا در اصل جماعتی غلو کی ایک بدترین مثال ہے کہ جس نے دین کو امت کی سطح سے اٹھا کر جماعتی کوزوں میں بند کر دیا ہے .
حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: