اتوار، 1 جون، 2014

مرحوم بیگ صاحب

مرحوم بیگ صاحب !


بیگ صاحب مرحوم سے پرانا تعلق تھا بلکہ یوں کہیے وہ ہمارے گھر کا ایک جزو لازم تھے ہماری بیگم اگر دنیا میں کسی سے ڈرتی تھیں تو وہ بیگ صاحب ہی تھے بلکہ یوں کہیے جتنا ڈر ہمیں اپنی بیگم کا ہے اس سے زیادہ ہماری بیگم بیگ صاحب سےخوف کھاتی تھیں .....

بیگ صاحب بڑی پہنچ والے تھے گھر کا کچن ہو یا واشروم چھت ہو یا چمکتا ہوا فرش لکڑی کی الماری ہو یا شیشے کی میز بیگ صاحب ہر جگہ پہنچ جاتے تھے ایک دن تو مرحوم دادا جان کی شلوار سے بر آمد ہوے .....
اررر ے کسی غلط فہمی کا شکار مت ہوں بات ہو رہی ہے مرحوم لال بیگ صاحب کی جنھیں عرف عام میں کاکروچ کہا جاتا .......

حضرت کو شہید کرنے کی کئی تدبیریں کی گئیں طرح طرح کے منجن آزماۓ گۓ ہر روز کوئی نئی دوا ڈالی جا رہی ہے بعض دوائیں تو اتنی زہر آلود تھیں کہ گھر کے باقی لوگ قریب المرگ ہو گۓ لیکن مجال ہے جو بیگ صاحب کو کچھ ہوا ہو اور تو اور بے گم کی جھڑکیوں اور کوسنوں کا بھی موصوف پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا .......

دادا جی نے اپنی لاٹھی کے جوہر دکھانے کی کوشش کی ہماری پشاوری چپل اسی چکر میں ٹوٹی بیگم نے جھاڑو آزمائی ماسی نے گرم گرم پانی پھینک کر قتل کی ناکام کوشش کی لیکن موصوف ناجانے کس مٹی کے بنے ہوے تھے گھر کی بلی ہو یا باہر کا چوہا مرحوم کبھی بھی کسی دشمن کو خاطر میں نہ لاۓ......

خبروں کے بڑے شوقین تھے اکثر اخبار پر ٹہلتے ہوے پاۓ گۓ کیا شان بیان کی جاۓ حضرت کی طویل مونچھوں کی ابھی بھی سوچ کر بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے موصوف کو گرمی میں ٹھنڈی اور سردی میں گرم غذائیں کافی پسند تھیں سردیوں میں گرمی کا مزہ لینے اکثر چولہے کے نیچے سے نکلتے اور گرمیوں میں کئی مرتبہ فریج میں سے برآمد ہوے ......

موصوف کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ اکثر اپنی ازلی دشمن بی چھپکلی کی نظروں کے سامنے دندناتے ہوے گزر جاتے اور چھپکلی کو جرات تک نہ ہوتی ایک بار بی چھپکلی نے کوشش بھی کی تو حضرت نے آر دلائی .......

ذات دی کوڑھ کِلی، تے شہتیراں نوں جھپے

بیچاری چپکی ہو رہی
ایک بار سپارے والے قاری صاحب کی ریش مبارک میں سے نمودار ہوے اسکے بعد قاری صاحب بھی ہوشیار ہو گۓ انکا خیال تھا بیگ صاحب کی شکل میں کوئی جن ہے جو انپر حملہ اور ہوا تھا اس پڑوس کی ضعیف العتقاد خواتین تو کئی بار برکت کیلئے دعا کروانے بھی آئیں ......

بیگ صاحب کی پہنچ دور تک تھی ایک بار قادری صاحب تقریر کے عین دوران کہیں سے نمودار ہوے اور پوری تقریر انکے شانے پر بیٹھ کر سنی گو قادری صاحب اسکرین کے پیچھے تھے ......
خان صاحب پر مرحوم فدا تھے اکثر انکو ٹی وی پر دیکھ کر جوش میں آ جاتے اسکے اثرات کچھ یوں پڑے کہ گھر میں آنے والے فلمی رسالے انکی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے ......
ایک دن وینا جی کے گمشدہ آنچل میں چھید دیکھ کر ہمیں بڑا غصہ آیا پہلے سوچا یہ بیگم کی کارستانی ہے پھر معلوم کرنے پر معلوم ہوا یہ تو موے لال بیگ کی گھٹیا حرکت ہے ......

موصوف کی وفات کی صحیح وجہ تو معلوم نہ ہوسکی لیکن گمان غالب یہی ہے کہ بسیار خوری کا شکار ہوکر حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی .......

لاش کچن میں رکھے چاکلیٹ کیک سے برآمد ہوئی......

گو بیگم کا خیال تھا بیگ صاحب کے جسد خاکی کو کوڑے کے ڈبے کی زینت بنا دیا جاوے لیکن ہمارا دل نہ مانا اور جناب کو انکی شان کے مطابق فلش میں بہا دیا گیا .......

حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: