جمعرات، 2 جون، 2016

قوانین اسلامی اور صنف نازک ... !


اس مادی دنیا میں رہنے والے انسان جب ایک (society) کا حصہ بنتے ہیں اور جب وہ ایک بڑی (community) تشکیل دینے جاتے ہیں تو انکے درمیان اعتدال قائم رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے ورنہ انسان کی فطرت اسے مجا دلے اور مناقشے  پر ابھارتی ہے .

اس عدل کو قائم رکھنے کیلئے جو ادارہ تشکیل دیا جاتا ہے اسے عدالت کہا جاتا ہے یہ عدالت چند قوانین لاگو کرتی ہے کہ جن کی بنیاد پر معاشروں کے اندر ایک میزان قائم ہو سکے .

ریاستی قوانین کی بنیاد یہ تو انسانی عقل ہوتی ہے یا وحی الہی اور ہر دو کا مقصود دراصل معاشروں کے اندر امن کو قائم رکھنا ہوتا ہے .

مرد و عورت کسی بھی معاشرے کے دو فریق ہیں ، دو ایسے فریق کہ جنہیں اپنی بقاء کیلیے ایک دوسرے کا ساتھ درکار ہے اگر یہ ساتھ موجود نہ ہو تو نسل انسانی معدوم ہو جاۓ .

مرد و عورت کے باہمی تعلقات کے درمیان عدل قائم رکھا اہم ترین اور مشکل ترین امور میں سے اگر تاریخ انسانی کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے حوالے سے مذاہب عالم اور انسانی عقل مختلف قوانین بناتی رہی ہے .

جہاں تک معاملہ ہے عقل انسانی کا چونکہ ہمیشہ معاشرے (male dominant) رہے ہیں اسلئے قوانین کی تشکیل کیلئے عقل بھی مردانہ استعمال ہوئی ہے اور مرد کا عورت کے حوالے سے متعصب ہونا امر محال نہیں ہے .

دوسری جانب جہاں تک مذھب کا معاملہ ہے اس کی نگاہ میں مرد و عورت یکساں حیثیت کے حامل ہیں اور جہاں کہیں بھی ان کے درمیان کوئی تفاوت دکھائی دیتا ہے وہ (administrative) . ہے ناکہ درجاتی.

گو کہ مذاہب بھی شکست و ریخت کا شکار ہوتے رہے ہیں اور عقل انسانی کی زد پر رہے ہیں اسلئے ہمیں مذاہب میں بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے کہیں نہ کہیں عدم توازن دکھائی دیتا ہے .

انسانی عقل کے بناۓ ہوۓ قدیم تریم رومی قانون (Roman law) کا مطالعہ کیا جاۓ تو کچھ اس انداز کی تصویر سامنے آتی ہے .

1. The wife is the property of her husband and completely subjected to his disposition.

2. He could punish her in anyway, including killing her, or selling her as a slave (the last punishment was forbidden after 100 BC).

3. As far as family property is concerned the wife herself does not own anything. Everything she or her children inherit belongs to her husband, including also the dowry which she brought with her to her marriage.


4. Although the woman was considered a Roman citizen, she obtained her position only through her husband. Neither slaves nor women could carry their own name. Only men carried this distinct sign of their being a Roman citizen.


5. Moreover, the woman was excluded from all public functions and rights: “Women are excluded from all civil and public functions and therefore can neither be judges nor carry any civil authority; they cannot bring a court case, nor intercede for someone else nor act as mediators”.

6.The woman could not have charge of another person. “Tutela virile officium est” . She could not have patronage of her children and cousins (except in later Roman law).

7. Women could not function as witnesses, whether at the drawing up of a last will, or in any other form of law. “The woman is incapable of being a witness in any form of jurisprudence where witnesses are required”. Women were reckoned with minors, slaves, the dumb and criminals to be incapable of being witnesses.

8. Women could not start a court case without being represented by a man. Women cannot represent themselves in law “because of the infirmity of their sex and because of their ignorance about matters pertaining to public life”.

(H.HEUMANN and E.SECKEL, Handlexikon zu den Quellen des römischen Rechts, Graz 1958, pp. 246 and 265. L.WENGER, Institutes of the Roman Law of Civil Procedure, Littleton 1940; F.SCHULZ, Classical Roman Law, London 1951; M.KASER, Roman Private Law, Oxford 1965.)

اوپر پیش کی گئی فہرست ملاحظہ کرنے کے بعد ہمیں ان معاشروں میں خواتین کا حقیقی مقام معلوم ہوتا ہے کہ جنہیں عقلی معاشرے کہا جاتا تھا اور جو ماضی قدیم میں تہذیبی و علمی مراکز تھے .

میگنا کارٹا  کہ جسے دور جدید کے یورپی قوانین کی ماں قرار دیا جاتا ہے

(Also Magna Charta, 1560s, Medieval Latin, literally "great charter" (of English personal and political liberty), attested in Anglo-Latin from 1279; obtained from King John, June 15, 1215.)

 خواتین کے حوالے سے کیا کہتا ہے ملاحظہ کیجئے .

The word for woman, "femina", is actually only mentioned once and that was near the end, in Clause 54. This said "No one is to be arrested on the accusation of a woman for the death of anyone other than her husband" so it actually reduced and limited women's right to be heard as a witness in court. Talking on the BBC David Carpenter puts it like this "Women are being discriminated against in Magna Carta" .

اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہے اور نا صرف بات کرتا ہے بلکہ انہیں قانونی حیثیت بھی دیتا ہے اور یہ قانونی حیثت انسانی عقل کے تابع نہیں ہوتی بلکہ کتاب الہی میں واضح ترین احکامات اتارے جاتے ہیں .

قرآن کریم کی چوتھی سوره  سوره نساء  مکمل طور پر خواتین سے منسوب ہے اور اس سوره کی ابتداء میں ہی قانون الہی اور تخلیق انسانی کے اعتبار سے خواتین کو مساوی درجہ دیا گیا ہے .

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنْـهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْـهُمَا رِجَالًا كَثِيْـرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ الَّـذِىْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا O

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔

الله کے رسول صل الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام تک امت کو اس جانب متوجہ کرتے رہے .

خطبہ حجة الوداع (charter of Islamic Laws)

دفعہ : ۲۳   عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو،کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات (احکام)کے تحت ان کے ستر تمہارے لیے حلال ہوئے۔

دفعہ : ۲۴  خبردار ! تمہارے لیے عورتوں سے نیک سلوکی کی وصیت ہے،کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں اور اس کے سوا تم کسی معاملے میں حق ملکیت نہیں رکھتے۔

گزشتہ دنوں ملک کے لبرل اور دینی طبقہ میں اس وقت میڈیا وار کا آغاز ہو گیا کہ جن پنجاب حکومت میں خواتین کے حقوق کیلئے ایک قانون پاس کر دیا .

یہاں کرنے کا سوال تو یہ تھا کہ کیا پہلے ہمارے قانون میں (women rights) اور
(domestic violence) کے حوالے سے (clause ) موجود ہے یا نہیں
اگر نہیں تو پچھلے ساٹھ سال سے آپ خواب غفلت میں کیوں مبتلاء تھے
اور اگر موجود ہے تو اس پر عمل در آمد کیوں نہ ہو سکا کہ جو اس جدید قانون کی ضرورت پیش آئی .

حیران کن امر یہ ہے کہ جس بات پر ہمارا لبرل طبقہ خوشی سے بغلیں بجا رہا ہے اور دین طبقہ ہلچل مچا رہا ہے وہ ایک سیاسی شعبدے بازی سے زیادہ اور کچھ نہیں .

اس ملک کی اشرافیہ اپنی اصل میں نہ تو مذہبی ہے اور نہ ہی (secular) ہاں یہ ضرورت پڑنے پر ہر دو طبقات کو استعمال کرنے کے فن سے خوب واقف ہے .

جس ملک میں بنیادی انسانی حقوق (روٹی ، کپڑا ، مکان ) کے حوالے سے لوگ محروم ہوں وہاں مزید کیا گفتگو کی جاۓ ہاں ایسے سیاسی شعبدے توجہ کے حصول کیلئے ضرور مفید ہوتے ہیں .

ہر دو طبقات اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ دراصل ہونا کچھ بھی نہیں ہے لیکن باہمی مجادلے کی کیفیت ضرور پیدا ہو چکی ہے .

بنیادی حقیقت تو یہ ہے کہ اس خطے کی مسلم اکثریت اگر ٹھیٹ مذہبی نہیں تو لبرل بھی نہیں ماضی میں اکبر کا دین الہی دراصل (liberalism) کا ایک تجربہ تھا کہ جسے عوام نے مسترد کر دیا .

دوسری جانب اس خطے میں " داعش " والا شدت پسند اسلام بھی مقبول نہیں ہو سکتا یہاں اگر اسلام کے نفاذ کا کوئی راستہ ہے تو وہ براستہ دعوت تشکیل معاشرت کا راستہ ہے ناکہ ڈنڈے کے استعمال کا راستہ .

ایک جانب تو چدن عاقبت نا اندیش مولوی کفر کے فتاویٰ ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں اور فحاشی کے (certificate) تقسیم فرما رہے ہیں تو دوسری جانب لبرل حضرات سر عام مولویت کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف ہیں کوئی بھی معقول آدمی کہ جو خالص تحقیقی مزاج رکھتا ہو اس جنگ کا حصہ بننے سے خود کو محفوظ رکھے گا کہ ہر صورت میں عزت ہاتھ سے جانے کا اندیشہ ہے .

لیکن معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ مولویت سے آگے بڑھ کا قرآن و سنت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے جو اس ملک کی مسلم اکثریت کے حقوق اور اس ملک کے اسلامی آئین کی خلاف ورزی بھی ہے .

کبھی وراثت ، کبھی طلاق اور کبھی گواہی سے متعلق امور کو لے کر پھبتیاں کسی جا رہی ہیں .

یہاں معاملہ کم علمی سے بڑھ کر لا علمی (ignorance) کا ہے .

اسلام وراثت میں شخصی ملکیت کا قائل نہیں بلکہ حکم الہی سے اس کا تعین کر دیتا ہے تاکہ جھگڑے کا کوئی احتمال باقی نہ رہے بظاھر اسلامی قانون میں عورت کا حق وراثت مرد سے کم دکھائی دیتا ہے اور اس بات پر شدید واویلا کیا جاتا ہے لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جاۓ تو ایسا معاملہ نہیں ہے ایک جانب تو عورت اپنے باپ کی وراثت میں  حصے دار ہوتی ہے تو دوسری جانب اپنی شوہر کی وراثت میں بھی شریک ہوتی ہے اور یہاں اس کا حصہ مرد سے بڑھ جاتا ہے .

اسلام نے نفقے کی ذمے داری عورت پر نہیں بلکہ مرد پر رکھی ہے بلکہ معاملہ یہاں تک ہے کہ عورت اپنے ہی بچے کی دودھ پلائی کی اجرت طلب کر سکتی ہے اور اگر وہ بچے کو دودھ پلانا نہ چاہے تو مرد کو اس کا انتظام بھی کرنا پڑے گا معاشرے میں جاکر کر دنیا کمانا عورت کے ذمے نہیں اور گھر کے کاموں پر بھی مرد اسے شریعت کے اصول کے مطابق مجبور نہیں کر سکتا .

عورت پہلے اپنے باپ کی کفالت میں ہوتی ہے پھر اسکا نفقہ شہر کے ذمے ہوتا ہے اور پھر یہ خدمات اولاد کے حصے میں آتی ہے اور اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو یہ ریاست کی ذمے داری ہے .

جہاں تک معاملہ گواہی کا ہے (Islamic jurisprudence) میں عورت کیلئے
(The extra cover for individual protection) ہے ، وہ معاشرہ کہ جہاں خواتین کی عام نقل و حرکت نہ تھی وہاں کسی ایک خاتون کی گواہی اسلئے ناکافی تصور نہیں کی جاتی تھی کہ انکے (status) میں فرق ہے بلکہ صرف اسلئے کہ فیصلہ کرتے وقت غلطی کا احتمال نہ رہے .

دوسری جانب یہ ایک انتہائی شدید مغالطہ ہے کہ تمام معاملات میں عورت کی گواہی آدھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض معاملات میں گواہی صرف عورت کی ہی تسلیم کی جاتی ہے .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ دودھ پلانے والی عورت کی تنہا گواہی قبول کی جائے گی۔ اس لئے کہ بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث نے اُمِ یحییٰ بنت ابی اہاب سے نکاح کیا۔ تو سوداء لونڈی نے آ کر کہا کہ تم دونوں کو میں نے دودھ پلایا تھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُنہوں نے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

کيف و قد قيل ففارقها و نکحت زوجا غيره.

’’نکاح کیسے (قائم رہ سکتا ہے) اور گواہی دیدی گئی ہے۔ تو عقبہ نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور بنت ابی اہاب نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الشهادات، باب إذا شهد شاهد، 2 : 934، رقم : ٢٤٩٧

(Islamic jurisprudence) میں جہاں (Lawmaking) ہو رہی ہوں وہاں ایسی امثال بھی ملتی ہیں کہ ایک خاتون کی راۓ پر قانون متعین ہوا .

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم چالیس (40) اوقیہ سے زائد مہر مقرر نہ کرو اور جس نے زیادہ مقرر کیا تو وہ زائد بیت المال میں ڈالا جائےگا۔ تو ایک عورت نے کہا: اے امیرالمؤمنین آپ کو اس کا اختیار نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں؟ تو اس نے کہا: اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: [وَاٰتَيْتُمْ اِحْدٰھُنَّ قِنْطَارًا (النساء، 4: 20)] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےفرمایا: عورت نے درست بات کہی اور مرد نے خطا کی‘‘۔
علي بن سلطان محمد القاري، مرقات المفاتيح، 6: 330، دار الکتب العلمية بيروت

ملاحظہ کیجئے خلیفہ وقت اقرار کر رہا ہے کہ " عورت نے درست بات کہی اور مرد نے خطا کی‘‘۔

اسلامی قانون سازی کے اولین دور میں حضرت عائشہ صدیقہ رض کا خاص مقام رہا ہے اور انکو یہ مقام حاصل تھا کہ انکے فتاویٰ پر عمل اور قانون سازی ہوتی تھی .

اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک خاندان ایک (unit) ہے اور اس کے کچھ انتظامی امور ہوتے ہیں اس یونٹ میں اسلام مرد کو امیر اور خاتون کو مشیر مقرر کرتا ہے یہاں تک کہ انبیاء کہ جو وحی الہی کے تابع ہوتے ہیں خواتین کی مشاورت پر فیصلے فرماتے ہیں .

اس معاہدہ صلح (حدیبیہ ) کے بعد آنحضرت ﷺ نے حکم دیاکہ لوگ یہیں قربانی کریں؛ لیکن لوگ اس قدر دل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اٹھا،  تین دفعہ بار بار کہنے پر بھی ایک شخص آمادہ نہ ہوا ،  اس لئے آپﷺ خیمہ میں تشریف لےگئے ،  اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ جو ساتھ تھیں انہوں نے دیکھاکہ چہرہ مبارک پر رنج کے آثار ہیں،  عرض کیا: کوئی بات ناگوار خاطر ہوئی ؟  فرمایا:  جذباتی اعتبار سے سب ملول ہیں ،پئے در پئے واقعات نے صدمہ پہنچایا ہے ،  حضرت اُم سلمہؓ نے فرمایا: بہتر ہے آپ ﷺ  کسی سے کچھ نہ کہیے ،  ان کے سامنے خود اپنا اونٹ نحر کر دیجئے اور حلق کروائیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے ،  آپﷺ نے اس مشورہ پر عمل کیا ، آپﷺ کو قربانی کرتا دیکھ کر سب نے قربانیاں کیں اور احرام اتارا ،صلح کے بعد تین دن حدیبیہ میں قیام فرمایا ، پھر روانہ ہوئے تو سورۂ فتح کی یہ آیات نازل ہوئیں:
 "  بے شک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی تا کہ جو کچھ گناہ آگے ہوئے اور جو پیچھے سب کو اللہ معاف فرمائے ، اور تم پر اپنا احسان پورا کردے اور تم کو سیدھی راہ چلائے ، اور آپ کو ایک بہتر مدد دے " 
( سورۂ فتح :۲، ۳ )

یہ بھی ایک انتہائی غلط فہمی ہے کہ طلاق کا حق صرف مرد کو دے کر عورت کو محروم کر دیا گیا ہے بلکہ اسے خلع اور بعض مواقع پر طلاق کا حق بھی حاصل ہو جاتا ہے .

حضرت ثابت بن قیس خوش شکل نہ تھے جب کہ اُن کی بیوی خوبرو تھی، اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں آکر نہایت مناسب الفاظ میں اس بات کو بیان کیا او رکہا کہ میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق کے بارے میں تو اُن کو معتوب نہیں کرتی لیکن ان کے ساتھ رہنے میں مجھے ناشکری کا اندیشہ ہے۔ رسول اللّٰہﷺ نے اس کی بات سن کر صورتِ حال کا اندازہ کرلیا او راس سے پوچھا: کیا تو ثابت بن قیس کو وہ باغ واپس کرنے پر آمادہ ہے جو اس نے تجھے (حق مہر میں) دیا تھا؟ اس نے کہا! ہاں۔ آپ نے ثابت بن قیس کو حکم دیا: اس سے اپنا باغ لے لو اور اس کو طلاق دے دو، چنانچہ اُنہوں نے طلاق دے دی۔

اسی طرح احناف کے ہاں تفویض طلاق کا مسلہ بھی معروف ہے .

یہ وہ تمام مسائل ہیں کہ جن پر اٹھاۓ جانے والے اشکالات کے جوابات علماء تفصیل سے دیتے چلے آۓ ہیں اور ان کا بار بار اعادہ کرنا وقت تضیع اوقات ہے لیکن کیا کیجیے کہ گھوم پھر کر وہی اشکالات بار بار سامنے لاۓ جاتے ہیں .

کیا اب وہ وقت نہیں آ گے کہ پاکستان کے حق دو طبقات اس اشرافیہ سے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کرے کہ جو اس آئین کے مطابق انکی حق ہے ناکہ  اس طرح لایعنی شوشے چھوڑتی رہے اور ہیم باہم الجھتے رہیں .


حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: