بدھ، 26 فروری، 2014

غزل !

غزل !

تیرے جمال سے ہے انجمن میں آگ لگی
فضاء میں روشنی پھیلی زمن میں آگ لگی 

جلا کے رکھے تھے ہم نے تو روشنی کے لیے 
یہ کس چراغ سے میرے چمن میں آگ لگی

کسی کے حسن کا سورج طلوع ہوا ہے کہیں 
دیار عشق میں کوہ و دمن میں آگ لگی

کچھ اس ادا سے وہ محفل میں آج آۓ ہیں
ہے انگ انگ میں بھڑکی بدن میں آگ لگی

نجانے کیسی یہ تلخی در آ ئی لہجے میں
ہے بات بات میں سوزش سخن میں آگ لگی

میرے خدا میرے مالک تو بھیج ابر کرم
بجھا دے اے میرے مولیٰ وطن میں آگ لگی

یہ اسکا جسم ہے شعلہ ہے آگ ہے یا شرار
جو دھوۓ پیر تو اس نے ، لگن میں آگ لگی

یہ کس کی گرمی گفتار کی وجہ سے حسیب
ہر ایک شیریں سخن کے دھن میں آگ لگی

حسیب احمد حسیب

پیر، 24 فروری، 2014

تازہ غزل !

تازہ  غزل !


درد   دل   درد   لا  دوا   تو  نہیں 
پر دوا سے بھی  کچھ ہوا تو  نہیں 

تیرا غم ہو یا   میرا غم  ہو  صنم 
ایک دوجے سے ہم جدا  تو نہیں

ہر  منافق  کو   خوف ہے اس  کا
کوئی چھپ چھپ کےدیکھتا تونہیں

غیر کے ساتھ   وہ بہت خوش ہیں
ہم بھی خوش ہیں ہمیں گلا تو نہیں 

آپ  کیوں معترض ہیں  لینےمیں
یہ  میرا دل ہے آپ کا  تو   نہیں

کیا ملے گا صدائیں  دینے  سے
وہ صنم  ہے کوئی خدا تو   نہیں

خوش گمانی ابھی تلک ہے مجھے 
وہ  جفا کار  بے   وفا  تو  نہیں

کون  آواز دے رہا  ہے  مجھے 
میں یہیں ہوں ابھی گیا  تو نہیں

تم ابھی تک وہیں کھڑے ہو حسیب 
جانے والا   مگر مڑا   تو   نہیں

حسیب احمد حسیب         

ہفتہ، 22 فروری، 2014

مولوی ...........

مولوی ...........

کہاں سے آتا ہے یہ مولوی کیا یہ آسمان سے اترتا ہے یا زمین سے اگتا ہے ہمارے سامنے کا دیکھا بھالا پروان چڑھا بچہ اچانک مولوی بن جاتا ہے اسے تقدس کی چادر میں لپیٹ کر منبر پر بٹھا دیا جاتا ہے یا پھر .

ذلت برے نام لعنت ملامت مولوی کا مقدر ہوتی ہے
کسی کے نزدیک مولوی شیطان تو کسی کے نزدیک فرشتوں سے بھی اونچا انسان
یہ مولوی کیا ہے
کوئی لقب، نام ، پھبتی ، گالی ، دشنام ، اعزاز ، علامت ، سند یا اور کچھ
مولوی فتویٰ دیتا ہے مولوی حلوہ کھاتا ہے
مولوی دین بتاتا ہے مولوی چندہ لیتا ہے
مولوی یہ مولوی وہ
دشمنوں کی دشمنی اور اپنوں کی سنگدلی کا شکار
مولوی اس ذلیل معاشرے کی ایک ایسی پراڈکٹ ہے جو اپنی ذلت کا طوق مولوی کے گلے میں ڈال کر بری الزمہ ہونا چاہتا ہے .......
مدرسوں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر دین پڑھنے پڑھانے والا مولوی
چندے کے چند ٹکڑوں پر بمشکل گزر اوقات کرنے والا مولوی
دو کمروں کے گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ کم تنخواہ میں زندگی گزارنے والا مولوی

یا مسند و منبر پر بیٹھنے والا مولوی
بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والا مولوی
مرغ مسلم کھانے والا مولوی

فرشتہ یا عفریت
اسے ہم ہی نے تخلیق کیا ہے
ہم برے تو ہمارا مولوی برا
ہم اچھے تو ہمارا مولوی اچھا
ہم جھوٹے تو ہمارے مولوی جھوٹا
ہم سچے تو ہمارا مولوی سچا

مولوی کون
غریب کا وہ بچہ جو اچھی تعلیم حاصل نہ کر سکے
یا امیر کا وہ بچہ جو تعلیم حاصل کرنے کے لائق نہ ہو

مساجد و مدارس میں قال الله و قال الرسول کرنے والی یہ مخلوق
اپنوں کی بے توجہی
اور غیروں کی نشتر زنی کا شکار

یہ مرا مٹا ٹوٹا پھوٹا دین ان بوریہ نشینوں کے دم سے ہی زندہ ہے
ہاں ایسا وقت اآنے والا ہے
ہاں ہاں ایسا وقت آ چکا ہے
جب یہ زمین ان مولویوں کے خون سے سرخ ہے
اور اپنے اور غیر
کوئی انکا پوچھنے ولا نہیں
کوئی انکی آڑ بننے کو تیار نہیں
کوئی انکا بازو نہیں کوئی سہارا نہیں

مولوی کو تقدس کے منبر پر مت بٹھاؤ
مولوی کے گلے میں ذلت کا طوق مت پہناؤ
مولوی تمہارا اپنا ہے غیر نہیں
اسے تمہاری ضرورت ہے

اے متذبذب قوم
مولوی کو اپنا لو یا چھوڑ دو
دین کو اپنا لو یا چھوڑ دو

حسیب احمد حسیب

ہزل ! سبزی کی ڈھیریوں میں چقندر تلاش کر

ہزل !


سبزی کی ڈھیریوں میں چقندر تلاش کر 
چڑھ جا کس درخت پے بندر تلاش کر

گھرمیں نہیں ہےروشنی اتنی نہیں ہےعقل 
اندر جو کھو گیا ہے وہ باہر تلاش کر

خالی ہے اسکی اوپری منزل ابھی تلک 
اسکے دماغ میں تو اتر کر تلاش کر


اپنے تخیلات کی دنیا بنا نئی
لانڈھی کے آس پاس تو بھکر تلاش کر

الجھا دیا گیا ہے تو دنیا کے پھیر میں
اس پھیر کا تو آخری چکر تلاش کر

ہلچل مچی فضاءمیں ہےتھپڑ کےشورسے
اسکے نشان تو کسی منہ پر تلاش کر

دکھتی نہیں ہے شان قلندر کہیں حسیب
پھر گردش حیات کی ٹھوکر تلاش کر 

حسیب احمد حسیب

اتوار، 16 فروری، 2014

"کنڈاکنیکشن"

"کنڈاکنیکشن"

بجلی کی آنیاں جانیاں جاری ہیں توانائی کے اس مصنو عی بحران کی کچھ عالمی اور کچھ دیسی وجوہات بھی ہیں یہ حمام ہے جسمیں ہمارے ملکی اور غیر ملکی آقا بلکل ننگے ہیں .......
پاکستان میں بجلی کا بحران ایسی بلا ہے جو اگر کس زندہ قوم پر مسلط ہوتی تو شاید انقلاب کا لال رنگ ہر طرف بکھرا ہوتا ...

بجلی کے اس بحران کے بڑے تناظرات کے علاوہ ایک بظاھر چھوٹا لیکن اس قوم کی اصل کیفیت کو ظاہر کرتا مظہر "کنڈا کنیکشن " بھی ہے ....
جب اور چیزوں میں چوری ہو سکتی ہے تو بجلی کی چوری کیوں نہیں آخر گھر کےاے سی بھی چلانے ہیں اور تقریبات کی اضافی لائٹنگ اپنی ذاتی بجلی پر کیوں ہو آخر اپنی "حق حرام" کی کمائی بجلی کے بلوں پر ہی کیوں خرچ کی جاۓ.......
آپ کی دکان ہے صبح سے شام تک چلتی ہے کنڈا زندہ بعد آپ کوئی کاروباری مرکز چلا رہے ہیں بجلی چوری آپ کا حق ہے .
گزشتہ دو دن بجلی غائب تھی انتہائی ذلت آمیز انتظار کے بعد جب تشریف لائی تو ایک صاحب نے اپنی دینی اور ایمانی ضرورت سمجتھے ہوے کنڈا لگانے کی کوشش کی شارٹ سرکٹ ہوا اور بجلی پھر غائب ...

ایک پڑوسی جو ماشاء لله حاجی نمازی ہیں ہر جمعہ عربی جبہ پہن کے بڑے طمطراق سے نکلتے ہیں اکثر مذہبی بھاشن دیتے دکھائی دینگے بجلی بھی انتہائی خشوع و خضوع سے چوری کرتے ہیں اور ناغہ بلکل نہیں کرتے جب انکو متوجہ کیا تو کہنے لگے ........
کیا کریں مجبور ہیں ....
کوئی بات نہیں ہمارے حکمران بھی مجبور ہیں ......
پھر رونا کاہے کا .
جیسی قوم ویسے کنڈے .

حسیب احمد حسیب

چورنگی کے " ہیرے "


چورنگی کے " ہیرے
"

چورنگی کیا ہے ایک تفریحی گروپ جہاں لوگ چند لمحے آکر اپنے ذہن کو فکروں سے آزاد کر سکیں یا ایک ادبی محفل جہاں لوگ اپنی علمی استعداد بڑھا سکیں دوستوں کی ایک بزم جہاں ملکر کوئی مثبت سرگرمی کی جا سکے یا پھر فیس بک پر موجود ایک بڑی فیملی.....

چورنگی کچھ بھی نہیں اگر چورنگی کے ہیرے نہ ہوں یہ ایک ایسے زیور کی طرح ہو گی جس میں ہیروں کی جگہ خالی ہو اور وہ بدنما لگے اور کوئی اسے پہننا پسند نہ کرے

یہ ہیرے کون ہیں کس کس کا نام لوں کس کس کا ذکر کروں یہ بوڑھے جوان نو جوان بچے مرد و خواتین یہ سب لوگ جو ایک طویل عرصے سے اس گروپ کو اپنا وقت اپنی صلاحیتیں اپنا دماغ دے رہے ہیں
بے شک سلام ہے ان سب کو اور میں دل سے شکر گزر ہوں انکا اور دعا گو ہوں ان سب کیلئے .....

آج دل چاہتا ہے اپنا دل کھول کر رکھ دوں آپ سب کے سامنے کبھی کبھی میں غصے میں آ جاتا ہوں جھنجھلا جاتا ہوں جب کوئی کہتا ہے " یہ گروپ نہیں چلے گا " ، یہ ختم ہو جاۓ گا ، اسکا کیا مقصود ہے ، اسکی کیا حیثیت ہے ، اسکو کون پوچھتا ہے ، فیس بک کی دنیا میں اسکا کیا مقام ہے ، آپ کیوں اپنی قیمتی صلاحیتیں یہاں برباد کرتے ہیں ......

مجھے بہت غصہ آتا ہے جیسے میرے خوابوں میں سے کوئی خواب چھینا جا رہا ہو جیسے کوئی مجھے توڑنے کی کوشش کر رہا ہوں ....

میں خوابوں کا آدمی ہوں چھوٹی چوٹی چیزوں کو لیکر میرا ذہن بڑی بڑی کہانیاں بنتا ہے
ابھی تو چورنگی کو ایک اعلی ترین ادبی گروپ بنانا ہے
ابھی تو نوجوان فکری ادیبوں کی ایک نرسری تشکیل دینی ہے
ابھی تو ایک ایسی انجمن بنانی جو اسلامی فکر کو ادبی اور تعلیمی حلقوں میں متعارف کروا سکے

ابھی چورنگی کے سالنامے کا اجراء کرنا ہے
ابھی تو چورنگی کو رجسٹرڈ کروانا ہے
ابھی اسکے تحت ادبی محافل کا انعقاد کرنا ہے

میں خواب دیکھتا ہوں

لیکن میرے خوابوں کی کی کیا اہمیت ہے
جب تک مجھے چورنگی کے ہیروں کا ساتھ میسر نہ ہو
جب تک انکی روشنی میرے راستے کو روشن نہ کر دے

کیا آپ بھی میرے ساتھ ملکر اس خواب تعبیر ڈھونڈنے کیلئے تیار ہیں

کیا چورنگی کے ہیرے میرے ساتھ ہیں .............؟؟؟

حسیب احمد حسیب

" کج بحث "


" کج بحث "

یہ زور زور سے سر ہلائینگے آنکھیں میچینگے ہونٹوں پر استہزایہ مسکراہٹ نمودار ہو گی 
اوہو ،اچھا جی ،ہممم ، وہ کیسے ، کیا بات کرتے ہیں صاحب

یہ " کج بحث " ہیں 

یہ آج تک کوئی مباحثہ نہیں ہارے آپ لاکھ مظبوط دلائل باندھیں لیکن انکے سامنے ایک نہ چلے گی انکے سامنے ہر شخص طفل مکتب ہے انکی پرواز اقبال کے شاہین سے دو چار فٹ اوپر ہی ہوتی ہے اور ہمیشہ پاتال کی خبر لاتے ہیں .....
یہ مخلوق چوک ، چوراہوں ، چورنگیوں ، بیٹھکوں اور چاۓ کے ہوٹلوں پر بکثرت ملے گی ہر جگہ یہ اپنے شکار کی تلاش میں ہوتے ہیں ....
کسی ایسے ہی مقام پر کوئی صاحب پورے احترام سے آپ کو ایک چاۓ کی پیالی آفر کریں تو سمجھ جائیں یہ 
" کج بحث " ہیں ایک پیالی چاۓ کے بدلے میں ایک بوتل خون چوس لینا انکا کمال ہے اگر آپ پھنس ہی چکے ہیں تو کوشش کریں کسی طرح بہانے سے کانوں میں کچھ ٹھونس لیں ..
یہ زور سے آپ کا کاندھا  ہلائینگے " سن رہے ہو نہ بھائی "
ایسے میں جلدی سے بیت الخلا کا بہانہ کر کے رفو چکر ہونے کی کوشش کیجئے 
لیکن پیچھا نہیں چھوٹے گا یہ عوامی بیت الخلا کے باہر آپ کے انتظار میں کھڑے رہینگے کسی دوست کو مسیج کرکے فون کرنے کا کہیں اور کسی مرے ہوے رشتے دار کی مکرر موت کی خبر سنانے کا کہیں 
اگر قسمت اچھی ہوی تو پیچھا چھوٹ جاۓ گا ورنہ یہ قبرستان تک بھی جا سکتے ہیں .

بلا تخصیص ہر موضوع پر ہر وقت ہر قسم کی گفتگو کے لیے تیار رہتے ہیں 
انکی اپنے گھر میں کوئی نہیں سنتا اسلئے یہ شکار کی تلاش میں اکثر گھر سے باہر ہی ہوتے ہیں 

یہ ہمیشہ مائیکرو سکوپک ہوتے ہیں بڑی خوبیوں میں چھوٹی خرابیاں ڈھونڈ نکلنا انکا کمال ہوتا ہے 
آپ کوئی بھی ہیں کسی بھی طرز فکر کے حامل ہیں انکے پاس مخالفانہ دلائل بکثرت موجود ہونگے 
چیزوں میں کیڑے نکالنا اور جہاں کیڑے نہ ملیں وہاں کیڑے ڈالنا انکا شیوہ کج بحثی ہے 

اگر آپ کو کبھی کوئی کج بحث نہیں ملا تو جان لیں 
یا تو آپ دنیا کے سب سے خوش قسمت انسان ہیں 
یا 
آپ " کج بحث " ہیں 

حسیب احمد حسیب

ہفتہ، 15 فروری، 2014

بس " ایک " دن

بس " ایک " دن

لیجئے ہم کوئی فتویٰ صادر نہیں کرتے نہ ہی ہمارے ہاتھ میں تکفیر کی تلوار ہے ہم کوئی فقہی موشگافی بھی نہیں کرنے والے معذرت ہماری داڑھی پر مت جائیں ہمارے سینے میں بھی عاشق کا دل ہے اور ہمیں امید ہے آپ یہ سوال بھی نہیں اٹھائینگے کہ ہمارا دل کہاں ہے ہم بھی آپ سے آپ کے دل کی بابت دریافت نہیں کرینگے .......
لو جی سینٹ ولین ٹائین ہونگے مغرب کے شہید محبت ہمارے ہاں اسے ذلت کی موت ہی سمجھا جاتا تھا ایسے عاشق گامے ماجھے گلی گلی مل جائینگے حال ہی میں ایک لاہوری ولین ٹائین نے بھرے میڈیا کے سامنے اپنی متوقع محبوبہ کیلئے بندوق لہراتے ہوے خود سوزی کی کوشش کی اس دوران مذکورہ محبوبہ نے واشروم میں چھپ کر جان بچائی قریب ہی تھا کہ ہمیں ایک لوکل شہید محبت دستیاب ہو جاتا لیکن کیا کیجئے پنجاب کے ایک گھبرو طالبان پولیس افسر نے اسکی گردن ناپ لی اور بیچارہ پھجا ولین ٹائین نہ بن سکا
بد دعا لگے اس پولیس والے کو ہمارے لبرلز کی
ویسے ہماری تاریخ میں بھی حقیقی و غیر حقیقی عاشقوں کی کوئی کمی تو نہیں انار کلی ہو یا سلیم یا پھر کسی رانجھے کی ھیر لیلا کا مجنوں ہو یا فرہاد کی شیریں تاریخ کے صفحات ان قصے کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں اجی کوئی لوکل عاشق ڈھونڈ لیتے مغرب کا سولی چڑھا بابا ہی رہ گیا
لیکن کیا کیجئے بیچو وہ جو بکتا ہے
پاکستانی بت بیچو
یا مردوں کے ٹیلے سے گڑھے مردے نکال کر بیچو
یا محبت بیچو
اس جدید دنیا میں سب بکتا ہے
اجی ہمیں ہر قسم کا عاشق منظور ہے جو بھی ہو جیسا بھی ہو چلے گا مرد و عورت کی اس کہانی میں کس کو لطف نہیں آتا عاشقی و معشوقی زندہ باد
لیکن ہمیں عاشق رسول برداشت نہیں یہ عاشقوں کی بڑی خطرناک قسم ہے جان لیوا .....

یہاں تو قصہ یہ ہے بس
ایک دن وہ کیوں
ایک دن اولڈ ہاؤس میں رکھی ہوئی ماں کا
ایک دن متروک شدہ باپ کا اگر معلوم ہو تو
ایک دن محبت کا
کس سے ہر کسی سے سبھی سے جو بھی جیسا بھی آپ کی مرضی

یہ تو ہمارا شکست و ریخت کا شکار مشرقی معاشرہ ہے جہاں تھوڑا بہت خاندانی نظام باقی ہے ابھی بھی کہیں کہیں باپ کی سنی جاتی ہے ماں کو ابھی تک لوگوں نے گھروں میں رکھا ہوا ہے کچھ لوگ اب بھی اپنی بیویوں سے وفا دار ہیں
بس یہی وجہ ہے ہم پیچھے ہیں

اتنا وقت اتنا احترام ان بیکار لوگوں کیلئے
بیوقوف لوگ جاہل معاشرہ
مولوی ، مدرسے ، دین ، شریعت
بیکورڈ لوگ گنوار ہنہ

اپنی اپنی ماؤں کو گھروں سے نکال دو
ہاں ایک دن انکا ہے یہی ترقی ہے
اپنے باپوں کو فراموش کر دو بس ایک دن کیک اور کارڈ بھجوا دینا کافی ہے

اور بیوی کی ضرورت ہی کیا ہے
اور اگر ہے بھی تو بس " ایک " دن اسکا ہے

باقی اپنا نعرہ تویہ ہو

بابر به عیش کوش که عالم دوباره نیست

ہر روز نیا ساتھ نیا ساتھی
نہ کوئی بندھن اور نہ کوئی زنجیر
میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں
کا فلسفہ

اور سال میں ایک بار محبت بیچنے والوں کا دن
محبت خریدیں محبت بیچیں
ایک دن ایک رات
اور اگلی صبح اگلے سال تک محبت کو خدا حافظ

حسیب احمد حسیب

منگل، 4 فروری، 2014

باب الاسلام سے "موئن جو دڙو" تک !

باب الاسلام سے "موئن جو دڙو" تک !

سندھی زبان میں "موئن" کا مطلب "مردے" اور "دڑو" کا مطلب "ٹیلہ" جبکہ "جو" "کا" کے لئے استعمال ہوتا ہے اس طرح لفظ بنتا ہے "مردوں کا ٹیلہ"

یہ سندھ کی قدیم ترین تہذیب ہے جو ٢٦٠٠ قبل از مسیح کا زمانہ ہے ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ ٣٠٠٠٠ ہزار کی آبادی والا یہ شہر جدید ڈسٹرکٹ لاڑکانہ میں واقع تھا ١٩٢٢ میں ایک ہندوستانی تاریخ دان اور محقق آر ڈی بنجیری (Rakhaldas Bandyopadhyay (Bengali: রাখালদাস বন্দোপাধ্যায়) نے دریافت کیا ......

ان کی تباہی کی کوئی معقول وجہ آج تک بیان نہیں کی جا سکی یہاں سے نکلنے والے مجسمے یہ بتاتے ہیں کہ یہ قوم بت پرست تھی اس قوم کی ایک خاص بات انکا آبپاشی کا نظام ہے
یہاں کنووں کا ایک باقائدہ نظام تھا موجود تھا جسکے ذریعہ پانی کو جمع کیا جاتا تھا عظیم حمام انکی خاص عبادت کا حصہ تھا جہاں مرد و عورت غسل کرتے تھے .
عظیم کنواں انکی خاص نشانی ہے (http://www.mohenjodaro.net/wellindus76.html) جو سینکڑوں چھوٹے کنووں تک پانی پہچانے کا بنیادی منبع تھا ...

قرآن کریم اور اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے ایک عجیب انکشاف ہوا کہ اسلامی مصادر میں بھی ایک قوم کا تذکرہ ملتا ہے جنکی خاص علامت کنواں ہی تھا یعنی " اصحاب الرس "
قال تعالى في سورة الفرقان :

(( وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَلِكَ كَثِيرًا )).

وقال تعالى في سورة ق:

(( كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ ))

قصص القرآن میں ایک عجیب واقعہ پڑھنے کو ملا

لغت میں رس کے معنی پرانے کنویں کے ہیں اور اصحاب الرس کے معنی ہوے کنوے والے

ابو بکر بن عمر بن حسن نقاش اور سہیلی کہتے ہیں اصحاب الرس کی بستی میں ایک بہت بڑا کنواں تھا جسکے پانی سے وہ پیتے اور اپنی کھیتیاں سیراب کرتے تھے اس بستی کا بادشاہ بہت عادل تھا اور لوگ اس سے بہت محبت کرتے تھے جب اس بادشاہ کا انتقال ہوا تو لوگ بہت غمگین ہوے ایک دن ایک سرکش شیطان اس بادشاہ کی شکل میں پہنچا اور کہنے لگا میں وقتی طور پر تم لوگوں سے دور ہوا تھا اور اب میں واپس آ گیا ہوں اور ہمیشہ زندہ رہونگا لوگ بہت خوش ہوے اور ایک عظیم جشن کا انتظام کیا اس فسٹیول کے بعد اس شیطان نے ان پر حکومت شروع کر دی اور ان لوگوں کو عیش و عشرت اور بت پرستی پر ڈال دیا .

کہتے ہیں ان لوگوں میں حنظلہ بن صفوان نامی نبی مبعوث کیے گۓ جنہوں نے ان لوگوں پر دین کی دعوت پیش کی لیکن وہ لوگ شیطان کی پیروی میں اندھے ہو چکے تھے اور انہوں نے اس پیغمبر کو قتل کر دیا اور ان پر الله کا عذاب نازل ہوا تفسیر ابن کثیر سوره فرقان (البدایہ و النہایہ ١)

کچھ اور روایات میں ملتا ہے کہ ان پیغمبر کو ایک بڑے کنویں میں قید کر دیا گیا تھا اسی طرح ابن ابی حاتم کی روایت میں آتا ہے کہ اس قوم نے اپنے نبی کو کنویں میں دفن کر دیا تھا ...

آج کوئی بھی مکمل استحقاق سے نہیں کہ سکتا کہ "موئن جو دڙو" والے کون لوگ تھے اسی طرح اصحاب الرس کی باقاعدہ شناخت بھی ممکن نہیں لیکن دونوں کے مشترکات بیشمار ہیں
عظیم کنووں کا نظام
بت پرستی
خوشحالی کے بعد اچانک تباہی

محققین کیلئے میدان کھلا ہے کہ مزید تحقیق کرکے معاملے کی حقیقت کو واضح کیا جاۓ

اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے قوم پرستی کا نعرہ سب سے پہلے عرب میں بلند کیا گیا اسکو
حضرت اقبال کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں

کرے یہ کافر ہندی بھی جُرأت گفتار
اگر نہ ہو اُمرائے عرب کی بے ادبی
یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس اُمت کو؟
وصال مُصطفویؐ، افتراق بُولہبی
نہیں وجود حدود و ثُغُور سے اس کا
محمدِؐ عربی سے ہے عالمِ عربی
(اُمرائے عرب سے)

عرب قوم پرستی کا شاخسانہ تھا کہ خلافت عثمانیہ کا زوال ہوا شریف مکّہ اور لارینس آف عربیہ جیسے کرداروں کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا گیا
لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس (16 اگست 1888ء – 19 مئی 1935ء)، جنہیں پیشہ ورانہ طور پر ٹی ای لارنس (T. E. Lawrence) کے طور پر جانا جاتا تھا، برطانوی افواج کے ایک معروف افسر تھے جنہیں پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں عرب علاقوں میں بغاوت کو منظم کرنے کے باعث عالمی شہرت ملی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں جنگ عظیم کے بعد عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کی دسترس سے نکل گئے۔
١٩١٤ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ اس جنگ میں عثمانی حکومت(٦) نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ جزیرہ نمائے عرب مکمل طور پر عثمانیوں کے قبضہ میں تھا۔ اتحادیوں ( برطانیہ ، روس ، فرانس ) نے کوشش کی کہ عثمانی سلطنت کو اندرونی طور پر کمزور کر کے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں۔ امیر مکہ ''شریف حسین'' اس کام کے لیے بہترین عنصر تھا۔ مصر میں برطانیہ کے نمائندہ ''ہنری میکموہن'' کو شریف حسین کے ساتھ مذاکرات کے لیے مامور کیا گیا۔ شریف حسین نے ان مذاکرات میں برطانیہ کے ساتھ تعاون اور عثمانی سلطنت کے خلاف قیام کو چند شرائط کے ساتھ قبول کرلیا۔ ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ برطانوی حکومت ایک وسیع علاقہ کو عربی مملکت کی حیثیت سے مان لے۔ یہ علاقہ شمال کی جانب ترکی میں ''مرسین اور افنیہ''، جنوب میں ''بحر ہند''، مغرب میں ''بحر روم'' اور مشرق میں ''خلیج بصرہ اور فارس'' پر مشتمل تھا۔
''میکموہن'' نے '' شریف حسین '' کی شرائط کے جواب میں چالاکی کے ساتھ کوشش کی کہ عربی خطہ کی بحث درمیان میں نہ آنے پائے لیکن شریف حسین کا اصرار جاری رہا۔ بالآخر اس نے شریف حسین کو پیغام دیا کہ عربوں کی درخواست کو قبول کرلیا گیا ہے۔
عربوں کو عثمانی ترکوں کے خلاف بھڑکانے کی برطانوی پالیسی کا نتیجہ جلد ہی نکل آیا۔
عربوں نے اس امید پر کہ جنگ کے بعد خود مختاری حاصل کرلیں گے اور عرب حکومت تشکیل دے سکیں گے، غریب اور مظلوم عوام کو جمع کیا اور عثمانی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کردیا اور اتحادی افواج کے تعاون سے علاقہ کے امن و امان کو اس طرح خطرے میں ڈال دیا کہ عثمانی حکومت کے لیے اس علاقہ پر کنٹرول قائم رکھنا ناممکن ہوگیا۔
عثمانی حکومت کے خاتمہ اور سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے میں اس خطہ کے عربوں کا کردار اتنا اہم تھا کہ عرب علاقہ میں برطانوی افواج کے سربراہ جنرل ''آلن بی '' نے جولائی ١٩١٨ء میں برطانیہ کی وزارت جنگ کو جو رپورٹ پیش کی اس میںوہ بڑی صراحت سے کہتا ہے کہ '' اس جنگ سے حاصل ہونے والے آخری نتائج میں عرب افواج کا بڑا حصہ ہے اور انہوں نے اس راہ میں مکمل تعاون کیا ہے۔ ''
عربوں نے اپنی پوری طاقت عثمانی حکومت کو کمزور کرنے میں صرف کردی اور وہ اس بات سے غافل رہے کہ برطانوی استعمار اور اس کے اتحادیوں نے درپردہ ان کے بارے میں کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
ایسی ہی کوشش مصر میں کی گئی نعرہ تھا اسلام نہیں بلکہ احرام مصر اور ابو الحول ہماری نشانی ہیں قدیم فرعونی تہذیب ہماری پہچان ہے
ترک جنگ آزادی پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد ترک قوم پرستوں کی ایک سیاسی و عسکری تحریک تھی، جس کے نتیجے میں جمہوریہ ترکیہ کا قیام عمل میں آیا۔
اس تحریک کا آغاز انقرہ میں ترک قوم پرستوں کی جانب سے مصطفیٰ کمال کی زیر قیادت مجلس کبیر ملی (Grand National Assembly) کے قیام سے ہوا۔ یونان کی جارحانہ کاروائیوں کے خلاف عسکری مہمات اور ترک-ارمنی اور ترک-فرانس جنگ کے بعد ترک انقلابیوں نے اتحادیوں کو مجبور کیا کہ وہ معاہدۂ سیورے کو کالعدم قرار دیں۔ جولائی 1923ء میں معاہدۂ لوزان طے پایا جس کے تحت ترکی کی سالمیت تسلیم کی گئی اور اکتوبر 1923ء میں اناطولیہ اور مشرقی تراقیا میں جمہوریہ ترکیہ کا قیام عمل میں آیا۔
اس جنگ کے نتیجے میں عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور مصطفیٰ کمال، جسے اتاترک یعنی 'ترکوں کے باپ' کا خطاب دیا گیا، نے اصلاحات کے بعد خلافت کا بھی خاتمہ کر دیا اور ایک جدید لادینی ریاست تشکیل دی

ایسی ہی کوششیں بر صغیر میں بھی جاری رکھی گئیں لارڈ میکالے کا نظام قوم پرستانہ مزاج اور عصبیت کو بیدار کرنے میں معاون ثابت ہوا اقبال اسکو اسطرح بیان کرتے ہیں

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے !

ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی

ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

یہ دین کے مزاج کے سراسر خلاف تھا اور آج بھی ہے

" اسلام مذھب کی حیثیت سے پہلے جنوبی ہند پہنچا- مسلمان تاجرو اور مبلغین ساتویں صدی عیسوی میں (یاد رہے کہ رسول اللہۖ کی وفات 632ء میں ہوئی تھی- یعنی آپ کی وفات کے بعد جلد ہی مسلمان) مالیبار اور جنوبی سواحل کے دیگر علاقوں میں آنے جانے لگے- مسلمان چونکہ بہترین اخلاق و کردار کے مالک اور کاروباری لین دین میں دیانتدار واقع ہوئے تھے- لہذا مالیبار کے راجاؤں، تاجروں اور عام لوگوں نے ان کے ساتھ رواداری کا سلوک روا رکھا- چنانچہ مسلمانوں نے بریصغیر پاک و ہند کے مغربی ساحلوں پر قطعی اراضی حاصل کرکے مسحدیں تعمیر کیں- (یاد رہے کہ اس وقت حانقاہوں کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا) اور اپنے دین کی تبلیغ میں مصروف ہوگئے- ہر مسلمان اپنے اخلاق اور عمل کے اعتبار سے اپنے دین کا مبلغ تھا نتیجہ عوام ان کے اخلاق و اعمال سے متاثر ہوتے چلے گئے- تجارت اور تبلیغ کا یہ سلسلہ ایک صدی تک جاری رہا یہاں تک کہ مالیبار میں اسلام کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا اور وہاں کا راجہ بھی مسلمان ہوگیا- جنوبی ہند میں فروغ اسلام کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں جنوبی ہند مذھبی کشمکش کا شکار تھا- ہندو دھرم کے پیروکار بدھ مت اور جین مت کے شدید محالف اور ان کی بیخ کنی میں مصروف تھے- ان حالات میں جب مبلغین اسلام نے توحید باری تعالی اور ذات پات اور چھوت چھات کی لا یعنی اور خلاف انسانیت قرار دیا، تو عوام جو ہزاروں سال سے تفرقات اور امتیازات کا شکار ہورہے تھے- بے اختیار اسلام کی طرف مائل ہونے لگے- چونکہ حکومت اور معاشرہ کی طرف سے تبدیلی مذھب پر کوئی پابندی نہیں تھی- لہذا ہزاروں غیر مسلم مسامان ہوگئے- (تاریخ پاک وہند، ص:390)

اب خاص سندھ میں اسلام کی آمد کو دیکھئے

1۔ دور فاروقی

دور فاروقی میں بحرین وعمان کے حاکم عثمان بن ابوالعاص ٹقفی نے 636ء-637ء میں (وفات رسول اللہ سے صرف 4 سال بعد) ایک فوجی مہم تھانہ نزد ممبئی میں بھیجی- پھر اس کی اطلاع حضرت عمر رض کو دی- آپ ناراض ہوئے اور لکھا" تم نے میری اجازت کے بغیر سواحل ہند پر فوج بھیجی- اگر ہمارے آدمی وہاں مارے جاتے تو میں تمہارے قبیلہ کے اتنے ہی آدمی قتل کرڈالتا" (تاریخ پاک وہند ص: 18)

2۔ عہد عثمانی

عہد عثمانی میں عراق کے حاکم عبداللہ بن عامر نے حکیم بن حبلہ کو بریصغیر سرحدی حالات کی تحقیق پر مامور کیا- واپسی پرانہوں نے حضرت عثمان رض کو اپنی رپورٹ میں بتلایا کہ " وہاں پانی کیمیاب ہے، پھل نکمے ہیں، ڈاکو بہت دلیر ہیں اگر قلیل التعداد فوج بھیجی تو ہلاک ہوجائے گی اور اگر زیادہ لشکر بھیجا گیا، تو بھوکوں مرجائے گا" اس رپورٹ کی بناء پر حضرت عثمان غنی رض نے مہم بھیجنے کا ارادہ ترک کردیا۔ (تاریخ پاک وہند ص: 19)

3۔ دور معاویہ

حضرت امیر معاویہ رض کے دور حکومت میں مشہور سپہ سالار مہلب بن ابی صفرہ نے برصغیر کی سرحد پر حملہ کیا اور لاھور تک بڑھ آیا- انہی ایام میں خلیفہ اسلام نے ایک اور شپہ سالار عبداللہ بن سوار عبدی کو سواحل برصغیر کے سرکش لوگوں کی گوشمالی کے لیے 4 ھزار کی عسکری جمیعت کے ساتھ بھیجا- اس نے قیقان کے باشندوں کو سخت شکست دی اور مال غنیمت لے کر واپس چلاگیا- ان نے حضرت امیر معاویہ رض کی خدمت میں قیقانی گھوڑے پیش کیے- لیکن کچھ مدت بعد عبداللہ بن سوار قیقان واپس آگیا، جہاں ترکوں نے یورش کرکے اسے قتل کردیا- (تاریخ پاک وہند ص:19)

4۔ عہد ولید بن مالک

بعد ازاں 712ء یعنی 93ھ میں ولید بن مالک کے زمانہ میں وہ واقعہ پیش آیا جس نے برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں بڑا موثر کردار ادا کیا یعنی محمد بن قاسم رح نے اس سال سندھ کے سارے علائقہ کو فتح کرلیا- اس حملہ ک ےاسباب و محرکات ہمارے موضوع سے خارج ہیں- ہم ت ویہ دیکھنا چاہتے ہیں اس مہم میں محمد بن قاسم نے دیبل، نیرون، سیوستان، سیسم، رادڑ، برہمن آباد، اوور، باتیہ (موجودہ بہاولپور کے قرب و جوار میں موجود تھا)، اور ملتان کو فتح کیا اور قنوج کی تسخیر کا ارادہ کررہا تھا کہ اسے واپس بلالیا گیا-

محمد بن قاسم رح کے جانے کے بعد فتوحات کا سلسلہ اچانک رک گیا- بہرحال عرب سندھ و ملتان پر 200 سال سے زیادہ عرصہ تک (یعنی 10 صدی عیسوی تک) قابض رہے، چوتھی صدی ہجری تک خلیفۃ المسلمین والیان سندھ کا تقرر کرتے رہا- اس کے سندھ میں عربوں کی دو نیم ریاستیں قائم ہوگئیں- ان میں سے ایک ملتان اور دوسری منصورہ تھی۔ (تاریخ پاک وہند ص: 35)

محمد بن قاسم کی ان فتوحات نے اشاعت اسلام کے سلسلہ میں کیا کردارادا کیا؟ وہ پروفیسر عبدالقادر و شجاع الدین کی زبان سے سنیے:

" فتح سندھ کے بعد بےشمار علماء، مبلغین، تاجر اور صناع عرب سے آکے سندھ میں آباد ہوئے۔ مقامی باشندوں میں اسلام رائج ہوا اور یہ سرزمین فرزندان توحید کا گہوارہ بن گئي- آج سندھ اسی طرح اسلامی خطہ ہے جس طرح عراق اور مصر- ہم عربوں کی فتح سندھ کی عظمت، اس کی تاریخی اہمیت اور اس کے نتائج کے منکر نہیں ہوسکتے" (تاریخ پاک وہند ص: 40)

حوالہ جات : مقالہ کا عنوان: صوفیوں کی برصغیر میں آمد
مقالہ نگار: عبد الرحمن کیلانی

سوال یہ ہے کہ کیا اسلام ایک بے تہذیب دین ہے جسکی اپنی کوئی معاشرت نہیں جسکا اپنا کوئی مزاج نہیں جسکا اپنا کوئی رنگ نہیں
کبھی مصر کے احرام تو کبھی مردوں کے ٹیلے
کیا یہی ہماری پہچان ہے کیا یہی ہماری تہذیب ہے
کبھی مغرب کی جانب سے ولین ٹائین کا غلغلہ تو کبھی کرسمس کا شور
کبھی بسنت پنچمی میں کٹتی بیگناہ اور معصوم گردنیں
تو کبھی ہولی دیوالی دسہرہ
اور ان سے دل نہ بھرے تو کسی مردہ سیاسی گھرانے کا بے بی بچہ ہزاروں سال پہلے کی تہذیب کی چوسنی منہ میں دباۓ پوری قوم کو میٹھی گولی دینے چلا آۓ

افسوس صد افسوس

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

حسیب احمد حسیب

ہفتہ، 1 فروری، 2014

" صنم خانہ یورپ "

" صنم خانہ یورپ " 

(Idols) برطانوی ٹی وی نے ٢٠٠١ میں (Pop Idol) کے نام سے موسیقی کی ایک سیریز شروع کی جو بعد ازاں آئ ڈول فرنچائز کے بینر تلے پوری دنیا میں معروف ہوا اس پروگرام کا سب سے آخری شکار پاکستان بنا ..
" پاکستانی بت " شاید اس سیریز  کا سب سے بھونڈا ورژن ہے جسنے ناکامی کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے اس پروگرام کے ججز میں ایک پرانی ادکارہ جو میکپ کی تہوں میں اپنا بڑھاپا چھپانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں پاکستانی پاپ موسیقی کا ایک چلا ہوا کارتوس جو گلوکار سے زیادہ کامیڈین دکھائی دیتا ہے اور ایک ایسی گلوکارہ جسکا کوئی ذاتی گانا آج تک معروف نہ ہو سکا اس پروگرام کو پاکستان کا ایک معروف میڈیائی مگرمچھ پروموٹ کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے ..

جدید استعماری میڈیا ثقافتی بت تیار کرنے میں ماہر ہے گو ہمارے پڑوس میں موجود بت پرست قوم نے مختلف اداکاروں کھلاڑیوں اور گلوکاروں کے مندر تک بنا رکھے ہیں جنکی باقائدہ پوجا تک ہوتی ہے 
جنوبی ہند میں رجنی کانت مندر ہے جہاں انکے پرستار انکی پوجا کرتے ہیں پاکستان کے ایک گلوکار کے گلے میں بھی پڑوسیوں نے بھگوان ڈھونڈا تھا لیکن ہماری قوم ابھی اتنی " بت پرست " بھی نہیں ہوئی .

یہ بیماری صرف مشرق میں ہی نہیں بلکہ مغرب میں بھی موجود ہے مائیکل جیکسن ، مڈونا اور لیڈی گا گا کے باقائدہ پرستار موجود ہیں 
ایسے ہی ایک گروپ کے خیالات کچھ یوں ہیں (We believe that Michael Jackson is an Angel trapped inside a human flesh. A Precious Treasure that God (or any high power you choose to believe in) gave us.) 
(The International Group of The Anointed Michael Followers )

معروف گلوکارہ مڈونا خود کو شیطان کی پجارن سمجھتی ہیں اور انکی سٹیج پرفارمنسس میں شیطان کی پوجا بھی ہوتی ہے کہا جاتا ہے کہ انکا تعلق خفیہ گروپ الو منا ٹی سے ہے حوالہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے 
(http://occultpopagenda.blogspot.com/2012/02/superb-owl-worship-high-priestess.html)

ایسے ہی کچھ مظاہرے ہم نے اس شو کے دوران بھی دیکھے ہیں جب انسانی بت کی توصیف کیلئے ججز کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر گھٹنوں کے بل جھکتے اور اس تازہ خدا کو پرنام کرتے دکھائی دیتے ہیں .

ان تمام باتوں سے قطع نظر کیا کسی بھی قوم کی سب سے زیادہ آئڈیل شخصیت یا (idol) کوئی گلوکار ہی ہو سکتا ہے کیا ٹیلنٹ صرف یہ ہی ہے کوئی ڈاکٹر ، انجینیر ، سائنسدان ، سوشل ورکر یا کوئی مذہبی اسکالر ہمارا آئڈیل کیوں نہیں ہو سکتا ہمارا پیسہ ہمارا  پروپگنڈہ اس مصرف میں کیوں استعمال نہیں ہوتا کیا ایک اسلامی معاشرے کا مزاج یہ ہی ہونا چاہئیے 
اور کیا ہم صرف نقالی ہی کر سکتے ہیں ہماری کوئی سوچ نہیں ہم میں کوئی تخلیقی صلاحیت موجود نہیں اور کیا صرف مغرب کے رنگ میں رنگ جانا ہی ترقی کی علامت ہے 

جدید میڈیا کے نا خدا ہمیں ایسے راستے پر ڈال رہے ہیں جس سے واپسی شاید ہمارے لیے ممکن نہ ہو سکے 

میں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدیر امم کیا ہے 
شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر 
میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں 
لاتے ہیں سرور اول ، دیتے ہیں شراب آخر 
کیا دبدبہ نادر ، کیا شوکت تیموری 
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر 
خلوت کی گھڑی گزری ، جلوت کی گھڑی آئی 
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر 
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا 
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر

حسیب احمد حسیب