بدھ، 29 مئی، 2013

ایک دہریے کی داستان

  "ایک دہریے کی داستان"  

دہریت ایک نظریہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفسیاتی کیفیت بھی ہے 
ایک ملحد نرگسیت کا شکار ہوتا ہے ماہرین  نفسیات کے نزدیک نرگسیت ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان خود سے محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بعض اوقات نرگسیت عجیب تماشے دکھاتی ہے .........
 امریکہ میں تو ایک خاتون نے حد ہی کر دی ،بتایا گیا ہے کہ 36سالہ ندینہ شیوگرٹ کو خود سے ا تنی محبت تھی کہ اس نے خود سے ہی شادی کر لی،اس سلسلے میں شادی کی باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی جس میں ندینہ نے نیلے رنگ کا لباس پہنا اور ہاتھوں میں روایتی گلدستہ بھی اٹھایا تاہم اس شادی میں کوئی دولہا موجود نہیں تھااور 45 کے قریب مہمانوں کے سامنے کھڑے ہو کر ندینہ نے کہا کہ برسوں کسی موزوں انسان کے انتظارکے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ تنہائی میں اور اپنے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے ، اسے خود سے محبت ہے اور وہ خود سے شادی کر رہی ہے ، ندینہ نے اپنے آپ کو خود ہی 
انگوٹھی پہنائی اور شادی کے بعد اکیلے ہی ہنی مون پر بھی روانہ ہو گئی۔
انکار حقائق بھی ایک دہریے  کے بنیادی عوارض میں سے ہے  عموم چونکہ مذہب پرست ہوتے ہیں اسلئے ایک دہریہ اپنے مسائل و مصائب سے متاثر ہوکر لامذہبیت میں پناہ ڈھونڈتا ہے .......
گو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ مسائل و مصائب میں ایک مذہب پرست مذہب کی پناہ ڈھونڈتا ہے ..............
بے شک ایسا ہی ہے لیکن مذہب رد عمل کی نفسیات سے محفوظ رکھتا ہے ایک خالق پر یقین اسکو ایک روحانی طاقت عطا کرتا ہے جو اسے منفی سرگرمی سے محفوظ رکھتی ہے 
ایک لادین تمام مسائل کی جڑ مذہب کو قرار دیکر اپنا پیچھا چھڑا لیتا ہے اور آسانی سے منفی رد عمل کی جانب پلٹتا ہے کیونکہ وہ کسی بھی طرح کی اخلاقی اقدار کا پابند نہیں ہوتا 
دہریت کا یہ سفر شروع کیسے ہوتا اگر اسکو ابتدا سے دیکھا جاۓ تو داستان کچھ اسطرح بنتی ہے ...
وسواسی اجباری اضطراب (Obsessive-compulsive disorder) سے مراد علم نفسیات میں ایسے خلل الدماغ یا مرضِ نفسی کی ہوتی ہے جس میں خصوصیاتِ وسواس (obsession) و اجبار (compulsion) دونوں پائی جاتی ہوں۔ اصل میں ہوتا یوں ہے کہ یہ مرض فی الحقیقت دماغ میں موجود فطرتی افعال کے میانہ روی سے تجاوز کر جانے کے باعث واقع ہوتا ہے؛ انسانی فطرت کے مطابق جب اسے کسی بات پر شک و شبہ محسوس ہو تو وہ اس کی یقین دہانی کے ليے اس کو ایک بار لوٹ کر اپنی تسلی کرتا ہے کہ کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی؟ مثال کے طور پر رات سوتے وقت اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس نے دورازہ اندر سے مقفل نہیں کیا تو وہ بستر پر لیٹنے سے قبل ایک بار جاکر دروازہ دیکھ کر اسکے بند ہونے کا یقین کرتا ہے؛ یہ ایک فطری عمل ہے۔ لیکن اگر یہی شک و شبہ کی کیفیت حد سے تجاوز کر جاۓ اور ایک بار دیکھ کر واپس بستر تک آنے کے بعد وہ شخص دوبارہ مشکوک ہو جاۓ کہ ؛ آیا دروازہ واقعی بند تھا یا اندھیرے کی وجہ سے وہ درست دیکھ نہیں پایا؟ اور پھر دوبارہ دروازہ بند ہونے کی تصدیق کرنے جاۓ ، واپس آۓ اور پھر شبے میں مبتلا ہو جاۓ کہ؛ آیا دروازہ میں کنڈی درست بند ہوئی تھی یا ڈھیلی رہ گئی؟ اور پھر دوبارہ تصدیق کرنے کو جاۓ تو اس قسم کے بیجا اور حد سے بڑھے ہوئے شک و شبہ کو وسوسہ (obsession) کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس وسواس یا وسوسے کی وجہ سے وہ شخص بار بار اسی کام کی تکرار پر نفسیاتی طور پر مجبور ہو جاتا ہے ، حتیٰ کہ اگر وہ خود بھی اس بار بار دہرانے کے عمل سے پریشان ہو جاۓ مگر اسکے باوجود وہ اس تکرار پر خود کو مجبور پاتا ہے اور وسوسے کی وجہ سے پیدا ہونے والی اسی مجبوری کی کیفیت کی وجہ سے اسے اجباری (compulsive) کہا جاتا ہے یعنی وسوسہ اور پھر اس وسوسے سے ہونے والی مجبوری (جبر ، اجبار) کے باھم پائے جانے کی وجہ سے ان اضطرابات کو وسواسی اجباری اضطرابات کہا جاتا ہے۔

ایسی ہی مثال ایک ملحد کی ہے وہ اپنے معاشرتی مسائل کا جب اعلی مذہبی اقدار سے موازنہ کرتا ہے تو تشکیک کا شکار ہوتا ہے یہ ایک ابتدائی بیج ہے آہستہ آہستہ یہ بیج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو اندر ہی اندر جڑ پکڑتا ہے اور اس کا انجام کلی انکار یا انحراف ہوتا ہے 
اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کردیۓ جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہو...

سی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے.

Cogito ergo sum  (I think therefore i am )

“میں سوچتا ہوں” اس لئے میں ہوں”. گویا اس کےنزدیک وجود کا انحصار ذہن پر ہے. 

اب ذرا ایک داستان سنیے...

یہ ایک موروثی مسلمان ہیں (مسیحی ،سکھ یا ہندو بھی ہو سکتے ہیں ) لیکن دینی تعلیمات سے نابلد کمزور یقین کا شکار ہیں انکے نزدیک حقائق صرف وہ ہیں جو ان کی عقل شریف میں سما جائیں .........
ابتدا مجھول قسم کے سوالات سے ہوتی ہے بنیادی دینی تعلیمات سے ناواقف ہونے کے باوجود یہ خود کو ایک عظیم عالم سمجھتے ہیں بلکہ واحد عظیم عالم گو رہتے یہ طالب علم کے بھیس میں ہیں ......
کسی کی ذہنی اور فکری تشنگی دور کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہاں یہ سوالات اٹھائینگے اور بیشمار اٹھائینگے لیکن ان تمام سوالات کے جوابات صرف وہی ہونگے جو انکو قبول ہوں .......
یہ سائل کے بھیس میں چھپے ممتحن  ہیں جو آپ کا امتحان لے رہے ہیں اور نتیجہ صرف اور صرف آپ کی ناکامی ہے ...
ابتدا میں یہ ایک چھوٹی بیماری ہوتی ہے یہ مذہب کی تعلیمات میں اہل علم اور اکابرین کی چھوڑ کر حریت فکر کا نعرہ بلند کرینگے پچھلے آثار و قرائن اور اور نظائر سے بالاتر ہوکر مذہب کے بنیادی ماخذ سے لینے کے دعویدار ہونگے ......
سلف کی تحقیق کو پرِ کاہ کی اہمیت نہیں بلکہ سلف انکی عدالت میں سر جھکانے کھڑے ہیں اور یہ فیصلے پر فیصلے سنا رہے ہیں .......

لیکن یہ صرف ابتدا ہے ......
اب انکو بنیادی ماخذات پر ہی اشکال ہوگا اعترضات اٹھاۓ جائینگے کہیں مذہبی قانون (فقہ ) پر سوال اٹھے گا اور پھر براہ راست شارح(حدیث ) پر انگلیاں اٹھ جائینگی .........
گو ابھی تقدس باقی ہے اسلئے براہ راست پیغمبر پر انگلی نہیں اٹھائی گئی مگر کتنی دیر پہلے تعلیمات پیغمبر کے واسطوں کو غلط قرار دیا جاۓ گا تاکہ (کتاب ) سے من مانی تعبیرات نکالی جا سکیں اور اپنی ضرورت اور نفسانی خواہشات کو دین کا نام دیا جا سکے .......
لیکن کتنی ہی تاویل کیوں نہ کرلی جاۓ انکی جدید و عجیب تعبیرات مقبول نہیں انکو ہر جگہ ذلت کا سامنے ہے انکی ہر جگہ سبکی ہوتی ہے .......
یہاں سے رد عمل کی نفسیات کا آغاز ہوگا (کتاب ) کی صحت پر شک ہوگا صاحب کتاب کی شخصیت پر الزامات لگیںگے............لیجئے ایک پکا پکایا ملحد تیار ہے ..........
اب سوال انکار خدا کا ہے ابتدا خدا کو ایک ذہنی اور معاشرتی ضرورت قرار دینے سے ہوگی ان کے نزدیک خدا ایک تصوراتی شے ہے جسکو انسان نے اپنی مطلب براری کے لیے تخلیق کیا ہے ......
یعنی خالق مخلوق اور مخلوق خالق ......

اصل میں یہ ایک عظیم دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں .....
دھوکہ کیا ہے ...............
ایک شخص اعلان کر دے میں نے سورج کو مغرب سے نکلتے دیکھا ہے ........
کائناتی اصولوں کے خلاف ہے کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا .......
یہ کائناتی اصول کہاں سے معلوم ہوے........
مسلسل و مستقل مشاہدہ سے ...........
یہ ایک ایسا مشاہدہ ہے جو تمام انسان صدیوں سے کرتے چلے آے ہیں اسلئے سورج کو مشرق سے نکلتے دیکھ لینا ہی ثبوت ہے ............

ایک شخص کھڑے ہو کر اعلان کرے امریکہ نامی کوئی مملکت موجود نہیں ..........
یہ پہلے سے کم تر درجے کی حقیقت ہے لیکن یہ بھی قابل تسلیم ہے ......
کیوں کہ بہت سے لوگوں نے امریکہ کو دیکھا ہے اسکے بارے میں پڑھا ہے اسکے متعلق سنا ہے ......
اب بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے امریکہ کو کبھی نہیں دیکھا وہ بھی اس کے ہونے کا یقین رکھتے ہیں گو انھیں مشاہدہ حاصل نہیں ہوا ........

ایک شخص کھڑے ہوکر اعلان کرے ڈائناسور کوئی چیز نہیں .........
اس عظیم الجثہ جاندار کو کسی نے نہیں دیکھا ........
ایک بڑی تعداد اس سے لاعلم ہے ......
ثبوت چند بکھرے ہوے سائنسی حقائق اور بس چند حاصل شدہ فوسلز اور کیا .........
لیکن دنیا اس کو ایسا ہی تسلیم کرتی ہے جیسے سامنے ٹیبل پر رکھی ہوئی کتاب ...........

اب ایک تجزیہ کیجئے ...........
تاریخ انسانی کے ابتدائی دور سے موجودہ دور تک ایک گروہ کثیر .........
فلسفی ،سائنسدان ،نفسیات دان ،مورخ ، ادیب ،شاعر ،لیڈر .......
یعنی عقل و احساس کے مختلف زاویوں سے دیکھنے والے احباب ..........

ایک بادشاہ سے لیکر ایک بھنگی تک ........
رنگ نسل قومیت اور علاقائیت ......
ادوار سے ماورا .........
ایک جدید ترین شہر میں بیٹھا ا علی دماغ شخص .....
یا کسی گھنے جنگل میں پتے باندھے کوئی وحشی .....

یہ سب کیوں ایک اندیکھے خدا کو مانتے ہیں ..........
کیا یہ انسانی فطرت نہیں ........

ایک اصول سمجھ لیں لادین فطرت کے مقابل ہیں اسی لیے ......
ناکام ہیں .........
آپ کے لاۓ ہوے نظام آپکا فلسفہ آپکی فکر ........
انسانیت نے آپ کو قبول کرنے سے انکار دیا ہے ......
اور آپ کا یہ رد ........
ہر دور میں ہر وقت ہر جگہ ہوا ہے .....

کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ آپ لوگ اپنی شکست تسلیم کر لیں .....

حق تو یہ ہے انسانیت نے آپ کو مردود کر کے .......
ایک ان دیکھے خدا کو چن لیا ہے .....!
یہ تصور خدا پر سوالات اٹھاتے اشکالات پیدہ کرتے ہیں اور جب انکے بچگانہ سوالات کا جواب علمی انداز میں دیا جاۓ تو اپنی کم عقلی پر بغلیں بجاتے ہیں ....
 اگر تصور خدا کی بات کی جانے اور موضوع تحقیق خدا کی ذات ہو چاہے راستہ کوئی بھی ہو فلسفہ ،سائنس،مذہب یہ پھر وہ فطری احساس جو کسی جنگل بیابان کسی صحرا یہ پھر کسی دور دراز جزیرے میں بیٹھا کوئی تہذیب نا شناس شخص جو اپنی فطری ضرورت سے مجبور ہوکر کسی خدا کا اسیر ہو ،
آخر ہمیں کسی خدا کے ہونے کی حاجت ہی کیوں ہے آخر کیوں نوع انسانی جو کبھی پہاڑوں میں آباد تھی یہ وہ جدید ترین انسان جسنے چاند پر جھنڈا لہرایا تھا کسی خدا کے اسیر ہیں خدا کے ہونے کا یہ احساس کیوں صدیوں کا سفر طے کرتے ہوے آج بھی غالب ترین اکثریت کو اپنے جال میں پھانسے ہوے ہے ،
قوموں قبیلوں جغرافیائی حدود کو پھلانگتا ہوا ادوار کی قید سے آزاد یہ تصور کہ کوئی خدا ہے کیا اک مغالطہ ہی ہے ؟
آخر بے خدا گروہ ہمیشہ انتہائی قلیل ہی کیوں رہا ہے اور انکے ہاں بھی سب سے بڑا تذکرہ خدا ہی رہا ہے
یعنی نا چاہتے ہوے بھی تردید کی راہ سے تذکرہ تو اسی کا ہے 

یہ سوال اک طویل عرصے تک پیش نظر رہا کہ اسکی کیا وجہ ہے نوع انسانی بحثیت مجموعی خدا کے تصور کی قائل رہی ہے ، پھر جب انسانی نفسیات اور اسکے سوچنے کے فطری انداز سے واقفیت ہوئی تو یہ بات آشکار ہوئی کہ انسان عافیت پسند ہے آسانی کی طرف بھاگتا ہے کائنات کے عظیم الشان حقائق اسے اگر آسان اور سادہ انداز میں سمجھا دئیے جائیں تو اسکا دماغ انھیں آسانی سے جذب کر لیتا ہے ،

انسان چیزوں کو انکے تضادات سے پہچانتا ہے سچ کی پہچان جھوٹ کے ہونے سے ہوتی ہے طاقت کمزوری کی وجہ سے جانی جاتی ہے اونچائی کا احساس پستی کی وجہ سے ہوتا ہے حق باطل کے ہونے سے معتبر ہے مثبت منفی سے برآمد ہوتا ہے تیزی کا تعارف آہستگی کی وجہ سے ہوتا ہے مذکر مونث کے ملاپ سے وجود میں آتا ہے خشکی تری کی وجہ سے منفرد ہوتی ہے غرض تضادات اک دوسرے کی پہچان کا موجب ہیں موت کے بغیر حیات کی اہمیت سے واقف ہونا ممکن نہیں !
یہاں اصحاب عقل کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ عدل کیا ہے جو ان دو متناقص کے درمیان واقع ہوا ہے تو جواب میں ہم کہینگے عدل ضد ہے بے اعتدالی کی اضداد اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہیں ،
کسی بھی انسان کے شعور کی دنیا میں قدم رکھتے ہی اسکو سب سے پہلی واقفیت اضداد سے ہی ہوتی ہے یہ اک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر سوچنے والی مخلوق واقف اور ہر شعور رکھنے والا اسکا قائل ہے ،
انسان اپنی اسی فطری صلاحیت کے تحت کسی خالق کو تسلیم کرتا ہے اگر مخلوق موجود ہے اپنی تمام تر حدود و قیود اور کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ تو پھر لازم ہے اسکی مکمّل ضد خالق کا ہونا اپنی تمام خوبیوں لامحدودیت اپنی پوری قوت اور شان کے ساتھ 

مذاہب کو ماننے والی کثیر خلقت خالق و مخلوق کے سادہ ترین تعلق سے واقف ہے ہم کہ سکتے ہیں کہ علما مذاہب کے مابین خالق کی بابت بہت سے اختلافات موجود ہیں لیکن اک عام مذہبی آدمی سادہ ترین شکل میں جانتا ہے کہ اک ایسی عظیم الشان قوت جو اسکی احتیاجات کو پورا کرتی ہے دور و قریب سے اسکی التجاؤں کو سنتی ہے وہ پر یقین ہے اک ایسے وجود کے ہونے کا جو اس کا آخری سہارا ہو سکتا ہے ،
اور یہ فلسفہ اسے کسی مکتب میں نہیں پڑھایا گیا بلکہ وہ خالق کے ہونے کو ایسے ہی جانتا ہے جیسے اپنے ہونے سے واقف ہے ،
علما مذاہب خالق کے ہونے کی مختالب تعبیرات پیش کرتے ہیں اور یہیں سے مذہبی مباحیث کا آغاز ہوتا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان تعبیرات میں سے اک صحیح ترین تعبیر بھی ہوگی جو حق سے قریب تر بھی ہوگی لیکن وہ اسوقت موضوع بحث نہیں حاصل گفتگو یہ ہے کہ خدا شناس لوگ اک اصل پر متفق ہیں اور وہ ہے کسی خالق کا ہونا اور اسکا سادہ ترین ضابطے میں مخلوق سے متعلق ہونا !


اک جانا پہچانا اصول یہ ہے کہ خالق کو اسکی تخلیق سے پہچانا جانے آج جدید سائنس ترقی کرکے اس مقام تک آپوھنچی ہے کہ آپکے دستخط سے آپکی شخصیت کی پرتوں کو کھولا جا سکتا ہے ،
اگر کسی کو شاعری درک حاصل ہو تو اسکے سامنے اقبال کا کوئی شعر غالب کے نام سے نقل کردیجئے فورن پہچان لیا جانے گا شاعر کے الفاظ ہونگے "میاں یہ غالب کا رنگ نہیں " کسی شاعر کا مخصوص رنگ کسی مصنف کا مخصوص طرز تحریر یہ کسی مصور کی تخلیق کا منفرد انداز ،
گھریلو خواتین کا ہی مشاہدہ کیجئے مختلف خواتین کے ہاتھ کے کھانوں کا ذائقہ الگ ہوتا انہی اجزاء سے بنی چاۓ الگ مزہ کیوں دیتی ہے روٹی کا نقشہ پکانے والے کی پہچان کیوں کروا دیتا ہے !
ذات خدا وندہ منبع ہے تمام جذبات احساسات اور ان تمام صفات کی جو مخلوقات کو بہت ادنا درجے میں عطا ہوئی ہیں اور خاص طور پر انسان جسے "خلیفہ " قرار دیا جاتا ہے جسکے بارے میں الہامی کتب میں ملتا ہے اسے خدا نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا ہے بلاشبہ غضب ،محبت ،دوستی ،دشمنی یہ سارے جذبات اور سب سے بڑھ کر صفات تخلیق خدا کی صفات کا پرتو ہیں لیکن کہاں وہ ذات جہاں سے تمام صفات کی ابتداء ہوتی ہے اور کہاں وہ مخلوق جسکو عارضی طور پر کچھ صلاحیتوں سے مزین کیا گیا ہو !
پس معلوم ہوا کہ انسان کی خواہش بادشاہت کی ہمیشہ زندہ رہنے کی آرزو زمان و مکان کی قید سے چھٹکارا حاصل کرنے کی لاحاصل کوششیں اور سب کچھ جان لینے کی خلش !
کوئی کیسے کہ سکتا ہے کہ انسان اپنی صفات کی روشنی میں خدا تخلیق کرتا ہے ہاں قیاس کے تمام زاویے اس حقیقت تک رہنمائی کرتے ہیں کہ خدا کی صفات کا ادنی سا پرتو انسان پر پڑا ہے !


ہم کون ہیں 
کہاں سے آے
کسلئیے آے 
ہماری ابتدا کیا ہے 
اور انتہا کیا ہے 
ان تمام سوالات کا جواب داستان دہریت میں کہیں نہیں ملتا ..........
اسکی ابتدا شک ہے 
اسکی انتہا ریب ہے 

اور یہ انجام ہے ایسے شخص کا جو لاریب کا منکر ہے
یہ سوالات اٹھاتا ہے جواب کوئی نہیں 
یہ مسائل کھڑے کرتا ہے حل کوئی نہیں 
یہ ایک ایسی مادی مشین ہے جو حواس خمسہ میں مقید ہو کر کائناتی حقائق کو کھولنے کا دعوے دار ہے ..

ہم کہ سکتے ہیں کہ دہریت کوئی علمی یا فکری چیز نہیں بلکہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے 
اور یہ لوگ فتوی کے نہیں علاج کے مستحق ہیں .......

حسیب احمد حسیب  



!کیا آئین کے اسلامی ہونے سے ریاست مسلمان ہو جاتی ہے!

  • کیا آئین کے اسلامی ہونے سے ریاست مسلمان ہو جاتی ہے !

  • اگر آئین کے مسلے کو آسان مثال سے سمجھیں تو معاملہ کچھ یوں بنتا ہے ....
    جب ہم شخص واحد کی بات کرتے ہیں تو اسکے لیے آئین کلمہ طیبہ ہے  لَا اِلَہَ اِلّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰہِ "اللّٰہ کو سوا کوئی عبادت کو لائق نہیں، محمد ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اللّٰہ کے رسول ہیں" ہے اب الله کی حاکمیت اور الله کے رسول  صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا قانون تسلیم کر لینے کے بعد اسپر کچھ عبادات لازم ہو جاتی ہیں 
     جیسا کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم  کی روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی  ہے۔
    "بنی الإسلام علی خمس؛ شھادۃ أن لا إلہ إلا اللہ و أن محمدا رسول اللہ، و إقام الصلاۃ و إیتاء الزکاۃ وصوم رمضان وحج البیت"
     اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر  رکھی  گئی ہے:
    ۱۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ  کوئی سچا معبود  نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول  ہیں۔
    ۲۔  نماز قائم   کرنا ۔
    ۳۔ زکاۃ ادا کرنا۔
    ۴۔ ماہ رمضان کا روزہ رکھنا   ۔
    ۵۔ خانۂ کعبہ  کا حج کرنا ۔

    اب یہ شخص ان تمام عبادات کو ترک کر دے بلکہ انپر زور آور ہو جاۓ اور کھلے عام انکی مخالفت کرے تو اسکو طغیان کہیںگے اور یہ باغیانہ عمل اسکے اسلام کو فاسد کر دے گا !

    ایسا ہی معاملہ ریاستوں کا ہے کسی ریاست میں حاکمیت اعلی الله کی اور قانون قرآن و سنت کا ہے لیکن عمل اسکے بر عکس ہے تو کیا حکم لگے گا .......
    اب مسلے کی اور وضاحت کرتے ہیں "جب اشخاص کلمہ پڑھتے ہیں تو انپر عبادات لازم ہو جاتی ہیں اور جب ریاستیں کلمہ پڑھتی ہیں تو انپر حدود لازم ہو جاتی ہیں "
    ڈاکٹر عبدالعزیز عامر نے اپنی تالیف ”التعزیر فی الشریعة الاسلامیہ “میں صرف سات جرائم کو قابل حد قرار دیا ہے ۔ (التعزیرفی الشریعة الاسلامیة۔ ص 13)لیکن جن جرائم کے حدود ہونے پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے وہ سب قرآن پاک سے ثابت ہیں۔
    .1زنا کی حد کا ثبوت سورة النور کی آيت نمبر2میں ہے۔
    .2 تہمت کی حدکا ثبوت سورة النور کی آیت نمبر 4میں ہے۔
    . 3 راہزنی کی حدسورة المائدة کی آیت نمبر 34-33 میں ہے۔
    .4 چوری کی حدسورة المائدة کی آیت نمبر 38 میں ہے۔
    .5 شراب نوشی کی حد سورة المائدة کی آیت نمبر 90 میں ہے۔
    .6 باغی کی حد سورة الحجرات کی آیت نمبر 9 میں ہے۔
    .7مرتد کی حد سورة البقرة کی آیت نمبر 217 میں ہے۔

    حضرت شاہ ولی اللہ  لکھتے ہیں” بعض معاصی کے ارتکاب پر شریعت نے حد مقرر کی ہیں۔ یہ وہی معاصی ہیں جن کے ارتکاب سے زمین پر فساد پھیلتاہے۔ نظامِ  تمدن میں خلل پیدا ہوتا ہے اور مسلم معاشرے کی طمانیت اور سکون ِقلب رخصت ہو جاتاہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ معاصی کچھ اس قسم کی ہوتی ہیں کہ دو چار بار ان کا ارتکاب کرنے سے ان کی لت پڑ جاتی ہے۔ ا ور پھر ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی معاصی میں محض آخرت کے عذاب کا خوف دلانا اور نصیحت کرنا کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ ضروری ہے کہ ایسی عبرتناک سزامقر ر کی جائے کہ اس کا مرتکب ساری زندگی کے ليے معاشرے میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور سوسائٹی کے دیگر افراد کے لیے سامانِ عبرت بنا رہے۔ اور اسکے انجام کو دیکھ کر بہت کم لوگ اس قسم کے جرم کی جرا ت کریں“ ۔
        (حجة اللہ البالغہ ، شاہ ولی اللہ دہلوی۔ ج 2 ص 158 )

    اب ایک ایسا معاشرہ جہاں حدود الله کا نفاذ تو دور کو بات انکی باقاعدہ پامالی ہو رہی ہو اور انکے خلاف قوانین نافذ ہوں جنکو ریاست کی مکمل سپورٹ حاصل ہو تو لاکھ اسلامی آئین کی بات کیجئے ریاست کے کافر ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا !

    اب ریاست پاکستان کو دیکھیں یہاں باقاعدہ سودی نظام رائج ہے فحاشی کے ادارے فلم انڈسٹری کی شکل میں موجود ہیں شرک و بدعات کو باقاعدہ ریاستی سپرستی حاصل ہے حدود ساقط ہیں کفر کی چاکری ہو رہی ہے اور لوگوں کی جانیں اور اموال محفوظ نہیں ان تمام حالات میں آئین کی چند شقیں کیا کسی ریاست کو اسلامی قرار دینے کے لیے کافی ہو سکتی ہیں "

    بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی کے:

    "اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چناںچہ ماوردی نے یہ بات لکھی ہے کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔
    (محاضراتِ شریعت :ص287)"

    اپنے سلسلہ مضامین ’’اسلامی ریاست‘‘ میں اسلام کی سیاسی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب سید ابوالا علیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:

    ’’ (حاکمیت الہٰ کے ) اصل الاصول کی بنا پر قانون سازی کا حق انسان سے سلب کرلیا گیا ہے۔ کیونکہ انسان مخلوق اور رعیت ہے۔ بندہ اور محکوم ہے، اور اس کا کام صرف اس قانون کی پیروی کرنا جو مالک الملک نے بنایا ہو۔ البتہ قانونِ الہٰی کی حدود کے اندر استنباط واجتہاد سے تفصیلات فقہی مرتب کرنے کا معاملہ دوسرا ہے۔ جس کی اجازت ہے۔ نیز جن امور میں اللہ اور اس کے رسول نے کوئی صریح حکم نہ دیا ہو، ان میں روح شریعت اور مزاجِ اسلام کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون بنانے کا حق اہلِ ایمان کو حاصل ہے۔ کیونکہ ایسے امور میں کسی صریح حکم کا نہ ہونا بجائے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ ان کے متعلق ضوابط واحکام مقرر کرنے کا حق اہلِ ایمان کو دے دیا گیا ہے۔ لیکن جو بنیادی بات سامنے رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے قانون کو چھوڑ کر جو شخص یا ادارہ خود کوئی قانون بناتا ہے یا کسی دوسرے کے بنائے ہوئے قانون کو (برحق) تسلیم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ طاغوت وباغی اور خارج ازاطاعتِ حق ہے اور اس سے فیصلہ چاہنے والا اور اس کے فیصلہ پر عمل کرنے والا بھی بغاوت کا مجرم ہے۔"

    جب تک دین کسی کے بدن میں اتر کر اسکے اعمال کو اپنے مطابق نہیں بنا لیتا "اسلامی " کا لاحقہ اسکے نام کے ساتھ لگا دینا  اسکو کوئی نفع نہیں پھنچا سکتا  !

اسلام کا دائرہ

اسلام کا دائرہ !


ایک صاحب نے انشاء کی کتاب سے مولوی پر پھبتی کسی ،


دائرے کی تعریف یوں تو دائروں کی بہت سی قسمیں ہوا کرتی ہیں لیکن ہمیں ایک ہی قسم کا دائرہ مہیا ہے جسے " دائرہ اسلام " کہا جاتا ہے کہ جوں جوں ملاؤں کا پیٹ پھیلتا تو اس دائرے کا حدود اربعہ سکڑتا جاتا ہے . سنا ہے کہ پہلے کبھی اس دائرے میں اندراج بھی ہوا کرتا تھا مگر آجکل داخلہ سختی سے منح ہے صرف اخراج ہی اخراج ہوا کرتا ہے !


اور پھر دردمندی سے گویا ہوے...


 سچائی یہ ہے کہ هم اللہ تعالیٰ کی کتاب کو ایک مانیں تب نہایسا کیوں ہوتا ہے؟جب ہم مذھب کی بات کرتے ہیں تو دیگر مذاھب کے لوگ ہمیں جہنمی نظر آتے ہیں لیکن جب بات فرقوں کی ہوں تو دیگر فرقوں کے لوگ ہمیں کافر لگتے ہیں۔ حد تو یہ کہ ایک ہی فرقے کے کسی دوسرے گروہ کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پربیٹھنا اور ایک دوسرے کی مسجد میں نماز پڑھنا ہمیں گوارا نہیں کہ اس سے ہمارے عقیدے پہ آنچ آتی ہے۔


ایک دوسرے کو جنت کا صحیح راستہ دکھانے کی دوڑ میں ہم اتنے آگے نکل آے ہیں کہ ہم نے دنیا کو ہی جہنم بنا کے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ مذھب چاہے کوی بھی ہو بنیادی طور پر پیارومحبت اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ مذھب کی بات سامنے آتے ہی پیار و محبت اور انسانیت بھول جاتے ہیں، تمام قانونی اور اخلاقی حدیں پار کرلیتے ہیں اور معاملہ زور زبردستی سے حل کرنا شروع کر دیتے ہیں


اور پھر سارا ملبہ مولوی پر ڈال کر فتویٰ صادر  کیا!


(ان جاہل مولویوں نے وہ تمام کام جو دنیا میں "حرام" ہیں وہ جنت میں "حلال" ہوں گے۔ انہی حرام کاریوں کو سرانجام دینے کیلئے مومنین جنت جانا چاہتے ہیں۔)


انکے سوالات سن کر کچھ اور سوالات پیدہ ہوتے ہیں ،،،،



سوال بہت سادہ اور آسان ہے!


 جناب مٹی ڈالیے مولویوں پر یہ بھی دور جدید کا فیشن ہے دو گالیاں مولوی کو دے دیجئے اب اپکا شمار جدت پسندوں میں کیا جا سکتا ہے مبارک ہو !


جدت پسندوں سے توقع ہوتی ہے کہ وہ معقولیت  پسند بھی ہوں اور معقولیت  متقاضی ہے کچھ معقول سوالات کے جوابات کی خاص کر ان احباب سے جنہوں نے بزعم خود مذہب سدھار کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ،


مختلف اشیا اپنے  مخصوص اوصاف سے پہچانی جاتی ہیں اور تقسیم در تقسیم کا یہ عمل کسی  زنجیری ردعمل کی طرح بڑھتا چلا جاتا ہے پھل ،پھول ،پودے ،نباتات ،جمادات ،حیوانات اور انسان اپنے اوصاف کی وجہ سے ایک دوسرے سے ممتاز ہیں ...اسی طرح ایک ہی نوع کو لیجئے پہاڑی پتھر صحرائی ڈھیلے سے مختلف ہے سمندری پانی دریائی پانی سے ممتاز کتا اور شیر دونوں گوشت خور ہیں ،سب جانور ایک جیسے نہیں سب پرندے ایک جیسے نہیں اسی طرح سب انسان بھی کوئی کالا اور کوئی گورا کوئی موٹا کوئی دبلا ،پھر انسانی نفسیات کا مشاہدہ کیجئے کوئی غصیل تو کوئی نرم مزاج کوئی مسخرگی کی حد تک خوش مزاج اور کوئی کرختگی کی حد تک سنجیدہ ،پھر ایک ہی انسان کی زندگی کے ادوار میں اسکے احساسات و کیفیات کا مختلف ہونا  بوڑھا بچہ جوان یا نوجوان ایک ہی شخص کے الگ روپ ،اور پھر رشتوں کی تقسیم وہ باپ ہے یا ماں ہے بھائی ہے یا بہن بیٹا ہے یا بیٹی دوست ہے دشمن ہے استاد ہے شاگرد ہے نوکر ہے اور غلام ہے بیک وقت بہت کچھ ہے ...


اگر ان  رنگوں کو ختم کر دیا جاۓ تو  انفرادیت کی موت ہے اور یکسانیت کا ہونا تعارف یا پہچان کی موت مختلف اضداد اپنی ضد کی پہچان کا ذریعہ ہیں ،،،،


اب ذرا یہی اصول دین ،مذہب فکر یا نظریات پر  لاگو کریں کیا تمام ادیان ایک ہی ہیں کیا بت کی پرستش کرنے والا اور ایک خدا کو ماننے والا تثلیث کا قائل یا نروان کا متلاشی ایک جیسے ہیں ....پھر ایک ہی مذہب کو لیجئے کیا اسکے کچھ اوصاف و کمالات ہیں اگر ہیں تو کیا جس میں وہ اوصاف و کمالات نہ ہونگے اسکو اس مذہب سے الگ سمجھا جا سکتا ہے ....


کیا ریشم و ٹاٹ ایک ہی ہیں اور اگر نہیں تو کیوں نہیں کیا ٹاٹ کو ریشم نہ ماننا دقیانوسیت ،فرقہ  واریت یا انتہا پسندی کہلانے گی ......


سادہ پانی اور مشروب میں فرق ہے کیا اس فرق کو فرق کہا جا سکتا ہے کیونکہ تکنیکی بنیادوں پر پانی بھی تو مشروب ہی ہے .......کیا یہی فرق ادیان و مذاہب میں نہیں اور کیا یہی فرق درون  مذاہب نہیں ہو سکتا ایک کہتا ہے الله کے رسول آخری نبی صل الله علیہ وسلم ہیں دوسرا کہتا ہے نہیں نہیں انکے بعد بھی ایک آیا ہے کیا دونوں ایک جیسے ہیں ......ایک کہتا ہے الله کے رسول کے ساتھی سارے سچے دوسرا کہتا ہے نہیں سب جھوٹے کیا دونوں برابر ہیں ......ایک کہتا ہے تمام طاقتیں الله کی وہی مددگار ہے دوسرا کہتا ہے نہیں کچھ شرکا بھی ہیں کیا دونوں سچے ....یہی وہ دائرہ ہے یا دائرے ہیں کیا یہ عقلی اور فطری ہیں یا نہیں 


سوچنے کی بات ہے .


حسیب احمد حسیب 

جدید دور کی محبوبہ


عورت کو کبھی کانچ کبھی نازک آبگینہ کبھی پھول کہا جاتا ھے کتنا اچھا ھو اگر اسے ایک نارمل جیتا جاگتا انسان سمجھا جائے احترام کیا جائے.

جدید دور کی محبوبہ جو ان تمام کمزوریوں سے پاک ہے .......

میری محبوب تیرا حسن چٹانوں جیسا 
تیری رفتار کسی تیز رو ویگن کی طرح
تیری آنکھیں ہیں کسی شیر کی آنکھوں جیسی 
تیرے رخسار کسی سخت پہاڑی جیسے 
تیری زلفیں کسی طوفان کے جیسی ہیں صنم
تیرے چتون کسی بپھرے ہوے بھینسے کی طرح
تو جو مسکاۓ تو ہنگام بپا ہو جاۓ
میری محبوب تیرے خوف سے کانپے ہے بدن
تیری قربت ہے کسی بھوت کے بچے جیسی
تیری حالت ہے کسی ریل کے ڈبے جیسی
تو جو مل جاۓ تو تقدیر زبوں ہو جاۓ
تیرے ہر چاہنے والے کو جنوں ہو جاۓ !

حسیب احمد حسیب

ایک فورم میں کچھ دہریوں کے اٹھاۓ گۓ سوالات پر ایک تجزیہ


ایک فورم میں کچھ دہریوں کے اٹھاۓ گۓ سوالات پر ایک تجزیہ ......


دھوکہ کیا ہے ...............
ایک شخص اعلان کر دے میں نے سورج کو مغرب سے نکلتے دیکھا ہے ........
کائناتی اصولوں کے خلاف ہے کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا .......
یہ کائناتی اصول کہاں سے معلوم ہوے........
مسلسل و مستقل مشاہدہ سے ...........
یہ ایک ایسا مشاہدہ ہے جو تمام انسان صدیوں سے کرتے چلے آے ہیں اسلئے سورج کو مشرق سے نکلتے دیکھ لینا ہی ثبوت ہے ............

ایک شخص کھڑے ہو کر اعلان کرے امریکہ نامی کوئی مملکت موجود نہیں ..........
یہ پہلے سے کم تر درجے کی حقیقت ہے لیکن یہ بھی قابل تسلیم ہے ......
کیوں کہ بہت سے لوگوں نے امریکہ کو دیکھا ہے اسکے بارے میں پڑھا ہے اسکے متعلق سنا ہے ......
اب بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے امریکہ کو کبھی نہیں دیکھا وہ بھی اس کے ہونے کا یقین رکھتے ہیں گو انھیں مشاہدہ حاصل نہیں ہوا ........

ایک شخص کھڑے ہوکر اعلان کرے ڈائناسور کوئی چیز نہیں .........
اس عظیم الجثہ جاندار کو کسی نے نہیں دیکھا ........
ایک بڑی تعداد اس سے لاعلم ہے ......
ثبوت چند بکھرے ہوے سائنسی حقائق اور بس چند حاصل شدہ فوسلز اور کیا .........
لیکن دنیا اس کو ایسا ہی تسلیم کرتی ہے جیسے سامنے ٹیبل پر رکھی ہوئی کتاب ...........

اب ایک تجزیہ کیجئے ...........
تاریخ انسانی کے ابتدائی دور سے موجودہ دور تک ایک گروہ کثیر .........
فلسفی ،سائنسدان ،نفسیات دان ،مورخ ، ادیب ،شاعر ،لیڈر .......
یعنی عقل و احساس کے مختلف زاویوں سے دیکھنے والے احباب ..........

ایک بادشاہ سے لیکر ایک بھنگی تک ........
رنگ نسل قومیت اور علاقائیت ......
ادوار سے ماورا .........
ایک جدید ترین شہر میں بیٹھا ا علی دماغ شخص .....
یا کسی گھنے جنگل میں پتے باندھے کوئی وحشی .....

یہ سب کیوں ایک اندیکھے خدا کو مانتے ہیں ..........
کیا یہ انسانی فطرت نہیں ........

ایک اصول سمجھ لیں لادین فطرت کے مقابل ہیں اسی لیے ......
ناکام ہیں .........
آپ کے لاۓ ہوے نظام آپکا فلسفہ آپکی فکر ........
انسانیت نے آپ کو قبول کرنے سے انکار دیا ہے ......
اور آپ کا یہ رد ........
ہر دور میں ہر وقت ہر جگہ ہوا ہے .....

کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ آپ لوگ اپنی شکست تسلیم کر لیں .....

حق تو یہ ہے انسانیت نے آپ کو مردود کر کے .......
ایک ان دیکھے خدا کو چن لیا ہے .....!