مدارس پر " زکوٰۃ " کے پیسوں کے استعمال کی پھبتی .....؟
اکثر جدت پسند مدارس پر پھبتی کستے ہیں کہ یہ زکوٰۃ کے پیسوں کو مدرسے کے مصارف میں استعمال میں لاتے ہیں جس کیلئے یہ حیلہ کیا جاتا ہے کہ رقم مدرسے کے بچوں کے نام کر کے ارباب مدارس کو انکا کفیل بنا دیا جاتا ہے اور اس الزام کو لیکر خوب دھول اڑائ جاتی ہے کہ دیکھو ان مولوی لوگوں نے اپنے مالی مفاد کیلئے دین کو بدل دیا ......
اس سے پہلے کہ اس غلط فہمی کی تصحیح ہو عجیب لطیفہ یہ بیان کر دیا جاوے کہ پھبتی کسنے والے مصارف زکوٰۃ میں ان امور کو بھی شامل کر دیتے ہیں جنکا کوئی تعلق بھی زکوٰۃ کی مدوں سے نہیں ہوتا ......
پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ مصارف زکوٰۃ ہیں کیا .
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِيْلِط فَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِط وَاﷲُ عَلِيْمٌ حَکِيْمٌo (التوبة، 9 : 60)
’’بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے‘‘۔
یہ زکوٰۃ کے معلوم و منصوص مصارف ہیں
اب غامدی لطائف ملاحظہ کیجئے
''ریاست اگر چاہے تو حالات کی رعایت سے کسی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی اور جن چیزوں سے زکوٰۃ وصول کرے، ان کے لیے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی وضع کرسکتی ہے۔'' (میزان 351:)
یعنی یہاں ریاست کو شریعت میں مداخلت کا کھلا حق دیا جا رہا ہے اور چونکہ موصوف کے نزدیک موجودہ جدید ریاستیں بھی اسلامی ریاستیں ہیں بلکہ جناب نے اسلامی و غیر اسلامی ریاست کی تخصیص ہی نہیں فرمائی اسلئے کھلی چھٹی جو چاہے کیجئے .....
پھر یہاں پر مزید نکتہ آفرینیاں فرماتے ہیں
اس آیت میں جو مصارف بیان کیے گئے ہیں، اُن کی تفصیل یہ ہے :
فقرا ومساکین کے لیے ۔
'العاملین علیھا' ، یعنی ریاست کے تمام ملازمین کی خدمات کے معاوضے میں ۔
'المؤلفة قلوبھم' ، یعنی اسلام اور مسلمانوں کے مفادمیں تمام سیاسی اخراجات کے لیے ۔
'فی الرقاب' ، یعنی ہر قسم کی غلامی سے نجات کے لیے ۔
'الغارمین' ، یعنی کسی نقصان ، تاوان یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے۔
'فی سبیل الله' ، یعنی دین کی خدمت اورلوگوں کی بہبود کے کاموں میں ۔
'ابن السبیل' ، یعنی مسافروں کی مد داوراُن کے لیے سڑکوں ، پلوں ، سراؤں وغیرہ کی تعمیر کے لیے۔
... زکوٰۃ کے مصارف پر تملیک ذاتی کی جو شرط ہمارے فقہانے عائد کی ہے ، اُس کے لیے کوئی ماخذ قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے ، اِس وجہ سے زکوٰۃ جس طرح فرد کے ہاتھ میں دی جا سکتی، اُسی طرح اُس کی بہبود کے کاموں میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے ۔'' (میزان 351۔352)
اس سے قطع نظر کہ یہ موشگافیاں اسلام کی تعلیمات کے کتنے خلاف ہیں مدارس اور اہل مدارس پر پھبتی کسنا کہاں کا انصاف ہے ......
مدارس معلوم دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز ہیں جہاں دینی طالب علموں کو علم ، لباس ، غذاء ، تربیت و رہائش کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جن میں کوئی ریاستی پیسہ شامل نہیں ہوتا اور یہ تمام مدات ان جدت پسندوں کے اصولوں کے بھی مطابق ہیں لیکن پھر بھی پھبتیاں کسنا خبث باطن نہیں تو اور کیا ہے ...
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہِ سیاہ میں ہے
اب ذرا علمی دلائل پر غور کیجئے
اس وقت ریاست اسلامی کا وجود نہیں اور دینداروں کی اکثریت ریاستی اداروں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں سو " مدارس " کی حیثیت وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا کی ہے جو لوگوں سے اموال زکوٰۃ جمع کرنے کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں سو اپنے مصارف پر اسکا استعمال انکا حق دکھائی دیتا .....
ریاست کو یہ اختیار اس وقت ہی حاصل ہو سکتا ہے جب وہ اسلامی ہو ....
دینی مدارس کوزکوٰۃ کی ادائیگی
دینی مدارس کی حیثیت دراصل دین کے مضبوط قلعوں اور الحاد ودہریت کے سمندر میں محفوظ جزیروں کی ہے، مسلمانوں کے سیاسی زوال اور اس کے بعد سے اسلام کومٹانے کی پیہم کوششوں کے باوجود ہمارے ملک میں اسلام کا محفوظ رہنا بلکہ یہاں کی مذہبی حالت کا عالمِ اسلام سے بھی بہتر ہونا بڑی حد تک ان ہی مدارس کا فیض ہے، اللہ تعالیٰ اس نظام کوجاری وساری رکھے، اسلام نے زکوٰۃ کے جومصارف بتائے ہیں ان پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کا مقصد صرف غرباء اور مستحقین کی مدد ہی نہیں ہے؛ بلکہ اسلام کا تحفظ بھی ہے؛ چنانچہ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (التوبۃ:۶۰) سے اکثر فقہاء کے نزدیک مجاہدین کی مدد مراد ہے جواسلامی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور مُؤلِّفَۃِ الْقُلُوْب سےنومسلموں یاان غیرمسلموں کا تعاون مراد ہے، جن سے شرکا اندیشہ ہو، ظاہر ہے زکوٰۃ کے یہ دونوں مصارف اسلام کی حفاظت ہی کا ایک حصہ ہیں، تعلیمی اداروں کی اور اہلِ علم کی مدد بھی دراصل دین ہی کی مدد کا ایک حصہ ہے۔
(جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۴)
وصولی زکوٰۃ میں نظماءِ مدارس کی حیثیت
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہندوپاک میں دینی مدارس کا ایک غیرمعمولی نظام قائم ہے اور اس خطہ میں اسلام کا بقاء اور مسلمانوں کا دینی وملی وجود اسی نظام کا رہینِ منت ہے، یہ نظم کسی مستقل سرکاری یاغیرسرکاری امداد پرمبنی نہیں ہے؛ بلکہ عام مسلمانوں کی اعانتوں اور نصرتوں سے ان اخراجات کی تکمیل ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ ان اعانتوں کا بڑا حصہ زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ کی رقم ہے، مدارس کے نظماء وسفرا زکوٰۃ وصول کرتے ہیں؛ پھرمدرسہ ان کوطلبہ کے اخراجات پرخرچ کرتا ہے؛ اس سلسلے میں بہتر ہے کہ نظماءِ مدارس کوطلبہ اور زکوٰۃ دہندگان دونوں کا وکیل تصور کیا جائے، طلبہ کا وکیل ہونے کی وجہ سے اس کے زکوٰۃ وصول کرتے ہی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور زکوٰۃ دہندگان کے وکیل ہونے کی حیثیت سے ان پریہ پابندی ہوگی کہ اس رقم کومصارفِ زکوٰۃ ہی میں صرف کریں، آج کل دینی درسگاہوں میں پرشکوہ تعمیرات اور دوسری زوائد وتحسینیات پرکثیر صرفہ کاجورحجان پیدا ہوگیا ہے، ان میں زکوٰۃ کی رقم صرف نہ کی جائے کہ ان مدات میں توخود زکوٰۃ دہندگان بھی اپنی رقم خرچ نہیں کرسکتے، علماء ہند میں بعضوں نے نظماء کوطلبہ کا، بعضوں نے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کا اور بعضوں نے دونوں کا وکیل تسلیم کیا ہے، اس عاجز کا خیال ہے کہ یہی تیسری رائے زیادہ صحیح، قرینِ صواب اور مبنی براحتیاط ہے۔
(جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۶)
یہاں ایک اور دینی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا کفیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس کی کفالت کر رہا ہے اسکے اموال میں سے کچھ استعمال کر لے ....
یہاں قرآنی اصول ملاحظہ کیجئے
وَابْتَلُوا الْيَتَامٰى حَتّٰى إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَإِنْ اٰنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوْهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَّكْبَرُوْاۚ وَمَنْ کَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَنْ کَانَ فَقِيْرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوْا عَلَيْهِمْ ۚ وَکَفٰى بِاللّٰہِ حَسِيْبًا(۶)
اوریتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں صلاحیت (حسن تدبیر) پاؤ توان کے مال ان کے حوالے کردو اوران کا مال نہ کھاؤضرورت سے زیادہ اورجلدی(اس خیال سے)کہ وہ بڑے ہوجائیں گے اورجو غنی ہو وہ (مال یتیم سے)بچتا رہے اورجوحاجت مند ہو وہ دستور کے مطابق کھائے پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کروتوان پر گواہ کرلو اوراللہ کافی ہے حساب لینے والا (۶)
فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ کا کلیہ قرآن نے ہی دیا ہے سو اہل مدارس پر پھبتیاں اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے والے اگر قرآن سنت سے رجوع کریں تو ضرور حق پا جویں مگر وہ جو حق کے متلاشی ہوں ......
فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّـهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿١٢٥﴾ وَهَـٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ : الانعام
حسیب احمد حسیب
اکثر جدت پسند مدارس پر پھبتی کستے ہیں کہ یہ زکوٰۃ کے پیسوں کو مدرسے کے مصارف میں استعمال میں لاتے ہیں جس کیلئے یہ حیلہ کیا جاتا ہے کہ رقم مدرسے کے بچوں کے نام کر کے ارباب مدارس کو انکا کفیل بنا دیا جاتا ہے اور اس الزام کو لیکر خوب دھول اڑائ جاتی ہے کہ دیکھو ان مولوی لوگوں نے اپنے مالی مفاد کیلئے دین کو بدل دیا ......
اس سے پہلے کہ اس غلط فہمی کی تصحیح ہو عجیب لطیفہ یہ بیان کر دیا جاوے کہ پھبتی کسنے والے مصارف زکوٰۃ میں ان امور کو بھی شامل کر دیتے ہیں جنکا کوئی تعلق بھی زکوٰۃ کی مدوں سے نہیں ہوتا ......
پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ مصارف زکوٰۃ ہیں کیا .
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِيْلِط فَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِط وَاﷲُ عَلِيْمٌ حَکِيْمٌo (التوبة، 9 : 60)
’’بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے‘‘۔
یہ زکوٰۃ کے معلوم و منصوص مصارف ہیں
اب غامدی لطائف ملاحظہ کیجئے
''ریاست اگر چاہے تو حالات کی رعایت سے کسی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی اور جن چیزوں سے زکوٰۃ وصول کرے، ان کے لیے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی وضع کرسکتی ہے۔'' (میزان 351:)
یعنی یہاں ریاست کو شریعت میں مداخلت کا کھلا حق دیا جا رہا ہے اور چونکہ موصوف کے نزدیک موجودہ جدید ریاستیں بھی اسلامی ریاستیں ہیں بلکہ جناب نے اسلامی و غیر اسلامی ریاست کی تخصیص ہی نہیں فرمائی اسلئے کھلی چھٹی جو چاہے کیجئے .....
پھر یہاں پر مزید نکتہ آفرینیاں فرماتے ہیں
اس آیت میں جو مصارف بیان کیے گئے ہیں، اُن کی تفصیل یہ ہے :
فقرا ومساکین کے لیے ۔
'العاملین علیھا' ، یعنی ریاست کے تمام ملازمین کی خدمات کے معاوضے میں ۔
'المؤلفة قلوبھم' ، یعنی اسلام اور مسلمانوں کے مفادمیں تمام سیاسی اخراجات کے لیے ۔
'فی الرقاب' ، یعنی ہر قسم کی غلامی سے نجات کے لیے ۔
'الغارمین' ، یعنی کسی نقصان ، تاوان یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے۔
'فی سبیل الله' ، یعنی دین کی خدمت اورلوگوں کی بہبود کے کاموں میں ۔
'ابن السبیل' ، یعنی مسافروں کی مد داوراُن کے لیے سڑکوں ، پلوں ، سراؤں وغیرہ کی تعمیر کے لیے۔
... زکوٰۃ کے مصارف پر تملیک ذاتی کی جو شرط ہمارے فقہانے عائد کی ہے ، اُس کے لیے کوئی ماخذ قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے ، اِس وجہ سے زکوٰۃ جس طرح فرد کے ہاتھ میں دی جا سکتی، اُسی طرح اُس کی بہبود کے کاموں میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے ۔'' (میزان 351۔352)
اس سے قطع نظر کہ یہ موشگافیاں اسلام کی تعلیمات کے کتنے خلاف ہیں مدارس اور اہل مدارس پر پھبتی کسنا کہاں کا انصاف ہے ......
مدارس معلوم دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز ہیں جہاں دینی طالب علموں کو علم ، لباس ، غذاء ، تربیت و رہائش کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جن میں کوئی ریاستی پیسہ شامل نہیں ہوتا اور یہ تمام مدات ان جدت پسندوں کے اصولوں کے بھی مطابق ہیں لیکن پھر بھی پھبتیاں کسنا خبث باطن نہیں تو اور کیا ہے ...
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہِ سیاہ میں ہے
اب ذرا علمی دلائل پر غور کیجئے
اس وقت ریاست اسلامی کا وجود نہیں اور دینداروں کی اکثریت ریاستی اداروں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں سو " مدارس " کی حیثیت وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا کی ہے جو لوگوں سے اموال زکوٰۃ جمع کرنے کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں سو اپنے مصارف پر اسکا استعمال انکا حق دکھائی دیتا .....
ریاست کو یہ اختیار اس وقت ہی حاصل ہو سکتا ہے جب وہ اسلامی ہو ....
دینی مدارس کوزکوٰۃ کی ادائیگی
دینی مدارس کی حیثیت دراصل دین کے مضبوط قلعوں اور الحاد ودہریت کے سمندر میں محفوظ جزیروں کی ہے، مسلمانوں کے سیاسی زوال اور اس کے بعد سے اسلام کومٹانے کی پیہم کوششوں کے باوجود ہمارے ملک میں اسلام کا محفوظ رہنا بلکہ یہاں کی مذہبی حالت کا عالمِ اسلام سے بھی بہتر ہونا بڑی حد تک ان ہی مدارس کا فیض ہے، اللہ تعالیٰ اس نظام کوجاری وساری رکھے، اسلام نے زکوٰۃ کے جومصارف بتائے ہیں ان پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کا مقصد صرف غرباء اور مستحقین کی مدد ہی نہیں ہے؛ بلکہ اسلام کا تحفظ بھی ہے؛ چنانچہ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (التوبۃ:۶۰) سے اکثر فقہاء کے نزدیک مجاہدین کی مدد مراد ہے جواسلامی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور مُؤلِّفَۃِ الْقُلُوْب سےنومسلموں یاان غیرمسلموں کا تعاون مراد ہے، جن سے شرکا اندیشہ ہو، ظاہر ہے زکوٰۃ کے یہ دونوں مصارف اسلام کی حفاظت ہی کا ایک حصہ ہیں، تعلیمی اداروں کی اور اہلِ علم کی مدد بھی دراصل دین ہی کی مدد کا ایک حصہ ہے۔
(جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۴)
وصولی زکوٰۃ میں نظماءِ مدارس کی حیثیت
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہندوپاک میں دینی مدارس کا ایک غیرمعمولی نظام قائم ہے اور اس خطہ میں اسلام کا بقاء اور مسلمانوں کا دینی وملی وجود اسی نظام کا رہینِ منت ہے، یہ نظم کسی مستقل سرکاری یاغیرسرکاری امداد پرمبنی نہیں ہے؛ بلکہ عام مسلمانوں کی اعانتوں اور نصرتوں سے ان اخراجات کی تکمیل ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ ان اعانتوں کا بڑا حصہ زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ کی رقم ہے، مدارس کے نظماء وسفرا زکوٰۃ وصول کرتے ہیں؛ پھرمدرسہ ان کوطلبہ کے اخراجات پرخرچ کرتا ہے؛ اس سلسلے میں بہتر ہے کہ نظماءِ مدارس کوطلبہ اور زکوٰۃ دہندگان دونوں کا وکیل تصور کیا جائے، طلبہ کا وکیل ہونے کی وجہ سے اس کے زکوٰۃ وصول کرتے ہی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور زکوٰۃ دہندگان کے وکیل ہونے کی حیثیت سے ان پریہ پابندی ہوگی کہ اس رقم کومصارفِ زکوٰۃ ہی میں صرف کریں، آج کل دینی درسگاہوں میں پرشکوہ تعمیرات اور دوسری زوائد وتحسینیات پرکثیر صرفہ کاجورحجان پیدا ہوگیا ہے، ان میں زکوٰۃ کی رقم صرف نہ کی جائے کہ ان مدات میں توخود زکوٰۃ دہندگان بھی اپنی رقم خرچ نہیں کرسکتے، علماء ہند میں بعضوں نے نظماء کوطلبہ کا، بعضوں نے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کا اور بعضوں نے دونوں کا وکیل تسلیم کیا ہے، اس عاجز کا خیال ہے کہ یہی تیسری رائے زیادہ صحیح، قرینِ صواب اور مبنی براحتیاط ہے۔
(جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۶)
یہاں ایک اور دینی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا کفیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس کی کفالت کر رہا ہے اسکے اموال میں سے کچھ استعمال کر لے ....
یہاں قرآنی اصول ملاحظہ کیجئے
وَابْتَلُوا الْيَتَامٰى حَتّٰى إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَإِنْ اٰنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوْهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَّكْبَرُوْاۚ وَمَنْ کَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَنْ کَانَ فَقِيْرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوْا عَلَيْهِمْ ۚ وَکَفٰى بِاللّٰہِ حَسِيْبًا(۶)
اوریتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں صلاحیت (حسن تدبیر) پاؤ توان کے مال ان کے حوالے کردو اوران کا مال نہ کھاؤضرورت سے زیادہ اورجلدی(اس خیال سے)کہ وہ بڑے ہوجائیں گے اورجو غنی ہو وہ (مال یتیم سے)بچتا رہے اورجوحاجت مند ہو وہ دستور کے مطابق کھائے پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کروتوان پر گواہ کرلو اوراللہ کافی ہے حساب لینے والا (۶)
فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ کا کلیہ قرآن نے ہی دیا ہے سو اہل مدارس پر پھبتیاں اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے والے اگر قرآن سنت سے رجوع کریں تو ضرور حق پا جویں مگر وہ جو حق کے متلاشی ہوں ......
فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّـهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿١٢٥﴾ وَهَـٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ : الانعام
حسیب احمد حسیب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں