جمعہ، 1 جولائی، 2016

کیری نیشن Carrie Nation سے اوریانیت Decency تک .

چورنگی نامہ





کیری نیشن Carrie Nation  سے اوریانیت Decency  تک .

جو سوال ہمارے سامنے لا کھڑا کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہم سب اوریا ہیں ... ؟

اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں ایک سفر کرنا پڑے گا تاریخی حقائق دنیا کے چلتے ہوۓ نظام کے جھوٹ اور جدید اشتہاری طلسمات میں پھنسی قوم کی نفسیات کو جاننے کا سفر .
مادام Carrie Amelia Moore Nation  کیری امیلی مور نیشن یہ صرف ایک نام نہیں یہ علامت ہے حق گوئی و بے باکی کا  یہ نام جزبہ حریت اور صداقت پر قائم رہنے کا سبق سکھلاتا ہے یہ نام ایک داستان ہے سچائی کی جو انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد سے عبارت  ہے.
یہ اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل کی کہانی ہے کہ جب امریکہ اس حد تک متمدن نہ ہوا تھا کہ جتنا آج دکھائی دیتی ہے شراب میں ڈوبی امریکی قوم کسی مسیحا کی راہ تک رہی تھی کہ کوئی آۓ اور انہیں اس ذلالت سے نکالے ایسے مشکل حالات میں خدائی پیغام ایک خاتون کے دل پر القاء کیا گیا ہمیں نہیں معلوم کہ اس کی کیا حقیقت ہے مگر مادام خود کہتی ہیں

The next morning I was awakened by a voice which seemed to me speaking in my heart, these words, "GO TO KIOWA," and my hands were lifted and thrown down and the words, "I'LL STAND BY YOU." The words, "Go to Kiowa," were spoken in a murmuring, musical tone, low and soft, but "I'll stand by you," was very clear, positive and emphatic. I was impressed with a great inspiration, the interpretation was very plain, it was this: "Take something in your hands, and throw at these places in Kiowa and smash them."
 "Carry's Inspiration for Smashing".
 Kansas State Historical Society.  Archived from the original on 2006-12-22. Retrieved 2007-01-13.

یہاں سے کہانی شروع ہوتی ہے کیری نیشن کی جو بعد میں مثال بنی بدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی یہ وہ دور تھا کہ جب امریکہ میں شراب کی تجارت عروج پر تھی اور اس شرابیت میں شرابور قوم کے اکثر مرد اپنے بی وی بچوں سے ہی نہیں بلکہ اپنی جان سے بھی غافل  تھے اور ہر  سال لاتعداد لوگ موت کے منہ میں صرف اور صرف اس ام الخبا  ُ ث کے استعمال کی وجہ سے چلے جاتے تھے ان حالات میں ایک چھ فٹ طویل قامت کی حامل ایک سو پچہتر پونڈ وزنی خاتون نے علم جہاد بلند کیا اور شراب پرستوں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیا جسکی پاداش میں انہیں تیس بار جیل یاترا کرنا پڑی ہاتھ میں کلہاڑی سنبھالے شراب خانوں کو تہس نہس کر دینے والی خاتون کہ اس جہاد کو "Hatchetations" کا نام دیا گیا مادام کیری نیشن کو اپنے اس جہاد کی وجہ سے صرف ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالمی شہرت حاصل ہوئی.
ایسا ہی ایک جہاد پاکستان میں اوریا مقبول جان صاحب نے شروع کیا ہے کہ جسکی پاداش میں انہیں
 " اوریانیت " کی پھبتی کا سامنا کرنا پڑا اور انکی مخالفت میں ایک طوفان بد تمیزی کھڑا کر دیا گیا کہ جس کی چند مثالیں ہم اپ کے سامنے پیش کرتے ہیں .
ایک صاحب نے اسے " اوریانیت کا ناسور " کے نام سے موسوم کیا موصوف لکھتے ہیں

" اس اشتہار پر ”عریاں“ ردعمل سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ فحاشی کا تعلق دیکھنے والے کی نیت اور دماغی فتور سے زیادہ ہوتا ہے۔ "

تو دوسرے صاحب مزاح نگاری کی مشق فرماتے دکھائی دیتے ہیں .
(بقول مصنف رتن ناتھ سرشار کے ناول فسانہ آزاد کے کردار میاں خوجی کا تذکرہ یہاں اتفاقی ہے مقصود اوریا مقبول جان صاحب کی تضحیک نہیں اور موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہاں وہ صرف ادب کی خدمت فرما رہے ہیں)
" میاں خوجی فحاشی پکڑتے ہیں "

موصوف اوریا مقبول جان صاحب کے فرضی کردار کو جاہل گنواروں سے الجھتے مجمع میں مذاق بنتے اور ایک رانڈ کے ہاتھ مار کھانےکی منظر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں خوبصورت الفاظ کا گلدستہ ملاحظہ کیجئے .

" کسان کی جورو تو تو ٹھونک ٹھانک، اور پیٹ پاٹ کر چل دی، آپ نے پکارنا شروع کر دیا۔ قسم بابا جان کی جو کہیں قرولی پاس ہوتی تو ان دونوں کی لاش اس وقت پھڑکتی ہوتی۔ وہ تو کہیے خدا کو اچھا کرنا منظور تھا کہ میں اپنے زعم میں آپ نیچے آ رہا ورنہ اتنی قرولیاں بھونکتا کہ عمر بھر یاد کرتے۔ ہات ترے کی۔ نابکار لعین۔ کھڑا تو رہ او گیدی دوزخی۔

اس پر گاؤں والوں نے خوب قہقہہ اڑایا اور اتنا بنایا کہ میاں خوجی سب کو گالیاں دینے لگے۔ او گیدی تم سب پر میں بھاری ہوں، پرے کے پرے صاف کر دوں، وہ تو کہیے قرولی نہ ہوئی۔ ایک نے پوچھا کیوں میاں صاحب، قرولی ہوتی تو کیا بھونک کر مر جاتے، یا اپنے پیٹ میں لگاتے، آخر نتیجہ کیا ہوتا؟ کیوں ایک رانڈ سے مار کھائی؟ "

مزید لکھتے ہیں

" خواجہ بدیع الزماں کے نام سے تو آپ خوب واقف ہیں۔ بے تکلف دوست اور راہ چلتے انہیں خوجی کے نام سے پکارتے ہیں۔ ٹینی مرغے کے برابر قد پایا ہے"

اجی اب اگر کوئی آپ کی جسمانی ہیت کے حوالے سے معیوب قسم کی کوئی پھبتی کس دیوے کہ جو آپکے کسی عیب کی جانب اشارہ کرتی ہو تو کیا کچھ غلط نہ ہووے گا ... ؟

آگے فرماتے ہیں " اس نے قہقہہ اڑا کر کہا کہ ‘اب ہٹو بھی آئے وہاں سے بڑے اقبال مند ہو کر۔ واہ کیا اقبال ہے۔ صورت سے تو پھٹکار برستی ہے، اقبال والے بنے ہیں’۔ خوجی دانت پیس کر رہ گئے اور بولے کہ ‘بس اب چلی جاؤ۔ نہ ہوئی جوانی ورنہ کھود کر اسی جگہ دفنا دیتا’۔

میاں کسی کی صورت پر پھٹکار برسوا دینا بھی شاید ادب عالیہ اور مزاح نگاری کی عالی شان مثال ہوگا اب اگر ہم اسے پھکڑ پن کہیں تو کیا کچھ غلط ہو جاوے گا .

اجی نفس مضمون پر بھی کچھ گفتگو فرما لیتے کہ جدید میڈیائی دنگل میں کون کون سے اوچھے ہتھیار آزماۓ جاوے ہیں اور کس کس انداز میں صارف کو چونا لگایا جاتا ہے اور کس خوبصورتی سے اس خوبصورت عمل میں مستورات کو مکشوفات میں تبدیل کر دیا جاتا ہے ضرور ملاحظہ کیجئے ..
(حضرت کا فرمان ہے کہ آپ کو اردو ادب کے کلاسیک میں پھکڑ پن اور تضحیک دکھائی دینے لگی نہیں جناب من اگر کوئی آپ سے کہے  قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ تو کیا یہ مناسب بات ہووے گی یا مذہبی شدت پسندی کیونکہ اس آیت کا انطباق یہاں درست نہیں ایسے ہی جس انداز میں آپ نے اس کردار کو منطبق کیا ہے وہ بھی درست نہیں )
ویسے اوریا کو چند سیکنڈ کی بے حجابی میں عریانیت دکھائی دی

اور نبی کریم صل الله علیہ وسلم دوسری نظر کو حرام فرما رہے کچھ غور کیجئے .
ایک صاحبہ فرماتی ہیں

" اوریا ہم کو کہے کافر، اللہ کی مرضی ہے "

خوبصورت الفاظ ملاحظہ کیجئے

" عاشق ہویوں رب دا، تینوں ہوئی ملامت لاکھ

تینوں کافر کافر آکھدے، توں آہو آہو آکھ

اردو کی ایک کہاوت ہے “تھوتھا چنا، باجے گھنا”۔ کچھ چنے ایسے ہوتے ہیں جو جتنے خراب ہوتے ہیں اتنا ہی زیادہ بجتے ہیں۔ نہ صرف زیادہ بجتے ہیں بلکہ بے سرا بجتے ہیں۔ صحافت کا ایسا ہی ایک چنا ہیں اوریا مقبول جان صاحب۔ "

عجیب معاملہ یہ ہے کہ ایک چال شیطان کی اور ایک چال ہے رحمان کی اور رحمان کی چال ہی غالب آنے والی ہے اوریا مقبول جان پر طنز کے ڈونگرے برسانے والے اس فطری قانون اور الہی نظام سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں آج اوریا ایک تحریک بن چکا ہے اور " اوریانیت " ایک علامت .
اشتہارات کی اس اشتہاری دنیا میں رہنے والے لوگوں کا جو استحصال یہ اشتہاری کرتے ہیں عموم اکثر ان چالوں سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں .
٢٠١٢ میں بننے والی رشین امیرکن مووی اس راز کو افشا کرتی ہے کہ کس طرح  جدید بازارکاری اور اشتہاری نوٹنکیون سے لوگوں کو بے وقوف بنا کر انکا مال گھسیٹا جاتا ہے اس فلم میں ٢٠١٧ کا ماسکو دکھلایا گیا ہے کہ مختلف برانڈز نے لوگوں کی زندگیوں کو جکڑ رکھا ہے اور کس انداز میں انہیں اپنے مطابق چلایا جاتا ہے اس مووی کا نام ہے " برانڈڈ " اسکے ایک سین میں مارکیٹنگ  گرو کہتا ہے

Marketing Guru: How far are you willing to go... to change the world?

ایسا ہی جملہ   آپ کو ایک پے فون کمپنی کے اشتہار میں سننے کو ملا ہوگا ...

 Reshaping lives

یہ کون لوگ ہیں یہ کیوں ہماری زندگیوں کو تبدیل کر دینا چاہتے ہیں انکی انتہا کیا ہے انکے مقاصد کون سے ہیں لیکن کیا کیجئے ہماری آنکھیں بند اور زبانیں خاموش ہیں .

١٩٧٥ میں ایک انگریز صحافی Vance Packard  نے اپنے تحقیقی مقالے کو  "hidden persuaders,"  کا نام دیا ہے یہ وہ خفیہ محرکات ہیں کہ جو ہمیں مائل کرتے ہیں ان  چیزوں کی جانب کہ جن کی ہمارے مذہب ہمارے معاشرے اور ہماری عملی زندگی میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی .

معروف امریکی فلسفی پروفیسر نوم چومسکی لکھتے ہیں

 "The public relations industry, which essentially runs the elections, is applying certain principles to undermine democracy which are the same as the principles that applies to undermine markets. The last thing that business wants is markets in the sense of economic theory. Take a course in economics, they tell you a market is based on informed consumers making rational choices. Anyone who’s ever looked at a TV ad knows that’s not true. In fact if we had a market system an ad say for General Motors would be a brief statement of the characteristics of the products for next year. That’s not what you see. You see some movie actress or a football hero or somebody driving a car up a mountain or something like that. And that’s true of all advertising. The goal is to undermine markets by creating uninformed consumers who will make irrational choices and the business world spends huge efforts on that. The same is true when the same industry, the PR industry, turns to undermining democracy. It wants to construct elections in which uninformed voters will make irrational choices. It’s pretty reasonable and it’s so evident you can hardly miss it."

From lecture titled "The State-Corporate Complex :A Threat to Freedom and Survival," at The  University of Toronto, April 7, 2011

پروفیسر فرماتے ہیں کہ کس انداز میں حقائق سے نا بلد صارف کو گمراہ کیا جاتا ہے مارکیٹ سازی کیلئے اپنی چیز کی حقیقی خوبیوں اور خامیوں کو بتانے کی بجاۓ شخصیت پرست کی ماری کند ذہن دنیا کو ایک ہیرو دیا جاتا ہے کوئی فٹبال پلیر ، ہاکی کا کوئی کھلاڑی یا کوئی معروف ادکار کہ جو اپنی شخصیت بیچ کر آپکی چیز فروخت کرتا ہے ..

کیو موبائل کی سارا عورت کی نسوانیت بیچتی دکھائی دیتی ہے نسوانیت جنسی کشش کے معنوں میں نہیں بلکہ عورت سے ہمدردی کے عنصر کو کہ جو معاشرے میں موجود ہے استعمال کرنے کے معنوں میں پھر قومی جنوں کرکٹ کا استعمال اور نتیجہ کیا پندرہ سو سے پچیس ہزار تک کے موبائل کی فروخت ..

مگر کس قیمت پر

جی  ہاں مذہبی روایات اور معاشرتی اقدار کی قیمت پر ..

اور اس سب کے راستے میں کھڑی ایک قوت کہ جسے اوریانیت کا نام دے کر گرانے کی کوشش کی جاتی ہے .

لیکن اس سب سے ہٹ کر ہم سے وعدہ کیا گیا ہے خیر کثیر " کوثر " کا اور ہمارا دشمن ہی بے نام و نشان " ابتر " رہنے والا ہے .
ہاں مگر اس سے پہلے ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا

" کیا ہم سب اوریا ہیں  ... ؟

اور ہمارا جواب ہے ... !

جی ہاں ہم سب اوریا ہیں.


حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: