پیر، 30 دسمبر، 2013

باقی ہے کلیسا کا بھرم شیخ کے دم سے!

غزل 

ہاتھوں میں بغاوت کی ہے تلوار سلامت 
اب کیسے رہے گا  کوئی سرکار سلامت

میخانےسےمقتل سے کلیسا سےحرم سے 
ہم  بچ  کے  نکل  آے  ہیں  ہر بار سلامت

ایمان کی طاقت سے بچا  پاۓ ہیں اب تک 
رندوں کی محافل میں بھی کر دار سلامت 

یہ عشق کا سرطان ہے پھیلے گا بدن میں 
مشکل ہے کہ رہ پاۓ  گا  بیمار  سلامت

چھوٹی سی غلط فہمی پے دیوار  اٹھا  کر 
رکھا ہے میرے دوست نے پندار سلامت

روشن ہیں ستاروںکی طرح اب بھی فلک پر
ہر  صاحب  وجدان  کے   افکار    سلامت

ٹوٹا  ہے  میری  قوم کا  مسجد  سے تعلق
سجدوں سےچڑھاووں سےہیں دربارسلامت

بزدل ہے میری قوم  اسی جرم کے صدقے
سردار  کی   سالار  کی   دستار  سلامت    
   
باقی  ہے کلیسا کا بھرم شیخ کے دم  سے
میخانہ  یورپ  کا  ہے   بازار    سلامت

حسیب احمد حسیب   

کوئی تبصرے نہیں: