جمعرات، 28 جولائی، 2016

کراۓ دارن کی چیں چیں ...!

چورنگی نامہ

کراۓ دارن کی چیں چیں ...!

کراۓ دار ایک ایسی مخلوق ہے کہ جو سر پہ چھت قائم رکھنے کیلئے سالوں رقوم ادا کرتے ہیں اور پھر بھی چھت انکی نہیں ہوتی ..

پاکستان کی ایک بڑی اکثریت اپنا گھر نہ ہونے کی وجہ سے کراۓ دار ہے یہ ایک معاشرتی مسلے سے زیادہ  ایک المیہ بنتا جا رہا ہے لوگ کروڑوں اربوں روپیہ ہر ماہ کراۓ کی مد میں دیتے ہیں اور یہ ایک بڑی معاشی حرکت بن چکی ہے ..

ایک طرف تو کراۓ دار مجبور ہوتا ہے کہ کراۓ کہ مکان میں رہے تو دوسری طرف  اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنا مکان کراۓ پر ضرورت کے تحت اٹھاتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں نے اسے ایک منافع بخش کاروبار بنا لیا ہے اگر کسی کے پاس پیسے ہوں تو وہ متعدد مکان بنا کر کراۓ پر چڑھا دیتا ہے اور خوب نفع کماتا ہے دوسری جانب ایک بڑی رقم ایڈوانس کے نام پر رکھ لی جاتی ہے اس کاروبار سے نفع اٹھانے والے کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں دیتے اور ایک منافع بخش معاشی حرکت کا ریاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا..

کراۓ داروں کے مسائل بے شمار ہیں اور ان میں ایک بڑا حصہ قانون کی غیر موجودگی اور اسٹیٹ اجنٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے کہ جو آسان پیسہ کمانے کے چکر میں کراۓ کی قیمت بڑھواتے چلے جاتے ہیں .

اگر آپ کے دو بچے ہیں اور چھوٹی فیملی ہے تو مکان آسانی سے مل جاوے گا لیکن اگر آپ کی بڑی فیملی ہے تو مکان کا ملنا جوۓ شیر لانے سے زیادہ کٹھن ہو جاتا ہے .

ہر سال زمین کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ مکان کے کراۓ بھی بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں دوسری طرف کوئی بھی مالک مکان سال بھر سے زیادہ کسی کو رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوتا ..
وجہ .. ہر سال نیا اگریمنٹ اضافی کرایہ اور زیادہ اڈوانس ...

پہلے لوگ اپنا مکان انتہائی ضرورت کے تحت صرف شریف لوگوں کو کراۓ پر دیا کرتے تھے لیکن اب مقصود صرف زیادہ سے زیادہ پیسوں کا حصول ہے .

دوسری جانب اسٹیٹ اجنٹس مالک مکان سے تو کچھ وصول نہیں کرتے لیکن کراۓ دار سے ایک کرایہ وصول کر لیتے ہیں اس حوالے سے بھی حکومت کی جانب سے کوئی قانون سازی نہیں ہے .

اسی گز کے مکان کا کرایہ پندرہ ہزار
ایک سو بیس گز کا مکان بیس ہزار
دو سو گز تیس ہزار .......

دوسری جانب مکان مالک اور کراۓ دار کی ایک بڑی تقسیم نے دو الگ الگ معاشرتی طبقات پیدا کر دیے ہیں اور ان معاشرتی طبقات کے درمیان پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل کس انداز میں معاشرے کو متاثر کر رہے ہیں معاشرے کی توجہ بھی اس جانب نہیں جاتی .

مجھے یاد ہے کہ لیاقت آباد میں ایک مکان ہم نے کراۓ پر لیا تھا مالک مکان فیملی بہت اچھے اور معقول لوگوں کی تھی اس فیملی میں ایک بزرگ خاتون تھیں جنہیں میری والدہ سے بہت تعلق ہو گیا تھا اور ہمارے گھر کے لوگ بھی انہیں اماں کہنے لگے تھے اکثر وہ ہمارے ہاں آتیں اور والدہ کے ساتھ وقت گزارتیں.

مالک مکان پہلی منزل پر براجمان تھے اور ہم گراؤنڈ فلور پر گو کہ کرایہ دار اور مالک مکان ایک بزنس ڈیل کے دو فریق ہوتے ہیں لیکن مالکان مکان کے اذہان میں ایک نفسیاتی فوقیت ضرور ہوتی ہے اور منہ مانگی قیمت وصول کرنے کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے کراۓ داروں پر کوئی احسان عظیم فرما رہے ہوں اور اس احسان کے بدلے اضافی ذمہ داریاں کہ جو ہر دو فریق کے ذمے ہونی چاہیئں صرف کراۓ داروں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہیں ...

ایسی ہی ایک ذمہ داری رات رات بھر جاگ کر پانی کا ٹینک بھرنا اور گیلری وغیرہ کی صفائی بھی تھی جبکہ گیلری مشترکہ تھی اور اس میں مالک مکان کی موٹر سائکل وغیرہ بھی کھڑی ہوتی تھی ..

ایک مرتبہ باہر سے کسی جانور نے آکر مشترکہ  گیلری  میں غلاظت پھیلا دی جس کی وجہ سے سخت تعفن پھیل گیا والدہ کو صفائی کرنے میں کراہیت محسوس ہوئی اور انہوں نے مالک مکان خاتون سے  صفائی کروانے کیلئے کہا جس پر انکی کچھ تلخ کلامی بھی ہو گئی بعد میں اسی تلخی کی وجہ سے ہمیں گھر بھی تبدیل کرنا پڑا..

لطف کی بات یہ کے مالکان مکان کی بزرگ خاتون  اس دوران بھی ہمارے ہاں آتی رہیں

الله انکی مغرفت فرماۓ انتہائی عبادت گزار اور پاکیزہ خاتون تھیں

لیکن والدہ سے بات نہیں کرتی تھیں اور بس انکی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا تھا ...

کراۓ دارن کی چیں چیں کبھی ختم نہیں ہوتی "

گو کہ بعد میں بھی والدہ کا ان سے تعلق قائم رہا اور وہ ہمیں بلاتی رہیں کہ تم لوگ دوبارہ یہیں آجاؤ لیکن والدہ ہمیشہ انہیں طرح دے جاتی تھیں کہ ایک بار جو در چھوڑ دیا سو چھوڑ دیا ...

اسی طرح ایک مکان مالک کا لونڈا تیز آواز میں موسیقی سننے کا شوقین تھا اور ان دنوں والد صاحب کی نائٹ ڈیوٹیاں ہوا کرتی تھیں وہ صبح صبح تیز آواز میں   موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا شوقین اور والد محترم کے سونے کا وقت اکثر ہم بھائیوں کو غصہ آتا اور اسے سبق سکھانے کا ارادہ کرتے لیکن والد صاحب کی تنبیہ نہیں جھگڑا نہیں کرنا ..

یہ صرف  چند ایک مثالیں ہیں کہ جن سے اس معاشرتی مسلے کی جانب اشارہ ہوتا معلوم نہیں ارباب اختیار کبھی اس حوالے سے کوئی قدم اٹھائینگے یا نہیں لیکن بطور مالک مکان پڑھنے والوں کو ضرور دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے کیونکہ جس مکان کے وہ مالک ہیں وہ مکان عارضی ہے .


حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: