غزل
مجھ سے بچھڑ کر جان جاناں تمکو کوئی غم تو نہیں ہے
میری پلکیں ہی بھیگی ہیں آنکھ تمہاری نم تو نہیں ہے !
وحشت دل ، بے درد زمانہ ، اور دہکتی تنہائی ہے
اک غزل کے ہو جانے کو یہ موقع کچھ کم تو نہیں ہے !
اتنے برس کے بعد بھی اسنے آج ہمیں پہچان لیا ہے
اسکی آنکھوں، میں جو لکھا ہے کچھ اتنا مبہم تو نہیں ہے !
لوگوں نے بیکار میں ہمکو لوگوں میں بدنام کیا ہے
اسکی گلی میں آنا جانا کچھ اتنا پیہم تو نہیں ہے !
اسکے ہاتھ کی ریکھاؤں میں اب بھی شاید نام ہے میرا
ہجرکےدھارےمیں ہی کہیں پروصل کااک سنگم تو نہیں ہے !
سرد ہوا برسات برستی گھور اندھیرے کا عالم ہے
آج یہیں پر رک جاؤ تم جانے کا موسم تو نہیں ہے !
پھر اسکے دیدار کو احمد دل اپنا بیتاب ہوا ہے
لیکن اسکے گھر کی مسافت کچھ اتنی بھی کم تو نہیں ہے !
حسیب احمد حسیب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں