بدھ، 29 جون، 2016

اور پھر لیاقت آباد مر گیا


اور پھر لیاقت آباد مر گیا 

لیاقت آباد کہ جسے عرف عام میں لالو کھیت کہا جاتا ہے پاکستان کا ایک ایسا علاقہ کہ جسکے نام سے پاکستان میں رہنے والا ہر شخص واقف ہے یہاں کا مزاج عجیب ہے یہ وہ علاقہ ہے کہ جہاں آپ کو پاکستان میں بسنے والی ہر کمیونٹی کے لوگ ملینگے مہاجر اکثریت والے اس علاقے میں بلوچ بھی ہیں اور پٹھان یہاں پنجابی بھی ہیں اور سرائیکی بھی یہاں سندھی بھی ہیں اور میمن بھی بلکہ اگر یہ کہا جاوے کہ اگر کراچی کے تمام رنگوں کو اپنی اصل شکل میں دیکھنا ہو تو لیاقت آباد کو دیکھ لیا جاوے تو کچھ غلط نہ ہوگا .

میرا پورا بچپن لیاقت آباد میں گزرا ہے اپنی مشہوری سے بلکل مختلف یہاں کی راتیں جاگتی تھیں اور یہاں کی صبحیں روشن تھیں غرض لالو کھیت کبھی بھی نہیں سوتا تھا آپ آدھی رات کو نکل جائیں لوگ گلیوں میں چار پائیاں ڈالے ملتے اور انہیں کسی بات کا خوف نہ ہوتا ڈاک خانے کا کیفے راحت کسے یاد نہ ہوگا کہ جہاں راتیں جاگتی تھیں اور شہر بھر کے ادیب یہاں بیٹھک لگاتے تھے لیاقت آباد سینما یہاں کی پیر جمالی ٹونکی مارکیٹ غرض کس کس بات کا ذکر کیجئے کس کس کو یاد کیا جا
ئے .

یہ وہ علاقہ ہے کہ جہاں متعدد معروف شخصیات رہی بسی ہیں معروف شاعر عیش ٹونکی مرحوم شہنشاہ غزل استاد مہدی حسن انٹرنیشنل امپائر ریاض الدین شہنشاہ ظرافت عمر شریف اور بے شمار معروف علمی و ادبی شخصیات کا تعلق لیاقت آباد سے رہا ہے یہ وہ دور بھی تھا کہ یہاں رات بھر محافل سجا کرتی تھیں کہیں محفل نعت ہے تو کہیں کسی معروف عالم کا درس ہے کہیں قوالی کی محفل سجی ہے تو کہیں کسی کی شادی کی تقریبات ہو رہی ہیں لڑکے بالے قمقمے لگا
ئے کرکٹ ٹورنامنٹ کروا رہے ہیں اور عوام پوری دلچسپی کے ساتھ شامل ہے یہاں کے لوگ عام لوگ تھے یہاں کے لوگ زندہ لوگ تھے .

اسی لیاقت آباد میں صابری گھرانہ بھی آباد تھا دولت شہرت مقبولیت اور دنیوی مقام کے باوجود انہوں نے کبھی ڈیفینس ، کلفٹن یا گلشن اقبال کا رخ نہیں کیا یہاں کی وہ گلیاں صابری گلیاں کہلاتی تھیں کہ جہاں یہ صابری گھرانہ مقیم تھا آپ لیاقت آباد میں داخل ہو کر کسی سے بھی صابری گھرانے کے متعلق پوچھ لیجئے وہ آپ کو با آسانی بتلا دیگا .

امجد صابری بھی اپنے اس تاریخی خانوادے کی روایات کا امین تھا کہ جو مغلیہ دور سے اپنے فن کو اسی مخصوص انداز میں زندہ رکھے ہو
ئے ہے وہ اپنی جڑوں سے جڑ کر رہنے والا آدمی تھی اسنے کبھی اپنی اصل سے فرار کی کوشش نہ کی بلکہ اسکا فخر اسکی قدامت اور اسکے فن کے خالص ہونے میں ہی تو تھا .

یہ امجد صابری قتل نہیں ہوا بلکہ لیاقت آباد قتل ہوا ہے صدیوں پر پھیلی روایت قتل ہوئی ہے کراچی قتل ہوا ہے یاد رکھئے جب کہیں انتشار پھیلانا ہو تو وار قلب پر کیا جاتا ہے اور جب قلب کمزورر ہو جاوے تو جسم کا زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے سو کراچی کے قلب پر وار کیا گیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی پائنٹ اسکورنگ اور سرکاری مفادات سے بالا تر ہوکر کراچی کو محفوظ کیا جاوے ورنہ جب جب کسی امجد صابری کا قتل ہوگا تب تب کراچی کا بھی قتل ہوگا .

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: