بدھ، 29 مئی، 2013

!کیا آئین کے اسلامی ہونے سے ریاست مسلمان ہو جاتی ہے!

  • کیا آئین کے اسلامی ہونے سے ریاست مسلمان ہو جاتی ہے !

  • اگر آئین کے مسلے کو آسان مثال سے سمجھیں تو معاملہ کچھ یوں بنتا ہے ....
    جب ہم شخص واحد کی بات کرتے ہیں تو اسکے لیے آئین کلمہ طیبہ ہے  لَا اِلَہَ اِلّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰہِ "اللّٰہ کو سوا کوئی عبادت کو لائق نہیں، محمد ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اللّٰہ کے رسول ہیں" ہے اب الله کی حاکمیت اور الله کے رسول  صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا قانون تسلیم کر لینے کے بعد اسپر کچھ عبادات لازم ہو جاتی ہیں 
     جیسا کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم  کی روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی  ہے۔
    "بنی الإسلام علی خمس؛ شھادۃ أن لا إلہ إلا اللہ و أن محمدا رسول اللہ، و إقام الصلاۃ و إیتاء الزکاۃ وصوم رمضان وحج البیت"
     اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر  رکھی  گئی ہے:
    ۱۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ  کوئی سچا معبود  نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول  ہیں۔
    ۲۔  نماز قائم   کرنا ۔
    ۳۔ زکاۃ ادا کرنا۔
    ۴۔ ماہ رمضان کا روزہ رکھنا   ۔
    ۵۔ خانۂ کعبہ  کا حج کرنا ۔

    اب یہ شخص ان تمام عبادات کو ترک کر دے بلکہ انپر زور آور ہو جاۓ اور کھلے عام انکی مخالفت کرے تو اسکو طغیان کہیںگے اور یہ باغیانہ عمل اسکے اسلام کو فاسد کر دے گا !

    ایسا ہی معاملہ ریاستوں کا ہے کسی ریاست میں حاکمیت اعلی الله کی اور قانون قرآن و سنت کا ہے لیکن عمل اسکے بر عکس ہے تو کیا حکم لگے گا .......
    اب مسلے کی اور وضاحت کرتے ہیں "جب اشخاص کلمہ پڑھتے ہیں تو انپر عبادات لازم ہو جاتی ہیں اور جب ریاستیں کلمہ پڑھتی ہیں تو انپر حدود لازم ہو جاتی ہیں "
    ڈاکٹر عبدالعزیز عامر نے اپنی تالیف ”التعزیر فی الشریعة الاسلامیہ “میں صرف سات جرائم کو قابل حد قرار دیا ہے ۔ (التعزیرفی الشریعة الاسلامیة۔ ص 13)لیکن جن جرائم کے حدود ہونے پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے وہ سب قرآن پاک سے ثابت ہیں۔
    .1زنا کی حد کا ثبوت سورة النور کی آيت نمبر2میں ہے۔
    .2 تہمت کی حدکا ثبوت سورة النور کی آیت نمبر 4میں ہے۔
    . 3 راہزنی کی حدسورة المائدة کی آیت نمبر 34-33 میں ہے۔
    .4 چوری کی حدسورة المائدة کی آیت نمبر 38 میں ہے۔
    .5 شراب نوشی کی حد سورة المائدة کی آیت نمبر 90 میں ہے۔
    .6 باغی کی حد سورة الحجرات کی آیت نمبر 9 میں ہے۔
    .7مرتد کی حد سورة البقرة کی آیت نمبر 217 میں ہے۔

    حضرت شاہ ولی اللہ  لکھتے ہیں” بعض معاصی کے ارتکاب پر شریعت نے حد مقرر کی ہیں۔ یہ وہی معاصی ہیں جن کے ارتکاب سے زمین پر فساد پھیلتاہے۔ نظامِ  تمدن میں خلل پیدا ہوتا ہے اور مسلم معاشرے کی طمانیت اور سکون ِقلب رخصت ہو جاتاہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ معاصی کچھ اس قسم کی ہوتی ہیں کہ دو چار بار ان کا ارتکاب کرنے سے ان کی لت پڑ جاتی ہے۔ ا ور پھر ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی معاصی میں محض آخرت کے عذاب کا خوف دلانا اور نصیحت کرنا کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ ضروری ہے کہ ایسی عبرتناک سزامقر ر کی جائے کہ اس کا مرتکب ساری زندگی کے ليے معاشرے میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور سوسائٹی کے دیگر افراد کے لیے سامانِ عبرت بنا رہے۔ اور اسکے انجام کو دیکھ کر بہت کم لوگ اس قسم کے جرم کی جرا ت کریں“ ۔
        (حجة اللہ البالغہ ، شاہ ولی اللہ دہلوی۔ ج 2 ص 158 )

    اب ایک ایسا معاشرہ جہاں حدود الله کا نفاذ تو دور کو بات انکی باقاعدہ پامالی ہو رہی ہو اور انکے خلاف قوانین نافذ ہوں جنکو ریاست کی مکمل سپورٹ حاصل ہو تو لاکھ اسلامی آئین کی بات کیجئے ریاست کے کافر ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا !

    اب ریاست پاکستان کو دیکھیں یہاں باقاعدہ سودی نظام رائج ہے فحاشی کے ادارے فلم انڈسٹری کی شکل میں موجود ہیں شرک و بدعات کو باقاعدہ ریاستی سپرستی حاصل ہے حدود ساقط ہیں کفر کی چاکری ہو رہی ہے اور لوگوں کی جانیں اور اموال محفوظ نہیں ان تمام حالات میں آئین کی چند شقیں کیا کسی ریاست کو اسلامی قرار دینے کے لیے کافی ہو سکتی ہیں "

    بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی کے:

    "اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چناںچہ ماوردی نے یہ بات لکھی ہے کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔
    (محاضراتِ شریعت :ص287)"

    اپنے سلسلہ مضامین ’’اسلامی ریاست‘‘ میں اسلام کی سیاسی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب سید ابوالا علیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:

    ’’ (حاکمیت الہٰ کے ) اصل الاصول کی بنا پر قانون سازی کا حق انسان سے سلب کرلیا گیا ہے۔ کیونکہ انسان مخلوق اور رعیت ہے۔ بندہ اور محکوم ہے، اور اس کا کام صرف اس قانون کی پیروی کرنا جو مالک الملک نے بنایا ہو۔ البتہ قانونِ الہٰی کی حدود کے اندر استنباط واجتہاد سے تفصیلات فقہی مرتب کرنے کا معاملہ دوسرا ہے۔ جس کی اجازت ہے۔ نیز جن امور میں اللہ اور اس کے رسول نے کوئی صریح حکم نہ دیا ہو، ان میں روح شریعت اور مزاجِ اسلام کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون بنانے کا حق اہلِ ایمان کو حاصل ہے۔ کیونکہ ایسے امور میں کسی صریح حکم کا نہ ہونا بجائے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ ان کے متعلق ضوابط واحکام مقرر کرنے کا حق اہلِ ایمان کو دے دیا گیا ہے۔ لیکن جو بنیادی بات سامنے رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے قانون کو چھوڑ کر جو شخص یا ادارہ خود کوئی قانون بناتا ہے یا کسی دوسرے کے بنائے ہوئے قانون کو (برحق) تسلیم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ طاغوت وباغی اور خارج ازاطاعتِ حق ہے اور اس سے فیصلہ چاہنے والا اور اس کے فیصلہ پر عمل کرنے والا بھی بغاوت کا مجرم ہے۔"

    جب تک دین کسی کے بدن میں اتر کر اسکے اعمال کو اپنے مطابق نہیں بنا لیتا "اسلامی " کا لاحقہ اسکے نام کے ساتھ لگا دینا  اسکو کوئی نفع نہیں پھنچا سکتا  !

کوئی تبصرے نہیں: