اتوار، 29 نومبر، 2015

گندی عورت ........ !

گندی عورت ........ !

وہ گندی عورت نہیں تھی لیکن اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ایک عورت تھی اور عورت ہمیشہ مظلوم ہوتی ہے چاہے وہ مشرق کی روایت میں مقید ہو یا مغرب کی آزادی میں قید جی ہاں یہ قید ہی تو ہے کہ جو چار دیواری میں سکون سے رہنے کو جرم ہی بنا دے کیا ہوا کہ کوئی شہزادی بن کر گھر کی پرسکون فضاء میں آرام کے چند سانس لےسکے اور کیوں اسے مجبور کیا جاوے کہ وہ سڑکوں کی خاک چھانے .....

اسے یاد تھا
کچھ کچھ تھوڑا تھوڑا

گرجے کی دیواروں سے اٹھتا ہوا الوہی نغمہ اور وہ خود سفید لباس میں ملبوس جیسے آسمان سے کوئی حور زمین پر اتر آئی ہو اور اس کے لبوں پر جاری بائبل کی مقدس آیات بس یہی واحد یاد تھی اسکی اپنے رب سے تعلق کی ........

پھر وہی افرا تفری تیز سے تیز تر ہوتی ہوئی زندگی کہ جس کا ساتھ دیتے دیتے سانسیں مدھم پڑنا شروع ہو جائیں اور موت کی آہٹ قریب محسوس ہونے لگے ........

باپ کی موت اور ماں کا کم عمری میں ہی اسے اپنے کسی یار کیلیے چھوڑ جانا کیا کرتی کہاں جاتی اور پھر اس کی ابھرتی ہوئی جوانی کلی کو پھول بننے میں آخر کتنی دیر لگتی ہے ........

ہاں اس کا اثاثہ اور کیا تھا اس کا خوبصورت سانچے میں ڈھلا ہوا بدن حالات کے بے رحم ہاتھوں نے اسے ایک " گندی عورت " بنا دیا تھا ایک سٹرپر جس کا کام شراب خانے میں آنے والوں کو اپنی بے لباسی سے محظوظ کرنا ہی تو تھا ہاں کبھی کبھی وہ نیند میں سے جاگ اٹھتی وہ خواب جس میں وہ سفید لبادہ پہنے چرچ کی روحانی فضاء میں بائبل کی مقدس آیات پڑھ رہی ہوتی لیکن یہ خوبصورت یاد اب اسکیلئے ایک بھیانک خواب ہی تو تھی کہ جس سے وہ پیچھا چھڑانا چاہتی تھی ........

اے میرے مالک کب تک آخر کب تک اس غلاظت میں پڑے رہنا میرا مقدر ہے .........

پھر ایک دن کچھ عجیب ہوا گو کہ سورج اسی طرح نکلا اور غروب ہوا تھا چاند کی رنگت ویسی ہی تھی رات کی سیاہی ویسی ہی تو تھی لیکن وہ کون لوگ تھے بڑی بڑی داڑھیوں والے ڈھیلے ڈھالے سفید چمکتے ہوے پاکیزہ لبادوں میں ملبوس جیسے حضرت مسیح کے مقدس حواری بائبل کے صفحات سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں سامنے آن کھڑے ہوں ہر کوئی مبہوت تھا بے لباس سٹرپرز قریب پڑی میزوں سے چادریں کھینچ کر اپنے ننگے بدن چھپا رہی تھیں یہ کون لوگ تھے کہ جن کے آتے ہی حیاء بھی کہیں سے باہر نکل آئی تھی جو شاید کتنی ہی صدیوں سے انکے اندر کہیں دفن تھی یہ کون لوگ تھے کہ جنکی آمد سے مردے زندہ ہو رہے تھا ........

اور پھر ان میں سے ایک شخصیت آگے بڑھی اور اس نے الله کی شان بیان کرنا شروع کی الفاظ کا دریا ایسا کہ بہتا ہوا سیدھا دل کے سمندر میں گرتا چلا جا رہا تھا اور بہاؤ ایسا کہ کوئی رکاوٹ رکاوٹ نہ رہے یہ کیسا عجیب معاملہ تھا کہ پہلی بار دل کی سیاہی دھلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی قلب کے مندر میں لگے بت گرتے چلے جا رہے تھے اور لگتا تھا کہ جیسے کوئی مقدس زمین ہو جو کہیں کسی بنجر خطے کے اندر دبی پڑی ہو ہر طرف نور ہی نور تھا اور کانوں میں صرف ایک آواز

الله اکبر الله اکبر ..........

لگتا تھا کہ بہت ہی پرانی بات ہوئی

اور ......

اب تو یہ سیاہ لبادہ اسے اپنے جسم کا حصہ ہی محسوس ہوتا تھا اس کی ٹھنڈک ایسی کہ جیسے روح تک اتر جاوے اس سیاہ لبادے میں ملبوس وہ خود کو ایسا تصور کرتی کہ جیسے کعبے کی مقدس دیواروں سے سیاہ غلاف لپٹا ہوا ہو وہ عریاں جسم کہ جو کبھی لباس کا عادی ہی نہ تھا آج کسی انجانے کی نگاہ کے سامنے آنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا یہ کیسی تبدیلی تھی کہ ایک الله والے کی نگاہ پڑی اور کایا کلپ ہوئی آج بس میں سفر کرتے ہوے اس کے ہاتھ سے اچانک چادر ہٹ گئی ایسا محسوس ہوا کہ گویا آسمان سر پر گر پڑا ہو اور دنیا اندھیر ہو گئی ہو گھر آکر روتی رہی روتی رہی شوہر پریشان تھا کہ آخر ہوا کیا ہے اور اس کے منہ سے نکلتا مولانا مولانا .......

اور جب وہ مولانا سے پوچھ رہی تھی .........

کیا میرا الله مجھے اس بات پر عذاب تو نہ دے گا کہ میرا ہاتھ ننگا ہو گیا .........

ادھر مولانا روتے جاتے تھے 
ادھر یہ روتی جاتی تھی ..........

نہیں میری بیٹی تجھے کیا عذاب ہوگا

ارے تیری توبہ تو وہ توبہ ہے کہ اگر سب میں بانٹ دی جاوے تو کفایت کرے .......

ایک غامدیہ خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں‌ حاضر ہوتی ہیں اور عرض کرتی ہیں

اے الله کے رسول صل الله علیہ ......... !

مجھ سے گناہ ہو گیا 
مجھ سے گناہ ہو گیا

مجھ پر حد لگائی جائے ......

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سوچ لے کیا کہتی ہے 
سوچ لے کیا کہتی ہے

ابھی نہیں‌، تمھیں‌رجم کر دیا گیا ہے تو بچے کو دودھ کون پلائے گا؟

وہ پھر دوبارہ حاضرِ خدمت ہوئی اور عرض کیا، یا رسول اللہ صل الله علیہ وسلم ! ابن آس نے دودھ پینا چھوڑ دیاہے اور کھانا کھانے لگا ہے،

بچے کے ہاتھ میں‌روٹی کا ٹکڑا تھا .......

دلیل ساتھ لائی تھی

آپ صل الله علیہ وسلم حکم دیتے ہیں

الله کی حدود نافذ کرو 
حد نافذ ہوتی ہے

رجم کرتے ہوئے اس کا خون حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چہرہ پر پڑا تو انھوں‌نے اسے برا کہا

مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «مَهْلًا يَا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ» “ (مسلم: 1695 (23))
"باز رہو اے خالد! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں‌میری جان ہے بے شک اس نے ایسی توبہ کی کہ محصول لینے والا ایسی توبہ کرے تو اسے بخش دیا جائے۔"

مولانا اسے واقعہ سناتے ہیں اور اسے تسلی ہوتی ہے .......

نجانے کتنے سال گزر گئے 
مولانا سے کوئی رابطہ نہ ہوا 
اب تو خولہ اور خنساء بھی بڑی ہو رہی ہیں 
مغرب کے اس گندے ماحول میں اپنی معصوم بچیوں کو دینی زندگی دینا بھی تو ایک جہاد ہے 
بے شک یہ بھی ایک جہاد ہے

ایک روز عبدللہ خولہ اور خنساء کا والد کہیں سے خبر لاتا ہے

ایمان .... ایمان

تم نے سنا مولانا پر مصیبت آن پڑی
لوگ انھیں گمراہ کہ رہے ہیں

یا میرے مالک کیا ہوا 
اس کا دل رک سا گیا 
آخر ہوا کیا بولتے کیوں نہیں .....

خبر آئی ہے کہ مولانا ایک مشہور سیاسی شخصیت سے اس کے گھر کی عورتوں کی موجودگی میں ملے ہیں اور ان کے چہرے کھلے تھے .......

کیا مولانا گمراہ ہو گئے ........

وہ روتی جا رہی ہے 
وہ سوچتی جا رہی ہے

مولانا تو ایک بے لباس گندی عورت سے بھی ملے تھے 
تو کیا مولانا اس وقت بھی گمراہ تھے

تو پھر ایک گمراہ شخص نے ایک گندی عورت کو پاکیزہ کیسے بنا دیا 
وہ سوال پوچھ رہی ہے .......

کیا کسی کے پاس ہے کوئی جواب .......... ؟

حسیب احمد حسیب

میں حسیب ہوں ...

میں حسیب ہوں ...

خودی اور خود بینی " autoscopy " کے درمیان کے باریک سی لکیر ہے جو شعور ذات اور حصار ذات کے درمیان تفریق کرتی ہے کبھی نجانے کس کیفیت میں کہا تھا 

میں خود سے دور نکلنے کے فن سے واقف ہوں 
میں اپنے آپ میں رہتا ہوں ضم نہیں ہوتا

خیام قادری مرحوم کہا کرتے تھے 

صوفی ہیں اور عشق ہے آل سعود سے 
حضرت نکل گئے ہیں حدود و قیود سے 

سو زندگی میں کبھی حدود و قیود کی پابندی نہ کی یا یوں کہیے پابندی ہو نہ سکی 
نسبی تعلق بنی اسرائیل کی بچھڑی ہوئی بھیڑوں سے ہے اجداد نے ہندوستان کی ریاست محمد آباد ٹونک کو اپنی آماجگاہ بنایا کہ جو تیر کابل سے نکلا تھا ہندوستان کی قلب میں پیوست ہوا ......
اختر شیرانی ، مشتاق احمد یوسفی ، عیش ٹونکی اور مفتی ولی حسن خان ٹونکی جیسی علمی و ادبی شخصیات کی ریاست سے تعلق قابل فخر تو ضرور ہے لیکن اگر خود کو دیکھوں تو شرمساری بھی ہوتی ہے کہ میں کہاں کھڑا ہوں ..........

اپنے بارے میں بات کرنا انتہائی آسان بھی ہے اور انتہائی مشکل بھی 
لیکن بات یہ بھی ہے کہ آخر اپنے بارے میں بات کی ہی کیوں جاوے ..؟!

گو کہ تعارف وہ کھڑکی ہے کہ جو بیرونی دنیا کو آپ کے اندر جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے لیکن اندر کا منظر وہی دکھائی دیتا ہے کہ جو آپ انھیں دکھلانا چاہیں ہاں جب تعارف پہچان میں بدل جاوے تو حقیقت سامنے آتی ہے ......

طالب علم ہوں اور طالب علموں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہوں گو کچھ لوگوں کو یہ مغالطہ ضرور ہے کہ " ٹیچر " ہوں لیکن حقیقت میں پھٹیچر ہوں لکھنے کا شوق رکھتا ہوں اسلیے لکھتا ہوں اور اس بات کا طالب نہیں کہ میرے لکھے ہوے کو پڑھا بھی جاوے ہاں اگر کوئی پڑھ لے تو بلکل برا نہیں مانتا ......

لنگڑی لولی شاعری بھی کر لیتا ہوں وہ بھی استاد محترم اعجاز رحمانی صاحب کا ہی اعجاز ہے 

محترم دوست حسن علی امام صاحب فرماتے ہیں 

مولانا عموما گفتگو کم کرتے ہیں زیادہ تر بحث ہی کرتے ہیں اور یہ مباحثے اس وقت زور پکڑ جاتے ہیں جب مخالفین کو یہ احساس ہو جائے کے وہ غلطی پر ہیں - مولانا تقریبا چالیس ہزار کتابیں پڑھ چکے ہیں "

مولانا غصہ بہت کم کرتے ہیں غصے کی جگہ بھی وہ بحث ہی کر لیتے ہیں - 

اب اس مولانا کے الزام سے کون جان چھڑا ئے اور کیسے چھڑا ئے 

کبھی اس حوالے سے بھی کچھ لکھا تھا 

خدا کی قسم میں " مولوی " نہیں ہوں !

اچانک جب بحث کے دوران نازک صورت حال آجاتی ہے اور گفتگو کا رخ تلخی کی جانب بڑھنے کا احتمال ہوتا ہے تو مجھے اندازہ ہو جاتا ہے ......

یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہمارے محترم صحافی دوست جمالی بھائی طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوے ہمیں حسیب میاں سے " مولانا " کر دیتے ہیں اور یقین جانئے ان کے اس " مولانا " میں بڑی کاٹ ہوتی ہے اس کی چبھن اندر تک محسوس ہوتی ہے ......

اور پھر ہمارے شیخ الفدوی کا تنبیہی لہجہ 
اچھا تو آپ بھی مولانا ہیں ہم تو پہلے ہی آپ کی علمیت کے قائل تھے 
مجھے شرم سے پانی پانی کر دینے کیلئے کافی ہوتا ہے

اگر " مولانا " ایک گالی ہے تو بسر و چشم قبول ہے 
لیکن اگر یہ ایک عالی رتبہ ہے اور بےشک ہے تو میں اس کے قابل نہیں .......
کبھی کبھی میں سوچ کر دیر تک ہنستا ہوں عجیب مخمصہ ہے

نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا رہا
نہیں جناب میں مولانا نہیں مجھ سے تو چند سلیس عربی جملے بھی نہ جوڑے جاویں
شیخ الجوجل کی مدد سے ٹوٹی پھوٹی عربی سمجھتا ہوں 
کیا ہوا جو ایم اے اسلامیات کیا ہوا ہے 
کیا تو پرائیویٹ ہی ہے 
اور کیا ہوا جو او لیول کے برگر بچوں کو پڑھاتا ہوں

" قال الله اور قال الرسول " کا بلند مرتبہ تو میری پہنچ سے کافی دور ہے
جب میرے ادبی دوست مجھے مولانا سمجھ کر اپنی توپوں کا رخ میری جانب کرتے ہیں تو سوچتا 
ہوں 
ارے میرے یاروں میں شاعر بھی تو ہوں گو غیر معروف ہی سہی 
کالم نگار بھی تو ہوں گو فیس بکی ہی سہی 
اور افسانے چند بھی لکھ چھوڑے ہیں 
گو کوئی پڑھتا نہیں
نہیں نہیں میں مولانا نہیں 
ہاں میری داڑھی ہے تو یہ تو سنت رسول علیہ سلام کی علامت ہے 
میرے سر پر ٹوپی بھی ہے مگر صرف رواجی ہے 
میرا یہ ملبوس بظاہر مجھے متقی دکھاتا ہے مگر دھوکے میں مت آجانا 
رند ہوں رند
مگر کیا کروں جب کوئی دینی طبقے پر پھبتیاں کسے تو برداشت نہیں ہوتا نجانے کون سی قوت قلم اٹھانے اور قلم سے سروں کو توڑنے پر مجبور کرتی ہے ....
مگر ڈرتا ہوں کہیں کوئی یہ نہ کہ دے 
ارے او ظالم تو کون سا عالم ہے جو اپنی علمیت جھاڑتا ہے گستاخ ........
پھر میرے ادبی دوست مجھے کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں

جمالی بھائی کی طنزیہ مسکراہٹ اور جگر کو چیرتی آواز " مولانا "

اور شیخ الفدوی کے الفاظ " اچھا آپ بھی مولوی ہیں ..........

خدا کی قسم میں " مولانا " نہیں ہوں .

حسیب احمد حسیب