جمعہ، 30 مئی، 2014

چندا ما ما دور کے !

چندا ما ما دور کے !

ہمارے بچپن کی پسندیدہ لوری تھی

چندا ماما دُور کے
پوئے پکائیں بُور کے
آپ کھائیں تھالی میں
مُنّے کو دیں پیالی میں
پیالی گئی ٹوٹ
مُنّا گیا رُوٹھ
لائیں گے نئی پیالیاں
بجا بجا کے تالیاں
مُنے کو منائیں گے
ہم دُودھ بالائی کھائیں گے
اُڑن کھٹولے بیٹھ کے مُنّا
چندا کے گھر جائے گا
تاروں کے سنگ آنکھ مچولی
کھیل کے دل بہلائے گا
کھیل کُود سے جب
میرے مُنّے کا دل بھر جائے گا
ٹھُمک ٹھُمک کر میرا مُنّا
واپس گھر کو آئے گا
چندا ماما دُور کے
پوئے پکائیں بُور کے
آپ کھائیں تھالی میں
مُنّے کو دیں پیالی میں

یہ لوری سن کر ہم ہمیشہ نیند کی وادیوں میں کھو جایا کرتے تھے پھر بچپن گیا لوریاں گئیں اور راتوں کی نیند بھی گئی کہتے ہیں لوری سنانے کی تاریخ ٤٠٠٠ سال پرانی ہے مگر وہ زمانے گۓ جب کانوں میں مامتا بھری میٹھی آوازیں رس گھولتی تھیں

چندا کی نگری سے آجا ری نندیا
تاروں کی نگری سے آ جا .....

اب نہ تو تاروں کی نگری ہے اور نہ ہی چندا کی وادی آجکل راتیں جاگتی ہیں اور دن سوتے .....

چندا ماما اور ہمارا بچپن کا ساتھ ہے یہ تو بڑے ہوکر سمجھ آیا کہ چاند تو ایسی بنجر زمین ہے جسمیں گڑھے ہیں جہاں سانس لینا ممکن نہیں اور جسکی روشنی اپنی نہیں مستعار ہے .....

مگر کیا کیجئے کہ دل تو بچہ ہے جو

" کھیلن کو مانگے چاند رے "

آجکل ماؤں کے چاند چاندنی کے پیچھے دیوانے ہیں اور ہر روز نۓ چاند چڑھاتے ہیں .....

پہلے کی دادیاں بتلاتی تھیں کہ چاند پے پریاں رہتی ہیں جو روز اتر کر آتی ہیں

ان پریوں کی خواہش میں کئی چاندوں کی کھوپڑیوں پر چاند نمودار ہو چکے ہیں

چاند کا اور چودھویں کا پرانا ساتھ ہے وہ کیا خوب کہا ہے شاعر نے

کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تیرا
ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پُوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا

اور اس چودھویں کی رات کو دلاور نے کچھ اسطرح فگار کیا ہے

کل چودھویں کی رات تھی آباد تھاکمرہ ترا
ہوتی رہی دھک دھک دھنا، بجتا رہا طبلہ ترا

شوہر، شناسا، آشنا، ہمسایہ، عاشق، نامہ بر
حاضر تھا تیری بزم میں ہر چاہنے والا ترا

عاشق ہیں جتنے دیدہ ور، تو سب کا منظورِ نظر
نتھا ترا، فجّا ترا، ایرا ترا، غیرا ترا

اک شخص آیا بزم میں، جیسے سپاہی رزم میں
کچھ نے کہا یہ باپ ہے، کچھ نے کہا بیٹا ترا

میں بھی تھا حاضر بزم میں، جب تو نے دیکھا ہی نہیں
میں بھی اٹھا کر چل دیا بالکل نیا جوتا ترا

یہ مال اک ڈاکے میں کل دونوں نے مل کرلوٹا ہے
انصاف اب کہتا ہے یہ، آدھا مرا، آدھا ترا

دلاور فگار

ویسے سنا ہے چاند اور چکور کا بھی پرانا ساتھ ہے مگر ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ چاند گول ہے لیکن جناب کیا کیجئے معاملہ گول مول ہے ....

اکثر عقلمند لوگ پوچھتے ہیں چاند سے زمین کو دیکھنے کیلئے لوگ اوپر دیکھیںگے یا نیچے اور پھر جواب نہ ملنے پر خوشی سے بغلیں بجاتے ہیں .....
ہم کہتے ہیں چاند پر جاکر زمین کو کون گدھا دیکھنا چاہے گا
لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ سمندروں کے مدو جزر میں چاند کی خفیہ سازش کارفرما ہوتی ہے
ہم کہتے ہیں اس چاند ماری کی ضرورت ہی کیا ہے مد ہو یا جزر آپ سے مطلب ....

ہم پکے مسلمان ہیں اور رمضان و عید کے مواقع پر پوری قوم چاند تلاش رہی ہوتی ہے کچھ آسمان کے اور کچھ زمین کے چاند.....
خیر ہو ہمارے رویت ہلال والوں کی جب چاہیں جہاں چاہیں چاند نکال دیں صاحبان کرامت جو ٹھہرے

لیکن ہماری قوم کے نو جوان سپوت بھی کم نہیں محلے کی چھتوں پر اپنے اپنے چاند تلاش کرنے میں ماہر ہوتے ہیں بلکہ بعضے تو سورج کے عین سوا نیزے پر ہونے کے وقت بھی چاند کی چاندنی سے لطف اندوز ہونے کے ہنر سے واقف ہیں

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

اکثر مائیں اپنے لاڈلوں کیلئے چاند سی دلہن ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں چاہے لڑکا مریخ کی مخلوق ہی کیوں نہ ہو دوسری طرف سنتے ہیں کہ وہ لڑکے جن کی چندیا نمودار ہو جاوے انکی جیبیں چاندی سے بھری ہوتی ہیں ......
بعض محب وطن یہ گاتے ہوے دکھائی دئیے
چاند میری زمیں
پھول میرا وطن

جی ہاں اب ہمارے وطن کی زمین بجلی و پانی کے بغیر چاند کی زمین کا منظر ہی پیش کرنے ولی ہے باقی پھول کا تو معلوم نہیں بھول ضرور نظر آتا ہے اپنا وطن آجکل ....

کہتے ہیں چاند پر سبزہ نہیں اگتا لیکن جناب ہم نے تو صفا چٹ چندیا پر بالوں کا جنگل اگتے دیکھا ہے

یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا

افسوس ہماری قوم کے چاند کو گرہن لگ چکا ہے

ایک انشاء نام کے دیوانے نے " چاند نگر " میں کیا خوب لکھا تھا

’’چاند کے تمنائی‘‘
شہروں کی گلیوں میں
شام سے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی
بے قرار سودائی
دل گداز تاریکی
جاں گراز تنہائی
روح و جاں کو ڈستی ہے
روح و جاں میں بستی ہے
شہر دل کی گلیوں میں
جابجا بھٹکتے ہیں
کس کی راہ تکتے ہیں
چاند کے تمنائی
سرد سرد راتوں کو
زرد چاند بخشے گا
بے حساب تنہائی
بے حجاب تنہائی
شہر دل کی گلیوں میں۔

حسیب احمد حسیب

کشف و الہام کی حقیقت !

نوٹ : کوشش کی گئی ہے کہ مستند علما سلف صالحین کی فکر کو بیان کیا جاۓ اہل علم کسی بھی غلطی پر تنبیہ فرمانے سے گریز نہ کریں ، شکریہ )

کشف و الہام کی حقیقت !

کشف و الہام سے متعلق ہر دو اطراف شدید غلو کا شکار ہیں ایک طرف تو اسے صریح شرک قرار دیا جاتا ہے تو دوسری طرف اسکو حجت شرعی قرار دینے کی کوشش ہوتی ہے ....
کوشش کرتا ہوں کہ افراط و تفریط سے ہٹ کر کچھ بیان کر سکوں

کشف کی دو بنیادی اقسام ہو سکتی ہیں

١ کشف علمی
٢ کشف الہامی

کشف سے مراد کسی عقدہ کا کھل جانا ہے سوچ کا کوئی نیا در وا ہونا کسی نئی بات کا سمجھ آنا یا کسی پرانی بات کی کوئی نئی تعبیر کا سوجھ جانا ..........

کشف علمی امور دینیہ میں بھی ہوتا ہے اور امور دنیوی میں بھی یہ مسلمان کو بھی ہو سکتا ہے اور غیر مسلم کو بھی ......
علمی مکاشفات کا مشاہدہ ہر شخص کر سکتا کسی بھی مسلے پر تنہائی میں یا کسی عالم کی صحبت میں موجودات کی اس تغیر پذیر دنیا میں بےشمار ایسی ایجادات ہیں جب موجد دریافت کچھ اور کرنا چاہتا تھا اور ہو کچھ اور گیا ایک سیب کے گرنے سے نیوٹن کی توجہ لاء آف گراویٹی کی طرف مبذول ہوجانا کشف علمی کی ہی ایک مثال ہے ......

کشف علمی دینی معاملات میں بھی ہوتا ہے حضرت عمر فاروق رض کے ساتھ یہ معاملہ کثرت سے پیش آتا تھا
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت کئی مرتبہ حاصل ہوئی کہ وحیِ خداوندی نے ان کی رائے کی تائید کی۔ حافظ جلال الدین سیوطی نے “تاریخ الخلفاء” میں ایسے بیس اکیس مواقع کی نشاندہی کی ہے، اور امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے “ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء” میں دس گیارہ واقعات کا ذکر کیا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:
۱:…حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ جنگِ بدر کے قیدیوں کو قتل کیا جائے، اس کی تائید میں سورة الانفال کی آیت:۶۷ نازل ہوئی۔
۲:…منافقوں کا سرغنہ، عبداللہ بن اُبیّ مرا تو آپ کی رائے تھی کہ اس منافق کا جنازہ نہ پڑھایا جائے، اس کی تائید میں سورة التوبہ کی آیت:۸۴ نازل ہوئی۔
۳:…آپ مقامِ ابراہیم کو نمازگاہ بنانے کے حق میں تھے، اس کی تائید میں سورہٴ بقرہ کی آیت:۱۲۵ نازل ہوئی۔
۴:…آپ ازواجِ مطہرات کو پردہ میں رہنے کا مشورہ دیتے تھے، اس پر سورہٴ احزاب کی آیت:۵۳ نازل ہوئی اور پردہ لازم کردیا گیا۔
۵:…ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب بدباطن منافقوں نے نارَوا تہمت لگائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (دیگر صحابہ کے علاوہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی رائے طلب کی، آپ نے سنتے ہی بے ساختہ کہا: “توبہ! توبہ! یہ تو کھلا بہتان ہے!” اور بعد میں انہی الفاظ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت نازل ہوئی۔
۶:…ایک موقع پر آپ نے ازواجِ مطہرات کو فہمائش کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے بہتر بیویاں عطا کردے گا، اس کی تائید میں سورة التحریم کی آیت نمبر:۵ نازل ہوئی، وغیرہ وغیرہ۔

ایسے ہی کچھ واقعات الفرقان میں ابن تیمیہ رح نے بھی نقل فرماۓ ہیں .

اب گفتگو کرتے ہیں کشف الہامی سے متعلق...

الہام: بمعنى وہ بات جو اللہ تعالى يا ملاء أعلى كى جانب سے كسى كے دل ميں ڈال دى جائے(مف) اور بمعنى سمجھ اور بصيرت عطا فرمانا۔ توفيق دينا (منجد) وحى كى طرح الہام بھی شيطانى ہو سكتا ہے۔ خصوصا جب كہ اس كا كسى آيت شرعيہ سے استدلال نہ ہو سکتا ہو۔

جیسا کہ قرآن کریم میں اسکا استعمال ہوا ہے

فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (سورة الشمس،سورة نمبر:91، آيت 8) پھر انسان كو بدى (سے بچنے) كى اور پرہیزگاری (اختيار كرنے) كى سمجھ دی۔

یا ایک جگہ بیان کیا گیا

وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ( سورة الانعام:سورة 6، آيت 12) "اور شیطان اپنے رفيقوں کے دل ميں بات ڈالتے ہیں كہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔"

کشف الہامی دو طرح سے ہو سکتا ہے

١ سچے خواب
٢ دل میں کسی بات کا القاء کیا جانا

سچے خواب مبشرات میں سے ہیں

علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ تمام انسانوں اور انبیاء کے خواب میں فرق کی وجہ اپنی اپنی روحانی استعداد ہے . تمام لوگوں کی روحانی استعداد میں سب سے بڑی رکاوٹ خود حواس ظاہرہ ہیں . انبیاء کے خوابوں کے متعلق لکھتے ہیں ''وہ اس استعداد کاکام ہے جس میں انسان بشریت چھوڑ کر ملوکیت جیسے بلند اور روحانی مقام میں جذب ہو جاتا ہے .
مقصد یہ ہے کہ انسان میں جسقدر روحانی استعداد زیادہ ہو گی . اسی قدر اس کے خواب زیادہ سچے ہوں گے اور طاہر ہے کہ انبیاء کی روحانی استعداد اور تمام دوسروں انسانوں سے زیادہ بلند ہوتی ہے .اس لئے ان کے خواب سو فیصد سچے اور الہامی ہو تے ہیں .
پیغمبروں پر یہ حالت اس وقت طاری ہو تی ہے جب وحی کے نازل ہو نے کا وقت آتا ہے .ایسے موقع پر انہیں نیند کی طرح ادراک ہو تا ہے . نیند اور وحی کی اس مشابہت ہی کے باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب کو نبوت کا چھیالسوں حصہ قرار دیا ہے .

علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں .
پس یہ بات خدا نے انسان کی فطرت میں ڈال دی ہے کہ وہ نیند کی حالت میں حواس کا پردہ اپنی ذات سے علیحدہ کر دیتا ہے .اور اس پردہ کے اٹھ جانے کے بعد نفس عالم کا حق کے مشاہدات سے معرفت حاصل کرتا ہے . بعض اوقات اس پر معرفت کا ایسا لمحہ بھی آتا ہے جب اسے اپنی آرزوؤں کی تکمیل کا علم ہو جاتا ہے . یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مبشرات کہا ہے اور فر مایای ہے کہ ''نبوت باقی نہ رہیگی '' مگر مبشرات باقی رہ جائیں گے .

مختصر صحیح بخاری
خوابوں کی تعبیر کا بیان
باب : اچھے خواب خوشخبریاں ہیں۔
حدیث نمبر : 2180
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ نبوت میں سے فقط مبشرات (بشارتیں) باقی رہ گئی ہیں۔” صحابہ نے عرض کی کہ مبشرات (خوشخبریاں) کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ اچھے خواب۔” (مبشرات یعنی خوشخبری اور بشارتیں ہیں)۔

کشف الہامی کی دوسری قسم دل میں کسی بات کا القاء کر دیا جانا ہے ....

یہ صلاحیت بھی مسلم اور غیر مسلم دونوں کو حاصل ہو سکتی ہے دونوں کی ایک ایک مثال ملاحظہ کیجئے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابن صیاد کے ساتھ قصہ :
امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عبدان نے عبداللہ سے حدیث بیان کی وہ یونس سے اور یونس زہری سے بیان کرتے ہیں اور زہری بیان کرتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے مجھے بتایا کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گروپ میں ابن صیاد کی طرف گۓ تو اسے بنو غلم کے قلعہ کے پاس بچوں میں کھیلتے ہوئےپایا اور ابن صیاد بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا کچھ پتہ نہ چلا حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ سے مارا پھر ابن صیاد کو کہنے لگے کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو ابن صیاد نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں تو ابن صیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے لگا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور رفض کر دیا اور کہنے لگے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ تو کیا دیکھتا ہے ابن صیاد کہنے لگا میرے پاس سچا اور جھوٹا آتا ہے
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر معاملہ الٹ پلٹ ہو گیا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا میں تیرے لۓ ایک چھپانے والی چیز چھپائی ہے تو ابن صیاد کہنے لگا وہ الداخ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ذلیل ہو جا تیری قدر بڑھ نہیں سکتی تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اتار دوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ رہنے والا ہے تو تو اس پر مسلط نہیں ہو سکتا اور اگر نہیں تو اس کے قتل میں آپ کی کوئی بھلائی نہیں اور سالم کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہہ رہے تھے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کھجوروں کے باغ میں گۓ جہاں ابن صیاد موجود تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بہت زیادہ کوشش تھی کہ ابن صیاد کے دیکھنے سے قبل ان کی چوری چھپے بات سنی جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی چھو درا چادر میں لپٹا ہوا تھا اور اس کی نہ سمجھ آنے والی آواز تھی جس سے اس کے ہونٹ ہل رہے تھے تو ابن صیاد کی ماں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کہ کھجور کے تنوں کے پیچھے پیچھے چھپ چھپ کر چل رہے تھے دیکھ کر ابن صیاد کو کہا اے صاف جو کہ ابن صیاد کا نام ہے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو ابن صیاد کود کر اٹھ بیٹھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اگر وہ اسے چھوڑ دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ١٢٥٥

دوسرا واقعہ حضرت عمر فاروق رض کا ہے ابن تیمیہ رح نے الفرقان میں اسکو نقل فرمایا ہے

سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے ایک لشکر جہاد کے لیے کسی دور دراز علاقے میں بھیجا تھا اور اس لشکر کا امیر ساریہ نامی ایک شخص کو مقرر کیا تھا … اپنے علاقے میں خطبہ دیتے ہوئے امیر عمر کی زبان سے یہ جملہ نکلا'' یا ساریة الجبل الجبل'' یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف کا خیال کرو ۔ اﷲ تعالیٰ نے عمر فاروق کی یہ آواز اس دور کے علاقے میں پہنچا دی اور لشکر نے اپنی حفاظت کا بندوبست کر لیا۔ یہ واقعہ سند کے اعتبار سے قابل قبول ہے دیکھئے سلسلة الصحیحہ حدیث 1110 فتاویٰ الجنہ الدائمہ رقم الفتویٰ 17021 مجموع فتاویٰ ابن عثیمین 311/4 وغیرہ

چونکہ اس روایت سے متعلق کافی گرد اڑائ گئی ہے اسلئے مختلف طرق سے اس سے متعلق محدثین کی آراء نقل کر دوں.

أنَّ عمرَ وجَّهَ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يقال له : ( ساريةُ ) ، قال : فبينما عمرُ يخطبُ ، فجعل يُنادي : يا ساريةُ الجبلَ ، يا ساريةُ الجبلَ ( ثلاثًا ) ، ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ ؟ فقال : يا أميرَ المؤمنين ! هُزِمْنَا ، فبينما نحنُ كذلك إذ سمعنا مناديًا : يا ساريةُ الجبلَ ( ثلاثًا ) ، فأسنَدْنا ظُهورنا بالجبلِ ، فهزمَهُمُ اللهُ . قال : فقيل لعمرَ : إنك كنتَ تصيحُ بذلكَ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: الآيات البينات - الصفحة أو الرقم: 93
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد حسن

فجعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدِم رسولُ الجيشِ فسأله عمرُ فقال : يا أميرَ المؤمنين هُزِمْنا فبينما نحن كذلك إذ سمعْنا مناديًا يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندْنا ظهورَنا بالجبلِ فهزمَهم اللهُ قال : فقيل لعمرَ : إنك كنت تصيحُ بذلك
الراوي: - المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 3/101
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد حسن

عن ابنِ عمرَ قال وجَّهَ عمرُ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يُدعى ساريةَ فبينا عمرُ يخطبُ جعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ فقال يا أميرَ المؤمنين هُزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتًا يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندنا ظهْرَنا إلى الجبلِ فهزمَهُمُ اللهُ تعالَى قال قيل لعمرَ إنك كنتَ تصيحُ بذلك
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: الإصابة - الصفحة أو الرقم: 2/3
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

وجَّهَ عُمَرُ جَيشًا , وولَّى عليهِمْ رجُلًا يُدعَى سارِيةَ و فَبَينا عُمرُ يَخطُبُ جَعلَ يُنادي يا سارِيَةُ الجبَلَ ثلاثًا ثُمَّ قدِمَ رسولُ الجيشِ فسألَهُ عُمرُ , فقال يا أميرَ المؤمنينَ هُزِمنا فبينا نَحنُ كذلِكَ إذ سمِعنا صوتًا ينادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا , فأسنَدنا ظَهرَنا إلى الجبَلِ فهزَمَهُم اللَّهُ , قال فقيلَ لعُمَرَ إنَّكَ كنتَ تَصيحُ هكَذا
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: العجلوني - المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 2/515
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

أنَّ عُمرَ وجَّهَ جيشًا ورَأَّسَ عليهِمْ رَجلًا يقالُ لهُ سارِيةُ قال فبينما عُمَرُ يخطُبُ فجعَلَ ينادي يا سارِيَ الجبلَ يا سارِيَ الجبلَ ثلاثًا ثمَّ قَدِمَ رسولُ الجيشِ فسأَلهُ عُمرُ فقال يا أميرَ المؤمنينَ هُزِمنا فبينما نحنُ كذلِكَ إذ سَمِعنا مُنادِيًا يا سارِيةَ الجبَلَ ثلاثًا فأسندنَا ظُهورَنا بالجبَلِ فهزَمَهُمُ اللَّهُ قال فقيل لِعُمَرَ إنَّكَ كُنتَ تَصيحُ بِذلِكَ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/135
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد حسن

عن عمرَ أنه قالَ في خطبتِه يومَ الجمعةِ : يا ساريةَ الجبلَ الجبلَ . فالتفتَ الناسُ بعضُهم لبعضٍ فلم يفهموا مرادَه ، فلما قضى الصلاةَ ، قال له عليٌّ : ما هذا الذي قلتَه ؟ قال : وسمعتُه ؟ قال : نعم وكلُّ أهلِ المسجدِ ، قالَ : وقعَ في خلدي أن المشركين هزموا إخوانَنا وركبوا أكتافَهم وهم يمرون بجبلٍ فإن عدلوا إليه قاتلوا من وجدوا وظفروا وإن جازوا هلكوا فخرجَ مني هذا الكلامُ . فجاءَ البشيرُ بعد شهرٍ فذكرَ أنهم سمعوا في ذلك اليومِ وتلك الساعةِ حين جاوزوا الجبلَ صوتًا يشبهُ صوتَ عمرَ ، قالَ : فعدلْنا إليه ففتحَ اللهُ
الراوي: - المحدث: ابن الملقن - المصدر: الإعلام - الصفحة أو الرقم: 1/144
خلاصة حكم المحدث: إسناده كل رواته ثقات

(http://www.dorar.net/hadith...)

اسی طرح ایک اور روایت ملتی ہے

’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ’’اے حارث! (سناؤ) تم نے صبح کیسے کی؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے ایمان کی حقیقت پاتے ہوئے صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث! غور کر کے بتاؤ تم کیا کہہ رہے ہو؟ بے شک ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اپنے نفس کو دنیا کی محبت سے جدا کر لیا ہے اور راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا ہوں اور دن کو (روزے کے سبب) پیاسا رہتا ہوں گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور مجھے ایسے لگتا ہے جیسے جنتی ایک دوسرے کی زیارت کرتے جا رہے ہیں اور دوزخیوں کو (اس حالت میں) دیکھتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث تم عارف ہو گئے، پس اس (کیفیت و حال) کو تھامے رکھو اور یہ (جملہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 170، رقم : ٣٠٣٢٥

پھر عرض کر دوں کہ کشف کا تعلق اسلام یا کفر ولی یا گناہ گار سے نہیں یہ معاملہ غیر اختیاری ہے اور کسی کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے کشف یا مبشرات حجت شرعی نہیں لیکن انکا انکار بھی ممکن نہیں بہتر یہی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوے معاملے کی تفہیم حاصل کی جاۓ.

واللہ اعلم بالصواب۔

حسیب احمد حسب

پیر، 12 مئی، 2014

وسعت الله خان کی بو العجبیاں !

وسعت الله خان کی بو العجبیاں !

محترم ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے مشن پر ہیں اور انکا مشن ہے فرقہ واریت کو بڑے پیمانے پر ہوا دینا طریقہ انتہائی آسان ہے ایک گروہ سے اپنا تعلق ثابت کر کے دوسرے سے ہمدردی جتائیں اور اندروں خانہ دونوں کی جڑیں کاٹیں .....

عرف میں عام میں اسے
" گھنا بننا " کہتے ہیں

حضرت نے فرمایا

ایک سنی دیوبندی گھرانے میں پیدا ہونے والا وسعت اللہ خان خود کو ایک اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لئے کہاں تک جائے، کیا کرے ؟؟؟

اجی آپ نے دعوا کیا اور ہم تسلیم کر لیں وہ کیا کہا ہے شاعر نے

حسن زبصرہ، بلال زحبشہ، صہیب از روم
زخاک مکہ ابوجہل، این چہ بو العجبی ست؟

موصوف کو بین المسالک و مذاھب مقابلہ بلکہ تصادم کروانے کا بڑا شوق ہے

" ریلوے کے امتحان میں کامیاب ہونے والے ایک امید وار نے پہلی ہی درخواست جو کی اس نے افسران بالا کو
حیرت میں ڈال دیا
سر میری ڈیوٹی واچ ٹاور پر لگا دیجئے
مگر کیوں
جناب میری ایک بچپن کی خواہش ہے
وہ کیا
وہ جی
مجھے بچپن سے ہی ٹرینوں کی ٹکر دیکھنے کا بڑا شوق ہے "

کہیں کوئی ایسا ہی شوق تو خان صاحب کو میدان صحافت میں کھینچ نہیں لایا......؟

موصوف نے اپنی تحریر سوالیہ رکھی ہے اور ہمیں تو انکی پوری تحریر پر سوالیہ نشان لگا دکھائی دیتا ہے ممکن ہے کہ موصوف نے اس تحریر کو لکھنے سے پہلے تحقیق کے کوہ گراں سر کیے ھوں لیکن معلوم نہیں پھر یہ تحریر انہوں نے کسی کھائی میں بیٹھ کر کیوں لکھی جہاں سے حقائق کا آسمان ہی نگاہوں سے پوشیدہ ہو ......

تحریر کی بنت کچھ اسطرح کی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے ....
" جب تک کوئی سنی کسی شیعہ کے گلے پر چھری نہ پھیر دے اسکا سنی ہونا محقق نہیں ہوگا "
(وسعت الله خان )

کیا ایسا ہی ہے
شدت پسند افراد ہر دو گروہ میں موجود ہیں ابھی پنڈی کا واقعہ قریب کا ہی ہے ....

سو کچھ لوگوں کی وجہ سے پورے مکتب فکر کو ہی مورد الزام ٹھہرا دینا کہاں کا انصاف ہے گو آپ کا قلم جب بھی اگلتا ہے ستم ہی اگلتا ہے ......

دوسری بات عقائد کا وہ اختلاف جو صدیوں سے موجود ہے اسکو یکایک فراموش کر دینا بھی ممکن نہیں یہ ایک خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن زمینی حقائق سے واقفیت نہیں جہاں تک بات ہے شخصیات کے علمی و فکری کارناموں کی بنیاد پر انکے عقیدہ کی حقانیت کو پرکھنا تو یہ بھی ایک بو العجبی ہی ہے اسکے سوا کچھ نہیں ...

پاکستان کے آئین کے مطابق قادیانی کافر ہیں امید تو یہی ہے کہ آپ پاکستانی آئین کی اس تکفیری ذہنیت کو تسلیم کرنے سے ضرور انکار کر دینگے یہاں ڈاکٹر عبدالسلام جیسا سائنسدان بھی اپنے عقیدہ کی بنیاد پر غیر مسلم ہی ٹھہر تا ہے جبکہ اسے تو فقیہ الملت کا خطب مرحمت ہونا چاہئیے تھا مگر کیا کیجئے امید ہے آپ پاکستانی آئین کے خلاف بھی ایسے آواز بلند کرینگے ...

اب آتے ہیں کالم میں موجود تاریخی حقائق کی طرف موصوف نے اپنے پلے سے اس ان تمام علمی شخصیات کو ایک مکتب فکر کی جھولی میں ڈال دیا اور اتنا بھی نہ سوچا کہ وہ تاریخی حقائق کو مسخ کرتے چلے جا رہے ہیں یا انکے نزدیک تاریخی حقائق کی کوئی حقیقت ہی نہیں ......

ایک نام لیا گیا غالب کا اگر حضرت اقبال کا بھی لے دیتے تو ہم کیا بگاڑ لیتے لیکن کم از کم غالب کے اپنے افکار تو ملاحظہ کر لیتے
لیجئے دیکھئے فتاویٰ غالب


جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری
کہتے ہیں وہ مجھ کو رافضی او ردہری
دہری کیونکر ہو، جو کہ ہو صوفی؟
شیعی کیونکر ہو،ماورا النہری؟


اصحاب کو جو ناسزا کہتے ہیں
سمجھیں تو ذرا د ل میں کہ کیا کہتے ہیں
سمجھا تھا نبیﷺ نے ان کو اپنا ہمدم
ہے، ہے! نہ کہو، کسے برا کہتے ہیں


یارانِ رسولﷺ، یعنی اصحابِ کبار
ہیں گرچہ بہت، خلیفہ ان میں ہیں چار
ان چار میں ایک سےہو جس کو انکار
غالبؔ، وہ مسلماں نہیں ہے زنہار


یارانِ نبیﷺ میں تھی لڑائی کس میں؟
الفت کی نہ تھی جلوہ نمائی کس میں؟
وہ صدق، وہ عدل، وہ حیا(اور) وہ علم
بتلاؤ کوئی کہ تھی برائی کس میں؟


یارانِ نبی ﷺ سے رکھ تولا، باللہ!
ہر یک ہے کمالِ دیں میں یکتا، باللہ!
وہ دوست نبی ﷺکے، اور تم ان کے دشمن
لا حول ولا قوۃ الا باللہ!

(یہ پانچوں رباعیاں سید الاخبار دہلی ، جلد 8 ، شمارہ28، 16 نومبر1850ء میں شائع ہوئی تھیں)

یہ غالب بھی متشدد دیوبندی بلکہ کسی کلعدم تنظیم کے کوئی سرکردہ رکن دکھائی دیتے ہیں ...

اب کچھ دوسری شخصیات کو دیکھتے ہیں

جہاں تک بات ہے جابر بن حیان اور الخوارزمی کی تو انکو سنی حکمرانوں ہارون الرشید اور مامون الرشید کے ادوار میں ہی پنپنے کے مواقع ملے

البیرونی کو بھی آسانی سے شیعت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا جبکہ وہ صلح کل کا قائل تھا ایک جگہ اپنی دینی فکر سے متعلق لکھتا ہے ....

" ہر گروہ اور ہر مذہبی فرقہ اس وقت تک اسے عزیز ہے جب تک کہ وہ علم کے حصول کا ذریعہ ہے "

ایسا ہی معاملہ معروف کرخی کا ہے یہ ایک عیسائی گھرانے میں پیدہ ہوے اور بعد میں اسلام قبول کیا اسلئے انپر کسی مخصوص مسلک یا مکتب فکر کی چھاپ لگا دینا کہاں کا انصاف ہے ..

عمر خیام کو جس ڈھٹائی سے ایک مکتب فکر کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے اسپر ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے ...
یہ سب کو معلوم ہے کہ خیام کی شہادت ایک باطنی حسن بن صباح کے گروہ کے ہاتھوں ہوئی تھی خیام کا علمی استفادہ ابو طاہر سمرقندی شافعی رح سے ہے جو ایک سنی عالم تھے اور خیام کی بنیادی دینی تربیت وہیں سے ہوئی ( خیام ، سید سلیمان ندوی رح )

ایسا ہی لطیفہ سلطان ٹیپو شہید کو ایک مکتب فکر سے متعلق قرار دینے کا ہے اور اس کوشش میں موصوف نے میر صادق کو بھی فراموش کر دیا عجیب بات یہ ہے کہ دیوبندی اور وہابی فکر کے ابتدائی اکابرین سید احمد شہید رح کے خانوادے کے بزرگ شاہ ابو سعید صاحب رح اور شاہ ابو للیث رح سے روحانی مناسبت تھی ....
(وقاع احمدی )

اسی سلطان ٹیپو نے ملا جونپوری امامی کے فرقہ مہدویہ کے خلاف شدید رویہ اختیار کیا اگر خان صاحب سلطان ٹیپو شہید کی سوانح ملاحظہ کر لیتے تو شاید سلطان شہید کا تذکرہ بھی گوارہ نہ کرتے ....

کیا کیا بیان کیا جاوے اور کس کس کا تذکرہ ہو اکبر الہ آبادی بھی اسی فکر کا حصہ ٹھہرے

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

یہاں شخصیات کا نام لیکر انکے کمالات بیان کرتے ہوے نادر شاہ کا تذکرہ بھی فرما دیا شاید حضرت کسی خاص کیفیت میں تھے

لیجئے ایک لطیفہ ملاحظہ کیجئے نادر شاہ جسے ایشیاء کا نپولین بھی کہا جاتا ہے

ان فتوحات نے نادر کی شہرت کو چار چاند لگادیئے۔ ایرانی اس کو ایران کا نجات دہندہ سمجھتے تھے اور اس کے سامنے تخت ایران پیش کردیا لیکن نادر نے ایرانیوں کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ جب تک خلفائے راشدین اور اصحاب رسول کے خلاف تبرا اور اہل سنت مسلمانوں کو ستانا بند نہیں کریں گے وہ بادشاہت قبول نہیں کرسکتا۔ [1]۔ ایرانیوں نے اس کا یہ مطالبہ منظور کرلیا اور نادر شاہ نے عباس سوم کو معزول کرکے 1736ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ 17 اکتوبر 1736ء کو ایران اور ترکی کے درمیان صلح نامے پر باضابطہ دستخط ہوگئے۔ ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر ایران کا قبضہ تسلیم کرلیا اور دونوں سلطنتوں کی حدود وہی قرار پائیں جو سلطان مراد چہارم کے زمانے میں مقرر ہوئی تھیں۔

(ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ از ثروت صولت، اسلامک پبلیکیشنز لاہور، پاکستان)

اجی ہمارا مطالبہ بھی تو بس اتنا ہی ہے جو نادر شاہ کا تھا

گو بعد میں کچھ یوں ہوا

نادر شاہ جس میں فوجی صلاحیت غیر معمولی تھی انتظامی صلاحیت اس پائے کی نہیں تھی۔ دہلی کے قتل عام کا تو اس پر زیادہ الزام نہيں آتا لیکن آخر میں وہ بہت ظالم ہوگیا تھا۔ مورخین کہتے ہیں کہ اگر نادر شاہ بخارا اور خیوہ کی فتح کے بعد مرجاتا تو ایران کا انتہائی نیک نام حکمران ہوتا۔ نادر شاہ کے بعد ایران ایک بار پھر انتشار اور طوائف الملوکی کا شکار ہوگیا۔ نادرا کے بعد اس کا بھتیجا علی قلی، عادل شاہ کے نام سے خراسان میں تخت نشین ہوا لیکن ایک سال حکومت کرپایا تھا کہ نادر کے اندھے لڑکے رضا قلی کا بیٹا شاہ رخ 15 سال کی عمر میں 1748ء میں مشہد میں تخت نشین ہوگیا لیکن ایک شیعہ سردار نے اس کو معزول کرکے اندھا کردیا۔ نادر کے ایک افغان سردار احمد شاہ ابدالی نے افغانستان میں اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی اور شاہ رخ کو 1749ء میں دوبارہ تخت دلادیا اور اس کو اپنی حمایت میں لے لیا۔ افشار خاندان کی یہ حکومت افغانوں کی زیر سرپرستی 1796ء تک قائم رہی۔

جناب تاریخ بڑی طویل ہے کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں ......

عرض صرف اتنی ہے کہ یہ دور اس طرح کی شرلیاں چھوڑنے کا نہیں جو بھوسے کے ڈھیر میں آگ لگانے کا سبب ہوں ہاں اگر مقصود ہی آگ لگانا ٹھہرا تو کیا کیجئے ...



جلا کے رکھے تھے ہم نے تو روشنی کے لیے
یہ کس چراغ سے میرے چمن میں آگ لگی

کچھ اس ادا سے وہ محفل میں آج آۓ ہیں
ہے انگ انگ میں بھڑکی بدن میں آگ لگی

نجانے کیسی یہ تلخی در آ ئی لہجے میں
ہے بات بات میں سوزش سخن میں آگ لگی

میرے خدا میرے مالک تو بھیج ابر کرم
بجھا دے اے میرے مولیٰ وطن میں آگ لگی

یہ اسکا جسم ہے شعلہ ہے آگ ہے یا شرار
جو دھوۓ پیر تو اس نے ، لگن میں آگ لگی

یہ کس کی گرمی گفتار کی وجہ سے حسیب
ہر ایک شیریں سخن کے دھن میں آگ لگی


حسیب احمد حسیب


http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/08/120826_baat_se_baat_wusat_tk.shtml?print=1

منگل، 6 مئی، 2014

غالب کی زمین میں ایک جسارت احباب ذوق کی خدمت میں ،


مطالعہ تاریخ اسلام Study of Islamic History


تاریخ اسلامی ایک ایسا شجر سایہ دار ہے جسکی چھاؤں میں بیٹھ کر ہم اپنے ماضی کا جائزہ اپنے حال کی فکر اور اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں "

اپنی تاریخ کو جاننے سمجھنے اس سے متفید ہونے اور اس سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے ایک گروپ ...
 مزید دیکھیں
  • تاریخ اسلامی ایک ایسا شجر سایہ دار ہے جسکی چھاؤں میں بیٹھ کر ہم اپنے ماضی کا جائزہ اپنے حال کی فکر اور اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں "

پیر، 5 مئی، 2014

تاریخ اسلامی اور جدید فکری مغالطے !

تاریخ اسلامی اور جدید فکری مغالطے !

اعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

کسی بھی قوم کا رابطہ اگر اپنے ماضی سے ٹوٹ جاۓ تو اس قوم کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی گناہ کے نتیجے میں پیدہ ہونے والے بچے کو کوئی کچرے کے ڈھیر پر پھینک جاۓ اور وہ اپنے حقیقی نام و نسب کی تلاش میں ہمیشہ سر گرداں رہے .....

جن لوگوں کا اپنے ماضی سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے انکے اندر نفسیاتی مسائل پیدہ ہوتے ہیں یہ نفسیاتی مسائل مختلف انداز سے شخصیات افراد اور اقوام پر اثر انداز ہوتے ہیں
ایسے لوگ جھوٹے سہاروں کو تلاش کرتے ہیں جیسے جدید استعماری دنیا کا بے تاج بادشاہ امریکہ یہ لوگ کبھی مصر کے اہراموں میں تو کبھی روم و یونان کے مقابر میں اور کبھی دفن شدہ مایا تہذیب میں اپنی اصل کھوجتے پھرتے ہیں اور صرف کھوجتے ہی نہیں بلکہ اسکو پوری دنیا پر رائج کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں یہ جدید استعماری پھندے پوری کی پوری تہذیبوں کو کسی بھوکے عفریت کی طرح نگل رہے ہیں ...

دوسرا اثر ایسی اقوام پر یہ پڑتا ہے کہ اپنی تاریخی برتری کو ثابت کرنے کیلئے دوسروں کی تاریخ کو بھی مسخ کر دیا جاۓ اسکو استشراق کہتے ہیں

ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب کے نزدیک استشراق کی تعریف اس طرح سے ہے :

الاستشراق: ھو دراسات ’’اکادیمیۃ‘‘یقوم بھاغربیون کافرون من اھل الکتاب بوجہ خاص، لاسلام والمسلمین، من شتی الجوانب:عقیدۃ وشریعۃ، وثقافۃ، وحضارۃ، وتاریخا، و نظما، وثروات و امکانات۔۔۔۔ھدف تشویۃ الاسلام
ومحاولۃ تشکیک المسلمین فیہ، و تضلیلھم عنہ وفرض التبعیۃللغرب علیھم ومحاولۃ تبریر ھذہ التبعیۃ بدراسات و نظریات تدعی العلمیۃ والموضوعیۃ، تزعم التفوق العنصری والثقافی للغرب المسیحی علی الشرق الاسلامی۔‘‘
"الاستشراق، ۱۔ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی، ، قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ مدینہ، س ن، ص۳۔"

’’استشراق، کفار اہل کتاب کی طرف سے ، اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ، مختلف موضوعات مثلاً عقائد و شریعت، ثقافت، تہذیب، تاریخ، اور نظام حکومت سے متعلق کی گئی تحقیق اور مطالعات کا نام ہے جس کا مقصد اسلامی مشرق پر اپنی نسلی اور ثقافتی برتری کے زعم میں ، مسلمانوں پر اہل مغرب کا تسلط قائم قائم کرنے کے لیے ان کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور گمراہی میں مبتلا کرنا اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنا ہے۔‘‘

اس استشراقی فکر کے پیچھے موجود فتنے کو عالم اسلام کے ایک عبقری نے کچھ اس طرح کھولا ہے

یہ حقیقت ہے کہ مستشرقین کی ایک بڑی تعداد نے قرآن مجید، سیرت، تاریخ، تمدن اسلام اور اسلامی معاشرہ کی تاریخ اور پھر اس کے بعد اسلامی حکومتوں کی تاریخ کا مطالعہ ایک خاص مقصد کے تحت کیا اور مطالعہ میں ان کی دور بیں نگاہیں وہ چیزیں تلاش کرتی رہیں، جن کو جمع کر کے قرآن، شریعت اسلامی،سیرت نبوی ﷺ، قانون اسلامی، تمدن اسلامی اوراسلامی حکومتوں کی ایک ایسی تصویر پیش کرسکیں، جسے دیکھ کر لوگ آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، مستشر قین نے اپنی آنکھوں پر خورد بین لگا کر تاریخ اسلام اور تمدن اسلا می اور یہ کہ آگے بڑھ کر (خاکم بدہن )قرآن مجید اور سیرت نبوی ﷺ میں وہ ذرے وہ ریزے تلاش کر نے شروع کئے جن سے کوئی انسا نی جماعت، کوئی انسا نی شخصیت خالی نہیں ہو سکتی ہے اور ان کو جمع کر کے ایسا مجموعہ تیار کرنا چاہا جو ایک نہایت تاریک تصور ہی نہیں بل کہ تاریک تاثر اور تاریک جذبہ پیش کرتا ہے اور انہوں نے اس کام کو انجام دیا جو ایک بلدیہ کا ایک انسپکٹر انجام دیتا ہے کہ وہ شہر کے گندے علاقوں کی رپورٹ پیش کرے۔ (حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ)

یہ استشراقی غلاظت صرف مغربی مستشرقین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اسنے اپنی فکر و تہذیب اور تاریخ پر شرمندہ مسلمانوں کو بھی متاثر کیا

عالم عرب میں طہٰ حسین اور بر صغیر میں سر سید اس فکر کے شدید متاثرین میں شمار کیے جا سکتے ہیں

اول الذکر کی کتاب فی الشعر الجاہلی: یہ مشہور زمانہ کتاب ۱۹۲۶ء میں شائع ہوئی اور مذہبی واسلامی حلقوں میں موصوف کی بدنامی کا باعث بنی جس میں زمانہ جاہلیت کے عربی ادب کے متعلق بحث کرتے ہوئے موصوف کج راستوں پررواں ہوئے اور اپنے تئیں مخالف کتاب وسنت باتیں لکھ کر بعض اسلامی نظریات وافکار کو گڑھی ہوئی بے بنیاد باتیں قرار دے بیٹھے۔ دراصل موصوف کے قلبی تاثرات اور اسلام مخالف افکار وخیالات اس کتاب سے آشکارا ہوئے تھے یہ ناپاک اثرات پروفیسر گائیڈی اور پروفیسر نللنیو کی صحبت تلمذ اور ان سے محبت کا نتیجہ اور لادینی افکار کے حامل مستشرقین سے تعلق کا ثمرہ وحاصل تھا

موخر الذکر ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے

سر سید کی خود سپردگی کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف تو انہوں نے اسلامی عقائد و افکار کو ناقابل مدافعت سمجھتے ہوے انمیں باطل تاویلات کا درواز کھولا تو دوسری طرف ملک میں اٹھنے والی ہر حربی و فکری تحریک کی بنیادیں کھودنے کا کام کیا موصوف فرماتے ہیں !

" جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت ذیادہ ناراض ہوں اور حد سے ذیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوں ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ’کی ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ ذیادہ تر ان سے ناراض ہواجائے:

"مقالات سرسید، صفحہ 41"

یہ اس طویل غلامی کا شاخسانہ تھا جسنے قومی غیرت و حمیت کا جنازہ نکال دیا اور خودداری اور انا کے پرخچے اڑا دئیے

دور غلامی نے مسلمانوں میں تین مختلف طبقات پیدہ کے

١ پہلا طبقہ علما قدیم کا تھا جنہوں نے اس دور فترت میں اپنے مذہبی تشخص عقائد و افکار کو محفوظ رکھنے کیلئے مدارس و خانقاہوں میں پناہ لی اور ایک طرح کے (cocon) میں چلے گۓ تاکہ لاروا تتلی بننے کے ارتقائی مراحل تے کر سکے .

٢ دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے تاویلات باطل سے اسلام کا چہرہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا اور جو کچھ باقی رہا وہ اسلام نہیں کچھ اور تھا
یہ لارڈ تھامس بیمنگٹن میکالے کی فکری ذریت تھی لارڈ اپنا مقصود ان الفاظ میں بیان کرتا ہے

ایک ممورینڈم کی شکل میں ۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو بیرک پور کلکتہ کے مقام پر گورنر جنرل ہند لارڈ ولیم بینٹنگ کو پیش کی۔ جس پر مباحثہ کے لئے جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن کا اجلاس ۷؍مارچ ۱۸۳۵ء کو منعقد ہوا۔ وہ کہتے ہیں، ”ہمارے پاس ایک رقم ایک لاکھ روپیہ ہے۔ جسے سرکار کے حسب ہدایت اس ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم وتربیت پر صرف کیا جاتا ہے۔ یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے؟ کمیٹی کے پچاس فیصداراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے۔ باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لئے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی علمی سرمایہ پر بھاری ہے۔ پھر مغربی تخلیقات ادب کی منفرد عظمت کے کما حقہ معترف تو کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم گفتار ہیں․․․․۔ ہمیں ایک ایسی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال انکی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہمیں انہیں لازماً کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہوگا۔ اس میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیل حاصل ہے۔ ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ یہ زبان قوت متخیلہ کے گراں بہا خزانوں کی امین ہے․․․۔ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثے تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے جسے روئے زمین کی دانشور ترین قوموں نے باہم مل کرتخلیق کیا ہے اور گزشتہ نوّے سال سے بکمال خوبی محفوظ کیا ہے۔ یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس زبان میں موجود ادب اس تمام سرمایہ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے جو آج سے تین سوسال پہلے دنیا کی تمام زبانوں میں مجموعی طور پر مہیا تھا“ ۔ ذریعہ تعلیم کے سلسلہ میں میکالے نے کہا، ”اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سوال ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھنے کا اختیار ہے تو پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمہ داری قبول کریں گے جن کے بارے میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہوگی کہ اس کا ہماری کتابوں سے موازنہ کیا جاسکے۔ آیا جب ہم یورپئین سائنس کی تدریس کا انتظام کرسکتے ہیں تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیم دیں جن کے بارے عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے تو اس صورت میں ان علوم ہی کا پایہ ثقاہت پست ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ آیا جب ہم پختہ فکر، فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے․․․․۔ ایسا علم فلکیات پڑھائیں جن کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اڑائیں“۔

یہ وہ سوچ تھی جسکے تحت آج بھی ہمارا تعلیمی نظام انگریز کے فکری بچے پیدہ کر رہا ہے

٣ تیسرا گروہ گو اسلام سے مخلص تھا اور اس میں ایسے عبقری موجود تھے جو اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے تھے اس سلسلے کی سب سے بڑی اور عظیم شخصیت بلکہ اس سلسلے کے سرخیل علامہ محمد اقبال رح تھے جنہوں نے تصور خودی پیش کیا

" خودی وہ بحر ہے جس کوئی کنارہ نہیں
تو آبِ جُو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں "

اقبال کی تعلیمی اٹھان ایسی تھی کہ جہاں وہ قدامت سے واقف تھے وہیں جدید استعمار کو بھی اچھی طرح جانتے تھے

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اقوام مغرب اپنی فطری موت آپ مر جاتیں اور اقوام کے عروج و زوال کے لازوال قانون کا ازخود شکار ہو جاتیں لیکن اس تیسرے طبقے سے متعلق ایک گروہ نے پورے خلوص اور دین سے محبت رکھنے کے باوجود ایسے راستہ کو اختیار کیا جو انے والے دور کی اسللامی تحاریک کو اس راستے پر لے گیا جسکی کوئی منزل نہیں تھی ...

سید مودودی رح نے ایک مرتبہ کہا تھا
" غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں یہ بچے جنتی ہیں "

ہم کہتے ہیں کہ

" غلطیوں کے یہ بچے شیر مادر پر نہیں خون ملت پر پروان چڑھتے ہیں "

اسلامی ترقی کا معیار اسلامی معاشرت میں مضمر تھا
سید قطب شہید رح ایک جگہ لکھتے " اسلامی حکومت اسلامی معاشرت کا عطر "

اسلامی معاشرت جن امور کی بنیاد پر تشکیل دی جا سکتی ہے وہ ہیں
١ تزکیہ
٢ تعلم
٣ دعوت
٤ جہاد

ان کے علاوہ جو بھی راستہ اختیار کیا گیا وہ ایک ایسی بدعت بنا جسکا تریاق سنت کی طرف مکمل طور پر پلٹنے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا

ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے وہ ہتھیار جو مغرب کا تھا خود استعمال کیا مگر ہم اس سے ناواقف تھے کہ کہ ہم اپنی ہی گردن کاٹنے جا رہے ہیں یہ ہتھیار تھا " مغربی جمہوریت "

اسی لیے اقبال نے اس جدید استعماری نظام پر بھرپور چوٹ کی ہے دور جدید کے ایک محقق اسکالر اپنے تحقیقی مقالے میں اسکی تفصیل کچھ یوں بیان فرماتے ہیں

" مسلمانوں کی عصری تاریخ میں اقبال جمہوریت پر گفتگو کرنے والی سب سے اہم شخصیت ہیں۔ اگرچہ اقبال کی اردو کلیات میں جمہوریت پر نو دس شعر ہی موجود ہیں، مگر ان نو دس شعروں میں بھی اقبال نے جمہوریت کی مبادیات کو سمیٹ لیا ہے۔ اقبال نے اپنے شعروں میں جمہوریت پر چار بڑے اعتراضات کیے ہیں۔

ان کا پہلا اعتراض مغربی دانش ور اسٹینڈل کے حوالے سے یہ ہے:

جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جمہوریت ایک معیاری یا Qualitative نظام نہیں ہے بلکہ ایک مقداری Quantitative نظام ہے۔ اس طرح گویا جمہوریت نے انسان کی پوری فکری تاریخ کی نفی کردی ہے۔ انسان کی پوری فکری تاریخ معیاری نظام بندی کی تاریخ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی معنویت، اس کا حسن و جمال، اس کی پائیداری، اس کی افادیت معیار سے ہے مقدار سے نہیں۔ چنانچہ جمہوریت نے گاڑی کے آگے گھوڑا باندھنے کے بجائے گھوڑے کے آگے گاڑی باندھ دی ہے۔ جمہوریت کے مقداری پہلو کے اطلاق سے امام غزالیؒ اور ایک جاہل برابر ہوجاتا ہے۔ جمہوریت کا مزید غضب یہ ہے کہ وہ ’’کمتر‘‘ سے ’’برتر‘‘ کا انتخاب کراتی ہے۔ حالانکہ اصولی، اخلاقی اور علمی اعتبار سے کمتر، برتر کے انتخاب کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اقبال نے جمہوریت پر دوسرا بنیادی اعتراض یہ کیا ہے ؎

ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردے میں غیراز نوائے قیصری

اقبال کے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کا ’’نیا نظام‘‘ ہونے کا دعویٰ فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’بادشاہت‘‘ جمہوریت کا لباس پہن کر آگئی ہے۔ فی زمانہ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے۔ کہنے کو امریکہ دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے اکثر فیصلے امریکہ کے عوام نہیں امریکی سی آئی اے، پینٹاگون، امریکہ کے ایوانِ صنعت و تجارت، ملٹی نیشنلز اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔ یہ ادارے ’’خواص الخواص‘‘ کی علامت ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کی آراء کو عوام کی آراء اور ان کے فیصلوں کو کسی نہ کسی حوالے سے عوام کے فیصلے قرار دے دیا جاتا ہے۔ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، لیکن بھارت کے حکمرانوں کی تاریخ کا نصف حصہ نہرو خاندان کی ’’میراث‘‘ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کہنے کو عوامی جماعت ہے لیکن اس پر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کا قبضہ ہے۔ باقی ماندہ بھارتی سیاست پر جرائم پیشہ عناصر کا قبضہ ہے۔ اقبال نے جمہوریت پر

تیسرا بنیادی اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے ؎

تُونے کیا دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

چنگیز خان جارحیت اور خون آشامی کی بڑی علامت ہے۔ لیکن چنگیز خان نے کبھی نہیں کہا کہ وہ انسانی آزادی کا عَلم بردار ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انسانی حقوق کا چیمپئن ہے۔ اس نے کبھی نہیں کہا کہ وہ مساوات اور بھائی چارے کے تصورات پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن مغربی جمہوریت نے آزادی کا نعرہ لگاکر درجنوں اقوام کی آزادی سلب کی۔ اس نے انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرکے انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ رقم کی۔ اس نے مساوات کا پرچم اٹھاکر عدم مساوات، اور بھائی چارے کی مالا جپتے ہوئے انسانی تعلقات کو روندا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چنگیز خان کی پوزیشن جمہوریت اور اس کے عَلم برداروں سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ کم از کم چنگیز خان کے قول اور فعل میں ہولناک تضاد تو موجود نہیں۔ اقبال کا جمہوریت پر چوتھا بنیادی اعتراض یہ ہے ؎

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری

مغربی جمہوریت عہدِ حاضر میں انسانی آزادی کی سب سے بڑی علامت ہے، لیکن ایک سطح پر وہ عوام کی پست خواہشات کی خدائی کا اعلان ہے۔ دوسری سطح پر وہ اکثریت کے جبر کا مظہر ہے۔ اور یہ دونوں استبداد کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ اسلامی اصطلاحوں میں گفتگو کی جائے تو مغربی جمہوریت ’’نفسِ امارہ‘‘ کی علامت ہے اور اسلامی نظام ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کی علامت۔ جمہوریت نفسِ امارہ سے آغاز کرتی ہے، اسی میں سفر کرتی ہے اور اسی کے دائرے میں اس کا سفر تمام ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب اسلامی نظام کے دائرے میں حکمران خود بھی نفسِ مطمئنہ کی علامت ہیں اور وہ مسلم عوام کو بھی نفسِ امارہ کے چنگل سے نجات دلاکر انہیں نفسِ لوامہ اور نفس مطمئنہ، اور پھر نفسِ مطمئنہ کی مزید برتر صورتوں کی طرف لانا چاہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی نظام فرد کو ’’بندگی‘‘ کی سطح پر پہنچاتا ہے اور وہ اس کی بندگی کو کامل تر بناکر اسے اس کے خالق و مالک اور تمام انسانوں کے قریب تر کرتا ہے۔
اس کے برعکس جمہوریت فرد کو اس کی پست خواہشات اور ادنیٰ مطالبات کی سطح پر پہنچاتی ہے، اور وہ پست خواہشات اور ادنیٰ مطالبات کی نفسیات کو ایک نظام بنادیتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی نظام کا بنیادی تصور لاالہٰ الا اللہ ہے، اور جمہوریت کا بنیادی تصور لاالہٰ الا انسان ہے۔ جمہوریت کی تعریف ’’عوام کا نظام، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘‘ کا اصل پیغام یہی ہے۔ عصر جدید میں علماء کی عظیم اکثریت نے جمہوریت کی اس فلسفیانہ بنیاد کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلم معاشرے میں حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی اور قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس پوزیشن کا سب سے بڑا مظہر پاکستان اور اس کا ’’اسلامی آئین‘‘ ہے، لیکن گزشتہ چالیس سال کا تلخ تجربہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو کبھی آئین کی قید سے نکلنے نہیں دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کا آئین اسلام کا سب سے بڑا زنداں ہے، اور یہ صورت جمہوریت کے مجموعی کلچر اور مزاج کے عین مطابق ہے"

(جمہوریت اور انسانی تاریخ ---- شاہنواز فاروقی)

اسلامی نظام اپنی شکست و ریخت کے باوجود کبھی اس درجے پستی میں نہیں پہنچا کہ کھلی جاہلیت کو قبول کر لے جب تک کہ اسے اسلامی رنگ نہ دیا جاۓ....

سید مودودی رح تجدید و احیاء دین میں لکھتے ہیں

جاہلیت کا حملہ

" سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ جاہلیت بے نقاب ہوکر سامنے نہ آئ تھی بلکہ مسلمان بن کر آئ تھی کھلے دہریے یا مشرکین و کفار سامنے ہوتے تو مقابلہ آسان تھا مگر وہاں تو آگے آگے توحید کا اقرار رسالت کا اقرار صوم و صلات پر عمل قرآن و حدیث سے استشہاد تھا اور پیچھے پیچھے جاہلیت اپنا کام کر رہی تھی ایک ہی وجود میں اسلام و جاہلیت کا اجتماع ایسی سخت پیچیدگی پیدہ کر دیتا ہے کہ عہدہ بر آ ہونا ہمیشہ جاہلیت صریحہ کے مقابلے میں مشکل ہوتا ہے "

یہ جاہلیت ہمیشہ اسلام کے لبادے میں ہی حملہ اور ہوتی ہے اور اکثر اسکا نشانہ اسلام کا سیاسی نظام ہوتا ہے یہ مغالطہ جمہوریت کو اسلامائز کرنے والے احباب سے ہوا جب ایک نظریہ کیلئے دلائل قرآن و سنت سے
فراہم کے جائیں تو اسکی حیثیت ایک ٹول کی سی نہیں رہتی بلکہ اسکی حیثیت دین کی ہو جاتی ہے اور یہ ایک ایسی " بدعت " ہے جو اسلام کے متعارض ایک نظام کو اسلام قرار دلوا دیتی ہے .....

مولانا یوسف لدھیانوی شہید رح اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں

بعض غلط نظریات قبولیتِ عامہ کی ایسی سند حاصل کرلیتے ہیں کہ بڑے بڑے عقلاء اس قبولیتِ عامہ کے آگے سر ڈال دیتے ہیں، وہ یا تو ان غلطیوں کا ادراک ہی نہیں کرپاتے یا اگر ان کو غلطی کا احساس ہو بھی جائے تو اس کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکتے۔ دُنیا میں جو بڑی بڑی غلطیاں رائج ہیں ان کے بارے میں اہلِ عقل اسی المیے کا شکار ہیں۔ مثلاً “بت پرستی” کو لیجئے! خدائے وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر خود تراشیدہ پتھروں اور مورتیوں کے آگے سر بسجود ہونا کس قدر غلط اور باطل ہے، انسانیت کی اس سے بڑھ کر توہین و تذلیل کیا ہوگی کہ انسان کو - جو اَشرف المخلوقات ہے- بے جان مورتیوں کے سامنے سرنگوں کردیا جائے اور اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ مخلوق کو شریکِ عبادت کیا جائے۔ لیکن مشرک برادری کے عقلاء کو دیکھو کہ وہ خود تراشیدہ پتھروں، درختوں، جانوروں وغیرہ کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تمام تر عقل و دانش کے باوجود ان کا ضمیر اس کے خلاف احتجاج نہیں کرتا اور نہ وہ اس میں کوئی قباحت محسوس کرتے ہیں۔

اسی غلط قبولیتِ عامہ کا سکہ آج “جمہوریت” میں چل رہا ہے، جمہوریت دورِ جدید کا وہ “صنمِ اکبر” ہے جس کی پرستش اوّل اوّل دانایانِ مغرب نے شروع کی، چونکہ وہ آسمانی ہدایت سے محروم تھے اس لئے ان کی عقلِ نارسا نے دیگر نظام ہائے حکومت کے مقابلے میں جمہوریت کا بت تراش لیا اور پھر اس کو مثالی طرزِ حکومت قرار دے کر اس کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ پوری دُنیا میں اس کا غلغلہ بلند ہوا یہاں تک کہ مسلمانوں نے بھی تقلیدِ مغرب میں جمہوریت کی مالا جپنی شروع کردی۔ کبھی یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ “اسلام جمہوریت کا عَلم بردار ہے” اور کبھی “اسلامی جمہوریت” کی اصطلاح وضع کی گئی، حالانکہ مغرب “جمہوریت” کے جس بت کا پجاری ہے اس کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی ضد ہے.

جمہوریت” اس دور کا صنمِ اکبر "

جب بھی کبھی نظریات میں خرابی پیدہ ہوئی ہے اسکا اثر دور رس ہوتا ہے اور اگر صاحب نظریہ اپنے پیچھے پیرووں کی ایک بڑی تعداد رکھتا ہو تو یہ اثر دو چند بلکہ دگنی رفتار سے ضرب ہوتا چلا جاتا ہے جو امت کو تقسیم کرنے کا سبب بنتا ہے

مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم اپنی کتاب " مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ "
میں پہلی وجہ سیاسیات میں غلو بیان کرتے ہیں

گو اس بات سے اختلاف نہیں کہ سیاسیات مدن اسلام کے چند بنیادی امور میں سے ایک ہے لیکن اس بات کا انکار کرنا بھی مشکل ہے کہ ان سیاسی اختلافت کی وجہ سے ہی مسلمانوں میں فرقہ بندی کی ابتداء ہوئی

امت مسلمہ میں ابھر کر آنے والے پہلے تین گروہ

١ اہل سنت
٢ روافض
٣ خوارج

ان سیاسی اختلافت کی وجہ سے ہی وجود پزیر ہوے اور پھر اسکی بنیاد پر انہوں نے اپنے اپنے نظریہ پر دین کی ایک نئی شکل دریافت کی اور اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہ فرق اپنے اندر بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے ہیں اور آج انکی کئی برانچز اور سب برانچز موجود ہیں..

ان فکری مغالطوں سے دین کا جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے وہ " تاریخ اسلامی " ہے

قرآن محفوظ ہے اور اسکے ساتھ متصل سنت بھی محفوظ ہے گو اس پر فتن دور میں ان بنیادوں پر بھی ظالموں نے ہاتھ ڈال دیا ہے ...

تاریخ اسلامی ایک ایسا شجر سایہ دار ہے جسکی چھاؤں میں بیٹھ کر ہم اپنے ماضی کا جائزہ اپنے حال کی فکر اور اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں "

تاریخ اسلامی سے اعتماد کا اٹھ جانا ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ سے اعتماد اٹھ جاۓ دوسری طرف چونکہ اسلامی تاریخ دوسری تمام اقوام کی تواریخ سے زیادہ منضبط اور مستند ہونے کے باوجود اسلامی علوم میں ابتدائی اہمیت کی حامل نہیں .........

تاریخی روایات سے استفادے کیلئے جو نظام تشکیل دیا گیا ہے اسے " جرح و تعدیل " کے نام سے پہچانا جاتا ہے جسکی بنیاد اس نص قرآنی پر ہے

ارشاد باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْماً بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ.
اے اہل ایمان! اگر آپ لوگوں کے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کسی گروہ کو جہالت میں نقصان پہنچا بیٹھیں اور پھر اپنے فعل پر نادم ہوں۔ (الحجرات 49:6)

اس جرح و تعدیل کے ماہر حضرات مورخین و محدثین ہیں اسکی نص بھی قرآن سے بیان ہوتی ہے

وَإِذا جاءَهُم أَمرٌ مِنَ الأَمنِ أَوِ الخَوفِ أَذاعوا بِهِ ۖ وَلَو رَدّوهُ إِلَى الرَّسولِ وَإِلىٰ أُولِى الأَمرِ مِنهُم لَعَلِمَهُ الَّذينَ يَستَنبِطونَهُ مِنهُم ۗ وَلَولا فَضلُ اللَّهِ عَلَيكُم وَرَحمَتُهُ لَاتَّبَعتُمُ الشَّيطٰنَ إِلّا قَليلًا. {4:83} ؛
ترجمہ : اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن یا خوف کی تو اس کو مشہور کرديتے ہیں اور اگر اس کو پہنچا ديتے رسولؐ تک اور اپنے اولو الامر (علماء و حکام) تک تو جان لیتے اس (کی حقیقت) کو جو ان میں قوتِ استنباط (حقیقت نکالنے کی اہلیت) رکھتے ہیں اس کی اور اگر نہ ہوتا فضل ﷲ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو البتہ تم پيچھے ہو ليتے شیطان کے سواۓ چند (اشخاص) کے۔(النساء/83)؛

استنباط عربی کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے جو پانی زمین کی تہ میں پیدا کرکے عوام کی نظروں سے چھپا رکھا ہے اس پانی کو کنواں وغیرہ بنا کر نکال لینا ہے۔

مورخین اسلام ابن جریر طبری رح . تاریخ طبری
ابن کثیر رح . البدیہ و النھایہ
ابن خلدون رح . مقدمہ و تاریخ ابن خلدون
سیوطی رح . تاریخ الخلفاء
ابن سعد رح . طبقات ابن سعد
علامہ واقدی رح . تاریخ و فتوح الشام

میں جہاں اسلامی تاریخ کو مجتمع کیا ہے وہیں تاریخ کے متنازعہ واقعات پر جرح کی ہے اور انکی تاویلات کی ہیں اسی طرح علما امت نے مستقل تاریخ اسلامی سے متعلق ایسی کتب بھی لکھی ہیں جن میں تاریخی روایت کے نتیجے میں پیدہ ہونے والے اشکالات کا حل موجود ہے

ابن تیمیہ رح . منہاج السنہ
ابن العربی رح . العواصم من القواصم
حضرت شاہ ولی الله دھلوی رح . ازالة الخفاء عن خلافت الخلفاء

تاریخ کو مجرد اخبار و آحاد کی بنیاد پر فہم سلف سے ہٹ کر سمجھنا ایسے علمی مغالطوں میں مبتلاء ہے کرتا ہے کہ فکر و نظر کا رخ ہی تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے

جب ہماری میزان ہی ٹیڑھی ہوگی اور ہمارے ماپنے کے آلات ہی غلط ہونگے تو مطالعہ تاریخ کا مقصود ہی فوت ہو جاۓ گا ....
تاریخ جسکا مقصود ہمیں ہمارے اسلاف کے کارناموں سے آگاہی دلانا ہے
تاریخ جسکا مقصود ہمارا تعلق اپنی علمی سیاسی فکری اخلاقی اقدار سے جوڑنا ہے
تاریخ جسکا مقصود اپنی اصلاح اور اپنے مستقبل کی بنیادیں اپنی جڑوں پر استوار کرنا ہے اگر یہ تاریخ سلف کی فکر و نظر سے ہٹ کر دیکھی جاۓ تو نری جاہلیت دکھائی دیگی ...

آپ اپنے باطل پیمانوں کو لیکر پہنچ جائیے اور اسلامی تاریخ کو ماپنا شروع کیجئے نتیجہ ہمیشہ منفی ہی آۓ گا کیونکہ آپکے پیمانوں میں شدید کھوٹ ہے وہ باٹ جو آپ نے ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھے ہیں گھسے ہوے ہیں ......

یہ باطل پیمانے ہمیں اپنی تاریخ کے معروف کرداروں کو باطل دکھاتے ہیں جو ظلم کے خلاف کھڑا ہو وہی ظالم دکھائی دیتا

یہ وہ عینک ہے جسے پہن کر محمود غزنوی ڈاکو دکھائی دیتا ہے شہاب الدین غوری غاصب نظر آتا ہے عالمگیر جیسا درویش صفت حاکم منافق دکھائی دیتا ابدالی شر پسند ہوجاتا ہے ایوبی و زنگی ملوک بیبرس مطلق العنان حاکم غرض یہ سلسلہ یہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ دامن صحابہ رض تک کو تار تار کرنے کی کوشش کرتا ہے اب جو بھی راستے کی دیوار بننے کی کوشش کرے وہ اسلاف پرست وکیل صفائی ناقابل قبول و غیر مقبول ہوگا ..

یہ فکری مغالطے دو دھاری تلوار ہیں ایک طرف تو یہ اسلامی تاریخ کا وہ چہرہ پیش کرتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاۓ تو دوسری طرف اپنے ہی اسلاف پر بد اعتمادی کی فضاء قائم کر دیتے ہیں اور دعوا ہوتا ہے بے لاگ تحقیق .....

پہلے تو مجددین اسلام پر سے اعتماد اٹھایا جاتا ہے اسلام کا سب سے بڑا امر حکومت اسلامی کے قیام کو قرار دیا جاتا ہے اور پھر یہ سوال ہوتا ہے یہ فقہاء ، محدثین ، مورخین ، مجددین کیا کرتے رہے یہاں تک کہ شیخ السلام ابن تیمیہ رح جیسے مجدد کے تمام تجدیدی و احیائی کام پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ وہ بھی ایسی کوئی تحریک بپا کرنے میں ناکام رہے کہ اقتدار جاہلیت کے ہاتھوں سے نکل کر اسلام کے ہاتھوں میں آ جاتا .....

تو دوسری طرف ......

یہ فکر ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی کی عظیم الشان سیاسی قوت صرف تیس سال میں پارہ پارہ ہو گئی اسکے بعد جو اسلام نے دنیا پر حکومت کی وہ نری جاہلیت تھی یعنی اسلامی غالب ہوکر بھی مغلوب تھا حاکم ہوکر بھی محکوم تھا احسن ہوکر بھی اسفل تھا اعلیٰ ہوکر بھی ادنی تھا ......

یہ فکر کتنی تباہ کن ہے اسکا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ ایک طرف تو اسکی کدال اسلامی سیاست کی عظیم الشان عمارت کی جڑیں کھودتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اسلاف کی شخصیات پر مکمل بد اعتمادی پیدہ کر دیتی ہے یہ ایک ایسی روشن خیالی ہے جو اپنی حقیقت میں اندھیرا نہیں اندھیر ہے .....

اس فکر کے اثرات ان نفوس قدسی پر پڑتے ہیں جنہوں نے مکتب نبوت سے براہ راست فیض حاصل کیا تھا

سید ابو الحسن علی ندوی رح ایک جگہ لکھتے ہیں !

لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب اسلامی دعوت اپنے سب سے بڑے داعی کے ہاتھوں اپنے دور عروج میں کوئی دیر پا اور گہرے نقوش مرتسم نہ کر سکی اور جب اس دعوت پر ایمان لانے والے اپنے نبی علیہ سلام کی آنکھ بند ہوتے ہی اسلام کے وفادار اور امین نہ رہ سکے اور رسول الله صل الله علیہ وسلم نے انھیں جس صراط مستقیم پر چھوڑا تھا ان میں سے معدودے چند آدمی ہی اسپر گامزن رہے تو ہم یہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ ان کے اندر نفوس کے تزکیہ کی صلاحیت ہے وہ انسان کو حیوانیت کی پستی سے نکال کر انسانیت کی بلند چوٹی تک پہنچا سکتی ہے اور ہم کس امید پر اس وقت دنیا کی قوموں اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں "

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کیا اسلام کا نظام عالی شان صرف تیس سال چل سکا اس روایت کے راویوں کی چھان پھٹک سلف کی آراء پر بحث تو ایک طرف ذرا عقل ہی استعمال کیجئے اپنی فطرت سلیم کو آواز دیجئے آج دنیا میں اسلام کے غلبے کی بات کرنے والے جب اپنی بنیادوں میں یہ عقیدہ لیے بیٹھے ہونگے کہ امت کی سیاسی عمارت اسلام کے ابتدائی تین ادوار میں ہی ڈھے گئی وہ تین ادوار جنکی تعریف خود زبان نبوی سے ہوئی ہے

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘([23]) (بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر جو ان کے بعد آئيں پھر جو ان کے بعد آئيں)۔

یہی وہ لوگ تھے بے شک یہی وہ لوگ تھے جنکے ہاتھوں فریضہ اقامت دین تکمیل کو پہنچا

امام قاضی احمد القلشانیؒ المتوفی سن 863ھ" فرماتے ہیں :

"والسلف الصالح وهو الصدر الأول الراسخون في العلم المهتدون بهدي النبي ﷺ الحافظون لسنته , اختارهم الله لصحبة نبيه وانتخبهم لإقامة دينه....."

سلف صالحین سے مراد وہ پہلی نسل ہے کہ جو راسخون فی العلم تھے، ہدایت نبوی کے ساتھ ہدایت یافتہ تھے۔ جو سنت کے محافظ تھے۔ انہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے چن لیا تھا اور ان سے راضی ہوا تھا کہ وہ اس امت میں دین کے امام بنیں۔ انہوں نے امت کی نصیحت چاہنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور انہوں نے رب کی رضا کے لیے اپنے آپ کو قربان کردیا۔

اور یہاں یہ سوال کہ ان اقامت دین کے معماروں نے ہی وہ عمارت ڈھا دی جسکی بنیادوں میں انکا خوں شامل ہے

افسوس صد افسوس

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

لیکن ہمیں کتاب الله کی گواہی کافی ہے

وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَ‌سُولَ اللَّـهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ‌ مِّنَ الْأَمْرِ‌ لَعَنِتُّمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّ‌هَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ‌ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الرَّ‌اشِدُونَ ﴿٧﴾

اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وه تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں .

لیجئے جائیں تو جائیں کہاں اور کہیں تو کہیں کیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تاریخ سے اپنی مرضی کا گند چننے کے بجاۓ سلف کے مستقیم راستہ پر چلا جاۓ کیونکہ یہی راستہ ہمیں منزل مقصود کی طرف لے جا سکتا ہے .....

حسیب احمد حسیب