جمعہ، 7 جولائی، 2017

رویت ہلال اور وحدت امت ...!

چورنگی نامہ

رویت ہلال اور وحدت امت ...!
ہر گزرتے دور کے ساتھ امت میں ایسی بدعات کا ظہور ہوتا ہے کہ جس سے پچھلے لوگ (سلف) ناواقف تھے ایسی ہی ایک بدعت رمضان و عیدین کو وحدت امت کا مظہر سمجھنا ہے ہمیں خلافت راشدہ کہ جو لاکھوں مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی اور اسکے بعد اموی عباسی اور عثمانی خلافتوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ رمضان و عیدین ایک ہی دن کیے جاتے ہوں بلکہ معاملہ اسکے برعکث دکھائی دیتا ہے
"عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ، بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ، فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: " لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ، أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ فَقَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "
(صحیح مسلم : ۱/۳۴۷، طبع دہلی)
کریب سے روایت ہے کہ ام الفضل بنت الحارث نے ان کو معاویہ رض کے پاس شام بھیجا وہ کہتے ہیں میں شام گیا اور میں نے ان کا کام پورا کیا میں شام ہی میں تھا کہ رمضان شروع ہوگیا میں نے وہاں چاند جمعہ کی رات میں دیکھا اور پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا ابن عباس رض نے مجھ سے احوال پوچھے پھر پوچھا کہ تم لوگوں نے ہلال کب دیکھا .. ؟ میں نے بتایا کہ جمعہ کی رات میں انہوں نے پوچھا کیا تم نے خود دیکھا .. ؟ میں نے کہا ہاں ، اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا ان لوگوں نے روزہ رکھا اور معاویہ رض نے روزہ رکھا ، ابن عباس رض نے کہا مگر ہم لوگوں نے چاند سنیچر کی رات دیکھا اس لئے ہم لوگ روزہ رکھیں گے ، یہاں تک کہ تیس دن پورے کرلیں ، کریب نے کہا کیا آپ معاویہ کی رویت اور ان کے صیام کا اعتبار نہیں کریں گے ؟ تو انہوں نے کہا نہیں ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے ۔
یہ حضرت معاویہ رض کا دور حکومت تھا اور ایک ہی خلافت میں رمضان اور عیدین مختلف ہوئے اور نہ تو اس سے وحدت امت کو خطرہ ہوا اور نہ ہی حکومتی رٹ چیلنج ہوئی اور نہ ہی ابن عباس رض کو اریسٹ کیا گیا ..
درحقیقت وحدت امت کی علامت توحید الہی رسالت محمدی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن کریم سیرت رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نفاذ شریعت ہے ناکہ چاند و عیدین..
دوسری جانب قومی و وطنی ریاستوں میں ایسے معیارات کا سوال ہی بے جا ہے اگر کوئی گروہ اپنی سمجھ اور فکر کے اعتبار سے اپنی عبادات کرنا چاہے تو آئینی طور پر انہیں پوری آزادی ہے جب آپ بوہری اور اسماعیلی گروہوں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنا رمضان اور اپنی عیدین الگ کریں تو آئینی طور پر کسی بھی دوسری مذہبی اکائی سے اس حق کو چھیننے کا آپ کو کوئی اختیار نہیں یاد رہے کہ ریاست کی نگاہ میں شیعہ مکتب فکر کے تمام فرقے بوہری آغاخانی اور اثنا عشری یکساں مسلمان ہیں ..
بنیادی طور پر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس بات سے بھی انکار نہیں کہ اس حوالے سے ریاست کا موقف ہی درست ہے مگر ایک جمہوری ریاست میں جو حق دوسرے گروہوں کو حاصل ہے وہی پوپلزئی اور انکے متعلقین کو بھی ہے.
حسیب احمد حسیب

کوئی تبصرے نہیں: