منگل، 5 جنوری، 2016

مولانا عبید الله سندھی ایک تعارف

مولانا عبید الله سندھی ایک تعارف
مولانا عبید الله سندھی ایک تعارف

مولانا سندھی رح کی داستان زندگی کسی الف لیلیٰ سے کم نہیں ہے انکے کمالات بے شمار ہیں اور انکی شخصیت طلسماتی ٢٨ مارچ ١٩٧٢ کو ایک سکھ گھرانے میں جنم لیا لیکن ہدایت آپ کے نصیب میں رب کائنات نے لکھ رکھی تھی اور ایک سکھ بچے سے دین اسلام کی ایک بڑی خدمت کا لیا جانا مقدر ہو چکا تھا..مڈل کی تعلیم کے دوران مولانا عبید الله پائلی کی کتاب " تحفتہ الہند " پڑھی اور انکے کے قلب میں ایمان کی شمع روشن ہوئی رہی سہی کثر شاہ اسمعیل شہید رح " کی تقویت الایمان " نے پوری کردی ..
آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام اس کتاب کے مولف کے نام پر رکھنا مناسب سمجھا کہ جن کی کتاب پڑھ کر آپ کے دل میں ایمان نے گھر کیا تھا ....مولانا سندھی کی تحریکی زندگی کا اصل رخ اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب دیوبند میں آپ کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن رح کی صحبت حاصل ہوئی ..مولانا سندھی کا شمار تحریک ریشمی رومال کے مجاہدین اول میں سے ہوتا ہے آپ کے ذمے شیخ الہند رح کی جانب سے محاز افغانستان لگایا گیا تھا ١٩١٥ میں آپ شیخ الہند رح کے کہنے پر ہجرت کرکے افغانستان چلے گئے امیر امان الله خان کو انگریزوں کے خلاف جہاد کیلیے تیار کرنے کا سہرا مولانا سندھی رح کے سر ہے .......افغانستان سے آپ نے روس نقل مکانی کی اور پھر وہاں سے ترکی کی جانب مسافرت اختیار کی ........

مولانا سندھی رح کی عظیم ترین خدمات میں سے

١. جہاد افغانستان کی آبیاری .

٢. جمیعت الانصار کا قیام .

٣.علوم قرآنی کی ترویج

٤. فکر ولی الہی کا احیاء
شامل ہیں

مولانا سندھی کے تلامذہ میں موسیٰ جار الله اور مولانا احمد علی لاہوری رح جیسی عظیم شخصیات کا نام شامل ہے ....... ٢٢ اگست ١٩٤٤ کو آپ نے دین پور میں رحلت فرمائی اور آپ کا جسد خاکی وہیں مدفون ہے .. ) حوالہ : اکابر علماء دیوبند رح ، ١٢٧/١٢٦، ادارہ اسلامیات لاہور ، حافظ محمد اکبر شاہ بخاری .(
مولانا کی تفسیر " الہام الرحمان " کا منہج اصلی ..
مولانا سندھی رح فرماتے ہیں " قرآنی معارف و مطالب میں مجھے شاہ ولی الله دھلوی رح کے علاوہ کسی اور حکیم کے افکار سے مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑی -
میں نے قرآن سے جو کچھ اخذ کیا ہے اور جو بھی معانی مضامین قرآن سے مستنبط کیے ہیں مجھے انکی تعین اور تائید کیلیے شاہ صاحب کی حکمت سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی .
((شاہ ولی الله اور انکا فلسفہ ، مولانا سندھی ، ٢٢ ))

گو کہ مولانا سندھی رح کی " الہام الرحمان " مکمل تفسیر نہیں اور یہ سورہ فاتحہ سے سورہ بقرہ تک کل ٣٢٠ صفحات پر محیط ہے لیکن اس کے کمالات بے شمار ہیں ..

١. تفسیر کا اسلوب اہل علم کے معیار کے مطابق ہے .

٢. تصوف کا رنگ واضح دکھائی دیتا ہے .

٣. ربط آیات کا خاص خیال رکھا گیا ہے

٤.تقابل ادیان کے حوالے سے کچھ مباحث ملتے ہیں

٥.اصول ولی الہی اپنی پوری شان کے ساتھ نمایاں ہے .

مولانا سندھی رح کی تفسیر پر تنقید ..

حیات مسیح علیہ سلام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے اور یہ قرآن و سنت کی براہ راست تعلیمات سے مستنبط ہے لیکن مولانا سندھی رح کی اس تفسیر میں اس حوالے سے مختلف نکات ملتے ہیں کہ جنکی وجہ سے انپر تنقید بھی ہوتی رہی ہے اور " احمدی " گروہ اس سے اپنے موقف کی تائید میں استدلال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.
مولانا سندھی اور نزول مسیح کے حوالے سے ایک تحقیق :-
حضرت صوفی عبد الحمید خان سواتی ؒ لکھتے ہیں کہ:
’’مولانا عبید اللہ سندھی کی طرف منسوب اکثر تحریریں وہ ہیں وہ ہیں جو املائی شکل میں ان کے تلامذہ نے جمع کی ہیں ۔مولانا کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریرات اور بعض کتب نہایت دقیق و عمیق اور فکر انگیز ہیں اور وہ مستند بھی ہیں۔لیکن املائی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔اور بعض باتیں ان میں غلط بھی ہیں جن کو ہم املا کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں مولانا کی طرف ان کی نسبت درست نہ ہوگی‘‘۔

(مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص ۷۸)

حضرت سواتی ؒ مزید لکھتے ہیں کہ:
’’پوری کتاب من و عن مولانا سندھی ؒ کی طرف منسوب کرنا بڑی زیادتی ہوگی۔ اور اس کو اگر علمی خیانت کہا جائے تو بجا ہوگا کچھ باتیں اس کی مشتبہ اور غلط بھی ہیں جن کے مولانا سندھی ؒ قائل نہیں تھے۔اور نہ وہ باتیں فلسفہ ولی اللہی سے مطابقت رکھتی ہیں‘‘۔(عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص۶۸)
۔حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’حیات مسیح کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو دوسرے علماء دیوبند کا ہے ۔مگر افسوس کہ موسی جار اللہ اپنی بات مولانا سندھی کے نام سے کہہ کر لوگوں کو مغالطہ دے رہا ہے ۔مولانا سندھی کے نظریات و عقائد وہی ہیں جو میں نے حاشیہ قرآن میں لکھ دئے ہیں‘‘۔

(خدام الدین کا احمد علی لاہوری ؒ نمبر :ص ۲۰۶)

اس حاشیہ تفسیر کا کیا مقام ہے علامہ خالد محمود صاحب کی زبانی سنئے :

’’مولانا احمد علی صاحب ؒ نے حضرت شاہ ولی اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی کی تعلیمات کی روشنی میں قرآن پاک کا ایک مختصر اور جامع حاشیہ تحریر فرمایا آپ نے اس میں سورت سورت اور رکوع رکوع کے عنوان خلاصے اور مقاصد نہایت ایجاز اور سادہ زبان میں ترتیب دئے جہاں جہاں مضمون ایک موضوع پر جمع دکھائے دئے ان کو موضوع دار اور طویل اور مفصل فہرست اپنے حاشیہ قرآن سے بطور مقدمہ شامل فرمائی عصری تقاضہ تھا کہ اختلاف سے ہر ممکن پرہیز کیا جائے اس لئے آپ نے ترجمہ قرآن پر ہر مسلک کے علماء کی تائید حاصل کی آپ کی پوری کوشش تھی کہ قرآن پاک کا ایک مجموعہ حاصل قوم کے سامنے رکھ سکیں۔ آپ جب یہ مسودے تیار کرچکے تو انہیں لیکر دیوبند پہنچے۔دیوبند میں ان دنوں محدث کبیر حضرت مولانا سید انور شاہ شیخ التفسیر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اورشیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا دور دورہ تھا۔آپ نے یہ سب مسودات ان حضرات کے سامنے رکھ دئے اور بتایا کہ انہوں نے یہ قرآنی محنت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کی تعلیمات کی روشنی میں سر انجام دی ہے مولانا سندھی ؒ پرچونکہ سیاسی افکار غالب تھے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ خالص دینی نقطہ نظر سے بھی اس قرآنی خدمت کا جائزہ لیا جائے اگر اکابر دیوبنداس کی تصدیق فرمادیں تو وہ اسے شائع کردیں گے وگرنہ وہ یہ مسودات یہی چھو ڑ جائیں گے پھر ان کی انہیں کوئی حاجت نہیں ہوگی۔
اکابر نے ان کی تصدیق کی اور حضرت شیخ التفسیر مرکز دیوبند سے تصدیق لے کر لاہور واپس ہوئے اس ترجمے اور تحشئے کی نہ صرف اشاعت کی بلکہ درس و تدریس میں بھی قرآن کریم کا ذوق ہزاروں مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتاردیا‘‘۔

(خدام الدین کاشیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری نمبر :ص ۲۰۶)

حیات عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت سندھی ؒ کی اپنی تصریح:
’’فائدہ دوم!امام ولی اللہ وہلوی ؒ ’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالی نے بذیعہ الہام سمجھایا ہے کہ تجھ پر دو جامع اسموں کا نور منعکس ہوا ہے ۔اسم مصطفوی اور اسم عیسوی علیہما الصلوت والتسلیمات تو عنقریب کمال کے افق کا سردا ربن جائے گا اور قرب الٰہی کی اقلیم پر حاوی ہوجائے گا ۔تیرے بعد کوئی مقرب الٰہی ایسا نہیں ہوسکتا جسکی ظاہری و باطنی تربیت میں تیرا ہاتھ نہ ہو۔یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں‘‘۔

(رسالہ عبیدیہ اردو ترجمہ محمودیہ:ص۲۷)

یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے واضح طور پر نزول عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ لکھایہ تالیف ان کے آخری ایام ۱۳۳۹ھ کی ہے لہٰذا ان کی اپنی اس تحریر کے ہوتے ہوئے کسی غیر معتبر املائی تفسیر کی کوئی حیثیت نہیں۔


تمام شد

تحقیق و تدوین : حسیب احمد حسیب
 

کوئی تبصرے نہیں: