جمعہ، 31 جنوری، 2014

میوسس (Muses) کا جادو !

میوسس (Muses) کا جادو !

یہ کہانی ہے لفظوں اور یادوں کی دیوی (Mnemosyne) کی جب دیوتاؤں کا دیوتا زیوس اسپر عاشق ہوا کہتے ہیں نو راتیں ( Zeus) اپنی محبوبہ سے ملا اور انکی نو بیٹیاں پیدہ ہوئیں نو پیدائشی دیویاں نو جسم لیکن ایک جان فطرت اور اظہار خیال کے نو مختلف رنگ 

(Calliope) لافانی گیت کی دیوی 
(Clio) تاریخ کی دیوی 
(Euterpe) انترے و استھائی کی دیوی 
(Melpomene) غم کی دیوی 
(Terpsichore) رقص کی دیوی
(Erato) ہیجان انگیز شاعری کی دیوی
(Polyhymnia) مقدس گیت کی دیوی
(Urania) ستاروں کی دیوی
(Thalia) مزاح کی دیوی

جدید لفظ (music) میوسس کی نشانی ہے رقص و سرود رنگ و موسیقی کی علامت

(Olympus," according to "Muses and Sirens," by J. R. T. Pollard; The Classical Review New Series, Vol. 2, No. 2 (Jun., 1952), pp. 60-63.
"(ll. 53-74) Them in Pieria did Mnemosyne (Memory), who reigns over the hills of Eleuther, bear of union with the father, the son of Cronos, a forgetting of ills and a rest from sorrow. For nine nights did wise Zeus lie with her, entering her holy bed remote from the immortals. And when a year was passed and the seasons came round as the months waned, and many days were accomplished, she bare nine daughters, all of one mind, whose hearts are set upon song and their spirit free from care, a little way from the topmost peak of snowy Olympus.
Hesiod Theogony)

یہ ہے جدید استعمار کا وہ حربہ کپیٹل ازم کی وہ چال جس میں پوری دنیا ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور اس میں رہنے والا ہر شخص خریدار ہے یا بکاؤ ہے اور انکے پاس ہتھیار ہے کنزیومر کپیٹل ازم اور برانڈنگ کا اس دنیا میں ایک چھوٹی سی موبائل فون کمپنی نعرہ لگاتی ہے زندگیوں کی تبدیدلی (Reshaping Lives) کا

یہ جدید تہذیب قدیم یونانی تیوہار لوپر کال کو ویلن ٹائین بنا کر پیش کرتی ہے کرسمس میں سانتا کلاز کا پھندنا لگا دیتی ہے بیچ پر عریاں ماردی گراس منایا جاتا ہے اور جب یہ استعمار مشرقی مارکیٹ کی طرف آتا ہے تو یہاں کے حربے آزماتا ہے بسنت پنچمی ، ہولی دیوالی ، دسہرہ یا پھر قدیم بابوں کے عرس قوالی کی محفلیں رقص و موسیقی رنگ بدل بدل کر سامنے آتی ہے ....

ایسے میں جدید میڈیائی مگر مچھ اپنا منہ کھولے پورے کے پورے معاشروں کو نگلنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں دجال کی ایک آنکھ ہر گھر میں دیکھتی اور اپنے رنگ دکھاتی ہے اور اس جادو کے خلاف کہیں دور سے ایک آواز آتی سنائی دیتی ہے

" میں آلاتِ مزامیر کو توڑنے کے لیے آیا ہوں "

حسیب احمد حسیب

مضمون کی تیسری و آخری قسط " صنم خانہ یورپ " کے نام سے جلد پیش کی جاۓ گی

جمعرات، 30 جنوری، 2014

پاکستانی " بت "

پاکستانی " بت "

گزشتہ روز ایک دوست کے ہاں جانا ہوا جس کمرے میں گفتگو ہو رہی تھی وہیں بچے ٹی وی سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے دوست کے بار بار منع کرنے پر بھی آواز بڑھ جاتی اور پھر وہ چلاتا 
ارے آواز کم کر دو انکل سے بات کرنے دو . تھوڑی دیر کا اثر اور پھر وہی معاملہ 

اچانک کانوں میں موسیقی کی آواز پڑی اور وہ بھی اسطرف متوجہ ہو گیا 
واہ کیا پروگرام ہے وہ کام کی تمام باتوں کو جیسے بھول چکا تھا 
میں ٹی وی نہیں دیکھتا میرا جواب تھا 
ارے مولوی تم بھی نا اس نے تاسف سے سر ہلایا 
ضرور دیکھنا اس نے پروگرام کا نام لیا 
کیا کیا ........
میں چونکا کیا نام بتایا تم نے 
اس نے نام دہرایا 
" پاکستانی بت " مجھے اپنی آواز بھی اجنبی سی لگی 
ارے نہیں نہیں کیا ہو گیا ہے مولوی " پاکستانی بت" نہیں (pakistan idol) 
شاید اسکی آنکھوں پر وہ پٹی بندھ چکی تھی جو الفاظ و معانی کی پہچان بی ختم کرا دیتی ہے 

اسکے بعد وہاں میرا دل نہیں لگا اور میں گھر چلا آیا 
پاکستانی بت  پاکستانی بت
میں شاید بڑبڑا رہا تھا 
اسکے بعد کئی لوگوں سے گفتگو ہوئی اور سب نے میری بات کو دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہ دی
شاید الفاظ اپنے معانی اتنے بدل دیتے ہیں ( idol) بت نہیں رہتا کچھ اور ہو جاتا ہے 
اندر ہی اندر ایک جنگ چلتی  رہی 
یہ لفظ ہے کیا  آیا کہاں سے ہے کس طرح معروف ہوا ہے تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں تک اپنی بات پہنچائی جا سکے 
فرانسیسی میں اسے (idole) کہا جاتا تھا 
لاطینی اسے (idolum) کے نام سے جانتے تھے 
قدیم یونان میں یہ (eidolon) تھا
اگر ان تمام کے مفاہیم کو کھنگالا جاۓ تو مطلب یہ بنتا
" انسانی ہاتھوں سے تراشا ہوا جھوٹا خدا"

چونکہ یہ انگریزی کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے تو یہ بھی دیکھ لیا جاۓ کہ انگریزی زبان و بیان میں اسکا کیا مطلب لیا جاتا ہے 
(appearance, reflection in water or a mirror," later "mental image, apparition, phantom," also "material image, statue," from eidos "form" (see -oid). Figurative sense of "something idolized" is first recorded 1560s (in Middle English the figurative sense was "someone who is false or untrustworthy"). Meaning "a person so adored" is from 1590s.)

انسانی ہاتھوں سے تراشیدہ انسانی ذہن کا بنایا ہوا جھوٹا خدا 
(idol)

اردو میں اسے " بت " اور فارسی میں صنم کہتے ہیں 

گو مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ باقائدہ ایک فرنچائز ہے (Idols) کے نام سے اور دنیا میں شخصی بت پرستی کو ترویج دینے کی مہم چلا رہی ہے ہاں سب سے آخر میں اپنانے والی ہماری قوم ہے لیکن کیا کیجئے یہ قوم تو بت پرستی بھی ڈھنگ سے کرنا نہیں جانتی 
شاعر نے کیا خوب کہا ہے 

صنم تراش پر آدابِ        کافرانہ سمجھ
ہر ایک سنگِ سرِ راہ کو خدا نہ سمجھ

حسیب احمد حسیب 

نوٹ : یہ مضمون تین اقساط پر مشتمل ہے اگلی قسط " میوسس" کا جادو " کے نام سے پیش کی جاۓ گی .

بدھ، 29 جنوری، 2014

مقدمہ دہریت !

مقدمہ دہریت !

دہریت مغالطوں کا نام ہے اور ایسے مغالطوں کی بنیادی وجہ کم فہمی کم عقلی اور معلومات کا صحیح اور مکمل نہ ہونا ہے 
دہریت کہتی ہے 
" مذہبی لوگوں کا خدا یا خالق یہ کلیم کرتا ہے کہ وہ بہت منصف اور رحمدل ہے اور اپنی مخلوق سے بہت محبت کرتا ہے - اس پوسٹ میں اصل میں تخلیق کار کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گی ہے کہ ایسا نہیں ہے - یہ کائناتی نظام ظلم ، بربریت اور ناانصافی کی وجہ سے قائم ہے اگر ظلم اور ناانصافی نہ ہو تو یہ نظام قائم نہیں رہ سکتا - مذہبی کا نقطۂ نظر یہ ماننا ہے کہ تخلیق کار انصاف پسند اور رحم کرنے والا ہے اور ملحد اس نظام کو ایک بےرحم اور سنگدلانہ نظام سمجھتا ہے مثال کے طور پر ایک انسان کو خدا نبی سلیکٹ کر لیتا ہے اور ایک کو طوائف کے گھر میں دلال بنا دیتا ہے وغیرہ وغیرہ - اس بغیر کسی مشقت کے بناے ہوے نبی کو حوض کوثر کا ساقی بنا دیتا ہے یا ایک انسان کو جنت کے نوجوانوں کا سردار بنا دیتا ہے - جس طرح کی قربانی حسین نے دی تھی اس سے زیادہ قربانی تو اور مسلم لوگوں نے فلسطین ، کشمیر یا بوسنیا وغیرہ میں دی ہوگی - حسین کی اہل بیت عورتوں کی تو عزت محفوظ رہی مگر اور لوگوں کی عورتوں کی تو عزت بھی محفوظ نہ رہی - پھر حسین کو سردار ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

آپ کا بنیادی مقدمہ جو کسی اور مقدمے کا ابتدایۂ ہے یعنی اسکی حیثت کسی بنیادی گفتگو کی تمہید سے زیادہ کچھ نہیں ہے اب اسکو اور اختصار سے پیش کرتے ہیں ....
" اہل مذہب کا خدا اپنے دعویٰ کے مطابق منصف و عادل نہیں ہے "

ایک الحادی دعویٰ.....

اب اگر یہ دعویٰ ثابت ہوجاوے تو پھر اس مقدمے کی بنیاد رکھنا آسان ہوگی کہ اصل میں سرے سے کوئی خدا موجود ہی نہیں ہے .....

اب یہاں ایک پیراڈوکس پیدا ہوگا
یعنی اگر یہ تسلیم کر لیا جاوے کہ کوئی خدا نہیں ہے تو پھر اس غیر مبدل حقیقت جو ہمارے مابین تسلیم شدہ ہے کہ یہ کائنات تضادات کا مجموعہ ہے اسکی کیا توجیہ ممکن ہوگی......؟
یعنی کائنات میں تضادات ہونا ایک مستقل حقیقت ہے مذہب کہتا ہے یہ خالق کی منشاء ہے لیکن الحاد اسکی کوئی بھی توجیہ کرنے سے قاصر ہے یعنی بلکل لاجواب ...

ایک اور لطیفہ اسوقت پیدہ ہوگا کہ اگر آپ یہ تسلیم کرلیں کہ خدا ہے تو مگر منصف نہیں ہے ....

لیجئے اب جب آپ نے یہ تسلیم کرلیا کہ خدا ہے تو منصف یا غیر منصف کی بحث ہی ختم ....
اب انصاف کی وضاحت ہو کیونکہ خالق و مخلوق کا ہونا بھی انصاف نہیں یعنی ایک رب اور دوسرا بندہ اور اگر رب دوسرا رب تخلیق کر کرلے تو پھر وہ رب ہی کہاں رہا وہاں تو شراکت ہو گئی ......

یہاں اگر بنیادی تصور انصاف کی وضاحت ہو جاۓ تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاۓ گی ..

اب " انصاف " کس چیز کو کہا جاۓ گا یعنی وہ بنیادی مصدر جو انصاف کو بیان کر سکے اور جس پر ہم اور آپ ایک پیج پر آ سکیں .
١ مذہب
٢ فلسفہ
٣ مشاہدہ
٤ تجربہ (سائنس )
٥ عقل محض

انصاف تو ایک طرف رہا انسان کے لیے مصیبت یہ ہے کہ وہ کسی بھی ایک لفظ کی تعریف کرنے سے قاصر ہے - ہم کسی بھی واقعہ کو علحیدہ سے اس کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ انصاف ہے کہ نہیں مگر اور دوسرے لفظوں کی طرح انصاف کی بھی ایک جامع تعریف کرنے سے قاصر ہیں اور یہی حقیقت ہے - مثال کے طور پر اگر ایک آدمی ڈکیتی کرتے ہوے کسی آدمی کو قتل کر دیتا ہے تو ہم کہ دیتے ہیں کہ یہ بے انصافی ہے لیکن ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ قتل کرنا بے انصافی ہے کیونکہ جب ایک قاتل کو قانون کے رکھوالے قتل کرتا ہیں تو وہ انصاف ہوتا ہے - میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایک جیسا فعل انصاف بھی ہو سکتا ہے اور بے انصافی بھی - اس لیے ہم ہر ایک واقعہ کو اس کے اپنے تناظر میں دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ واقعہ انصاف ہے یا نہیں - اس سلسلے میں آپ سے گزارش کروں گا کہ ہو سکے تو آئین سٹائن کی theory of relativity کو پڑھ لیں

جب انصاف و نہ انصافی کی کسی بھی مصدر سے جامع تعریف ممکن ہی نہیں تو پھر کسی کے منصف و غیر منصف ہونے کا مقدمہ ہی کیسے قائم کیا جا سکتا ہے .......

ہر شے کو اس کائنات میں یکساں مواقع فراہم کر دینا انصاف نہیں ہو سکتا بلکہ انصاف تو یہ ہوگا کہ لوگوں سے انکے دئیے گۓ اختیارات کے مطابق سوال ہو ....

خدا نے کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں نے کائنات میں سب کو یکساں مواقع فراہم کئے ہیں بلکہ ہر کسی سے اسکو فراہم کردہ مواقع کے مطابق سوال ہوگا اس بات کا اعلان کیا ہے .

ایک عجیب واقعہ ملاحظہ کیجئے
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
عَبَسَ وَتَوَلَّى ::: ماتھے پر بل ڈالے اور منہ ُ پھیرا (1)
أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى :::کہ ان کے پاس اندھا آگیا (2)
وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى :::اور تُم کیا جانو کہ شاید وہ پاکیزگی حاصل کر لے (3)
أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى :::یا وہ نصیحت پر توجہ کرے اور نصیحت اُسے فائدہ دے (4)
أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى ::: اور وہ جو لا پرواہی کرتا ہے (5)
فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى ::: تو تُم اُس کے لیے پوری طرح سےمتوجہ ہوتے ہو (6)
وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى ::: اور اگر وہ نصیحت نہ پائے تو یہ تمہاری ذمہ داری نہیں (7)
وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَى::: اور جو تُمہاری طرف مشقت کے ساتھ آیا ( 8 )
وَهُوَ يَخْشَى ::: اور وہ ڈرتا ہے (9)
فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّى ::: تو تُم اُس سے دوسری طرف مشغول ہوتے ہو (10)

ایک بچے نے دہریہ انکل سے سوال کیا انکل یہ ہاتھی اتنا بڑا اور چوہا اتنا چھوٹا کیوں ہوتا ہے
انکل نے متانت سے جواب دیا : دیکھو بیٹا یہ فطری نظام ہے کچھ چیزیں بڑی اور کچھ چیزیں چھوٹی ہوتی ہیں

لیکن انکل چوہا بڑا اور ہاتھی چھوٹا کیوں نہیں ہوتا ہاتھی اتنا سارا کھانا کھا جاتا ہے اور چوہے کو تھوڑا سا ہی ملتا ہے یہ فطرت کون بناتا ہے

انکل تھوڑا جھنجلاۓ دیکھو فطرت کوئی نہیں بناتا یہ تو بس ہوتی ہے اور اسمیں چوہا چھوٹا ہی ہوتا ہے اور ہاتھی بڑا ہی ہوتا ہے ہاتھی کو زیادہ کھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور چوہے کو کم .....
بچے نے کچھ سمجھنے اور نہ سمجھنے کے انداز میں سر ہلایا پھر اسکی آنکھوں میں شرارت ابھری اور اس نے سوال کیا انکل ایک بات تو بتائیں
کیا ؟ دہریہ انکل نے تحمل سے پوچھا
آپ کی دم کیوں نہیں ہے .............؟
دہریہ انکل خاموشی سے دیکھتے رہ گۓ....

کیونکہ یہ مسلہ فلسفیانہ ہے اسلئے اسکا جواب طریق فلسفہ پر ہی فراہم کیا جا سکتا ہے ....

اس کائنات کا مرکز اگر سورج کو تصور کیا جاوے تو لا محالہ اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سورج کو دوسرے اجسام سماوی پر فوقیت حاصل ہے اب اگر انتظامی اعتبار سے یہ سوال اٹھایا جاۓ کہ سورج ہی سورج کیوں ہے سورج چاند کیوں نہیں یا سورج زمین کیوں نہیں تو یہ سوال اپنی اصل میں ہی لغو ہے کیونکہ کسی بھی دائرہ میں مرکز صرف ایک ہو سکتا ہے دو نہیں ورنہ مرکز کو ہی توڑنا پڑے گا اگر ایک نظام شمشی میں دو سورج داخل کر دئیے جاویں تو نتیجہ مکمل تباہی ہوگا ........

جب بھی نظام زندگی کی بات ہوگی طبقاتی مدارج کا قائم ہونا امر لازم ہے ورنہ امور دنیوی کا قائم رہنا چلنا ممکن نہیں یہ ایسا ہی ہے کہ آپ اس گروپ میں رہتے ہوے یہ سوال اٹھائیں کہ اسکا ہر ممبر اڈمن کیوں نہیں یہ تو نہ انصافی ہے تو جناب کیا کوئی گروپ ممبر یا اڈمنز آپکے موقف کو تسلیم کرتے ہوے اپنی اڈمن شپ سے دستبردار ہوکر تمام ممبران کو یکساں اختیارات فراہم کر دینگے ہو سکتا ہے ایسے کسی سوال کی پاداش میں آپکو گروپ بدری کا پروانہ فراہم کر دیا جاوے ........

غور کیجئے سوچیے کسی بھی معاشرتی نظم کو چلانے کے لیے ناظمین اور کارکنان کی اختیاراتی تخصیص لازم ہے جسے کسی کی نفسیاتی گرہ کشائی کیلئے پس پشت نہں ڈالا جا سکتا

یہ عجیب بات ہے چلیے آپ کہتے ہیں کوئی خدا نہیں ہے تو پھر بھی دنیا میں موجود غیر متوازن و متعارض اشیاء تو موجود ہیں ....
اب اگر یہ سوال ہو درد زہ عورت کو کیوں ہوتا ہے مرد کو کیوں نہیں عورت بچے کیوں دیتی ہے انڈے کیوں نہیں سانپ کے پاؤں کیوں نہیں ہوتے آدمی پانی میں سانس کیوں نہیں لے سکتا انسان مر کیوں جاتا ہے ..............
کیا جواب ہے ان تمام باتوں کے عقل کے پاس .....

اشیاء کی پہچان انکے تضاد میں ہے رات کی پہچان دن سے ہے ہر دو میں سے ایک کو ختم کر دیجئے دوسرا اپنی پہچان کھو بیٹھے گا ٹھنڈا گرم سے ہے سخت نرم سے کالا گورے سے غم خوشی سے دولت غربت سے .....
اگر دنیا کی ہر چیز کو یکساں کر دیا جاوے تو دنیا مشین بن جاۓ گی اسی لیے خالق نے تضادات سے تخلیق کی خوبی کو واضح کیا کیونکہ وہ حقیقی آرٹسٹ ہے .....

ویسے عجیب تو یہ ہے ذرا غور کیجئے دنیا کے تمام افراد کا ایک سانچہ (module) بنایا جاتا اب ہر شخص ایک ہی رنگ قد کاٹھ عمر صلاحیت کا مالک ہو یعنی ہر ایک دوسرے کی یکساں نقل ہو تو کیا کوئی بھی معاشرتی یا انسانی نظام قائم رہ سکے گا ......

اگر ایک موڈل انسان بنایا جاۓ جسکی آنکھ ناک کان ہر چیز پرفکٹ ہو جسکی رنگت جسمانی ساخت زبردست ہو اور جسمیں کوئی کمی موجود نہ ہو وہ ایک مکمل سپر مین ہو ....

اب تمام انسانوں کو اسی سانچے پر ڈھال دیا جاوے جیسے ہم کوپی پیسٹ کرتے ہیں لیجئے کنٹرول سی کنٹرول وی .........
اب یہ ہی اصول کائنات کی ہر شے پر لاگو کردیجئے ہر شے دوسرے کی ڈیٹو کوپی
اس شدید بیزار کن یکسانیت کا کائنات پر کیا اثر ہوگا
عشق ،محبت ،نفرت، دوستی، پہچان، رشتے ، تعلقات ، ہمدردی ، سچ ، جھوٹ ، اچھائی ، برائی ، برتری ، محرومی
ہر انسانی رنگ و جذبے کا کلی خاتمہ کیونکہ چیزیں اپنے تضادات سے پہچانی جاتی ہیں جب انکی زد کو ختم کر دیا جاوے تو انکی اپنی اصل بھی ختم ہو جاۓ گی .....
خیر کو دنیا سے مکمل ختم کر دیجئے اب شر ہی موجود ہوگا لیکن شر کو پہچانئے گا کیسے جب خیر کا وجود ہی نہ ہوگا .......

اس کائنات کی سب سے عظیم خوبی ہی یکسانیت کا نہ ہونا ہے کوئی امیر ہے اور کوئی غریب اب انسان کا معلوم ہوگا کہ وہ کتنا انسان ہے ...
اپنی زندگی پر ہی غور کیجئے آپ کبھی امیر ہیں کبھی غریب کبھی خوش اور کبھی دکھی اب اپنی زندگی کے ہر متضاد جذبے کو ختم کر دیں تو زندگی کا لطف ہی کہاں باقی رہے گا .......

آپ کا اشکال حقیقت میں علمی سے زیادہ نفسیاتی ہے یہ ایک خاص سنڈروم ہے جس میں انسان اپنی موجودہ کیفیت سے فراری ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ انکار کے راستے پر چلتا ہوا اپنی ذات کا بھی انکاری ہو جاتا ہے میں ہمیشہ ایک سوال اٹھا تا ہوں .....

مذہبیت کو ایک طرف رکھ دیجئے اپ کائنات میں موجود تضادات کی کوئی علمی توجیہ بیان کیجئے ایسا کیوں ہے ایک عورت ، عورت کیوں پیدہ ہوئی مرد کیوں نہیں ایک بچا کمزور تو دوسرا صحت مند کیوں ہے دنیا کا ہر شخص آئین سٹائن یا نیوٹن کیوں نہیں ہر آدمی بل گیٹس کیوں نہیں بن سکا کیا اس سوال کا کوئی معقول جواب ہے آپ کے پاس ....
ہر شخص شاعری کیوں نہں کر سکتا مصنف کیوں نہیں ہو سکتا ہر آدمی گویٹے، دانتے ، ڈکنز ، ٹیگور ، منٹو ، غالب ، اقبال کیوں نہیں ہو سکتا .....
ہر بندہ خوبصورت آواز کا مالک کیوں نہیں میاں نواز شریف مہدی حسن کی طرح کیوں سروں سے نہیں بلکہ سروں سے کھیلتے ہیں .....
میں بطور شاعر بغیر سیکھے ہوے الفاظ کو ابتداء سے اسطرح جانتا ہوں جو کسی نہ کسی بحر وزن ردیف قافیہ کے ماتحت دکھائی دیتے ہیں ایک غیر شاعر انکو ایسا کیوں نہیں دیکھتا ........

لا مذہبوں کے پاس ان باتوں کی کیا توجیہ ہے

سیدھا کہ دیجئے لا ادری بہت آسان ہے بات کو گھما پھرا کر کہنے سے ......

ابتداء آفرینش سے اب تک کی انسانی تاریخ میں انسانی معلومات ہمیشہ ڈیڈ اینڈ پر کھڑی دکھائی دیتی ہیں اور پھر وہ کہتا ہے لا ادری ..

مذہب ہمیشہ ان سوالوں کا جواب فراہم کرتا ہے جنکو الا ہیات کہا جاتا ہے فلسفہ جو سائنس کی ماں ہے اسنے اپنی سی کوشش ضرور کی ہے ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی لیکن قاصر رہا ہے.....

وہ بنیادی موضوعات جن کی تحقیق میں انسان صدیوں سے سرگرداں وہ یہ ہیں
١ ۔ خدا و صفات خدا
٢ ۔ ٹائم اور سپیس کی حقیقت
٣۔ کائنات کی ابتدا
٤۔ کائنات کی ماہیت
٥۔ خیر و شر
٦۔ غم اور خوشی
٧۔ روح
٨۔ عقل
٩۔ حیات و ممات
١٠۔ مقصد حیات

اور ان تمام کی توجیہ کرنے سے سائنس کلی طور پر قاصر رہی ہے اگر کچھ جواب انکا فراہم کیا ہے تو مذہب نے ہی کیا ہے ....

دور جدید کا ایک فلسفہ ہے (Diversity ) یہ وہ مضمون ہے جسے قرآن بہت پہلے بیان کر آیا ہے

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌo
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہےؤ

لِتَعَارَفُوا پہچان سکو لِتَعَارَفُوا پہچان سکو

غور کیجئے لوگوں کا مختلف ہونا ذریعہ ہے پہچان کا اسی کو آج (Diversity) کے نام سے تسلیم کیا جا رہا ہے ملاحظہ کیجئے
(The concept of diversity encompasses acceptance and respect.
It means understanding that each individual is unique,
and recognizing our individual differences. These can be along
the dimensions of race, ethnicity, gender, sexual orientation, socio-economic status, age, physical abilities, religious beliefs,
political beliefs, or other ideologies. It is the exploration
of these differences in a safe, positive, and nurturing environment.
It is about understanding each other and moving beyond
simple tolerance to embracing and celebrating the
rich dimensions of diversity contained within each individual.

)

اب اپنے اذہان کو کھولیے اور بڑی تصویر دیکھئے آپ کی ذاتی محرومیاں کچھ ہونے کی خواہش اور کچھ نہ ہو سکنے کی کڑ ہن سے بالا تر ہوکر......
(Diversity is difference. It is a natural phenomenon, intimately related to uniqueness and identity. There is a rich world of discovery awaiting us when we are ready to fully encounter our diversity. But first we have to lift our heads above the bustle around us and look at the big picture)

اسی کو اقبال نے کہا ہے

کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سےاُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اِس جلوہ بے پردہ کو، پردوں میں چھپا دیکھ
آیامِِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکہءِ بیم و رجا دیکھ

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہءِ ایّام میں آج اپنی ادا دیکھ

سمجھے گا زمانہ تِری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید تِرے بحرِ تخیّل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تِری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر، اثَرِ آہِ رسا دیکھ

خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اِک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تِری پنہاں ہے تِرے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گل کوشِشِ پیہم کی جزا دیکھ

نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنسِ محبت کا خریدار ازل سے
تو پیرِ صنم خانہِ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
ہے راکبِ تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ

علامہ اقبال
بال جبرئیل

(Diversity is a fundamental property of the universe, along with matter, energy, space, time, relationship, unity, and many other phenomena that are present everywhere. Everything that you see (or don't see) that is different from anything else -- and every difference between them -- is an aspect of diversity.

So diversity exists. Everywhere. It is a fact of life.)

اصل میں اس مختلف ہونے اور متضاد ہونے کی وجہ سے ہی انسان کے اندر موجود تحقیق جستجو اور مشکلات کے ہمالیہ سر کرنے کی خواہش کی تسکین ہوتی ہے جسکو (explore) کہا جاتا ہے

اقبال نے اس طویل مضمون کو ایک شعر میں باندھ دیا ہے

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے "کن فیکوں"

حسیب احمد حسیب

اتوار، 26 جنوری، 2014

کتابوں کا عاشق !

کتابوں کا عاشق !

اگر غلطی سے بھی کتابوں کی مارکیٹ سے گزرجائیں تو کتابیں آپکو للچائینگی آوازیں دے دے کر بلائینگی ادھر یہاں میری طرف مجھے دیکھو نہ دماغ لاکھ روکے گا دیکھو گھر پر نیٹ کی سہولت موجود ہے ہزاروں ویب سائٹس ہیں ڈاون لوڈ کرو اور پڑھو کیا بوجھ لادنا لیکن پھر کوئی کتاب اپنے سرورق اور عنوان کی پوری دلکشی کے ساتھ آپ کے دل میں اتر جاۓ گی اور اسکا لمس آپکو اسے حاصل کرنے پر مجبور کر دیگا زیادہ قیمت بھی کم لگے گی اور عقل کی لاکھ لعنت ملامت کے باوجود عشق اسے محو تماشاۓ لب بام چھوڑ کر آپ کتاب دل سے لگاۓ اسے گھر لےائینگے کوئی بات نہیں گھر والوں کی لعنت ملامت قبول ہے محبوب کی قربت ہر غم بھلا دیتی ہے ...

حسیب احمد حسیب

حسب معمول !

حسب معمول !

آج چورنگی میں لگی لڑکیوں کی دکھ بھری معصومیت پر لکھی گئی نظم کو پڑھا تو خیال آیا آج معصوم لڑکوں کا حق بھی ادا ہو ملاحظہ کیجئے نقل کی اصل 

سنو! __ اے چاند سی لڑکی..__
ابھی تم تتلیاں پکڑو.__

یا پھر گڑیوں سے کھیلو تم..__
یا پھر معصوم سی آنکھوں سے ڈھیروں خواب دیکھو تم.__

فراز و فیض ومحسن کی کتابیں مت ابھی پڑھنا.__

یہ سب لفظوں کے ساحر ہیں .__
تمہیں الجھا کے رکھ دیں گے.__

تمہیں معلوم ہی کب ہے.؟؟؟
محبت کے لبادے میں ہوس اور حرص ہوتی ہے..__
یہ انسانوں کی دنیا ہے __
مگر ان سے کہیں بڑھ کر.
یہاں وحشی درندے ہیں....
وہ وحشی جن کی آنکھوں میں....
مچلتے پیار کے پیچھے....
ہوس اور حرص ہوتی ہے...___

ابھی کچی کلی ہو تم....
ابھی کانٹوں سے مت کھیلو._ _ _ _
سنو!
___ابھی تم تتلیاں پکڑو----..

بیچاری لڑکیاں !

اگر یہ ہی نظم کسی لڑکے کے بارے میں کہی جاتی تو منظر کچھ یوں ہوتا

سنو ! اے چاند کے لڑکے
ابھی تم گڈیاں لوٹو
یا پھر کوٹھوں (چھت ) سے کودو تم
یا پھر معصوم سے ہاتھوں سے ڈھیروں پیچ کاٹو تم

تم عامر شاہ رخ سلماں کی فلمیں مت ابھی دیکھو
یہ سب فلموں میں ہیرو ہیں
تمہیں پٹوا کے رکھ دینگے

تمہیں معلوم ہی کب ہے ......؟
محبت کے سیاپے میں ذلالت ہی ذلالت ہے
یہ شیطانوں کی دنیا ہے
مگر ان سے کہیں بڑھ کر
یہاں عیار کڑیاں ہیں

وہ سوہنی جنکی آنکھوں میں
مچلتے پیار کے پیچھے
ہوا و حرص ہوتی ہے

ابھی کچے گھڑے ہو تم
ابھی وٹوں سے مت کھیلو

سنو !

ابھی تم گڈیاں لوٹو

حسیب احمد حسیب

" احقاق حق کا صحیح وقت "

" احقاق حق کا صحیح وقت "

دین کا پھیلاؤ دعوت کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور دعوت کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو جہاد کے ذریعہ رفع کیا جاتا ہے دعوت و جہاد دو بازو ہیں دین کے جو باہم معاون مددگار ہیں ....

لوگوں کو حق کی طرف متوجہ کرنے کے کچھ اصول ہیں اور اگر ان اصولوں کی پاسداری نہ کی جاۓ تو خرابی کا اندیشہ ہوگا جس سے خیر کا شر میں تبدیل ہو جانا لازم اے گا ...

ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

دینی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے اور امت کا احیائی عمل صدیوں پر پھیلا ہوا ہے دعوت و عزیمت کی یہ تاریخ بہت قدیم ہے جو تاریخ کے صفحات پر رقم ہے .
اس احیائی عمل میں زمانے کے اعتبار سے اجتہادات کئے جاتے ہیں ان میں غلطیاں بھی لگتی ہیں اور ان غلطیوں میں خلوص بھی شامل ہوتا ہے حالات و واقعات کے اعتبار سے کئے جانے والے فیصلے کبھی نفع اور کبھی کبھی نقصان بھی دے جاتے ہیں .
جماعتوں کو شخصیات کھڑا کرتی ہیں اور یہ شخصیات اپنی اپنی افتاد طبع اور مزاج کے تحت راستے چنتی ہیں ان شخصیات کی صلاحیتوں ،خلوص اور محنت کی وجہ سے الله لوگوں کے قلوب کو انکی طرف متوجہ کر دیتے ہیں افراد کا یہ مجموعہ جماعت بنتا ہے .....

بہت سمجھ لینے کی بات یہ ہے جماعتیں جب خلوص کے ساتھ ایک راستے پر چلتی ہیں اور قربانیاں دیتی ہیں اور اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کرتی ہیں تو انھیں اس راستے سے پلٹ دینا ممکن نہیں ہوتا ..
مولانا امین احسن اصلاحی رح کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے " جماعتیں مقاصد کے لیے وجود میں آتی ہیں لیکن جب مقاصد پیچھے رہ جائیں اور جماعت خود مقصود بن جاۓ تو سمجھ لیں خرابی ہے "

دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کسی میں حق کی مقدار کتنی ہے اور اسکی نیت میں خلوص کتنا ہے کیا مقصود ایک ہی ہے اور صرف راستہ مختلف ہے .....
اگر خلوص ثابت ہو
نیت کا یقین ہو
اور مقصود مشترک ہو
تو راستے کے محتلف ہونے کی غلطی کو واضح کرنا مشکل نہیں لیکن شرط طریق دعوت اور حکمت میں پنہاں ہے ..
حق کا احقاق نصرت سے منسلک ہے اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت میں اسکی نصرت اور اسکے دل کے قریب آکر اسکو حکمت کے ساتھ حق کی دعوت یہ طریق نبوی صل الله علیہ وسلم ہے.

قرآن کریم ایک مقام پر اس مطلب کی طرف اشارہ کرتا ہے:
فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضو امن حولک فاعف عنھم و استغفرلھم و شاورھم فی الامر واذاعزمت فتوکل علی اللہ
(سورئہ آل عمران آیت ۱۵۹)
”اے حبیب! اس شفقت کی وجہ سے جو خدا نے آپ کے دل میں پیدا کی ہے آپ اپنے اصحاب کے ساتھ نرمی کا برتاؤ رکھتے ہیں اگر آپ سخت مزاج اور تندخو ہوتے تو یہ لوگ آپ سے دور ہی رہتے اور منتشر ہو جاتے پس آپ ان کے ساتھ عفو و درگذر ہی سے کام لیں اور ان کے لئے طلب مغفرت کرتے رہیں اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کر لیا کریں اور جب کسی کام کا پختہ عزم و ارادہ کر لیں تو پھر بس خدا پر بھروسہ کریں۔“

رحمت بنیادی امر ہے
سختی اور تند خوئی انتشار کا سبب ہے
اور اصول دعوت کیا ہیں
فاعف عنھم " آپ ان کے ساتھ عفو و درگذر ہی سے کام لیں"
و استغفرلھم "ان کے لئے طلب مغفرت کرتے رہیں"
و شاورھم فی الامر " اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کر لیا کریں "

دوسری اہم بات کہیں ایسا نہ ہو کہ مصلحت کے تحت یہ مودت و محبت کہیں حق کو آپ کی نگاہوں میں ہی مبہم نہ کردے حق ہمیشہ حق ہی رہے گا حق کبھی تبدیل نہیں ہو بس حق کے ادعا کا طریق حالات کے تحت بدلتا رہے گا .
یسرو لا تعسرو بشرولا تنفر
(دلائل النبوہ ج ۵ ص ۴۰۱)
”یعنی آسانی اور نرمی کا راستہ اختیار کرو سختی کا نہیں اور لوگوں کو خوشخبری دو اور ان کی خواہش و رغبت و شوق کو ابھارو انہیں متنفر نہ کرو۔“

حسیب احمد حسیب

پیر، 13 جنوری، 2014

مختصر افسانہ " ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﻘﻞ ﻣﮑﺎﻧﯽ "

مختصر افسانہ 
ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﻘﻞ ﻣﮑﺎﻧﯽ

ﻣﺎﻟﮏ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﺎ ﻧﻮﭨﺲ ﺁ ﮔﯿﺎ
" ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ "
یہ جملے کیا ہیں بس ایسا لگتا ہے کاندھوں پر ایک بوجھ آن پڑا ہے مضطرب حواس مجتمع کرنے تک کا وقت کافی تکلیف دہ ہوتا ہے نہ کیا کہوں ذہن ہے کے دوڑا چلا جا رہا ہے سوچیں ہیں کہ بےقابو ہیں ہلکی سی ٹیس ہے جو لاشعور کے کسی خانے میں رہ رہ کر اٹھتی ہے 
ﺫﺭﺍ ﺣﺴﺎﺏ ﺗﻮ ﻟﮕﺎﺅﮞ ﮐﺘﻨﮯ ﻣﺎﮦ ﺳﺎﻝ ﺍﺱ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ
ﮔﺰﺭﮮ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ
ﻣﮑﺎﻥ ﮨﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﻞ ﺗﮏ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﮭﺎ ..
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻧﻘﻞ ﻣﮑﺎﻧﯿﺎﮞ
ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﮔﮭﺮ کتنے
ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﻣﺤﻠﮯ ...
ﮨﻢ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﻘﻞ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﮨﮯ ﻧﺎ
ﯾﮧ ﺩﮐﺎﻥ ﮐﺘﻨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺳﻮﺩﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ
ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ اور ماں کو کہیں کا سودہ سمجھ آجانے یہ کوئی آسان تو نہیں اب کون پچھلے محلے کی کسی دکان تک پریڈ کرے مشکل ہے
ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﺲ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
تعلیمی مشقت کی تکان اور پھر سفر کی صعوبتیں یہاں کتنی آسانی تھی اب کیا کروں کہاں جاؤں سمجھ نہیں آتی
ﯾﮩﺎﮞ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯽ ﺍﺣﻤﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﻓﺲ
ﺗﮏ ﻟﻔﭧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ
صبح صبح کتنا مشکل لگتا ہے بس کی چھت یا پچھلے دروازے کے ساتھ لگے پائیدان سے لٹک کر آفس جانا اور پھر ٹرافک جام لوگوں سے تو تکار اور اس مشقت کے بعد آفس میں باس کی ڈانٹ ایسے ہی لگتی ہے جیسے کسی نے سخت سردی میں یخ بستہ پانی انڈیل دیا ہو

ﯾﮧ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﭼﮭﺎ تھا ﺍﺳﮑﺎ ﻋﻼﺝ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻮﺍﻓﻖ بھی ﺁﺗﺎ تھا اسکی فیس بھی تو مناسب تھی اب پتا نہیں کہاں گھر ملے کتنا موقع کا مکان تھا یہ بھی

اب پھر نوٹس آیا پڑا ہے
" ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ "
کبھی کبھی باغی دل کہتا ہے کیوں کر دوں کیسے کر دوں ابھی تو کچھ ہی دنگزرے ہیں لیکن دماغ سمجھاتا ہے پگلے نقل مکان خانہ بدوش بھی کہیں ٹکتے ہیں
اب ﭘﮭﺮ ﺗﻼﺵ ﮔﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﺤﻠﮯ
ﻋﺠﯿﺐ ﻋﺠﯿﺐ ﮔﻨﺪﮮ ﺑﺪﺑﻮ ﺩﺍﺭ ﮐﮭﻨﮉﺭ ﻧﻤﺎ ﻣﮑﺎﻥ
ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﻟﮕﺰﺭﯼ ﺑﻨﮕﻠﮯ
ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻢ ﺍﺗﻨﮯ ﻏﺮﯾﺐ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻢ ﺍﺗﻨﮯ ﺍﻣﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
کچھ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﮧ ﮨﻢ ﻟﻮﺋﺮ ﻣﮉﻝ ﮐﻼﺱ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﺎﺏ
اور ایک پورا کرایہ اجنسی والے کی نظر کیا کیجئے اسکے بغیر مکان ملتا نہیں اعتبار جو نہیں رہا کسی کو کسی پر ....
سوچتا ہوں
ﮐﺘﻨﯽ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﺍﺱ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮩﺎﮞ ﭼﮭﻮﭨﻮ ﭘﯿﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ
ﯾﮩﺎﮞ ﺑﮍﮮ ﺑﮭﯿﺎ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ
ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺘﻨﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺑﻦ ﮔﮱ ﺗﮭﮯ
ﺑﺲ کچھ ﻟﻤﺤﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﺌﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮱ ﻟﻮﮒ ﻧﯿﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ
ﺑﮍﯼ ﻣﺤﻨﺖ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﺎﺋﯿﻨﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺎﻟﮏ
ﻣﮑﺎﻥ ﮐﺎ ﻧﻮﭨﺲ ﺁ ﺟﺎﮰ ﮔﺎ
" ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ "
ہاں ہاں کر دینگے ضرور کر دینگے چھری تلے سانس تو لو !
یہ گردش دوراں بھی نہ
کہیں ایک شعر پڑھا تھا نجانے کیوں یاد آگیا

مرجائینگے مرجائینگے کیوں سر پے کھڑی ہے
اے گردش دوراں تجھے کیا موت پڑی ہے

اے مالک مکان تجھے کیا موت پڑی ہے
کیا موت پڑی ہے ...............
......................
.................

سوچتا ہوں
ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﺟﯽ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﭽﮭﻼ ﻣﺤﻠﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﺎ
ﭘﮍﻭﺱ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﺘﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺟﯽ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ
سامنے کی ہر چیز اپنے ساتھ یادوں کا ایک ریلا بہاۓ لاتی ہے
میں اماں ابّا بھیا چھوٹو سب گھر والے ہمیشہ ایسے ہی لڑتے ہیں
ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﻟﻤﺎﺭﯼ ﺍﺱ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮯ ساتھ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ
ﯾﮧ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺘﻨﯽ ﺟﭻ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ
ﻗﺎﻟﯿﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﭽﮭﮯ ﮔﺎ.....
.........
کمرے کو دیکھ کر کتنی ہی یادیں سر اٹھاتی ہیں
ﺍﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺤﺎﻓﻞ
ﺳﺠﺎﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ہاں
ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺍﻭﯾﺢ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ﻧﯿﭽﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﺎﻟﮧ ﮐﮯ ہاتھ ﮐﮯ ﺑﻨﮯ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﮐﺘﻨﺎ ﻟﻄﻒ
ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﻗﺮﯾﺐ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﺩﺭﺱ ﮐﺘﻨﺎ ﺍﺛﺮ
ﺍﻧﮕﯿﺰ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ اس ﻣﺎﻟﮏ ﻣﮑﺎﻥ ﻧﮯ ﻧﻮﭨﺲ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ
" ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ "
کردینگے تمہارا مکان خالی گھر نہیں ہے یہ گھر تو اسے ہم نے بنایا تھا

ہر دفع کی کہانی اماں جھنجلا کر کہتی ہیں
ﯾﮧ ﺑﺮﺗﻦ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺧﺮﯾﺪﮮ ﺗﮭﮯ ﺷﻔﭩﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﭨﻮﭦ
ﮔﮯ چلو اچھا ہوا ٹوٹ گۓ
میں جھنجلا کر بڑبڑاتا ہوں
ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺟﻮﮌ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺻﻮﻓﮧ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺷﺎﯾﺪ کچھ ﺩﻥ
ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻨﮕﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﭽﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﮰ
ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﮑﻞ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ
ﺍﺱ ﻣﯿﺰ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﻼ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﻣﯿﺰ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭﮞ
ﺍﺳﭙﺮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺳﺠﺎ ﮐﺮ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ
ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﺘﻨﯽ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﺁﻓﺲ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺍﺳﭙﺮ ﻓﺎﺋﻠﯿﮟ ﺑﮑﮭﯿﺮﮮ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ
ﺍﭘﻨﺎ ﭘﮩﻼ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﭙﺮ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ
یادیں یادیں یادیں
اچانک کہیں ایک چڑیا چہچہاتی ہے
ﯾﮧ ﭼﮍﯾﺎ ﺟﺴﮑﻮ ﺭﻭﺯ ﺩﺍﻧﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻟﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺎﻧﻮﺱ
ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ......

اور ایک وہ چڑیا جو پہلے کبھی کسی مکان میں چھوڑ آیا سنا ہے اسکو اسکا چڑا مل گیا
چلو اچھا ہوا یہ دل بھی نہ عجیب ہے بےوقت دھڑکتا ہے کسی کے نام پر کیا کروں پاگل جو ہے نہ .........

سوچتا ہوں
ﮐﺘﻨﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻮﮒ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻤﺤﮯ
ﺳﺐ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﻮﮞ
ﯾﮧ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﮑﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎﮰ ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ
ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﯾﮏ ﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﮑﺎﻥ ﺗﮏ
ﺟﺐ ﺗﮏ ﻧﻮﭨﺲ ﻧﮧ ﺁ ﺟﺎﮰ
" ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ "
ﺣﺴﯿﺐ ﺍﺣﻤﺪ ﺣﺴﯿﺐ

منگل، 7 جنوری، 2014

سخن گسترانہ بات !

سخن گسترانہ بات !

کیا خوب کہ گۓ چچا غالب 
مقطع میں آ پڑی ہے، سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

اجی ہمیں بھی کہاں ترک محبت مقصود ہے ہم بھی  آپ كے خرمن دانش سے خوشہ چینی کرتے ہیں اور ہمیں بھی آپ اپنے حاشیہ برداروں کی صف اول میں پائینگے لیکن کیا کیجئے 

صادق ہوں اپنے قول میں، غالبؔ! خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ، جھوٹ کی عادت نہیں مجھے​

امید تو ہے کہ ہماری سخن گستری کو بھی برداشت کیا جاوے گو ہماری کیا وقعت لیکن کسی کے اعجاز نے ہم جیسے عجمیوں کو بھی عرب کر دیا امید تو یہ بھی ہے کہ ہمیں غلط نہ سمجھا جاوے گا حقیقت تو یہ ہے کہ 


استادِ شہ سے، ہو مجھے پر خاش کا خیال
یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت، نہیں مجھے


آج سے سات یا آٹھ سال پہلے ایک محفل میں استاد محترم سے ملاقات ہوئی سفید داڑھی سفید بال کسی نے کہا یہ اعجاز رحمانی ہیں ہم نے چونک کر محترم طاہر عبّاس اور سید فیاض علی صاحب کو دیکھا اور بول پڑے اجی ہم تو انھیں جوان سمجھتے تھے " لہو کا آبشار " (کشمیر پر استاد کی نظموں کی کتاب ) پر تو تصویر میں جوان رعنا موجود ہیں استاد مسکراۓ کسی نے کہاں حضرت یہ نوجوان بھی شاعری کا شوقین ہے استاد نے کہا کچھ سنائیں غزل سنائی استاد نے سنی اور یہاں سے ہم  حلقہ اعجاز رحمانی میں شامل ہو گۓ تو ہمیں بھی استاد کے بے قاعدہ شاگردوں میں شامل ہونے کا شرف ہے اور بے قاعدوں میں عصبیت ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے سو ہم میں بھی ہے ورنہ 
کیا کم ہے یہ شرف کہ، ظفرؔ کا غلام ہوں؟
مانا کہ، جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے


ہم نے ہمیشہ سینیرز کا احترام سیکھا ہے ہم تو اس مسلک و عقیدے کے ہیں کے 

ہے بزرگوں کا شرف میرا وظیفہ مرا ورد
با ادب ہوں کہ مودب کا ہوں ادنیٰ شاگرد،  ( 1938ء، مرثیۂ شہید لکھنوی، )

محترمی و مکرمی حضرت خالد عرفان صاحب اس دور کے صف اول کے مزاحیہ شاعر ہیں خوب کہتے ہیں اور ہمیشہ خوب خوب داد پاتے ہیں ہم بھی آپ کے عشاق میں سے ہیں آپ کو دیکھ کر پڑھا اور پڑھتے ہوے دیکھا ہے فیس بک کی اس دنیا میں بھی آپ کے پیروکار ہیں اور آئندہ بھی رہینگے حضرت کی ایک ہزل نگاہ سے گزری وہی روانی وہی تمکنت اشعار کی فراوانی اور الفاظ کے موتیوں میں جڑے ہوے طنز کے نشتر واہ واہ واللہ کیا کہنے سبحان الله .....

لیکن عجیب ناگوار حیرت کا سامنا جب ہوا جب مقطع سے پہلے ہی سخن گسترانہ بات آن موجود ہوئی شاید موصوف جذب کے عالم میں تھے لیکن ہم اتنے بھی وجد میں نہ تھے کہ گریبان چاک  ہونے کا احساس ہی نہ ہوتا ملاحظہ کیجئے 

جو معیاری غزل تخلیق کرنا     چاہتے ہو 
کراچی میں رہو اعجاز رحمانی سے بچنا  

تمہیں اے خالد عرفان !  میرا مشوره ہے
غزل کہنا مگر ہر جا غزل خوانی سے بچنا 

استاد قمر جلالوی کے زندہ و جاوید شاگرد کی غزل کا کیا کہنا ایک بار ناچیز کی زبان سے نکل گیا اجی جو استاد محترم اعجاز رحمانی  کا جھوٹا بھی پی لے وہ بھی شاعر بن جاتا ہے استاد کو کچھ بھی کہ  لیجئے کیا فرق پڑتا ہے کہ خود استاد نے کہا ہے 

سنگ تعصب سنگ ملامت سنگ حقارت سنگ حسد  
کیسے کیسے   پتھر میرے شیش محل تک آۓ  ہیں 

لیکن جناب کیا کیجئے 

روئے سخن کسی کی طرف ہو، تو رو سیاہ
سودا نہیں، جنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے

ویسے حضرت کو معلوم ہوگا چاہے امریکہ ہو یا پاکستان چاند کی بلندی اتنی ہی رہتی ہے حضرت کی استاد سے متعلق ہزلیات کو پڑھ جواب آں ہزل ہو گئی گو ہم ہزلیات میں اتنے ماہر نہیں ہیں ابھی طفل مکتب ہی تو ہیں 

جواب آں ہزل !

غزل کے شہر کے سلطاں کی سلطانی سے بچنا !؟
کہاں    ممکن    ترا     اعجاز   رحمانی سے بچنا 

سخن     فہمو   تمہیں   یہ مشوره ہم دے رہے ہیں 
خدا    کے   واسطے   خالد  کی عرفانی سے بچنا

ہمیشہ   یاد       رکھ     کے    قصہ   ابلیس و آدم
سنبھلنا   ٹھہرنا     رک جانا   شیطانی   سے بچنا

یہ    بہتر    ہے   کہ    قصہ   مختصر ہو    گفتگو ہو 
چپڑ چوں چٹ چپٹ جھکجھک سے طولانی سے بچنا

رہے     ملحوظ     خاطر     سینیر کا   مرتبہ     بھی
وگرنہ     جونیر    کی     تم    سخن   دانی  سے بچنا 

پھسل کر گر پڑے انڈوں پے نازک تھے  بہت وہ 
میرے   "پیروں" کا   مشکل  ہو گیا پانی سے بچنا 

کسے سمجھاؤں کس کے پیر پکڑوں ہاتھ جوڑوں 
بڑا    مشکل    ہے    نادانوں  کا  نادانی  سے بچنا 

سخن گستر سخن پرور حسیب روسیاہ اختر
پڑے گا اب تمہیں جذبوں کی طغیانی سے بچنا 

لیکن ہمارا مقصود تنقیص نہیں کہ ہم تو حضرت کی تقدیس کے قائل ہیں اور ہمارا دین تو صلح کل ہے 


آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلحِ کل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

حسیب احمد حسیب 

ہفتہ، 4 جنوری، 2014

مناجات !

مناجات !

پورے میں کروں مدحت آقا کے تقاضے 
ہر  شاخ   تخیل  پے  میری نور اگا دے

آقا کی شریعت پے میں عامل رہوں تا دم 
یا رب  مجھے آداب غلامی کے سکھا دے 

ہو جاۓ میری خاک مدینے  میں  پریشاں
رخصت کے ہر اک گام پے دیوار اٹھا دے 

اک  روز  چلا  جاؤں  اچانک  میں مدینے
مولا مجھے اس خواب کی تعبیر دکھا دے

ہے لطف کے ہم زیست کے پیاسوں کومےءعشق
ہاتھوں  سے   اگر    ساقی کوثر کے   پلا دے

آقا  کی  شریعت  کے  ہوں  انوار  یہاں   پر
مالک  میری  بستی  میں وہ  ماحول بنا دے

حسیب احمد حسیب