پیر، 15 فروری، 2016

اردو کالم نویسی تحقیق کی میزان پر

اردو کالم نویسی تحقیق کی میزان پر … !

haseeb ahmadپروفیسر ڈاکٹر گیان  چند اپنی کتاب ” تحقیق کیا ہے … ؟ میں لکھتے ہیں لغات میں تحقیق کے معنی کھوج ، تفتیش ، دریافت ، چھان بین دیے ہیں ..

تحقیق ایک جاری و ساری عمل ہے اس  کے  دو بازو ہیں کھوج اور تاویل لیکن کھوج کو ہمیشہ تاویل  پر فوقیت حاصل رہی ہے ..

ڈاکٹر صاحب ایک تمثیل بیان کرتے ہیں .

ابلہوں کے گاؤں کا ایک قصہ مشہور ہے ایک دن بارش ہوئی تھی رات میں ایک ہاتھی اس گاؤں سے گزر گیا صبح کو لوگ اٹھے بڑے نقوش پا دیکھ کر مستعجب ہوۓ انہوں نے اس کی تحقیق کیلیے بستی کے محقق اعلیٰ لال بجھکڑ سے دریافت کیا اس نے ایک کاہن کی طرح جواب دیا .

پاؤں میں چکی باندھ کر کوئی ہرنا کودا ہوۓ
یا رات   اکھٹی   ہو گئی   یا  دلی  والا  ہوۓ

تحقیق کا یہ انداز تاویل پر مبنی ہے دلی والا سے مراد مغل بادشاہ ہے چونکہ وہ انتہائی بڑی سلطنت  و ریاست کا مالک ہے اسلیے سمجھنے والے نے سمجھا کہ اس کا پیر بھی اتنا ہی بڑا ہوگا ..

رات اکھٹی ہونے کے خیال اور شاعرانہ پیرایہ بیان کی تعریف تو اپنی جگہ لیکن تاویل کا یہ انداز حقائق تک پھنچنے کے حوالے سے انتہائی پست معیار کا تھا .

دوسری جانب تحقیق وہ عمل ہے کہ جو اشیاء کی حقیقت تک پہنچنے میں انتہائی درست ترین ” مذھب ”  (راستہ ) ہے …

اگر اردو کالم نگاری کے معیار کو سمجھا جاۓ تو اس یہ  ارتقاء کی کئی منازل سے گزرا ہے ابتدائی اردو کالم نگاری چاہے وہ مولانا ظفر علی خان ہوں  چراغ حسن حسرت ہوں شورش کاشمیری ہوں یا بعد کے ادوار میں ابراہیم جلیس ، انتظار حسین ، جمیل الدین عالی یا پھر عطا الحق قاسمی صاحب ان حضرات کے کالم ادبی بھی تھے اور فکری بھی …

گو کہ جدید اردو کالم نگاری صرف اور صرف چند اخباری خبروں کا مجموعہ ہی باقی رہ گئی ہے اور اگر کبھی اس میں ادبی رنگ پیدا کرنے کی کوشی بھی کی جاتی ہے تو مزاح کا رنگ ڈال دیا جاتا ہے لیکن وہ بھی معیاری سے زیادہ جگت کا انداز لیے ہوتا ہے ..

افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ اردو کالم کا سفر ارتقاء معکوس  ہے ..

دور جدید میں ” تحقیقی ” کالم نگاری مفقود ہوتی چلی جا رہی ہے  آج اگر کسی سے تحقیقی کالم لکھنے کا کہا جاۓ تو وہ معلومات کا انبار لگا دینے کو تحقیق خیال کرتا ہے ..

مسلہ دراصل یہ ہے کہ نفس تحقیق اور طریقہ تحقیق ہر دو سے ناواقفیت نے اس نا پسندیدہ صورتحال کو پیدا کیا ہے .

دوسری جناب ” تحقیق ” کو تنقید کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے

کیا خوب کہا ہے شاعر نے .

احتراماََ گر مجھے شاعر نہیں مانا گیا
انتقاماََ ایک دن نقاد بن جاوں گا میں 

تحقیق میں جان پڑتی ہے حوالوں سے اور اگر حوالہ موجود نہیں تو صرف معلومات اپنی اصل میں بازاری خبروں سے زیادہ کچھ نہیں تحقیقی کالم کا المیہ یہ ہے کہ وہ عموم کیلئے لکھے جا رہے ہیں اہل علم کیلئے نہیں …

اگر مغربی تحریر کا  موازنہ اپنی تحریر سے کیا جاۓ تو ” ہنوز دلی دور است ” والی کیفیت دکھائی دیتی ہے یہاں تک کہ وہ اگر فکشن بھی تحریر کرتے ہیں تو بے پر کی نہیں اڑاتے بلکہ اسکی بنیاد ” تحقیق ‘ پر رکھتے ہیں ..

معروف ناول نگار ( Jonathan Eyers) لکھتا ہے ..

(In some ways, writing historical fiction has a lot of similarities with writing science fiction and fantasy. You get to explore a completely different (you might even describe it as alien) world that looks and works quite unlike our own. The people there look differently, behave differently, even talk differently.

That’s also why writing in either of these genres can be very, very hard – something you might not realise until you try it. The blank page is scary enough when you are writing about normal people living in the modern world. There’s an assumption about writing sci fi and fantasy that you can just make up any old thing as you go along, but that’s no more true than it is of historical fiction. The world of your story must have its own internal logic, rules and constraints. What makes writing historical fiction perhaps even harder than writing sci fi and fantasy is that the constraints are historical facts – and you probably won’t know all of them.

I spent a long time researching the Great Fire of London for my children’s historical novel The Thieves of Pudding Lane. I had over 100 pages of notes by the time I started writing and when I finished the novel I smugly thought to myself that I had researched the topic so well that I almost felt like challenging someone to fault my facts.)

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آپ جو تحریر کرنے جا رہے ہیں اسکی بنت کیا ہے آیا وہ ایک تحقیقی کالم ہے یا ادبی کالم اور آیا آپ نے جو بات کہنی ہے پیرایہ بیان کی خوبصورتی سے ہٹ کیا آپ نے اسے تحقیق کی بھٹی سے گزارا بھی ہے یا نہیں یا پھر آپ کا کالم تحقیق کی میزان میں صرف ” گزارا ” ہے .

کوئی تبصرے نہیں: